تعلیم اور ہمارا مستقبل
بد قسمتی سے پاکستان میں تعلیم کا معیار وہ نہیں ہے جو ہونا چاہیے
کسی بھی ملک میں قوم کو بہترین تعلیم دینا ہر حکومت کی اولین ذمے داری ہوتی ہے اور وہ اس کو مزید بہتر کرنے کے لیے نہ صرف پالیسیاں بناتی ہے بلکہ مختلف اقدامات بھی کرتی ہے۔ آئین پاکستان کے مطابق اور کچھ بین الاقوامی معاہدوں کے تحت حکومت پاکستان ہر پاکستانی بچے کو جس کی عمر پانچ سے سولہ سال ہے لازمی اور ابتدائی تعلیم مفت دے رہی ہے۔
1947 سے ہی ہم نے تعلیم کو اپنی بنیادی پالیسیوں کا ہدف سمجھا ہے کیونکہ تعلیم ہی صرف ہمارے ملک کی قسمت بدل سکتی ہے۔ تاہم بد قسمتی سے پاکستان میں تعلیم کا معیار وہ نہیں ہے جو ہونا چاہیے، سوال یہ ہے کہ ہم کیسے اپنے تعلیمی نظام کو بہتر کر سکتے ہیں ؟
ملک کے پسماندہ علاقوں میں بچوں کی اسکول میں حاضری ، قیام اور سیکھنے کو یقینی بنانے کے لیے ایک سنگین چیلنج کا سامنا ہے کیونکہ بچوں کو اسکول تک لانا اور وہ اپنی تعلیم مکمل کرلیں تو یہ بڑا دشوار گزار عمل ہے۔
بچوں کو نہ صرف اسکول تک لانا اور اس کے بعد ان کو کوالٹی ایجوکیشن دینا ، کیونکہ کوالٹی ایجوکیشن عالمی سطح سے متعلق سماجی اور اقتصادی اور سیاسی تبدیلی کا ایک غالب آلہ ہے ، تکنیکی اور جمہوری ترقی اس لیے ضروری ہے کہ تعلیمی معیارکو بہتر کیا جائے اور ایسا ماحول پیدا کیا جائے کہ جہاں اساتذہ والدین بلکہ سوسائٹی کا ہر شخص تعلیمی ماحول کو سازگارکرنے اور اس میں اپنا حصہ ڈالنے کی کوشش بھی کریں تو حالات اور بھی تیزی سے بہتر ہوں گے۔
پاکستان جنوبی ایشیا کے مغربی کنارے پر واقع ہے ہمارے ملک کی آبادی تقریبا 184 ملین ہے جس میں 62% لوگ گاؤں دیہات میں اور 38% لوگ شہروں میں رہتے ہیں پاکستان بتدریج ایک ترقی پذیر ملک ہے زراعت پر مبنی معیشت سے صنعت اور خدمات کے بڑھتے ہوئے حصے میں تبدیلی اور جی ڈی پی میں ملک اپنے بجٹ کا بڑا حصہ قومی سلامتی اور مفاد کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے خرچ کرتا ہے۔
اس کے قرضوں کی ادائیگی کی وجہ سے اس کے انفرا اسٹرکچر پر سرمایہ کاری کے لیے کم رقم بچ جاتی ہے۔ اقتصادی ترقی کو فروغ دینے اور سماجی شعبوں کو لوگوں کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے قابل بنانے کے لیے ترقی ، تعلیم ، صحت سماجی خدمات کے لیے سرمایہ نہیں ہوتا اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کو بہت سارے سنگین ترقیاتی مسائل کا سامنا ہے۔
پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے اور یہ اب تک کیوں ترقی یافتہ نہ بن سکا، اس کا جواب آپ سب کو اچھی طرح معلوم ہوگا کیونکہ اگر کوئی مخلص ہوتا تو ہم اس وقت کم ازکم ترقی پذیر ہوتے بہرحال اس وقت ہمارا موضوع ترقی پذیر ہونا یا نہیں ہونا نہیں ہے ہم یہاں کچھ اور کہنا چاہتے ہیں وہ یہ کہ اگر پوری دنیا کا تعلیمی نظام دیکھا جائے تو نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان کا تعلیمی نظام کوئی بہت آگے نہیں ہے اور مسلسل اس میں گراوٹ آتی جا رہی ہے۔
موثر تعلیمی پالیسیوں کا نہ ہونا اور کم تعلیمی بجٹ اور اس بجٹ کا بھی صحیح جگہوں پر نہ پہنچنا اس کی سب سے بڑی خامی ہے۔ پاکستان کا لٹریسی ریٹ 62.3 ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں 60 ملین لوگ غیر تعلیم یافتہ ہیں وہ جو اپنا نام کسی طرح لکھ لیتے ہیں یا اپنا سائن کر لیتے ہیں۔
وہ بھی اپنے آپ کو تعلیم یافتہ میں شمار کرتے ہیں یہ الگ المیہ ہے ۔حالیہ سیلاب اور بد ترین بارشوں نے بہت تباہی مچائی اور اس سے جہاں بہت ساری چیزوں کو نقصان پہنچا زندگی مفلوج ہوگئی اور لوگ کھانے اور رہنے کو ترس گئے وہیں تعلیمی نظام کو بھی بہت بڑا دھچکا پہنچا ہے حالیہ بارشوں سے تقریبا 25,993 اسکولز متاثر ہوئے ہیں سندھ ،پنجاب، بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں جب کہ ابھی تک نقصان کا تخمینہ لگایا جا رہا ہے اور یہ تعداد مزید بڑھ گئی ہوگی۔
اب تک اور 7062 اسکولز جو تباہ نہیں ہوئے وہاں اِن سیلاب زدگان کو پناہ دی گئی ہے اور اُن اسکولز کو ریلیف کیمپ میں تبدیل کر دیا گیا اس طرح یہ تعلیمی سال بھی تباہ ہوا اور پڑھائی میں استعمال ہونے والے لوازمات مثلاـ کتابیں کاپیاں بلیک بورڈ ٹیبلز کرسیاں ایجوکیشن فرنیچر سب تباہ ہوا اور تقریبا 3.5 ملین سے زیادہ بچوں کی تعلیم متاثر ہوئی ہے اگر سیلاب سے پہلے کی بات کریں تو پہلے ہی بہت کم بچے اسکولوں کا رخ کرتے ہیں۔
اس کی وجوہات پر اگلے کسی کالم میں بات کی جائے گی مگر پہلے ہی تعلیم کم تھی پھر covid 19 کی وجہ سے دو سال تعلیم متاثر ہوئی اور اب یہ ناگہانی آ فت جس نے ایک بار پھر ڈوبتی نیاّ کو ڈبو دیا۔دو سال covid میں تعلیم برائے نام رہی اور تعلیمی ادارے زیادہ تر بند رہے اب سیلاب کی وجہ سے ہم پھر اسی زبوں حالی کا شکار ہیں سیلاب زدگان میں شامل بچوں کے لیے عارضی تعلیمی کیمپ بنائے گئے ہیں مگر وہ تسلی بخش نہیں ہیں یہں بھی ناکافی سہولتیں اور ناقص نظام تعلیم نظر آ تا ہے۔
بچوں کو ساف ستھری جگہ اور بہتر تعلیمی تعلیمی ماحول کی ضرورت ہے جہاں ان کی حفاظت اور خاطر خواہ تعلیم کا انتظام ہو ہم پہلے ہی تعلیم میں بہت پیچھے ہیں تعلیمی بجٹ ناکافی ہے اور صحیح جگہ پر پہنچتا بھی نہیں اور ان سب کے ساتھ یہ سیلاب ایک کڑا امتحان ہے نہ صرف وفاقی اور صوبائی حکومتوں لیے بلکہ ان تمام تنظیموں کے لیے بھی جو تعلیم کے لیے کام کرتی ہیں ۔سیلاب زدگان بچوں کو تعلیم دینا اب سب کی ذمے داری ہے۔
ہم اس سے کس طرح منہ موڑ سکتے ہیں جب کہ ہم جانتے ہیں کہ ہما ری اگلی نسل کو تعلیم کی کتنی سخت ضرورت ہے اور اگر عارضی کیمپوں کو ہی فی الحال اس قابل بنا دیا جائے جہاں بجلی ،پانی ،ٹوائلٹ بہتر اساتذہ اور سیکیورٹی کا انتظام ہو۔یہاں یہ سب سے ضروری امر ہے کہ اساتذہ کی ہنگامی بنیادوں پر خصوصی تربیت اور ٹریننگ مہیا کی جائے اور ان کو کم وقت میں ضروری سلیبس کو ختم کروانے کی ضرورت ہے ایسے بہت سارے اساتذہ ہیں۔
جن کی تنخواہ تو آتی ہے مگر وہ اسکول میں نظر نہیں آتے، ان کی حاضری کو یقینی بنایا جائے یہ ایک طرح سے جہاد ہے مگر سب اس کو بہت ہلکا لے رہے ہیں نہ جانے کب تعلیم کی اہمیت کو ہم سب سمجھیں گے۔
بہرحال ہم امید کا دامن نہیں چھوڑتے اور اگر محنت کی جائے تو کوئی شک نہیں کہ ہم امید افزا مستقبل تعمیر کر سکتے ہیں لیکن بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے ہمیں شہری اور دیہی علاقوں میں پرائمری اور سیکنڈری سطحوں پر تعلیم پر توجہ دینی چاہیے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ ہمارے بچوں کا مستقبل محفوظ ہوگا۔
اس کے علاوہ غیر ملکی برادری کے لیے بھی یہ ایک wake up call ہے کہ اس طرح مشکل میں گھرے تیسری دنیا کے اس ملک کو بہتر تعلیم اور چیزوں کی ضرورت ہے تو آئیں اور اس جہاد میں مل کر تعلیم کو پھیلائیں اور اس کو گھر گھر پہنچائیں کہ ہمارے بہتر اور شاندار مستقبل کا سوال ہے۔
1947 سے ہی ہم نے تعلیم کو اپنی بنیادی پالیسیوں کا ہدف سمجھا ہے کیونکہ تعلیم ہی صرف ہمارے ملک کی قسمت بدل سکتی ہے۔ تاہم بد قسمتی سے پاکستان میں تعلیم کا معیار وہ نہیں ہے جو ہونا چاہیے، سوال یہ ہے کہ ہم کیسے اپنے تعلیمی نظام کو بہتر کر سکتے ہیں ؟
ملک کے پسماندہ علاقوں میں بچوں کی اسکول میں حاضری ، قیام اور سیکھنے کو یقینی بنانے کے لیے ایک سنگین چیلنج کا سامنا ہے کیونکہ بچوں کو اسکول تک لانا اور وہ اپنی تعلیم مکمل کرلیں تو یہ بڑا دشوار گزار عمل ہے۔
بچوں کو نہ صرف اسکول تک لانا اور اس کے بعد ان کو کوالٹی ایجوکیشن دینا ، کیونکہ کوالٹی ایجوکیشن عالمی سطح سے متعلق سماجی اور اقتصادی اور سیاسی تبدیلی کا ایک غالب آلہ ہے ، تکنیکی اور جمہوری ترقی اس لیے ضروری ہے کہ تعلیمی معیارکو بہتر کیا جائے اور ایسا ماحول پیدا کیا جائے کہ جہاں اساتذہ والدین بلکہ سوسائٹی کا ہر شخص تعلیمی ماحول کو سازگارکرنے اور اس میں اپنا حصہ ڈالنے کی کوشش بھی کریں تو حالات اور بھی تیزی سے بہتر ہوں گے۔
پاکستان جنوبی ایشیا کے مغربی کنارے پر واقع ہے ہمارے ملک کی آبادی تقریبا 184 ملین ہے جس میں 62% لوگ گاؤں دیہات میں اور 38% لوگ شہروں میں رہتے ہیں پاکستان بتدریج ایک ترقی پذیر ملک ہے زراعت پر مبنی معیشت سے صنعت اور خدمات کے بڑھتے ہوئے حصے میں تبدیلی اور جی ڈی پی میں ملک اپنے بجٹ کا بڑا حصہ قومی سلامتی اور مفاد کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے خرچ کرتا ہے۔
اس کے قرضوں کی ادائیگی کی وجہ سے اس کے انفرا اسٹرکچر پر سرمایہ کاری کے لیے کم رقم بچ جاتی ہے۔ اقتصادی ترقی کو فروغ دینے اور سماجی شعبوں کو لوگوں کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے قابل بنانے کے لیے ترقی ، تعلیم ، صحت سماجی خدمات کے لیے سرمایہ نہیں ہوتا اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کو بہت سارے سنگین ترقیاتی مسائل کا سامنا ہے۔
پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے اور یہ اب تک کیوں ترقی یافتہ نہ بن سکا، اس کا جواب آپ سب کو اچھی طرح معلوم ہوگا کیونکہ اگر کوئی مخلص ہوتا تو ہم اس وقت کم ازکم ترقی پذیر ہوتے بہرحال اس وقت ہمارا موضوع ترقی پذیر ہونا یا نہیں ہونا نہیں ہے ہم یہاں کچھ اور کہنا چاہتے ہیں وہ یہ کہ اگر پوری دنیا کا تعلیمی نظام دیکھا جائے تو نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان کا تعلیمی نظام کوئی بہت آگے نہیں ہے اور مسلسل اس میں گراوٹ آتی جا رہی ہے۔
موثر تعلیمی پالیسیوں کا نہ ہونا اور کم تعلیمی بجٹ اور اس بجٹ کا بھی صحیح جگہوں پر نہ پہنچنا اس کی سب سے بڑی خامی ہے۔ پاکستان کا لٹریسی ریٹ 62.3 ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں 60 ملین لوگ غیر تعلیم یافتہ ہیں وہ جو اپنا نام کسی طرح لکھ لیتے ہیں یا اپنا سائن کر لیتے ہیں۔
وہ بھی اپنے آپ کو تعلیم یافتہ میں شمار کرتے ہیں یہ الگ المیہ ہے ۔حالیہ سیلاب اور بد ترین بارشوں نے بہت تباہی مچائی اور اس سے جہاں بہت ساری چیزوں کو نقصان پہنچا زندگی مفلوج ہوگئی اور لوگ کھانے اور رہنے کو ترس گئے وہیں تعلیمی نظام کو بھی بہت بڑا دھچکا پہنچا ہے حالیہ بارشوں سے تقریبا 25,993 اسکولز متاثر ہوئے ہیں سندھ ،پنجاب، بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں جب کہ ابھی تک نقصان کا تخمینہ لگایا جا رہا ہے اور یہ تعداد مزید بڑھ گئی ہوگی۔
اب تک اور 7062 اسکولز جو تباہ نہیں ہوئے وہاں اِن سیلاب زدگان کو پناہ دی گئی ہے اور اُن اسکولز کو ریلیف کیمپ میں تبدیل کر دیا گیا اس طرح یہ تعلیمی سال بھی تباہ ہوا اور پڑھائی میں استعمال ہونے والے لوازمات مثلاـ کتابیں کاپیاں بلیک بورڈ ٹیبلز کرسیاں ایجوکیشن فرنیچر سب تباہ ہوا اور تقریبا 3.5 ملین سے زیادہ بچوں کی تعلیم متاثر ہوئی ہے اگر سیلاب سے پہلے کی بات کریں تو پہلے ہی بہت کم بچے اسکولوں کا رخ کرتے ہیں۔
اس کی وجوہات پر اگلے کسی کالم میں بات کی جائے گی مگر پہلے ہی تعلیم کم تھی پھر covid 19 کی وجہ سے دو سال تعلیم متاثر ہوئی اور اب یہ ناگہانی آ فت جس نے ایک بار پھر ڈوبتی نیاّ کو ڈبو دیا۔دو سال covid میں تعلیم برائے نام رہی اور تعلیمی ادارے زیادہ تر بند رہے اب سیلاب کی وجہ سے ہم پھر اسی زبوں حالی کا شکار ہیں سیلاب زدگان میں شامل بچوں کے لیے عارضی تعلیمی کیمپ بنائے گئے ہیں مگر وہ تسلی بخش نہیں ہیں یہں بھی ناکافی سہولتیں اور ناقص نظام تعلیم نظر آ تا ہے۔
بچوں کو ساف ستھری جگہ اور بہتر تعلیمی تعلیمی ماحول کی ضرورت ہے جہاں ان کی حفاظت اور خاطر خواہ تعلیم کا انتظام ہو ہم پہلے ہی تعلیم میں بہت پیچھے ہیں تعلیمی بجٹ ناکافی ہے اور صحیح جگہ پر پہنچتا بھی نہیں اور ان سب کے ساتھ یہ سیلاب ایک کڑا امتحان ہے نہ صرف وفاقی اور صوبائی حکومتوں لیے بلکہ ان تمام تنظیموں کے لیے بھی جو تعلیم کے لیے کام کرتی ہیں ۔سیلاب زدگان بچوں کو تعلیم دینا اب سب کی ذمے داری ہے۔
ہم اس سے کس طرح منہ موڑ سکتے ہیں جب کہ ہم جانتے ہیں کہ ہما ری اگلی نسل کو تعلیم کی کتنی سخت ضرورت ہے اور اگر عارضی کیمپوں کو ہی فی الحال اس قابل بنا دیا جائے جہاں بجلی ،پانی ،ٹوائلٹ بہتر اساتذہ اور سیکیورٹی کا انتظام ہو۔یہاں یہ سب سے ضروری امر ہے کہ اساتذہ کی ہنگامی بنیادوں پر خصوصی تربیت اور ٹریننگ مہیا کی جائے اور ان کو کم وقت میں ضروری سلیبس کو ختم کروانے کی ضرورت ہے ایسے بہت سارے اساتذہ ہیں۔
جن کی تنخواہ تو آتی ہے مگر وہ اسکول میں نظر نہیں آتے، ان کی حاضری کو یقینی بنایا جائے یہ ایک طرح سے جہاد ہے مگر سب اس کو بہت ہلکا لے رہے ہیں نہ جانے کب تعلیم کی اہمیت کو ہم سب سمجھیں گے۔
بہرحال ہم امید کا دامن نہیں چھوڑتے اور اگر محنت کی جائے تو کوئی شک نہیں کہ ہم امید افزا مستقبل تعمیر کر سکتے ہیں لیکن بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے ہمیں شہری اور دیہی علاقوں میں پرائمری اور سیکنڈری سطحوں پر تعلیم پر توجہ دینی چاہیے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ ہمارے بچوں کا مستقبل محفوظ ہوگا۔
اس کے علاوہ غیر ملکی برادری کے لیے بھی یہ ایک wake up call ہے کہ اس طرح مشکل میں گھرے تیسری دنیا کے اس ملک کو بہتر تعلیم اور چیزوں کی ضرورت ہے تو آئیں اور اس جہاد میں مل کر تعلیم کو پھیلائیں اور اس کو گھر گھر پہنچائیں کہ ہمارے بہتر اور شاندار مستقبل کا سوال ہے۔