آٹزم کا شکار بچے اسکولوں میں دادا گیری کا نشانہ بنتے ہیں
نوعمرافرادکو داداگیری یا چھیڑچھاڑکا نشانہ بنایاجاتا ہے،عام بچوں سےزیادہ ڈپریشن زدہ،تنہائی اوراضطراب کا شکار ہوتے ہیں۔
ایک سروے کے نتیجے میں پتہ چلا ہے کہ آٹزم کے شکار لگ بھگ نصف کے قریب بچے اور نوعمر افراد کو اسکولوں میں دوسرے بچوں کی جانب سے دادا گیری (bullying)کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
سروے کی تفصیل ایک امریکی طبی جریدے میں شائع ہوئی۔ ماہرین کے مطابق یہ اعدادوشمار حیران کن ہیں کیونکہ عام لوگوں میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ شاید آٹزم کے شکار دس گیارہ فیصد بچوں کو ہی اسکولوں میں چھیڑ چھاڑ کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس سے پہلے کی جانے والی اسٹڈیز میں یہ بات سامنے آچکی ہے کہ جن بچوں اور نوعمر افراد کو داداگیری یا چھیڑچھاڑ کا نشانہ بنایا جاتا ہے ، وہ ان بچوں سے زیادہ ڈپریشن زدہ ، تنہائی اور اضطراب کا شکار ہوتے ہیں جنہیں چھیڑ چھاڑ کا نشانہ نہیں بنایا جاتا۔اس کا مطلب ہے کہ جو بچے پہلے ہی آٹزم کا شکار ہوتے ہیں ، ان کے ساتھ تو ایسی صورت میں اور بھی زیادہ مسائل ہوں گے اور ان کے لیے اسکولوں میں ٹھہرنا مشکل ہوتا ہوگا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ مذکورہ بالا سروے کے مطابق اسکولوں کو ایسی حکمت عملی مرتب کرنی چاہیے جس کے ذریعے آٹزم یا اے ڈی ایچ ڈی سے دوچار بچوں کو دیگر بچوں کی جانب سے تنگ کیے جانے سے خاص طور پر محفوظ رکھا جائے۔یاد رہے کہ آٹزم ایک ذہنی بیماری ہے جو بچوں میں دماغ کی تشکیل کے دوران نقائص کے نتیجے میں جنم لیتی ہے اور اس میں مبتلا بچوں کو سماجی میل جول، پڑھائی اور دیگر معاملات میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سروے اور اسٹڈی کے سرکردہ مصنف پال سٹرزنگ نے اس سلسلے میں کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ دادا گیری یا بْلنگ سے نمٹنے کے لیے اس وقت جو حکمت عملی اپنائی جارہی ہے ، اگر اس میں مناسب بہتری نہ لائی گئی تو یہ غیرموثر ثابت ہوگی۔
انھوں نے مزید کہا کہ آٹزم کی بہتر تشخیص کے بعد اب ایسے بچوں کے اعدادوشمار میں خاصا اضافہ ہوچکا ہے جو کہ آٹزم کا شکار ہیں اور صرف امریکا میں ہر اٹھاسی میں سے ایک بچہ آٹزم یا اسپرجر سینڈروم Asperger's syndrome.کا شکار ہے۔سروے کے دوران چھیالیس فیصد والدین نے کہا کہ ان کے آٹزم کے شکار بچوں کو اسکول میں تنگ کیا جاتا ہے جبکہ پندرہ فیصد والدین کا کہنا تھا کہ ان کے آٹزم کے شکار بچے خود بھی داداگیری کرتے ہیں۔نو فیصد والدین نے کہا کہ ان کے بچے بیک وقت دادا گیر بھی ہیں اور دادا گیری کے شکار بھی ہیں۔پال سٹرزنگ کا کہنا تھا کہ سروے یا اسٹڈی کا مطلب یہ نہیں کہ آٹزم کے شکار بچوں کو نارمل اسکولوں سے الگ کرکے ان کو اسپیشل اسکولوں میں پڑھایا جائے بلکہ نارمل اسکولوں میں ایسی حکمت عملی اختیار کی جائے جس میں آٹزم کے شکار بچوں کو تحفظ دیا جائے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کمرہ جماعت میں ایک ایسا سپورٹ گروپ تشکیل دیاجانا چاہیے جس میں ایسے بچوں کو اکٹھا کیاجائے جن کو آگاہ کیاجائے کہ فلاں بچہ ذرا کمزور ہے ، اس لیے اس پر نظر رکھیں اور اگر کوئی اسے تنگ کرے تو ٹیچر کو بتائیں۔انھوں نے مزید کہا کہ کلاس روم کا ایک اصول ہے کہ وہاں سب محفوظ ہوں اور اگر ان میں کوئی بچہ تھوڑا ڈھیلا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ دیگر بچے اسے تنگ کریں یا اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کریں۔
سروے کی تفصیل ایک امریکی طبی جریدے میں شائع ہوئی۔ ماہرین کے مطابق یہ اعدادوشمار حیران کن ہیں کیونکہ عام لوگوں میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ شاید آٹزم کے شکار دس گیارہ فیصد بچوں کو ہی اسکولوں میں چھیڑ چھاڑ کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس سے پہلے کی جانے والی اسٹڈیز میں یہ بات سامنے آچکی ہے کہ جن بچوں اور نوعمر افراد کو داداگیری یا چھیڑچھاڑ کا نشانہ بنایا جاتا ہے ، وہ ان بچوں سے زیادہ ڈپریشن زدہ ، تنہائی اور اضطراب کا شکار ہوتے ہیں جنہیں چھیڑ چھاڑ کا نشانہ نہیں بنایا جاتا۔اس کا مطلب ہے کہ جو بچے پہلے ہی آٹزم کا شکار ہوتے ہیں ، ان کے ساتھ تو ایسی صورت میں اور بھی زیادہ مسائل ہوں گے اور ان کے لیے اسکولوں میں ٹھہرنا مشکل ہوتا ہوگا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ مذکورہ بالا سروے کے مطابق اسکولوں کو ایسی حکمت عملی مرتب کرنی چاہیے جس کے ذریعے آٹزم یا اے ڈی ایچ ڈی سے دوچار بچوں کو دیگر بچوں کی جانب سے تنگ کیے جانے سے خاص طور پر محفوظ رکھا جائے۔یاد رہے کہ آٹزم ایک ذہنی بیماری ہے جو بچوں میں دماغ کی تشکیل کے دوران نقائص کے نتیجے میں جنم لیتی ہے اور اس میں مبتلا بچوں کو سماجی میل جول، پڑھائی اور دیگر معاملات میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سروے اور اسٹڈی کے سرکردہ مصنف پال سٹرزنگ نے اس سلسلے میں کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ دادا گیری یا بْلنگ سے نمٹنے کے لیے اس وقت جو حکمت عملی اپنائی جارہی ہے ، اگر اس میں مناسب بہتری نہ لائی گئی تو یہ غیرموثر ثابت ہوگی۔
انھوں نے مزید کہا کہ آٹزم کی بہتر تشخیص کے بعد اب ایسے بچوں کے اعدادوشمار میں خاصا اضافہ ہوچکا ہے جو کہ آٹزم کا شکار ہیں اور صرف امریکا میں ہر اٹھاسی میں سے ایک بچہ آٹزم یا اسپرجر سینڈروم Asperger's syndrome.کا شکار ہے۔سروے کے دوران چھیالیس فیصد والدین نے کہا کہ ان کے آٹزم کے شکار بچوں کو اسکول میں تنگ کیا جاتا ہے جبکہ پندرہ فیصد والدین کا کہنا تھا کہ ان کے آٹزم کے شکار بچے خود بھی داداگیری کرتے ہیں۔نو فیصد والدین نے کہا کہ ان کے بچے بیک وقت دادا گیر بھی ہیں اور دادا گیری کے شکار بھی ہیں۔پال سٹرزنگ کا کہنا تھا کہ سروے یا اسٹڈی کا مطلب یہ نہیں کہ آٹزم کے شکار بچوں کو نارمل اسکولوں سے الگ کرکے ان کو اسپیشل اسکولوں میں پڑھایا جائے بلکہ نارمل اسکولوں میں ایسی حکمت عملی اختیار کی جائے جس میں آٹزم کے شکار بچوں کو تحفظ دیا جائے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کمرہ جماعت میں ایک ایسا سپورٹ گروپ تشکیل دیاجانا چاہیے جس میں ایسے بچوں کو اکٹھا کیاجائے جن کو آگاہ کیاجائے کہ فلاں بچہ ذرا کمزور ہے ، اس لیے اس پر نظر رکھیں اور اگر کوئی اسے تنگ کرے تو ٹیچر کو بتائیں۔انھوں نے مزید کہا کہ کلاس روم کا ایک اصول ہے کہ وہاں سب محفوظ ہوں اور اگر ان میں کوئی بچہ تھوڑا ڈھیلا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ دیگر بچے اسے تنگ کریں یا اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کریں۔