ریاستی ادارے اور سیاسی قیادت

آئی ایس پی آر کے مطابق چیئرمین پی ٹی آئی کے ایک خاص فوجی افسر کے خلاف الزامات غیر ضروری ہیں

آئی ایس پی آر کے مطابق چیئرمین پی ٹی آئی کے ایک خاص فوجی افسر کے خلاف الزامات غیر ضروری ہیں۔ فوٹو فائل

پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان پر قاتلانہ حملے اور اس میں ان کے زخمی ہونے کے واقعے کے بعد ملک کے مختلف شہروں میں مظاہروں کے دوران گھیراؤ جلاؤ کے واقعات ہوئے اور کئی جگہ انتہائی قابل اعتراض اور اشتعال انگیز نعرے بازی اور غیرقانونی حرکات نے صورت حال کو خاصا حساس اور سنگین بنا دیا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین پر قاتلانہ حملہ انتہائی قابل مذمت فعل ہے اور اس کی آزادانہ تحقیقات کرانا انتہائی ضروری ہے تاکہ اصل حقائق عوام کے سامنے آ سکیں لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ قانون کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے الزامات کا طومار باندھا جا رہا ہے۔

گزشتہ روز شوکت خانم کینسر اسپتال لاہور میں گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے اپنی ایکسرے رپورٹس ٹیلی ویژن اسکرین پر دکھائیں اور ڈاکٹر فیصل سلطان نے اس پر بریفنگ دی۔

اس موقع پر عمران خان نے کہا کہ ٹھیک ہوتے ہی دوبارہ لانگ مارچ کی کال دوں گا، البتہ تین لوگوں کا استعفیٰ آنے تک ملک گیر احتجاج جاری رہے گا، انھوں نے کہا کہ مجھ پر جو حملہ کیا گیا اس کی تفصیلات بعد میں بتاوں گا تاہم اس کے ساتھ ساتھ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس منصوبے میں شہباز شریف اور رانا ثناء اور ایک عسکری عہدیدار شامل ہیں۔

عمران خان نے مزید کہا کہ ہم نے ایف آئی آر درج کرانے کی کوشش کی ہے لیکن ایف آئی آر درج نہیں ہوئی، سب ڈرتے ہیں، داخلی اور خارجی سازش ہوتی ہے اور وہ نیوٹرل ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، نیوٹرل کا کوئی بھی مطلب لیں، انھیں معلوم تھا سازش ہو رہی تھی لیکن راستہ نہیں روکا، ہماری ایجنسیاں جمہوری عمل کو چلنے نہیں دے رہی ہیں، 4 لوگوں نے بند کمروں میں مجھے مروانے کا فیصلہ کیا، وڈیو بنا کر رکھی ہے، کہا تھا مجھے کچھ ہوا تو وڈیوز جاری کر دینا۔

اب ان ساری باتوں کا جائزہ لیا جائے تو اس میں سوائے اندازوں، قیاس آرائیوں اور الزامات کے کوئی سولڈ ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔ واقعہ خواہ کیسا بھی ہو، اس کے وقوع پذیر ہونے کی کچھ نہ کچھ وجوہات ہوتی ہیں۔ آئینی اور قانونی طریقہ کار تو یہ ہے کہ سب سے پہلے قانونی کارروائی کے عمل میں شامل ہوا جائے، مدعی مقدمہ کے پاس اگر کوئی ثبوت ہے تو اسے متعلقہ تفتیش کاروں کے حوالے کیا جائے تاکہ وہ صحیح خطوط پر تفتیش کر سکیں۔

معاملہ اگر قومی سطح کے لیڈر کا ہو تو پھر اس کی حساسیت بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے، اس لیے تدبر کا تقاضا یہی ہے کہ غیرحقیقی اور اشتعال انگیز بیان بازی سے گریز کیا جائے کیونکہ اس سے معاملات سلجھتے نہیں بلکہ بگڑتے ہیں۔ حالات کی حساسیت اور سنگینی کا اندازہ یوں کیا جا سکتا ہے کہ گزشتہ روز ایک بار پھر پاک فوج کو بیان جاری کرنا پڑا۔

پاک فوج نے کہا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے ادارے اور ایک اعلیٰ فوجی افسر کے خلاف بے بنیاد اور غیر ذمے دارانہ الزامات ناقابل قبول ہیں، رینک اینڈ فائل کی عزت، وقار، اورسیفٹی کو مذموم مقاصد کے لیے فضول الزامات کے ذریعے ٹارگٹ کرنے کی کوشش کی گئی تو ادارہ ہرقیمت پر اپنے افسروں اور جوانوں کی حفاظت کرے گا، حکومت بغیر ثبوت کے ادارے اور اس کے اہلکاروں کے خلاف ہتک عزت اور جھوٹے الزامات کے ذمے داروں کے خلاف قانونی کارروائی شروع کرے۔

آئی ایس پی آر کے مطابق چیئرمین پی ٹی آئی کے ایک خاص فوجی افسر کے خلاف الزامات غیر ضروری ہیں، پاک فوج ایک انتہائی پیشہ ور اور نظم و ضبط کی حامل فورس ہونے پر فخر کرتی ہے،پاک فوج کا ایک انتہائی موثر اندرونی احتسابی نظام ہے۔


آئی ایس پی آر کے مطابق احتسابی نظام وردی پہنے ہوئے تمام اہلکاروں پر لاگو ہے، یہ الزامات غیر ضروری ہیں، اگر مفاد پرستوں کی جانب سے فضول الزامات کے وقار کو داغدار کیا جا رہا ہو تو ادارہ اپنے افسروں اور جوانوں کی حفاظت کرے گا، آج ادارے، اہلکاروں پر لگائے گئے بے بنیاد الزامات انتہائی افسوسناک اور قابل مذمت ہیں، کسی کو بھِی ادارے اور اس کے سپاہیوں کی بے عزتی کی اجازت نہیں دی جا سکتی، حکومت پاکستان سے اس معاملے کی شفاف تحقیقات کی درخواست کی گئی ہے، حکومت بغیر ثبوت کے ادارے اور اس کے اہلکاروں کے خلاف ہتک عزت اور جھوٹے الزامات کے ذمے داروں کے خلاف قانونی کارروائی شروع کرے۔

پاکستان کی سیاست میں بغیر کسی ثبوت کے دوسروں پر الزامات عائد کرنے کا کلچر بہت گہرا ہو چکا ہے۔ آغاز میں سیاسی لیڈر جلسوں میں تقاریر کے دوران اپنے مخالف سیاست دانوں پر مختلف قسم کے الزامات عائد کرتے تھے۔ اس حوالے سے صورت حال کسی حد تک قابل قبول تھی اور سیاسی فضاء خراب نہیں ہوتی تھی لیکن بتدریج یہ معاملہ بڑھتے بڑھتے اپنی حدود سے آگے نکل گیا ہے۔

حالیہ چند برسوں میں تو سیاسی محاذآرائی کالم گلوچ میں تبدیل ہو گئی اور اس کے ساتھ ساتھ ملک کے اہم اداروں کو بھی لپیٹ میں لینے کا آغاز کر دیا گیا۔ اب یہ معاملہ انتہائی سنگین ہو گیا ہے۔ کچھ دن پہلے پاک فوج کے ترجمان اور آئی ایس آئی کے سربراہ کو مشترکہ پریس کانفرنس میں بہت سے معاملات کی وضاحت کرنا پڑی۔ اس کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہوش کے ناخن لیے جاتے لیکن بدقسمتی سے سیاسی قیادت نے ایسا نہیں کیا۔

اب سانحہ وزیرآباد کے بعد عمران خان اور ان کے قریبی ساتھیوں نے جو بیانات دیے ہیں، اس میں جس طرح فوج کو ملوث کرنے کی کوشش کی ہے، اسے کسی طرح بھی درست طرزعمل اور مثبت سیاست قرار نہیں دیا جا سکتا۔ پی ٹی آئی کی قیادت کو یہ حقیقت تسلیم کر لینی چاہیے کہ پاکستان میں آئین ہے اور نظامِ انصاف موجود ہے۔ وزیرآباد میں عمران خان پر جو حملہ ہوا، اس کی تحقیقات جاری ہیں۔ اس واقعے کی اگر ایف آئی آر درج نہیں ہو رہی تو یقینی طور پر اس میں بھی کچھ قانونی پہلو ہوں گے۔

یہ ایسا معاملہ ہے کہ محض کسی کو ٹارگٹ کرنے کے لیے اس کا نام ایف آئی آر میں درج کرانا ایک غلط حکمت عملی ہے بلکہ اپنے کیس کو خراب کرنا ہے۔ واقعے کا ایک مبینہ ملزم اور اس کے مبینہ ساتھی پولیس حراست میں ہیں۔ اگر کوئی اور لوگ بھی شامل ہیں تو پولیس ان تک بھی بآسانی پہنچ جائے گی۔ عمران خان اور پی ٹی آئی کی قیادت کو اپنے کارکنوں کو پرامن رہنے کی تلقین کرنی چاہیے کیونکہ گھیراؤ جلاؤ سے معاملات زیادہ خراب ہو سکتے ہیں۔

کسی ریاست کا وجود اس وقت تک قائم رہتا ہے جب تک اس کی مسلح افواج مضبوط، مستعد اور جدید ہتھیاروں سے لیس ہے۔ پاکستان کی کسی ایک بھی سیاسی جماعت نے دہشت گردوں کے خلاف جنگ نہیں لڑی۔ سیاسی لیڈر ذہنی اور نظریاتی کنفیوژن کا شکار رہے ہیں اور یہ صورت حال اب تک برقرار چلی آ رہی ہے۔ ملک کی مذہبی سیاسی قیادت نے بھی اس حوالے سے کوئی واضح لائن اختیار نہیں کی۔ دہشت گردوں کے خلاف اگر جنگ لڑی ہے تو وہ پاک فوج اور ملک کے دیگر سیکیورٹی اداروں نے لڑی ہے۔

پاکستان کی کسی سیاست جماعت نے انتہاپسند نظریات کے مقابل بیانیہ بنانے کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی اپنے کارکنوں کی ایسی تربیت کی کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ ایسی صورت میں پی ٹی آئی کی قیادت سمیت ملک کی دیگر سیاسی قیادت کو خوداحتسابی کے عمل سے گزرنا چاہیے۔ یہ سیاسی رہنما خود کو جمہوریت کا چیمپئن سمجھتے ہیں، قانون کی سربلندی کا نعرہ لگاتے ہیں لیکن عملی طور پر ان کا کردار جمہوری اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔

پارٹی کے اندر لیڈر کی ڈکٹیٹرشپ قائم ہے۔ کوئی بھی سیاسی لیڈر اپنا جانشین تیار نہیں کرتا۔ ان کے سیاسی نظریات جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ وہ ملک کے سیکیورٹی اداروں کی ضرورت اور اہمیت کو اس گہرائی سے نہیں سمجھتے جتنا کہ انھیں سمجھنا چاہیے۔ پاکستان کی بقاء پاک فوج اور دیگر سیکیورٹی ادارے ہیں، ان اداروں میں تقسیم پیدا کرنے کی کوشش کرنا یا انھیں عوام میں متنازعہ بنا کر پیش کرنا حب الوطنی نہیں ہے۔ پی ٹی آئی کی قیادت ہو یا دیگر جماعتوں کی قیادت، سب کو اپنے اپنے پارٹی منشور پر توجہ دینی چاہیے۔

یہ حقیقت ہے کہ اگر ملک کی سیاسی قیادت ذہنی افلاس اور ذاتی مفادات کی اسیر نہ ہو تو ریاستی ادارے کسی طرح بھی سیاست میں مداخلت نہیں کر سکتے۔ پی ٹی آئی چار برس کے قریب اس ملک پر حکومتی کرتی رہی ہے۔ وہ دوبارہ بھی اقتدار میں آ سکتی ہے لیکن اس کے لیے مروجہ جمہوری اصولوں اور آئین کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان سخت قسم کے معاشی بحران کا شکار ہے، دہشت گردی کے خطرات منڈلا رہے ہیں، ایسی صورت میں سیاسی استحکام انتہائی ضروری اور لازم ہے۔
Load Next Story