صحافی اندر باہر سے خطرے میں
بس ہر قیمت پر چیختی دھاڑتی رپورٹنگ سے اسکرینیں لال پیلی نیلی رہنی چاہئیں ؟
گزشتہ پیر کو جی ٹی روڈ پر پی ٹی آئی ریلی کی رپورٹنگ کے دوران کنٹینر تلے دب کر جاں بحق ہونے والی نیوز چینل فائیو کی صحافی صدف نعیم کے بارے میں اب تک آپ بہت کچھ پڑھ اور سن چکے ہوں گے۔
یہ ایسی موت ہے جس میں غفلت ، لاتعلقی، لاپرواہی ، پیشہ ورانہ فرائض کی ناکافی حفاظتی وسائل کے ساتھ بجاآوری ، ملازمتی عدمِ تحفظ کے خوف کے سبب غیر ضروری خطرات مول لینے اور ریٹنگ کی ریس میں آگے رہنے کے مسلسل بالائی دباؤ سمیت ہر شے صاف صاف ٹپک رہی ہے۔ نہ تو یہ پہلا واقعہ ہے اور نہ ہی آخری۔
صحافت بالخصوص فیلڈ رپورٹنگ کا شعبہ کبھی بھی آسان نہیں رہا مگر آج ان شعبوں سے منسلک بصری و خبری کارکنوں کو چوطرفہ خطرات لاحق ہیں۔ جانے کون سا اندرونی و بیرونی حادثہ جان لیوا ثابت ہو جائے یا معذور کر دے۔ خود کشی کے واقعات کی رپورٹنگ کرنے والے اب معاشی جبر اور بے روزگاری کے خوف سے گھبرا کے خود ایک دل خراش خبر بن رہے ہیں۔
صحافیوں کے لیے دھمکیاں ، نفسیاتی و جسمانی خطرات اور جابرانہ قوانین کے پنجے سے بچتے ہوئے فرائضِ منصبی نبھانا ہمیشہ سے ایک بڑا چیلنج رہا ہے۔
ایسی مشکلات کا سامنا کسی ایک ملک یا خطے کے صحافیوں کو نہیں بلکہ عالمگیر سطح پر ہے۔حملہ کسی پر کسی بھی وقت کہیں سے بھی ہو سکتا ہے۔
بھلے وہ مقبوضہ فلسطین میں الجزیرہ کی بیورو چیف شیریں ابو عاقلہ ہوں جو اسرائیلی فوجی نشانچیوں کی گولی کا سوچا سمجھا نشانہ بن جائیں یا پلٹزرز انعام یافتہ بھارتی بصری صحافی دانش قریشی جو افغانستان میں فرنٹ لائن رپورٹنگ کرتے ہوئے جاں بحق ہو گئے یا پھر بی بی سی کے گرم و سرد چشیدہ رپورٹر فرینک گارڈنر ہوں جو دو ہزار چار میں ریاض میں ایک دہشت گرد شبخون میں شدید زخمی ہو گئے اور ان کے ساتھی کیمرہ مین سائمن کمبرز جاں بحق ہو گئے۔
اسی طرح وزیرستان میں بی بی سی کے سابق نامہ نگار دلاور خان وزیر کو نومبر دو ہزار چھ میں '' نامعلوم افراد'' راولپنڈی کے ایک مصروف کاروباری مرکز میں ٹیکسی سے اتار کے لے گئے۔جب میڈیا میں شور مچا تو اگلے دن سڑک پر سالم چھوڑ دیا گیا۔
مگر میں بین الاقوامی اداروں کی مثالیں یوں دے رہا ہوں کہ خطرہ انھیں بھی یکساں ہے۔بس اتنا فرق ہے کہ ان کے رپورٹروں کو تنخواہ و دیگر مراعات لگے بندھے وقت پر ملتی ہیں۔آؤٹ اسٹیشن اسائنمنٹ پر بھیجتے ہوئے اطمینان کیا جاتا ہے کہ آیا انھوں نے اجنبی ، مخاصمانہ اور غیر محفوظ ماحول میں کام کرنے کا خصوصی لازمی کورس کر رکھا ہے۔ان کی ٹیم کا اس جگہ پر حفاظت کا بندوبست ہے۔
کیا ان کے پاس ضروری حفاظتی آلات ہیں؟ ان کی نقل و حرکت اور کام کی نوعیت کے بارے میں متعلقہ انتظامی اداروں کو پیشگی باضابطہ علم ہے ؟ ان کی ٹرانسپورٹ اور مددگار عملہ قابلِ اعتماد ہے ؟ خود وہ اور ان کے ساتھ جو آلات و افراد منسلک ہیں وہ بیمہ شدہ ہیں ؟ کسی ناگہانی یا بیماری یا حادثے کی صورت میں ان کی رسائی فوری مالی و طبی امداد تک ہے یا ہنگامی انخلا کا تسلی بخش بندوبست ہے ؟
ان لازمی ضروریات کے لیے ادارے میں ہیلتھ اینڈ سیفٹی کا امدادی شعبہ الگ سے چوبیس گھنٹے فعال رہتا ہے اور اس کا ہنگامی رابطہ نمبر ہر فیلڈ رپورٹر جانتا ہے۔بیشتر اداروں کا اتفاق ہے کہ '' کوئی بھی خبر رپورٹر کی جان سے زیادہ قیمتی نہیں ہو سکتی ''۔
اس کے برعکس ہم اگر اپنے اداروں اور ان میں کام کرنے والوں کا مالی و پیشہ ورانہ حال ، تربیتی معیار یا ہیلتھ اینڈ سیفٹی کے بنیادی اصولوں پر عمل درآمد دیکھ لیں تو شاید ہی کوئی ابلاغی ادارہ ہو جو سینہ ٹھونک کر کہہ سکے کہ ہم اپنے کارکنوں کا دفتر کے اندر اور فیلڈ میں پیشہ ورانہ تقاضوں کی روشنی میں پورا خیال رکھتے ہیں۔
جہاں کیمرہ توبیمہ شدہ ہو مگر کیمرہ مین انشورڈ نہ ہو، جہاں رپورٹر پنشن نہ پانے والے لاکھوں شہریوں کی دکھ بھری معاشی کہانی تو سنا رہا ہو مگر خود کو یہی معلوم نہ ہو کہ اگلی تنخواہ کب ملے گی یا پھر کب اچانک چھٹی ہو جائے گی۔
جہاں خبرنامے میں شہری ٹرانسپورٹ کے ناقص نظام کے تو جوش و خروش سے خبری بحئے ادھیڑے جا رہے ہوں مگر خود رپورٹر کو یہی نہ پتہ ہو کہ اسے واپس دفتر یا گھر بلاتاخیر کیسے پہنچنا ہے۔
جہاں ایک ٹھنڈے ہال میں نصب ڈیجیٹل پینلز اور نیوز ڈیسک پر بیٹھے خبری ارسطو یہ احکامات تو صادر کر رہے ہوں کہ اے رپورٹر فلاں جگہ چلے جاؤ ، اب فلاں کا انٹرویو لے لو، ڈیوٹی کا وقت ختم ہو گیا تو کیا ہوا۔مزید آٹھ گھنٹے تک ڈٹے رہو ، عین جلوس کے درمیان چلتے رہو تاکہ اسکرین بھری بھری نظر آئے۔یہ احکامات عورت مرد کے لیے یکساں ہے۔کیونکہ یہ صحافت ہے جہاں صنفی امتیاز کی کوئی گنجائش نہیں۔
مگر ان ارسطوؤں کو ککھ پرواہ نہیں ہوتی کہ فیلڈ رپورٹر یا کیمرہ مین سے یہی پوچھ لیں کہ کھانا کب کھایا ؟ رہ کہاں رہے ہو ، اردگرد کا ماحول کتنا دوستانہ یا معاندانہ ہے ، گزشتہ چوبیس گھنٹے میں آرام کے کتنے لمحات میسر آتے ہیں ، صحت کیسی ہے ، موسم کتنا شدید یا معتدل ہے ، رات کو کہاں رکو گے ؟ جیب میں کیش کتنا ہے ؟ گھر والوں سے بات ہوئی ؟ اور پھر یہ ارسطو اپنی شفٹ ختم ہوتے ہی اگلے ارسطو کو ہینڈ اوور کر کے گھروں کو روانہ ہو جاتے ہیں۔
یہ تو اس مخلوق کا احوال ہے جو براہِ راست دفاتر سے منسلک ہے اور روز اس کا اپنے اعلیٰ پروفیشنلز صحافی باسز اور وقت کی نبض پر ہاتھ دھرنے کی دعویدار مینیجمنٹ سے آمنا سامنا رہتا ہے۔ سوچیے دیگر شہروں اور قصبات میں ان اداروں سے منسلک اعزازی و علامتی تنخواہ دار رپورٹرز کس حال میں ہوں گے۔مگر ان سے بھی آسمان سے تارے توڑ کر لانے کی فرمائشیں مسلسل رہتی ہیں۔
ایسے ماحول میں کون سی آزادیِ صحافت ، کیسے ظالمانہ قوانین ، کس نوعیت کی ریاستی بے حسی کا شکوہ ، کہاں کی پیشہ ورانہ اقدار ، لفافہ اور ٹاؤٹ جرنلزم پر کیسی تف ؟ بس ہر قیمت پر چیختی دھاڑتی رپورٹنگ سے اسکرینیں لال پیلی نیلی رہنی چاہئیں ؟
میرے منہ میں پیاز ٹھنسی ہے اور میں دوسرے کے دانتوں میں پھنسے لہسن کے جوے پر تنقید کر رہا ہوں۔ آپ بھلے اپنی تشفی کے لیے اس طرزِ عمل کو صحافت کہہ لیں مگر آسان اردو میں اسے '' صنعتی خرکاری '' کہتے ہیں۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)
یہ ایسی موت ہے جس میں غفلت ، لاتعلقی، لاپرواہی ، پیشہ ورانہ فرائض کی ناکافی حفاظتی وسائل کے ساتھ بجاآوری ، ملازمتی عدمِ تحفظ کے خوف کے سبب غیر ضروری خطرات مول لینے اور ریٹنگ کی ریس میں آگے رہنے کے مسلسل بالائی دباؤ سمیت ہر شے صاف صاف ٹپک رہی ہے۔ نہ تو یہ پہلا واقعہ ہے اور نہ ہی آخری۔
صحافت بالخصوص فیلڈ رپورٹنگ کا شعبہ کبھی بھی آسان نہیں رہا مگر آج ان شعبوں سے منسلک بصری و خبری کارکنوں کو چوطرفہ خطرات لاحق ہیں۔ جانے کون سا اندرونی و بیرونی حادثہ جان لیوا ثابت ہو جائے یا معذور کر دے۔ خود کشی کے واقعات کی رپورٹنگ کرنے والے اب معاشی جبر اور بے روزگاری کے خوف سے گھبرا کے خود ایک دل خراش خبر بن رہے ہیں۔
صحافیوں کے لیے دھمکیاں ، نفسیاتی و جسمانی خطرات اور جابرانہ قوانین کے پنجے سے بچتے ہوئے فرائضِ منصبی نبھانا ہمیشہ سے ایک بڑا چیلنج رہا ہے۔
ایسی مشکلات کا سامنا کسی ایک ملک یا خطے کے صحافیوں کو نہیں بلکہ عالمگیر سطح پر ہے۔حملہ کسی پر کسی بھی وقت کہیں سے بھی ہو سکتا ہے۔
بھلے وہ مقبوضہ فلسطین میں الجزیرہ کی بیورو چیف شیریں ابو عاقلہ ہوں جو اسرائیلی فوجی نشانچیوں کی گولی کا سوچا سمجھا نشانہ بن جائیں یا پلٹزرز انعام یافتہ بھارتی بصری صحافی دانش قریشی جو افغانستان میں فرنٹ لائن رپورٹنگ کرتے ہوئے جاں بحق ہو گئے یا پھر بی بی سی کے گرم و سرد چشیدہ رپورٹر فرینک گارڈنر ہوں جو دو ہزار چار میں ریاض میں ایک دہشت گرد شبخون میں شدید زخمی ہو گئے اور ان کے ساتھی کیمرہ مین سائمن کمبرز جاں بحق ہو گئے۔
اسی طرح وزیرستان میں بی بی سی کے سابق نامہ نگار دلاور خان وزیر کو نومبر دو ہزار چھ میں '' نامعلوم افراد'' راولپنڈی کے ایک مصروف کاروباری مرکز میں ٹیکسی سے اتار کے لے گئے۔جب میڈیا میں شور مچا تو اگلے دن سڑک پر سالم چھوڑ دیا گیا۔
مگر میں بین الاقوامی اداروں کی مثالیں یوں دے رہا ہوں کہ خطرہ انھیں بھی یکساں ہے۔بس اتنا فرق ہے کہ ان کے رپورٹروں کو تنخواہ و دیگر مراعات لگے بندھے وقت پر ملتی ہیں۔آؤٹ اسٹیشن اسائنمنٹ پر بھیجتے ہوئے اطمینان کیا جاتا ہے کہ آیا انھوں نے اجنبی ، مخاصمانہ اور غیر محفوظ ماحول میں کام کرنے کا خصوصی لازمی کورس کر رکھا ہے۔ان کی ٹیم کا اس جگہ پر حفاظت کا بندوبست ہے۔
کیا ان کے پاس ضروری حفاظتی آلات ہیں؟ ان کی نقل و حرکت اور کام کی نوعیت کے بارے میں متعلقہ انتظامی اداروں کو پیشگی باضابطہ علم ہے ؟ ان کی ٹرانسپورٹ اور مددگار عملہ قابلِ اعتماد ہے ؟ خود وہ اور ان کے ساتھ جو آلات و افراد منسلک ہیں وہ بیمہ شدہ ہیں ؟ کسی ناگہانی یا بیماری یا حادثے کی صورت میں ان کی رسائی فوری مالی و طبی امداد تک ہے یا ہنگامی انخلا کا تسلی بخش بندوبست ہے ؟
ان لازمی ضروریات کے لیے ادارے میں ہیلتھ اینڈ سیفٹی کا امدادی شعبہ الگ سے چوبیس گھنٹے فعال رہتا ہے اور اس کا ہنگامی رابطہ نمبر ہر فیلڈ رپورٹر جانتا ہے۔بیشتر اداروں کا اتفاق ہے کہ '' کوئی بھی خبر رپورٹر کی جان سے زیادہ قیمتی نہیں ہو سکتی ''۔
اس کے برعکس ہم اگر اپنے اداروں اور ان میں کام کرنے والوں کا مالی و پیشہ ورانہ حال ، تربیتی معیار یا ہیلتھ اینڈ سیفٹی کے بنیادی اصولوں پر عمل درآمد دیکھ لیں تو شاید ہی کوئی ابلاغی ادارہ ہو جو سینہ ٹھونک کر کہہ سکے کہ ہم اپنے کارکنوں کا دفتر کے اندر اور فیلڈ میں پیشہ ورانہ تقاضوں کی روشنی میں پورا خیال رکھتے ہیں۔
جہاں کیمرہ توبیمہ شدہ ہو مگر کیمرہ مین انشورڈ نہ ہو، جہاں رپورٹر پنشن نہ پانے والے لاکھوں شہریوں کی دکھ بھری معاشی کہانی تو سنا رہا ہو مگر خود کو یہی معلوم نہ ہو کہ اگلی تنخواہ کب ملے گی یا پھر کب اچانک چھٹی ہو جائے گی۔
جہاں خبرنامے میں شہری ٹرانسپورٹ کے ناقص نظام کے تو جوش و خروش سے خبری بحئے ادھیڑے جا رہے ہوں مگر خود رپورٹر کو یہی نہ پتہ ہو کہ اسے واپس دفتر یا گھر بلاتاخیر کیسے پہنچنا ہے۔
جہاں ایک ٹھنڈے ہال میں نصب ڈیجیٹل پینلز اور نیوز ڈیسک پر بیٹھے خبری ارسطو یہ احکامات تو صادر کر رہے ہوں کہ اے رپورٹر فلاں جگہ چلے جاؤ ، اب فلاں کا انٹرویو لے لو، ڈیوٹی کا وقت ختم ہو گیا تو کیا ہوا۔مزید آٹھ گھنٹے تک ڈٹے رہو ، عین جلوس کے درمیان چلتے رہو تاکہ اسکرین بھری بھری نظر آئے۔یہ احکامات عورت مرد کے لیے یکساں ہے۔کیونکہ یہ صحافت ہے جہاں صنفی امتیاز کی کوئی گنجائش نہیں۔
مگر ان ارسطوؤں کو ککھ پرواہ نہیں ہوتی کہ فیلڈ رپورٹر یا کیمرہ مین سے یہی پوچھ لیں کہ کھانا کب کھایا ؟ رہ کہاں رہے ہو ، اردگرد کا ماحول کتنا دوستانہ یا معاندانہ ہے ، گزشتہ چوبیس گھنٹے میں آرام کے کتنے لمحات میسر آتے ہیں ، صحت کیسی ہے ، موسم کتنا شدید یا معتدل ہے ، رات کو کہاں رکو گے ؟ جیب میں کیش کتنا ہے ؟ گھر والوں سے بات ہوئی ؟ اور پھر یہ ارسطو اپنی شفٹ ختم ہوتے ہی اگلے ارسطو کو ہینڈ اوور کر کے گھروں کو روانہ ہو جاتے ہیں۔
یہ تو اس مخلوق کا احوال ہے جو براہِ راست دفاتر سے منسلک ہے اور روز اس کا اپنے اعلیٰ پروفیشنلز صحافی باسز اور وقت کی نبض پر ہاتھ دھرنے کی دعویدار مینیجمنٹ سے آمنا سامنا رہتا ہے۔ سوچیے دیگر شہروں اور قصبات میں ان اداروں سے منسلک اعزازی و علامتی تنخواہ دار رپورٹرز کس حال میں ہوں گے۔مگر ان سے بھی آسمان سے تارے توڑ کر لانے کی فرمائشیں مسلسل رہتی ہیں۔
ایسے ماحول میں کون سی آزادیِ صحافت ، کیسے ظالمانہ قوانین ، کس نوعیت کی ریاستی بے حسی کا شکوہ ، کہاں کی پیشہ ورانہ اقدار ، لفافہ اور ٹاؤٹ جرنلزم پر کیسی تف ؟ بس ہر قیمت پر چیختی دھاڑتی رپورٹنگ سے اسکرینیں لال پیلی نیلی رہنی چاہئیں ؟
میرے منہ میں پیاز ٹھنسی ہے اور میں دوسرے کے دانتوں میں پھنسے لہسن کے جوے پر تنقید کر رہا ہوں۔ آپ بھلے اپنی تشفی کے لیے اس طرزِ عمل کو صحافت کہہ لیں مگر آسان اردو میں اسے '' صنعتی خرکاری '' کہتے ہیں۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)