کائنات کا ذرہ ذرے پر ذرے
انسان کی بنائی ہوئی چیز جو اس وقت زمین سے سب سے زیادہ دور ہے
مشہور ماہر فلکیات و سائنس دان Carl Sagan اپنی کتاب Plae Blue Dotمیں لکھتا ہے۔ 1977 میںVoyagar-1نامی خلائی جہاز نے کیپ کینا ورل امریکا سے اڑان بھری۔ اب 43 برس بعد بھی وہ 65ہزار کلو میٹر فی گھنٹہ رفتار سے سفر کر رہا ہے اور نظام شمسی سے باہر نکل چکا ہے۔
انسان کی بنائی ہوئی چیز جو اس وقت زمین سے سب سے زیادہ دور ہے۔ 1990 میںکارل نے ناسا انجینئرز کو درخواست دی کہ جب Voyager1 سیارہ سیٹرن کے قریب سے گذرتے ہوئے اپنے تجربات مکمل کر لے تواس کے بعد 14 فروری 1990 کو کیمرے کا رخ ہماری زمین کی طرف موڑ دیا جائے، کارل کی درخواست قبول ہو گئی۔
جب کیمرے کا رخ ہماری زمین کی طرف موڑ ا گیا تو اس وقت Voyagar1 زمین سے 6.4 ارب (6.4 بلین)کلو میٹردور تھا اور یہ دوری اتنی زیادہ تھی کہ روشنی بھی کئی گھنٹے لگا کر وہاں تک سفر کرتی تھی اور یہ دوری اتنی زیادہ تھی کہ زمین سورج کی روشنیوںمیں گم تھی۔
کیمرے نے اس وقت کے جدید نظام کی بدولت زمین کو ڈھونڈ نکالا ۔ تصویر میں کیا تھا؟ عظیم کائنات کا پس منظرلیے ہوئے سوئی کی نوک کے برابر ہلکی سی روشنی، ایک نیلم رنگ زدہ ۔کارل سیگن نے اس ذرہ کودیکھا ان کی آنکھیں بہت دیر تک نمناک رہیں۔ پھر شدت کیفیت میںاس پر کچھ کہا اور ان کے الفاظ امر ہوگئے۔ وہ الفاظ ان کی کتاب میں موجود ہیں انھوں نے کہا '' اس ذرہ کودیکھیے یہ بڑی مشکل سے نظر آرہا ہے۔
یہ ہمارا گھر ہے ، یہ ہم ہیں اس ذرہ پر وہ لوگ رہتے ہیں جنھیں آپ پیار کرتے ہیں وہ رہتا ہے جس کے بغیر تم زندہ نہیں رہ سکتے۔ وہ لوگ ہیں جنھیں آپ جانتے ہیں وہ لوگ بھی جن کے متعلق آپ محض سنتے ہیں اور وہ لوگ کبھی یہاں رہے اور پھر نہ جانے کہاں چلے گئے۔
یہ ہی ذرہ ہے ہماری خو شیوں اور غموں کی جگہ ، یہیں سیکڑوں پراعتماد مذاہب ہیں ، یہیں ہمارے عظیم نظریات ہیں ہمارے معاشی نظام ہیں ہر شکاری اور مظلوم ، ہمارے مشاہیر اور بزدل لوگ، تہذیبوں کو جنم دینے والے لوگ اور انھیں تباہ کردینے والے لوگ اور بادشاہ اور رعایا، امیرو غریب ، عاشق اور محبوب ، ماں اور باپ ، پر امید بچے ، تخلیق کرنیوالے اور دریافت کرنیوالے، اخلاق کا درس دینے والے ، بدعنوان سیاست دان، ہر فنکار اور سپر اسٹار ، ہر قسم کا لیڈر،ہر گناہ گاراور بد کردار اور ہماری پوری انسانی تاریخ ۔ سب کے سب اسی نیلم رنگ ذرے پر جو کائنات کے سامنے اتنا ہے کہ یقین نہیں آتا ، یہ نیلم رنگ زرہ سورج کی روشنی اور سیاہ خلا میں اٹکا ہوا ہے۔
سیارہ زمین اس کائناتی وسعت میں محض ذرا سی جگہ ہے اب سوچیے ان بادشاہوں اور سپاہ سالاروںکے بارے میں جنھوں نے اس اٹکے ہوئے ذرے کے چند حصوں کی محبت میں خون کے کتنے دریا بہا دیے اور جب انھیں اس ذرے سے بھی کم حیثیت فتح ملی تو کیسے خوشی سے پاگل ہوگئے۔
اس ذرے کے کسی ایک حصے کے ظلم وستم یاد کیجیے جب وہ اس ذرے پر سفرکرکے کسی اور حصے پر پہنچے اور اپنے تیئں کائنات کو فتح کر لیا جیسے ریت کے ذرے کو پکڑ کرکہہ دینا کہ صحرائے اعظم تمہارا ہوگیا۔ کیا بے شرمی کا مقام ہے کیسے بے وقوف لوگ ہیں کہ ذرے کے چند حصوں کی خاطر ایک دوسرے کو قتل کر رہے ہیں۔ ان کے آپس میں نفرتوں کو دیکھ جیسے کائنات کی ملکیت کے دعو یدار ہیں ہمارے بڑے بڑے منصوبے ہماری خود ساختہ اہمیت اور یہ خیال کہ کائنات ہمارے گرد گھوم رہی ہے۔
عظیم کائنات میں ہماری اس بے حیثیتی اور گمنامی میں ایسا کوئی اشارہ نظرنہیں آرہاکہ جو ہمیں خود ہم ہی سے کسی طرح بچا سکے۔ ہم خود اپنے آپ کو لے ڈوب رہے ہیں۔ علم فلکیا ت ایک عاجز پسند اورکردار ساز تجربہ ہے، اس علم کا نتیجہ ہے کہ ہم بے بالا خر اتنی دور سے دیکھا کہ انسانیت کتنے بے کار اعمال کی شکار ہے اس کائنات کے سامنے ہماری اہمیت ایک مچھر کے پر سے زیادہ نہیں ، اور اہمیت کس کو دکھانی ہے کوئی اور ہے ہی نہیں۔
لہٰذا بہتر ہے کہ ہم ایک دوسرے کے لیے رحم دل ہوجائیں اور اس نیلم رنگ ذرہ کو بھی چین لینے دیں جو ہمارا واحد گھر ہے ۔ آئیں ہاتھوں میں تاریخ انسانی تھام کر اس ذرے پر موجود قبرستانوں میں عظیم بادشاہوں ، نوابوں ، جاگیرداروں ، ظالم ڈکٹیٹر ز، عوام دشمن حکمرانوں کی جو اپنے اپنے وقتوں کے خدا تھے اور جنھوں نے اپنے ہی جیسے اس ذرے پر موجود ذروں کی زندگیاں حرام کر رکھی تھیں ۔
ہر قسم کے عذابوں میں مبتلا کررکھی تھیں جو اپنے علاوہ دوسروں کو انسان تک تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھے اور جو اپنے اپنے انجام سے لاتعلق ، بے خبر اور لاعلم تھے اگر ان کی قبریں مل جائیں تو ان قبروں کا حشر دیکھتے ہیں ان کی وحشت ذدہ قبروں کے پاس بیٹھ کر تاریخ انسانی میں ان کو تلاش کرتے ہیں ان کی بے شرمیاں ، بے غیرتیاں ، ان کے مظالم ، ان کی بے حسی پڑھ کر پھر ان کی قبروں کا حشردیکھتے ہیں ۔
ان کی قبروں سے اٹھنے والی خاموش چیخوں کو سنتے ہیں ۔ ان کی بے بسی کو محسوس کرتے ہیں ۔ان کی باقیات سے نکلنی والی وحشت زدہ عبرت کو پڑھتے ہیں۔ اس عمل کے بعد آپ کراہت کے ساتھ وہاں سے بھاگ کھڑے ہونے پر مجبور ہو جائیں گے۔
اس کے بعد آپ تاریخ پاکستان پر بھی ایک نظر ڈال لیجیے ۔ ہمارے سابقہ و موجودہ خداؤں کی کارستانیاں، ہولناک مظالم ، یقین نہ ہونے والی لوٹ مار، کرپشن ، جاہ و جلال ، عیاشیاں، عیش و عشرت کو بھی پڑھ لیں پھر ان کی باقیات کی عبرت کو بھی اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں پھر اس کے بعد آپ زور زور سے رونے پر اختیار مجبور ہوجائیں گے۔ اپنے آپ کو پیٹنے لگیں گے کہ اس ذرے پرموجود ذروں نے ناقابل یقین حرکتیں اور اعمال کیے ہیں اورظلم تو یہ ہے کہ آج بھی نا سمجھ، انجام سے بے خبر اور لاعلم ، عقل و دانش سے محروم فکر اور سو چ سے فالج ذدہ یہ حقیر سے ذرے وہ ہی غلطیاں وہ ہی حرکتیں دہرا رہے ہیں ۔
خدارا کوئی عقل سے پیدل ان ذروں کو زندگی کا مقصد اور مطلب جاکر سمجھائے ۔ کوئی تاریخ انسانی ان کو پڑھائے کوئی ان کو جاکر بتائے کہ یہ مکرہ کردار زیادہ سے زیادہ 80سال تک زندہ رہ سکیں گے۔ پھر اس کے بعد ان کی وحشت زدہ قبروںپرکوئی نہیں آئے گا۔
انسان کی بنائی ہوئی چیز جو اس وقت زمین سے سب سے زیادہ دور ہے۔ 1990 میںکارل نے ناسا انجینئرز کو درخواست دی کہ جب Voyager1 سیارہ سیٹرن کے قریب سے گذرتے ہوئے اپنے تجربات مکمل کر لے تواس کے بعد 14 فروری 1990 کو کیمرے کا رخ ہماری زمین کی طرف موڑ دیا جائے، کارل کی درخواست قبول ہو گئی۔
جب کیمرے کا رخ ہماری زمین کی طرف موڑ ا گیا تو اس وقت Voyagar1 زمین سے 6.4 ارب (6.4 بلین)کلو میٹردور تھا اور یہ دوری اتنی زیادہ تھی کہ روشنی بھی کئی گھنٹے لگا کر وہاں تک سفر کرتی تھی اور یہ دوری اتنی زیادہ تھی کہ زمین سورج کی روشنیوںمیں گم تھی۔
کیمرے نے اس وقت کے جدید نظام کی بدولت زمین کو ڈھونڈ نکالا ۔ تصویر میں کیا تھا؟ عظیم کائنات کا پس منظرلیے ہوئے سوئی کی نوک کے برابر ہلکی سی روشنی، ایک نیلم رنگ زدہ ۔کارل سیگن نے اس ذرہ کودیکھا ان کی آنکھیں بہت دیر تک نمناک رہیں۔ پھر شدت کیفیت میںاس پر کچھ کہا اور ان کے الفاظ امر ہوگئے۔ وہ الفاظ ان کی کتاب میں موجود ہیں انھوں نے کہا '' اس ذرہ کودیکھیے یہ بڑی مشکل سے نظر آرہا ہے۔
یہ ہمارا گھر ہے ، یہ ہم ہیں اس ذرہ پر وہ لوگ رہتے ہیں جنھیں آپ پیار کرتے ہیں وہ رہتا ہے جس کے بغیر تم زندہ نہیں رہ سکتے۔ وہ لوگ ہیں جنھیں آپ جانتے ہیں وہ لوگ بھی جن کے متعلق آپ محض سنتے ہیں اور وہ لوگ کبھی یہاں رہے اور پھر نہ جانے کہاں چلے گئے۔
یہ ہی ذرہ ہے ہماری خو شیوں اور غموں کی جگہ ، یہیں سیکڑوں پراعتماد مذاہب ہیں ، یہیں ہمارے عظیم نظریات ہیں ہمارے معاشی نظام ہیں ہر شکاری اور مظلوم ، ہمارے مشاہیر اور بزدل لوگ، تہذیبوں کو جنم دینے والے لوگ اور انھیں تباہ کردینے والے لوگ اور بادشاہ اور رعایا، امیرو غریب ، عاشق اور محبوب ، ماں اور باپ ، پر امید بچے ، تخلیق کرنیوالے اور دریافت کرنیوالے، اخلاق کا درس دینے والے ، بدعنوان سیاست دان، ہر فنکار اور سپر اسٹار ، ہر قسم کا لیڈر،ہر گناہ گاراور بد کردار اور ہماری پوری انسانی تاریخ ۔ سب کے سب اسی نیلم رنگ ذرے پر جو کائنات کے سامنے اتنا ہے کہ یقین نہیں آتا ، یہ نیلم رنگ زرہ سورج کی روشنی اور سیاہ خلا میں اٹکا ہوا ہے۔
سیارہ زمین اس کائناتی وسعت میں محض ذرا سی جگہ ہے اب سوچیے ان بادشاہوں اور سپاہ سالاروںکے بارے میں جنھوں نے اس اٹکے ہوئے ذرے کے چند حصوں کی محبت میں خون کے کتنے دریا بہا دیے اور جب انھیں اس ذرے سے بھی کم حیثیت فتح ملی تو کیسے خوشی سے پاگل ہوگئے۔
اس ذرے کے کسی ایک حصے کے ظلم وستم یاد کیجیے جب وہ اس ذرے پر سفرکرکے کسی اور حصے پر پہنچے اور اپنے تیئں کائنات کو فتح کر لیا جیسے ریت کے ذرے کو پکڑ کرکہہ دینا کہ صحرائے اعظم تمہارا ہوگیا۔ کیا بے شرمی کا مقام ہے کیسے بے وقوف لوگ ہیں کہ ذرے کے چند حصوں کی خاطر ایک دوسرے کو قتل کر رہے ہیں۔ ان کے آپس میں نفرتوں کو دیکھ جیسے کائنات کی ملکیت کے دعو یدار ہیں ہمارے بڑے بڑے منصوبے ہماری خود ساختہ اہمیت اور یہ خیال کہ کائنات ہمارے گرد گھوم رہی ہے۔
عظیم کائنات میں ہماری اس بے حیثیتی اور گمنامی میں ایسا کوئی اشارہ نظرنہیں آرہاکہ جو ہمیں خود ہم ہی سے کسی طرح بچا سکے۔ ہم خود اپنے آپ کو لے ڈوب رہے ہیں۔ علم فلکیا ت ایک عاجز پسند اورکردار ساز تجربہ ہے، اس علم کا نتیجہ ہے کہ ہم بے بالا خر اتنی دور سے دیکھا کہ انسانیت کتنے بے کار اعمال کی شکار ہے اس کائنات کے سامنے ہماری اہمیت ایک مچھر کے پر سے زیادہ نہیں ، اور اہمیت کس کو دکھانی ہے کوئی اور ہے ہی نہیں۔
لہٰذا بہتر ہے کہ ہم ایک دوسرے کے لیے رحم دل ہوجائیں اور اس نیلم رنگ ذرہ کو بھی چین لینے دیں جو ہمارا واحد گھر ہے ۔ آئیں ہاتھوں میں تاریخ انسانی تھام کر اس ذرے پر موجود قبرستانوں میں عظیم بادشاہوں ، نوابوں ، جاگیرداروں ، ظالم ڈکٹیٹر ز، عوام دشمن حکمرانوں کی جو اپنے اپنے وقتوں کے خدا تھے اور جنھوں نے اپنے ہی جیسے اس ذرے پر موجود ذروں کی زندگیاں حرام کر رکھی تھیں ۔
ہر قسم کے عذابوں میں مبتلا کررکھی تھیں جو اپنے علاوہ دوسروں کو انسان تک تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھے اور جو اپنے اپنے انجام سے لاتعلق ، بے خبر اور لاعلم تھے اگر ان کی قبریں مل جائیں تو ان قبروں کا حشر دیکھتے ہیں ان کی وحشت ذدہ قبروں کے پاس بیٹھ کر تاریخ انسانی میں ان کو تلاش کرتے ہیں ان کی بے شرمیاں ، بے غیرتیاں ، ان کے مظالم ، ان کی بے حسی پڑھ کر پھر ان کی قبروں کا حشردیکھتے ہیں ۔
ان کی قبروں سے اٹھنے والی خاموش چیخوں کو سنتے ہیں ۔ ان کی بے بسی کو محسوس کرتے ہیں ۔ان کی باقیات سے نکلنی والی وحشت زدہ عبرت کو پڑھتے ہیں۔ اس عمل کے بعد آپ کراہت کے ساتھ وہاں سے بھاگ کھڑے ہونے پر مجبور ہو جائیں گے۔
اس کے بعد آپ تاریخ پاکستان پر بھی ایک نظر ڈال لیجیے ۔ ہمارے سابقہ و موجودہ خداؤں کی کارستانیاں، ہولناک مظالم ، یقین نہ ہونے والی لوٹ مار، کرپشن ، جاہ و جلال ، عیاشیاں، عیش و عشرت کو بھی پڑھ لیں پھر ان کی باقیات کی عبرت کو بھی اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں پھر اس کے بعد آپ زور زور سے رونے پر اختیار مجبور ہوجائیں گے۔ اپنے آپ کو پیٹنے لگیں گے کہ اس ذرے پرموجود ذروں نے ناقابل یقین حرکتیں اور اعمال کیے ہیں اورظلم تو یہ ہے کہ آج بھی نا سمجھ، انجام سے بے خبر اور لاعلم ، عقل و دانش سے محروم فکر اور سو چ سے فالج ذدہ یہ حقیر سے ذرے وہ ہی غلطیاں وہ ہی حرکتیں دہرا رہے ہیں ۔
خدارا کوئی عقل سے پیدل ان ذروں کو زندگی کا مقصد اور مطلب جاکر سمجھائے ۔ کوئی تاریخ انسانی ان کو پڑھائے کوئی ان کو جاکر بتائے کہ یہ مکرہ کردار زیادہ سے زیادہ 80سال تک زندہ رہ سکیں گے۔ پھر اس کے بعد ان کی وحشت زدہ قبروںپرکوئی نہیں آئے گا۔