ایک روح پرور سفر کی خوب صورت اور مہکتی یادیں
حرم کی دوڑ بڑھ گئی اور پھر وہ دن آپہنچا جب روانگی کا وقت تھا۔ آخر وقت میں ڈھیر سارا زم زم پیا
کلمہ گو مسلمان ہونے کی حیثیت سے اور حضور اکرم ﷺ کے امتی ہونے کے ناتے ہم سب کی یہیں خواہش اور تمنا ہوتی ہے کہ اللہ کے گھر بیت اللہ کی زیارت نصیب ہو۔ اللہ ہمارے نصیب میں اپنے گھر کی اور حضورؐ کے روضے کی حاضری لکھ دے آمین۔
مکہ اور مدینہ کے چپے چپے پر حضرت محمد مصطفیٔ اور صحابہؓ کی زندگی کے ادوار رقم ہیں۔ اس سرزمین پر پہنچ کر یہ خواہش ضرور جاگتی ہے کہ ان جگہوں کو بھی ضرور دیکھا جائے جہاں ہمارے نبیؐ نے اپنے دن اور رات گزارے یا پھر جن مقامات کے بارے میں بچپن سے کتابوں میں پڑھا اور جانا ہے۔
میری عمر فقط چودہ سال تھی جب اللہ نے مجھے میرے والدین اور بھائی بہنوں کے ساتھ اپنے در کی حاضری نصیب کی۔ مجھے اس کے در پر حاضری دیے ہوئے کافی سال بیت گئے ہیں، مگر اس سفر کی کئی یادیں آج بھی ذہن میں محفوظ ہیںکہ جب کبھی آج بھی ٹی وی پر خانہ کعبہ پر نظر پڑتی ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے گویا کل ہی کی بات ہو۔ میں شاید اس سفر کو کسی سفرنامے یا پھر روداد کی طرح نہ لکھ سکوں مگر یادداشت کے طور پر ضرور لکھ سکتی ہوں اور میں وہی لکھ رہی ہوں۔
3 جون 2005 کو ہماری پاکستان سے عمرے کے لیے روانگی ہوئی۔ حالت احرام میں سرزمین مکہ تک پہنچنے کی تھکان اپنی جگہ مگر وہاں پہنچ کر چند پل بھی ہوٹل میں قیام کرنا ایک دشوار مرحلہ تھا۔ سب سے سنا تھا کہ خانہ کعبہ پر پہلی نظر پڑتے ہی جو دعا مانگی جائے وہ قبول ہوتی ہے مگر یہاں تو حالت ہی عجب تھی۔
جب پہلی نظر پڑی تو ہونٹ ہی سل گئے، زبان گنگ ہوگئی۔ کیا جاہ و جلال تھا میرے رب کے در کا۔ میں تو کچھ مانگ ہی نہ سکی۔ پھر طواف سے عمرے کی شروعات کی اور سعی کے اختتام پر زم زم اتنا پیا گویا آج کے بعد پھر نصیب نہیں ہوگا۔
میرے والد صاحب اور بھائی سر کے بال منڈوانے نائی کی دکان چلے گئے اور امی نے ہم بہنوں کے اسکارف کے نیچے سے ایک انچ کے قریب بال کاٹے جو عمرے کے فرائض میں شامل ہے۔ اس کے بعد ہم نے ہوٹل کی راہ لی۔ ہمارا ایک عمرہ بخیریت انجام پاگیا تھا۔
اس کے بعد نماز وں کے لیے حرم کی طرف بھاگنا، طواف کے لیے وقت کا انتخاب کرنا، نوافل پڑھنا اور زم زم سے وضو کرنے کا لطف آنے لگا۔ فجر کے بعد کبوتر چوک پر جاکر کبوتروں کو دانہ ڈالنا اور پھر واپسی پر ناشتے سے بھی پہلے ہوٹل کے نیچے موجود آئسکریم اسٹال سے آئسکریم کھانے کا مزہ آنے لگا۔ مکہ میں پاکستانیوں نے ہوٹل کھول لیے ہیں جس کی وجہ سے مزے دار اور لذیذ کھانا بھی ملتا ہے۔
حیران کن بات یہ ہے کہ حرم ایک ہی طرز پر تعمیر کیا گیا ہے۔ اس لیے دروازوں کے نام یاد رکھنا بے حد ضروری ہے، یوں تو وہاں پانچ مشہور باب ہیں مگر ہم عمومی طور پر باب عبدالعزیز، باب فہد اور باب علی استعمال کیا کرتے تھے اور راستے ازبر کرنے کی کوشش کرتے، تاکہ کھو جانے کے امکانات کو معدوم کرسکیں۔ گوکہ وقت بہت تیزی سے گزر رہا تھا مگر ہم نے دوبارہ عمرہ کرنے کا فیصلہ کیا اور مسجد فاطمہ جسے میقات کا درجہ حاصل ہے۔
جاکر عمرے کی نیت کی اور دوسرا عمرہ ادا کیا۔ ایک لگن ضرور تھی کہ حجرہ اسود کا بوسہ مل جائے مگر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ حجراسود پر دھکم پیل کے باعث عورتیں بوسہ لیتے ہوئے ہچکچاتی ہیں۔ میں نے بھی صرف ایک بار اس جرأت کا مظاہرہ کیا مگر حجر اسود کو چومنے کی کوشش میں لگنے والے دھکوں کے باعث میں نے پھر کوشش نہیں کی۔
اب میری صرف ایک خواہش تھی اور وہ تھی زیارتیں دیکھنا۔ ہم نے ایک پاکستانی ڈرائیور ہائر کیا اور زیارتیں دیکھنے نکل پڑے۔ سب سے پہلے تھوڑی ہی مسافت پر واقع مسجد جن دیکھی۔ یہ وہ مسجد ہے جہاں جنوں نے تلاوت قرآن پاک سن کر اسلام قبول کیا تھا۔ اس کے بعد مسجد نمرہ دیکھی جو سال میں صرف ایک بار خطبہ حج کے موقع پر کھلتی ہے۔
اس کے بعد میدان عرفات، مزلفہ اور منہ دیکھنے کے بعد غارحرا بھی دیکھا اور دیکھ کر احساس ہوا کہ ہمارے نبیؐ کو اللہ تعالی سے کتنی محبت تھی جو وہ اس پہاڑ پر چڑھ کر غار میں اس کی عبادت کے لیے جاتے تھے۔ اس پہاڑ پر چڑھنا ایک دشوار گزار مرحلہ ہے۔ اس کے بعد ڈرائیور نے ہمیں کافی دور سے غارثور کا پہاڑ بھی دکھایا۔ اس پہاڑ تک پہنچنا کافی مشکل ہے۔
اس کے بقول لوگ غار حرا کے پہاڑ پر چڑھنے کا حوصلہ کرلیتے ہیں مگر غار ثور تک پہنچنے کے بارے میں سوچتے تک نہیں اس تک پہنچنا بہت مشکل ہے۔ یہ وہ غار ہے جہاں حضور اکرمؐ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ ہجرت مدینہ کے موقع پر تین دن تک پناہ لی۔
ایسے میں غار کے داخلی راستے پر کبوتر نے انڈے دے دیے اور مکڑی نے جالا بن لیا۔ جب کافروں نے یہ حالت دیکھی تو وہ دھوکا کھا کر چلے گئے۔ اسی غار میں حضرت ابوبکر صدیقؓ کو سانپ نے ڈس لیا اور حضور اکرمؐ نے اپنا لعب دہن لگایا جس سے انھیں شفا نصیب ہوئی۔
اب مغرب کا وقت ہونے والا تھا اور ہمیں نماز حرم میں ہی ادا کرنی تھی۔ واپسی پر میں نے ڈرائیور سے پوچھا کہ سنا ہے یہاں وہ قبرستان بھی ہے جہاں قبل اسلام بیٹیوں کو دفن کردیا جاتا تھا جس پر جواب ملا ''جی بالکل ایسا ہی ہے۔ میں آپ کو دکھانے کے لیے لے چلتا ہوں، مگر عمومی طور پر وہاں وردی والوں کی ڈیوٹی ہوتی ہے اور ان کا کہنا ہوتا ہے کہ یہ کفار کی وہ رسم ہے جس کا خاتمہ اسلام نے کیا ہے۔
اس لیے ہم اسے قابل دید نہیں سمجھتے۔'' اس کے بعد میرا اس سے سوال تھا کہ یہ بات کیسے پتا چلی کہ یہاں لڑکیوں کو دفن کردیا جاتا تھا؟ جس پر اس کا کہنا تھا کہ یہ اللہ کا وہ معجزہ ہے جو انسان سوچ بھی نہیں سکتا۔ اب سے کئی سال پہلے یہاں عمارت بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
جب کھدائی شروع ہوئی تو خون نکلنے لگا اور عجیب وغریب آوازیں آنے لگیں۔ تعمیر روک دی گئی اور صورت حال کو اعلٰی حکام کے علم میں لایا گیا، جس پر مفتیوں نے متفقہ طور پر یہ فیصلہ سنایا۔ اس واقعے سے اس بات کا گمان ہوتا ہے کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں بیٹیوں کو دفن کردیا جاتا تھا۔
اس لیے تعمیر روک دی گئی اور چار دیواری تعمیر کرکے اس جگہ کو آگے کسی بھی قسم کی تعمیر کے لیے بند کردیا گیا۔ اس سب گفتگو کے درمیان ہم اس جگہ پہنچ چکے تھے جہاں کھڑے ہوکر نیچے قبرستان نظر آتا ہے گاڑی سے اتر کر دیکھا تو عجیب سی وحشت طاری ہوئی ان معصوم جانوں کی بے بسی پر آنسوؤں کو روکنا مشکل پایا اور جلدی سے گاڑی میں آکر بیٹھ گئی۔
اس کے بعد ہمیں راستہ میں ہی حضور اکرمؐ کی جائے ولادت، جو اب لائبریری میں تبدیل ہوچکی ہے، نظر آئی۔ پھر ابوجہل کے گھر پر باتھ روم تعمیر کیا گیا ہے وہ بھی نظر آیا اور پھر عین مغرب کی اذان کے وقت ہوٹل کے سامنے پہنچے اور بھاگم بھاگ حرم پہنچ کر نماز مغرب ادا کی۔
اب ہمیں مدینے جانا تھا کیوںکہ پروگرام کے مطابق ایک جمعہ مکہ میں اور دوسرا مدینہ میں پڑھنا تھا۔ میرے والد صاحب نے گاڑی بک کروائی اور ہم مدینہ کے سفر کے لیے گاڑی میں بیٹھ گئے۔ ایئرکنڈیشنڈ گاڑی میں بیٹھ کر نیند کچھ اتنی مہربان ہوئی کہ پانچ گھنٹوں کا سفر چند منٹوں کا محسوس ہوا اور ہم مدینہ پہنچ گئے۔
مکہ میں ہمارا قیام ایک پرانے ہوٹل میں تھا اور اس میں قیام کی وجہ حرم سے کم فاصلے کا ہونا تھا اور مدینہ میں قیام ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں تھا۔ بچپنا جاگ گیا، آنکھیں چندھیا گئیں اور ہوٹل کے کمرے میں پہنچ کر کسی پانچ سالہ بچے کی طرح کی حرکتیں کیں، جنہیں آج سوچتی ہوں تو ہنسی آتی ہے۔
لوگوں سے سنا تھا کہ مدینے میں انسان دنیا میں مصروف ہوجاتا ہے کیوںکہ مدینے میں روضے پر حاضری دینی ہوتی ہے اور نمازوں کی ادائی کے علاوہ کوئی مصروفیت نہیں ہوتی۔ عورتوں کے لیے روضہ پر حاضری کے لیے ۶۲ نمبر گیٹ اور فجر کا وقت مختص ہے۔
اس لیے اس کے بعد مالوں میں گھومنا اور شاپنگ ہوتی ہے۔ میں نے یادگار کے طور وہ ریال جو بطور تحفہ میرے تایا نے دیے تھے ان سے انگوٹھی خریدی جو آج بھی میرے پاس محفوظ ہے۔ اکثر خواتین یہاں زیور کی خریدوفروخت ضرور کرتی ہیں کیوںکہ یہاں کے سونے کا مقابلہ کسی ملک سے نہیں کیا جاسکتا۔
مسجد نبوی کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں جمال ہے اور مکہ میں جلال ہے۔ مسجد نبوی میں مختلف فرائض پر مامور عورتیں ٹھنڈے مزاج کی حامل ہیں اور نرم لہجے میں بات کرتی ہیں، راہ دکھاتی ہیں ''یہ جنت کا پتھر ہے، جہاں ہرا قالین بچھا ہوا ہے'' یہاں نفل کی ادائی کے لیے کافی دھکم پیل ہوتی ہے، اس لیے قسمت سے موقع ملے تو نفل ادا کرلینے چاہییں۔
مسجد نبوی کی زیارت کے بعد مجھے دیگر زیارتیں بھی دیکھنی تھیں۔ جیسے غزوہ بدر کا میدان، احد کا پہاڑ اور دیگر بھی، جن کے بارے میں پڑھا تھا۔ میرے والد صاحب کے ایک عزیز مدینہ میں رہائش پذیر تھے ان سے رابطہ کیا۔ انھوں نے زیارتیں دکھانے کا وعدہ کیا اور علی الصبح پہنچ گئے۔
زیارتیں تو بہت ہوںگی مگر لحاظ اور مروت میں جو جگہیں انھوں نے ہمیں دکھائیں انھیں پر اکتفا کیا۔ انھوں نے ہمیں غزوہ بدر کا میدان دکھایا۔ وہیں پر شہدائے بدر مدفون ہیں۔ ہم گاڑی سے اترے تو انھوں نے ایک مقامی بچے کو بلایا اور کہا سلام پڑھو، اور وہ بچہ تمام شہید صحابہؓ کے نام لینا شروع ہوگیا اور ہم نے اس کے ساتھ سلام پڑھا۔ اس کے بعد غزوہ احد کا کا پہاڑ بھی دور سے دیکھا۔ جس جگہ سے دجال مدینہ میں داخل ہونے میں ناکام ہوگا،
وہ جگہ بھی دکھائی۔ اس کے بعد انھوں نے ہمیں رات کے کھانے کی دعوت دی اور چلے گئے۔ رات کو ان کے گھر پر مزے دار کھانا تناول کیا۔ دوسرے دن مسجد قبا جانا تھا۔ یہ وہ مسجد ہے جہاں حضور اکرمؐ نفل ادا کیا کرتے تھے اور یہاں نفل ادا کرنے کا ثواب ایک عمرہ ادا کرنے کے برابر ہے۔
یہی وہ مسجد ہے جہاں دوران نماز حضور اکرمؐ کو قبلہ بدلنے کا حکم دیا گیا تھا اور قبلہ بیت المقدس سے خانہ کعبہ ہوگیا تھا۔ اس مسجد میں جاکر نوافل ادا کیے۔
مدینے کا قیام بھی ختم ہونے کو تھا۔ مدینے کا قیام کیا اب تو سفر ختم ہونے میں ہی چند دن رہ گئے تھے۔ اکثر آنکھوں سے آنسو رواں ہونے لگتے کہ جانے کب پھر یہاں آنا نصیب ہو؟ کب کعبے کا غلاف پکڑ کر دعا مانگنا نصیب ہو؟ کب زم زم کا بے دریغ استعمال نصیب ہو؟ کب کعبے کو دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی کرنا نصیب ہو؟ کب روضۂ رسولؐ پر درود پڑھنا نصیب ہو؟ پھر کب گنبد خضرا کی رونق دیکھنا نصیب ہو اور کب خود کو اللہ کا مہمان سمجھنا نصیب ہو۔ ان سب سوچوں کے ساتھ احرام باندھا اور رات کی گاڑی سے مکہ جانے کا رخت سفر شروع کیا۔
راستے میں مسجد علیؓ میں نفل ادا کرکے عمرے کی نیت کی اور پھر گاڑی میں بیٹھ کر خواب خرگوش کے مزے لینے لگے۔ فجر کی نماز کے وقت مکہ پہنچے نماز فجر ادا کی اور عمرہ کی ادائی کے بعد ناشتہ اور آرام کیا۔ اب بس چند دن رہ گئے تھا۔ دعا، طواف، نفل سب بڑھ گئے۔
حرم کی دوڑ بڑھ گئی اور پھر وہ دن آپہنچا جب روانگی کا وقت تھا۔ آخر وقت میں ڈھیر سارا زم زم پیا۔ کعبے پر سے نظر نہیں ہٹ رہی تھی۔ امی کہہ رہی تھیں بیٹا! فلائٹ کے لیے لیٹ ہوجائیں گے اور میں کہہ رہی تھی ایک منٹ ایک منٹ چلتی ہوں، اور جب ایئرپورٹ پہنچے تو خبر ملی فلائٹ لیٹ ہے۔ ہماری پوری رات ایئرپورٹ پر گزری۔ افسوس ہوا، خبر ہوتی کہ فلائٹ لیٹ ہے تو طواف ہی کرلیتے ایئرپورٹ نہ آتے۔ اس کے ساتھ یہ یادگار سفر اختتام پذیر ہوا۔ اللہ ہم سب کو اپنے در کی حاضری نصیب فرمائے آمین۔
مکہ اور مدینہ کے چپے چپے پر حضرت محمد مصطفیٔ اور صحابہؓ کی زندگی کے ادوار رقم ہیں۔ اس سرزمین پر پہنچ کر یہ خواہش ضرور جاگتی ہے کہ ان جگہوں کو بھی ضرور دیکھا جائے جہاں ہمارے نبیؐ نے اپنے دن اور رات گزارے یا پھر جن مقامات کے بارے میں بچپن سے کتابوں میں پڑھا اور جانا ہے۔
میری عمر فقط چودہ سال تھی جب اللہ نے مجھے میرے والدین اور بھائی بہنوں کے ساتھ اپنے در کی حاضری نصیب کی۔ مجھے اس کے در پر حاضری دیے ہوئے کافی سال بیت گئے ہیں، مگر اس سفر کی کئی یادیں آج بھی ذہن میں محفوظ ہیںکہ جب کبھی آج بھی ٹی وی پر خانہ کعبہ پر نظر پڑتی ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے گویا کل ہی کی بات ہو۔ میں شاید اس سفر کو کسی سفرنامے یا پھر روداد کی طرح نہ لکھ سکوں مگر یادداشت کے طور پر ضرور لکھ سکتی ہوں اور میں وہی لکھ رہی ہوں۔
3 جون 2005 کو ہماری پاکستان سے عمرے کے لیے روانگی ہوئی۔ حالت احرام میں سرزمین مکہ تک پہنچنے کی تھکان اپنی جگہ مگر وہاں پہنچ کر چند پل بھی ہوٹل میں قیام کرنا ایک دشوار مرحلہ تھا۔ سب سے سنا تھا کہ خانہ کعبہ پر پہلی نظر پڑتے ہی جو دعا مانگی جائے وہ قبول ہوتی ہے مگر یہاں تو حالت ہی عجب تھی۔
جب پہلی نظر پڑی تو ہونٹ ہی سل گئے، زبان گنگ ہوگئی۔ کیا جاہ و جلال تھا میرے رب کے در کا۔ میں تو کچھ مانگ ہی نہ سکی۔ پھر طواف سے عمرے کی شروعات کی اور سعی کے اختتام پر زم زم اتنا پیا گویا آج کے بعد پھر نصیب نہیں ہوگا۔
میرے والد صاحب اور بھائی سر کے بال منڈوانے نائی کی دکان چلے گئے اور امی نے ہم بہنوں کے اسکارف کے نیچے سے ایک انچ کے قریب بال کاٹے جو عمرے کے فرائض میں شامل ہے۔ اس کے بعد ہم نے ہوٹل کی راہ لی۔ ہمارا ایک عمرہ بخیریت انجام پاگیا تھا۔
اس کے بعد نماز وں کے لیے حرم کی طرف بھاگنا، طواف کے لیے وقت کا انتخاب کرنا، نوافل پڑھنا اور زم زم سے وضو کرنے کا لطف آنے لگا۔ فجر کے بعد کبوتر چوک پر جاکر کبوتروں کو دانہ ڈالنا اور پھر واپسی پر ناشتے سے بھی پہلے ہوٹل کے نیچے موجود آئسکریم اسٹال سے آئسکریم کھانے کا مزہ آنے لگا۔ مکہ میں پاکستانیوں نے ہوٹل کھول لیے ہیں جس کی وجہ سے مزے دار اور لذیذ کھانا بھی ملتا ہے۔
حیران کن بات یہ ہے کہ حرم ایک ہی طرز پر تعمیر کیا گیا ہے۔ اس لیے دروازوں کے نام یاد رکھنا بے حد ضروری ہے، یوں تو وہاں پانچ مشہور باب ہیں مگر ہم عمومی طور پر باب عبدالعزیز، باب فہد اور باب علی استعمال کیا کرتے تھے اور راستے ازبر کرنے کی کوشش کرتے، تاکہ کھو جانے کے امکانات کو معدوم کرسکیں۔ گوکہ وقت بہت تیزی سے گزر رہا تھا مگر ہم نے دوبارہ عمرہ کرنے کا فیصلہ کیا اور مسجد فاطمہ جسے میقات کا درجہ حاصل ہے۔
جاکر عمرے کی نیت کی اور دوسرا عمرہ ادا کیا۔ ایک لگن ضرور تھی کہ حجرہ اسود کا بوسہ مل جائے مگر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ حجراسود پر دھکم پیل کے باعث عورتیں بوسہ لیتے ہوئے ہچکچاتی ہیں۔ میں نے بھی صرف ایک بار اس جرأت کا مظاہرہ کیا مگر حجر اسود کو چومنے کی کوشش میں لگنے والے دھکوں کے باعث میں نے پھر کوشش نہیں کی۔
اب میری صرف ایک خواہش تھی اور وہ تھی زیارتیں دیکھنا۔ ہم نے ایک پاکستانی ڈرائیور ہائر کیا اور زیارتیں دیکھنے نکل پڑے۔ سب سے پہلے تھوڑی ہی مسافت پر واقع مسجد جن دیکھی۔ یہ وہ مسجد ہے جہاں جنوں نے تلاوت قرآن پاک سن کر اسلام قبول کیا تھا۔ اس کے بعد مسجد نمرہ دیکھی جو سال میں صرف ایک بار خطبہ حج کے موقع پر کھلتی ہے۔
اس کے بعد میدان عرفات، مزلفہ اور منہ دیکھنے کے بعد غارحرا بھی دیکھا اور دیکھ کر احساس ہوا کہ ہمارے نبیؐ کو اللہ تعالی سے کتنی محبت تھی جو وہ اس پہاڑ پر چڑھ کر غار میں اس کی عبادت کے لیے جاتے تھے۔ اس پہاڑ پر چڑھنا ایک دشوار گزار مرحلہ ہے۔ اس کے بعد ڈرائیور نے ہمیں کافی دور سے غارثور کا پہاڑ بھی دکھایا۔ اس پہاڑ تک پہنچنا کافی مشکل ہے۔
اس کے بقول لوگ غار حرا کے پہاڑ پر چڑھنے کا حوصلہ کرلیتے ہیں مگر غار ثور تک پہنچنے کے بارے میں سوچتے تک نہیں اس تک پہنچنا بہت مشکل ہے۔ یہ وہ غار ہے جہاں حضور اکرمؐ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ ہجرت مدینہ کے موقع پر تین دن تک پناہ لی۔
ایسے میں غار کے داخلی راستے پر کبوتر نے انڈے دے دیے اور مکڑی نے جالا بن لیا۔ جب کافروں نے یہ حالت دیکھی تو وہ دھوکا کھا کر چلے گئے۔ اسی غار میں حضرت ابوبکر صدیقؓ کو سانپ نے ڈس لیا اور حضور اکرمؐ نے اپنا لعب دہن لگایا جس سے انھیں شفا نصیب ہوئی۔
اب مغرب کا وقت ہونے والا تھا اور ہمیں نماز حرم میں ہی ادا کرنی تھی۔ واپسی پر میں نے ڈرائیور سے پوچھا کہ سنا ہے یہاں وہ قبرستان بھی ہے جہاں قبل اسلام بیٹیوں کو دفن کردیا جاتا تھا جس پر جواب ملا ''جی بالکل ایسا ہی ہے۔ میں آپ کو دکھانے کے لیے لے چلتا ہوں، مگر عمومی طور پر وہاں وردی والوں کی ڈیوٹی ہوتی ہے اور ان کا کہنا ہوتا ہے کہ یہ کفار کی وہ رسم ہے جس کا خاتمہ اسلام نے کیا ہے۔
اس لیے ہم اسے قابل دید نہیں سمجھتے۔'' اس کے بعد میرا اس سے سوال تھا کہ یہ بات کیسے پتا چلی کہ یہاں لڑکیوں کو دفن کردیا جاتا تھا؟ جس پر اس کا کہنا تھا کہ یہ اللہ کا وہ معجزہ ہے جو انسان سوچ بھی نہیں سکتا۔ اب سے کئی سال پہلے یہاں عمارت بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
جب کھدائی شروع ہوئی تو خون نکلنے لگا اور عجیب وغریب آوازیں آنے لگیں۔ تعمیر روک دی گئی اور صورت حال کو اعلٰی حکام کے علم میں لایا گیا، جس پر مفتیوں نے متفقہ طور پر یہ فیصلہ سنایا۔ اس واقعے سے اس بات کا گمان ہوتا ہے کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں بیٹیوں کو دفن کردیا جاتا تھا۔
اس لیے تعمیر روک دی گئی اور چار دیواری تعمیر کرکے اس جگہ کو آگے کسی بھی قسم کی تعمیر کے لیے بند کردیا گیا۔ اس سب گفتگو کے درمیان ہم اس جگہ پہنچ چکے تھے جہاں کھڑے ہوکر نیچے قبرستان نظر آتا ہے گاڑی سے اتر کر دیکھا تو عجیب سی وحشت طاری ہوئی ان معصوم جانوں کی بے بسی پر آنسوؤں کو روکنا مشکل پایا اور جلدی سے گاڑی میں آکر بیٹھ گئی۔
اس کے بعد ہمیں راستہ میں ہی حضور اکرمؐ کی جائے ولادت، جو اب لائبریری میں تبدیل ہوچکی ہے، نظر آئی۔ پھر ابوجہل کے گھر پر باتھ روم تعمیر کیا گیا ہے وہ بھی نظر آیا اور پھر عین مغرب کی اذان کے وقت ہوٹل کے سامنے پہنچے اور بھاگم بھاگ حرم پہنچ کر نماز مغرب ادا کی۔
اب ہمیں مدینے جانا تھا کیوںکہ پروگرام کے مطابق ایک جمعہ مکہ میں اور دوسرا مدینہ میں پڑھنا تھا۔ میرے والد صاحب نے گاڑی بک کروائی اور ہم مدینہ کے سفر کے لیے گاڑی میں بیٹھ گئے۔ ایئرکنڈیشنڈ گاڑی میں بیٹھ کر نیند کچھ اتنی مہربان ہوئی کہ پانچ گھنٹوں کا سفر چند منٹوں کا محسوس ہوا اور ہم مدینہ پہنچ گئے۔
مکہ میں ہمارا قیام ایک پرانے ہوٹل میں تھا اور اس میں قیام کی وجہ حرم سے کم فاصلے کا ہونا تھا اور مدینہ میں قیام ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں تھا۔ بچپنا جاگ گیا، آنکھیں چندھیا گئیں اور ہوٹل کے کمرے میں پہنچ کر کسی پانچ سالہ بچے کی طرح کی حرکتیں کیں، جنہیں آج سوچتی ہوں تو ہنسی آتی ہے۔
لوگوں سے سنا تھا کہ مدینے میں انسان دنیا میں مصروف ہوجاتا ہے کیوںکہ مدینے میں روضے پر حاضری دینی ہوتی ہے اور نمازوں کی ادائی کے علاوہ کوئی مصروفیت نہیں ہوتی۔ عورتوں کے لیے روضہ پر حاضری کے لیے ۶۲ نمبر گیٹ اور فجر کا وقت مختص ہے۔
اس لیے اس کے بعد مالوں میں گھومنا اور شاپنگ ہوتی ہے۔ میں نے یادگار کے طور وہ ریال جو بطور تحفہ میرے تایا نے دیے تھے ان سے انگوٹھی خریدی جو آج بھی میرے پاس محفوظ ہے۔ اکثر خواتین یہاں زیور کی خریدوفروخت ضرور کرتی ہیں کیوںکہ یہاں کے سونے کا مقابلہ کسی ملک سے نہیں کیا جاسکتا۔
مسجد نبوی کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں جمال ہے اور مکہ میں جلال ہے۔ مسجد نبوی میں مختلف فرائض پر مامور عورتیں ٹھنڈے مزاج کی حامل ہیں اور نرم لہجے میں بات کرتی ہیں، راہ دکھاتی ہیں ''یہ جنت کا پتھر ہے، جہاں ہرا قالین بچھا ہوا ہے'' یہاں نفل کی ادائی کے لیے کافی دھکم پیل ہوتی ہے، اس لیے قسمت سے موقع ملے تو نفل ادا کرلینے چاہییں۔
مسجد نبوی کی زیارت کے بعد مجھے دیگر زیارتیں بھی دیکھنی تھیں۔ جیسے غزوہ بدر کا میدان، احد کا پہاڑ اور دیگر بھی، جن کے بارے میں پڑھا تھا۔ میرے والد صاحب کے ایک عزیز مدینہ میں رہائش پذیر تھے ان سے رابطہ کیا۔ انھوں نے زیارتیں دکھانے کا وعدہ کیا اور علی الصبح پہنچ گئے۔
زیارتیں تو بہت ہوںگی مگر لحاظ اور مروت میں جو جگہیں انھوں نے ہمیں دکھائیں انھیں پر اکتفا کیا۔ انھوں نے ہمیں غزوہ بدر کا میدان دکھایا۔ وہیں پر شہدائے بدر مدفون ہیں۔ ہم گاڑی سے اترے تو انھوں نے ایک مقامی بچے کو بلایا اور کہا سلام پڑھو، اور وہ بچہ تمام شہید صحابہؓ کے نام لینا شروع ہوگیا اور ہم نے اس کے ساتھ سلام پڑھا۔ اس کے بعد غزوہ احد کا کا پہاڑ بھی دور سے دیکھا۔ جس جگہ سے دجال مدینہ میں داخل ہونے میں ناکام ہوگا،
وہ جگہ بھی دکھائی۔ اس کے بعد انھوں نے ہمیں رات کے کھانے کی دعوت دی اور چلے گئے۔ رات کو ان کے گھر پر مزے دار کھانا تناول کیا۔ دوسرے دن مسجد قبا جانا تھا۔ یہ وہ مسجد ہے جہاں حضور اکرمؐ نفل ادا کیا کرتے تھے اور یہاں نفل ادا کرنے کا ثواب ایک عمرہ ادا کرنے کے برابر ہے۔
یہی وہ مسجد ہے جہاں دوران نماز حضور اکرمؐ کو قبلہ بدلنے کا حکم دیا گیا تھا اور قبلہ بیت المقدس سے خانہ کعبہ ہوگیا تھا۔ اس مسجد میں جاکر نوافل ادا کیے۔
مدینے کا قیام بھی ختم ہونے کو تھا۔ مدینے کا قیام کیا اب تو سفر ختم ہونے میں ہی چند دن رہ گئے تھے۔ اکثر آنکھوں سے آنسو رواں ہونے لگتے کہ جانے کب پھر یہاں آنا نصیب ہو؟ کب کعبے کا غلاف پکڑ کر دعا مانگنا نصیب ہو؟ کب زم زم کا بے دریغ استعمال نصیب ہو؟ کب کعبے کو دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی کرنا نصیب ہو؟ کب روضۂ رسولؐ پر درود پڑھنا نصیب ہو؟ پھر کب گنبد خضرا کی رونق دیکھنا نصیب ہو اور کب خود کو اللہ کا مہمان سمجھنا نصیب ہو۔ ان سب سوچوں کے ساتھ احرام باندھا اور رات کی گاڑی سے مکہ جانے کا رخت سفر شروع کیا۔
راستے میں مسجد علیؓ میں نفل ادا کرکے عمرے کی نیت کی اور پھر گاڑی میں بیٹھ کر خواب خرگوش کے مزے لینے لگے۔ فجر کی نماز کے وقت مکہ پہنچے نماز فجر ادا کی اور عمرہ کی ادائی کے بعد ناشتہ اور آرام کیا۔ اب بس چند دن رہ گئے تھا۔ دعا، طواف، نفل سب بڑھ گئے۔
حرم کی دوڑ بڑھ گئی اور پھر وہ دن آپہنچا جب روانگی کا وقت تھا۔ آخر وقت میں ڈھیر سارا زم زم پیا۔ کعبے پر سے نظر نہیں ہٹ رہی تھی۔ امی کہہ رہی تھیں بیٹا! فلائٹ کے لیے لیٹ ہوجائیں گے اور میں کہہ رہی تھی ایک منٹ ایک منٹ چلتی ہوں، اور جب ایئرپورٹ پہنچے تو خبر ملی فلائٹ لیٹ ہے۔ ہماری پوری رات ایئرپورٹ پر گزری۔ افسوس ہوا، خبر ہوتی کہ فلائٹ لیٹ ہے تو طواف ہی کرلیتے ایئرپورٹ نہ آتے۔ اس کے ساتھ یہ یادگار سفر اختتام پذیر ہوا۔ اللہ ہم سب کو اپنے در کی حاضری نصیب فرمائے آمین۔