ہدایت کار محبوب خان اور کے آصف آخری قسط
ایسی عظیم شخصیت انڈین سینما کو شاید ہی کوئی نصیب ہوگی
ہدایت کار محبوب خان اگر انڈین سینما کی آن بان تھے تو ہدایت کار کے آصف بھی انڈین فلم انڈسٹری کی شان تھے۔ ہدایت کار محبوب خان نے بے شمار سپرہٹ فلمیں بنا کر بین الاقوامی شہرت حاصل کی جب کہ ہدایت کار کے آصف نے چند ہی فلمیں بنائی تھیں، مگر ان فلموں کو بھی بڑی شہرت حاصل ہوئی اور ان کی ایک فلم ''مغل اعظم'' جو ہزاروں فلموں پر بھاری تھی، اس نے ہندوستان سینما کی نئی تاریخ رقم کی تھی۔
یہ فلم ساری دنیا میں ہندوستان کی پہچان بنی تھی۔ یہ برصغیر کی سب سے مہنگی اردو فلم تھی جو چودہ سال کے طویل عرصے تک تکمیل کے مراحل طے کرتی رہی۔ یہ فلم ہدایت کار کے آصف کا ایک خواب تھی اور یہ فلم اس کی زندگی کا مشن بن گئی تھی۔ کئی سرمایہ دار آئے، فلم میں سرمایہ لگاتے رہے اور فلم کی تکمیل میں دلچسپی لیتے رہے۔
کے آصف کبھی ہار نہ ماننے والے ایک اکھڑ طبیعت، ضدی مگر ذہین انسان تھے۔ انھیں اپنے خوابوں کو تعبیر سے رنگنے کا ہنر آتا تھا۔ ان کے سینے میں حوصلے کی ایک چٹان تھی جو ٹس سے مس نہ ہوتی تھی۔ کے آصف اپنے بچپن ہی سے ایک ایسا بچہ تھا جس کے بارے میں کہا جاسکتا ہے:
انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند
اور جن کا بچپن ہی ضد اور لاڈ و پیار میں گزرا تھا۔ 14 جون 1922 ہندوستان اتر پردیش کے علاقے اٹاوہ میں ایک مشہور ڈاکٹر فضل کریم کے گھر میں ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام آصف کریم رکھا گیا۔ گھر میں اچھی خاصی خوشحالی تھی اور آصف کریم کو بڑے ناز و نعم سے پالا گیا تھا۔ اس بچے کی ہر خواہش کو پورا کیا جاتا تھا، گھر میں آزادانہ ماحول تھا، آصف کریم کو بچپن ہی سے فلمیں دیکھنے کا شوق پیدا ہو گیا تھا۔
عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ یہ شوق بھی پروان چڑھتا گیا۔ ڈاکٹر فضل کریم چاہتے تھے کہ آصف کریم بھی ایک ڈاکٹر بنے مگر آصف کریم کو فلمی دنیا میں جانے سے دلچسپی تھی اور یہی دلچسپی آصف کریم کو ایک دن بمبئی لے آئی۔ بمبئی میں ایک دوست کی وساطت سے فلم اسٹوڈیوز میں آنا جانا شروع کردیا۔
سہراب مودی پروڈکشن میں جب پہلی بار کے آصف کی ملاقات ہوئی تو فلم ساز و ہدایت کار سہراب مودی نے ذہانت کو بھانپتے ہوئے اپنی پروڈکشن میں ملازمت دے دی۔ کریم آصف نے بڑی محنت اور جانفشانی سے اس پروڈکشن میں کام کرکے ہر شعبہ اور خاص طور پر ڈائریکشن کے شعبے میں بڑی جان کاری حاصل کرلی۔ اس دوران ان کے ایک کزن بھی فلم انڈسٹری میں آگئے اور انھوں نے اپنی ذاتی فلم کا آغاز کیا۔ فلم کا نام ''سوسائٹی'' رکھا۔
اس فلم میں کے آصف نے بحیثیت اسسٹنٹ ڈائریکٹر فلم کی تکمیل میں حصہ لیا۔ اسی دوران فلم کے کاروبار میں سرمایہ لگانے کے لیے انھیں ایک دوست میسر آگیا اور اس طرح بحیثیت ہدایت کار کے آصف نے اپنی پہلی فلم ''پھول'' کا آغاز کیا۔ اس فلم کے کہانی کار اور فلم ساز کے عبداللہ تھے۔ اسکرین پلے اور ہدایت کاری کی ذمے داری کے آصف کے سپرد تھی۔ اس فلم کے اداکاروں میں اس دور کے کئی مشہور اسٹیج آرٹسٹوں نے بھی کام کیا تھا۔
فلم کے مرکزی کرداروں میں ستارہ دیوی، وینا، ثریا، مظہر خان، پرتھوی راج، درگا کھوٹے اور آنی کے نام شامل تھے۔ فلم کے موسیقار غلام حیدر تھے جب کہ فلم کے نغمات کمال امروہوی نے لکھے تھے۔ یہ فلم 1945 میں ریلیز ہوئی تھی اور اپنے دور کی یہ ایک کامیاب فلم تھی۔ اس فلم کی کامیابی نے کے آصف کے حوصلے بڑھا دیے تھے۔ پھر انھوں نے اپنے پہلے فنانسر شیراز علی کلیم کے ساتھ اپنی دوسری فلم ''مغل اعظم'' کا اعلان کیا۔
یہاں میں ایک بات یہ بھی بتاتا چلوں کہ جب پہلی بار فلم ''مغل اعظم'' کی ابتدا کی گئی تو فلم میں شہنشاہ اکبر کا کردار چندر موہن شہزادہ سلیم کا کردار سپرو اور انارکلی کے کردار میں نرگس کا انتخاب کیا گیا تھا۔ لیکن چند ریلوں کی شوٹنگ کے بعد اداکار چندر موہن کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ فلم کی تکمیل رک جاتی ہے۔ پھر عرصے کے بعد کے آصف ہندوستان کے چند بڑے بڑے اخبار ات میں ''مغل اعظم'' کی انارکلی کے لیے ایک نیا چہرہ چاہیے کا اشتہار دیتے ہیں۔
ہزاروں لڑکیاں انٹرویو کے لیے آئیں اور ان میں سے دس لڑکیوں کا انتخاب کیا گیا تھا، لیکن کے آصف پھر بھی کسی نئے چہرے سے مطمئن نہیں ہوئے تھے۔ پھر فلم میں انارکلی کے لیے نوتن کے انکار کے بعد پھر نرگس کا انتخاب فائنل ہو گیا تھا۔ مگر جب اداکار چندر موہن کا دیہانت ہوا تو پھر کچھ عرصے کے بعد ''مغل اعظم'' کے لیے مشکلات پیدا ہوگئی تھیں مگر پھر اداکارہ مدھوبالا سے انارکلی کے کردار کے لیے بات ہوئی۔
مدھوبالا راضی ہوگئی تو فلم کی شوٹنگ کا دوبارہ آغاز کیا۔ فلم کے چار رائٹر تھے جن میں کمال امروہوی، وجاہت مرزا چنگیزی، امان اللہ اور احسان رضوی کے نام شامل تھے۔ فلم کے شاعر شکیل بدایونی اور موسیقار نوشاد تھے۔ فلم کے ایک گیت کے لیے شیش محل کا خوبصورت سیٹ لگایا گیا تھا جس کی لاگت پر کئی ملین روپے لگے تھے۔ مدھوبالا پر ایک گیت فلمایا گیا جس کے بول تھے:
پیار کیا تو ڈرنا کیا،پیار کیا کوئی چوری نہیں کی
چھپ چھپ آہیں بھرنا کیا
اس گیت کے علاوہ فلم کے تمام گیتوں کو بڑی شہرت حاصل ہوئی تھی۔ پہلے اس فلم کا آغاز بلیک اینڈ وائٹ میں شروع کیا گیا تھا بعد میں پھر رنگین پرنٹ تیار کیے گئے تھے۔ فلم میں دلیپ کمار مدھوبالا اور پرتھوی راج کپور کی جاندار اداکاری اور فلم کے مکالموں نے فلم میں چار چاند لگا دیے تھے۔ یہ فلم بمبئی کے مشہور فلم تھیٹر مراٹھا مندر میں ریلیز ہوئی تھی اور اس فلم کے پرنٹ ایک ہاتھی پر لائے گئے تھے، اس ہاتھی کو سجا بنا کر مراٹھا مندر تھیٹر پہنچایا گیا۔
اس فلم کو فلم بینوں نے پچاس پچاس بار دیکھا تھا اور پھر بھی فلم بینوں کے دل نہیں بھرتے تھے۔ مراٹھا مندر سینما میں فلم کا عظیم الشان پریمیئر کیا گیا تھا۔ اس پریمیئر شو میں انڈین فلم انڈسٹری کے تمام چیدہ چیدہ نامور فلمی ستاروں اور فلمی شخصیات نے شرکت کی تھی۔ مگر اگر شرکت نہیں کی تھی تو دلیپ کمار اور مدھوبالا نے نہیں کی تھی۔ مشہور ہیرو دیوآنند نے اپنی بیوی کے ساتھ اس پریمیئر میں شرکت کی تھی اور خاص طور پر مشہور اداکارہ اور گلوکارہ ثریا نے بھی اس فلم کے پریمیئر میں شرکت کی تھی۔ جو دیوآنند کی پہلی محبت تھی۔
''مغل اعظم'' ایک تاریخ ساز فلم تھی اور ہمیشہ رہے گی۔ ''مغل اعظم'' کے بعد کے آصف نے ''لیلیٰ مجنوں'' کی مشہور رومانوی داستان کو فلمانے کا آغاز کیا تھا۔ ابتدا میں فلم کا نام قیس (جو مجنوں کا اصلی نام تھا) اور لیلیٰ رکھا گیا تھا۔ پھر جب فلم کی شوٹنگ کا سلسلہ شروع ہوا تو اس کا نام ''لَو اینڈ گاڈ'' رکھ دیا گیا تھا۔
اس فلم میں پہلے قیس (مجنوں) کا کردار اداکار گرودت کو دیا گیا تھا اور نمی لیلیٰ کے روپ میں منتخب کی گئی تھی لیکن فلم کی شوٹنگ کے ابتدائی دنوں میں اداکار گرودت کا دیہانت (انتقال) ہو گیا تو پھر ہیرو کے طور پر اداکار سنجیو کمار کو نمی کے ساتھ کاسٹ کیا گیا، دیگر آرٹسٹوں میں پران جینت، آغا اور نذیر حسین کے نام شامل تھے۔جب فلم ''لَو اینڈ گاڈ'' ریلیز ہوئی تھی تو فلم کا ہیرو سنجیو کمار بھی اس دنیا سے رخصت ہو چکا تھا۔
یہ تیسری کے آصف کی فلم تھی جسے یکم اگست 1986 میں ریلیز کیا گیا تھا۔ کے آصف نے تین شادیاں کی تھیں، ایک بیوی اداکارہ ستارہ دیوی تھی، دوسری بیوی دلیپ کمار کی بہن اختر تھی اور تیسری شادی کے آصف نے اداکارہ نگار سلطانہ کے ساتھ کی تھی۔ کے آصف نے فلمی دنیا میں چند ہی فلمیں بنائیں مگر جو فلم بھی بنائی اس فلم نے ایک داستان رقم کردی تھی اور ''مغل اعظم'' جیسی بے مثال اور لافانی فلم بنا کر کے آصف انڈین فلم انڈسٹری کا بے تاج بادشاہ کہلائے جانے کا مستحق تھا۔
ایسی عظیم شخصیت انڈین سینما کو شاید ہی کوئی نصیب ہوگی۔ کے آصف نے فلم انڈسٹری میں کئی بڑے بڑے معرکے سر کیے مگر پھر بھی اس کو عمر بڑی نہ مل سکی تھی۔ کے آصف کو صرف اڑتالیس برس ہی زندگی کے ملے اور پھر یہ نام ور ہدایت کار 9 مارچ 1971 میں ایک دن چپ چاپ اس دنیا سے رخصت ہو گیا تھا۔ مگر ایک ایسی تاریخ رقم کر گیا کہ جس کی وجہ سے اس کا نام ہندوستان کی فلم انڈسٹری میں ہمیشہ کہکشاں کی طرح جگمگاتا رہے گا۔
یہ فلم ساری دنیا میں ہندوستان کی پہچان بنی تھی۔ یہ برصغیر کی سب سے مہنگی اردو فلم تھی جو چودہ سال کے طویل عرصے تک تکمیل کے مراحل طے کرتی رہی۔ یہ فلم ہدایت کار کے آصف کا ایک خواب تھی اور یہ فلم اس کی زندگی کا مشن بن گئی تھی۔ کئی سرمایہ دار آئے، فلم میں سرمایہ لگاتے رہے اور فلم کی تکمیل میں دلچسپی لیتے رہے۔
کے آصف کبھی ہار نہ ماننے والے ایک اکھڑ طبیعت، ضدی مگر ذہین انسان تھے۔ انھیں اپنے خوابوں کو تعبیر سے رنگنے کا ہنر آتا تھا۔ ان کے سینے میں حوصلے کی ایک چٹان تھی جو ٹس سے مس نہ ہوتی تھی۔ کے آصف اپنے بچپن ہی سے ایک ایسا بچہ تھا جس کے بارے میں کہا جاسکتا ہے:
انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند
اور جن کا بچپن ہی ضد اور لاڈ و پیار میں گزرا تھا۔ 14 جون 1922 ہندوستان اتر پردیش کے علاقے اٹاوہ میں ایک مشہور ڈاکٹر فضل کریم کے گھر میں ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام آصف کریم رکھا گیا۔ گھر میں اچھی خاصی خوشحالی تھی اور آصف کریم کو بڑے ناز و نعم سے پالا گیا تھا۔ اس بچے کی ہر خواہش کو پورا کیا جاتا تھا، گھر میں آزادانہ ماحول تھا، آصف کریم کو بچپن ہی سے فلمیں دیکھنے کا شوق پیدا ہو گیا تھا۔
عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ یہ شوق بھی پروان چڑھتا گیا۔ ڈاکٹر فضل کریم چاہتے تھے کہ آصف کریم بھی ایک ڈاکٹر بنے مگر آصف کریم کو فلمی دنیا میں جانے سے دلچسپی تھی اور یہی دلچسپی آصف کریم کو ایک دن بمبئی لے آئی۔ بمبئی میں ایک دوست کی وساطت سے فلم اسٹوڈیوز میں آنا جانا شروع کردیا۔
سہراب مودی پروڈکشن میں جب پہلی بار کے آصف کی ملاقات ہوئی تو فلم ساز و ہدایت کار سہراب مودی نے ذہانت کو بھانپتے ہوئے اپنی پروڈکشن میں ملازمت دے دی۔ کریم آصف نے بڑی محنت اور جانفشانی سے اس پروڈکشن میں کام کرکے ہر شعبہ اور خاص طور پر ڈائریکشن کے شعبے میں بڑی جان کاری حاصل کرلی۔ اس دوران ان کے ایک کزن بھی فلم انڈسٹری میں آگئے اور انھوں نے اپنی ذاتی فلم کا آغاز کیا۔ فلم کا نام ''سوسائٹی'' رکھا۔
اس فلم میں کے آصف نے بحیثیت اسسٹنٹ ڈائریکٹر فلم کی تکمیل میں حصہ لیا۔ اسی دوران فلم کے کاروبار میں سرمایہ لگانے کے لیے انھیں ایک دوست میسر آگیا اور اس طرح بحیثیت ہدایت کار کے آصف نے اپنی پہلی فلم ''پھول'' کا آغاز کیا۔ اس فلم کے کہانی کار اور فلم ساز کے عبداللہ تھے۔ اسکرین پلے اور ہدایت کاری کی ذمے داری کے آصف کے سپرد تھی۔ اس فلم کے اداکاروں میں اس دور کے کئی مشہور اسٹیج آرٹسٹوں نے بھی کام کیا تھا۔
فلم کے مرکزی کرداروں میں ستارہ دیوی، وینا، ثریا، مظہر خان، پرتھوی راج، درگا کھوٹے اور آنی کے نام شامل تھے۔ فلم کے موسیقار غلام حیدر تھے جب کہ فلم کے نغمات کمال امروہوی نے لکھے تھے۔ یہ فلم 1945 میں ریلیز ہوئی تھی اور اپنے دور کی یہ ایک کامیاب فلم تھی۔ اس فلم کی کامیابی نے کے آصف کے حوصلے بڑھا دیے تھے۔ پھر انھوں نے اپنے پہلے فنانسر شیراز علی کلیم کے ساتھ اپنی دوسری فلم ''مغل اعظم'' کا اعلان کیا۔
یہاں میں ایک بات یہ بھی بتاتا چلوں کہ جب پہلی بار فلم ''مغل اعظم'' کی ابتدا کی گئی تو فلم میں شہنشاہ اکبر کا کردار چندر موہن شہزادہ سلیم کا کردار سپرو اور انارکلی کے کردار میں نرگس کا انتخاب کیا گیا تھا۔ لیکن چند ریلوں کی شوٹنگ کے بعد اداکار چندر موہن کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ فلم کی تکمیل رک جاتی ہے۔ پھر عرصے کے بعد کے آصف ہندوستان کے چند بڑے بڑے اخبار ات میں ''مغل اعظم'' کی انارکلی کے لیے ایک نیا چہرہ چاہیے کا اشتہار دیتے ہیں۔
ہزاروں لڑکیاں انٹرویو کے لیے آئیں اور ان میں سے دس لڑکیوں کا انتخاب کیا گیا تھا، لیکن کے آصف پھر بھی کسی نئے چہرے سے مطمئن نہیں ہوئے تھے۔ پھر فلم میں انارکلی کے لیے نوتن کے انکار کے بعد پھر نرگس کا انتخاب فائنل ہو گیا تھا۔ مگر جب اداکار چندر موہن کا دیہانت ہوا تو پھر کچھ عرصے کے بعد ''مغل اعظم'' کے لیے مشکلات پیدا ہوگئی تھیں مگر پھر اداکارہ مدھوبالا سے انارکلی کے کردار کے لیے بات ہوئی۔
مدھوبالا راضی ہوگئی تو فلم کی شوٹنگ کا دوبارہ آغاز کیا۔ فلم کے چار رائٹر تھے جن میں کمال امروہوی، وجاہت مرزا چنگیزی، امان اللہ اور احسان رضوی کے نام شامل تھے۔ فلم کے شاعر شکیل بدایونی اور موسیقار نوشاد تھے۔ فلم کے ایک گیت کے لیے شیش محل کا خوبصورت سیٹ لگایا گیا تھا جس کی لاگت پر کئی ملین روپے لگے تھے۔ مدھوبالا پر ایک گیت فلمایا گیا جس کے بول تھے:
پیار کیا تو ڈرنا کیا،پیار کیا کوئی چوری نہیں کی
چھپ چھپ آہیں بھرنا کیا
اس گیت کے علاوہ فلم کے تمام گیتوں کو بڑی شہرت حاصل ہوئی تھی۔ پہلے اس فلم کا آغاز بلیک اینڈ وائٹ میں شروع کیا گیا تھا بعد میں پھر رنگین پرنٹ تیار کیے گئے تھے۔ فلم میں دلیپ کمار مدھوبالا اور پرتھوی راج کپور کی جاندار اداکاری اور فلم کے مکالموں نے فلم میں چار چاند لگا دیے تھے۔ یہ فلم بمبئی کے مشہور فلم تھیٹر مراٹھا مندر میں ریلیز ہوئی تھی اور اس فلم کے پرنٹ ایک ہاتھی پر لائے گئے تھے، اس ہاتھی کو سجا بنا کر مراٹھا مندر تھیٹر پہنچایا گیا۔
اس فلم کو فلم بینوں نے پچاس پچاس بار دیکھا تھا اور پھر بھی فلم بینوں کے دل نہیں بھرتے تھے۔ مراٹھا مندر سینما میں فلم کا عظیم الشان پریمیئر کیا گیا تھا۔ اس پریمیئر شو میں انڈین فلم انڈسٹری کے تمام چیدہ چیدہ نامور فلمی ستاروں اور فلمی شخصیات نے شرکت کی تھی۔ مگر اگر شرکت نہیں کی تھی تو دلیپ کمار اور مدھوبالا نے نہیں کی تھی۔ مشہور ہیرو دیوآنند نے اپنی بیوی کے ساتھ اس پریمیئر میں شرکت کی تھی اور خاص طور پر مشہور اداکارہ اور گلوکارہ ثریا نے بھی اس فلم کے پریمیئر میں شرکت کی تھی۔ جو دیوآنند کی پہلی محبت تھی۔
''مغل اعظم'' ایک تاریخ ساز فلم تھی اور ہمیشہ رہے گی۔ ''مغل اعظم'' کے بعد کے آصف نے ''لیلیٰ مجنوں'' کی مشہور رومانوی داستان کو فلمانے کا آغاز کیا تھا۔ ابتدا میں فلم کا نام قیس (جو مجنوں کا اصلی نام تھا) اور لیلیٰ رکھا گیا تھا۔ پھر جب فلم کی شوٹنگ کا سلسلہ شروع ہوا تو اس کا نام ''لَو اینڈ گاڈ'' رکھ دیا گیا تھا۔
اس فلم میں پہلے قیس (مجنوں) کا کردار اداکار گرودت کو دیا گیا تھا اور نمی لیلیٰ کے روپ میں منتخب کی گئی تھی لیکن فلم کی شوٹنگ کے ابتدائی دنوں میں اداکار گرودت کا دیہانت (انتقال) ہو گیا تو پھر ہیرو کے طور پر اداکار سنجیو کمار کو نمی کے ساتھ کاسٹ کیا گیا، دیگر آرٹسٹوں میں پران جینت، آغا اور نذیر حسین کے نام شامل تھے۔جب فلم ''لَو اینڈ گاڈ'' ریلیز ہوئی تھی تو فلم کا ہیرو سنجیو کمار بھی اس دنیا سے رخصت ہو چکا تھا۔
یہ تیسری کے آصف کی فلم تھی جسے یکم اگست 1986 میں ریلیز کیا گیا تھا۔ کے آصف نے تین شادیاں کی تھیں، ایک بیوی اداکارہ ستارہ دیوی تھی، دوسری بیوی دلیپ کمار کی بہن اختر تھی اور تیسری شادی کے آصف نے اداکارہ نگار سلطانہ کے ساتھ کی تھی۔ کے آصف نے فلمی دنیا میں چند ہی فلمیں بنائیں مگر جو فلم بھی بنائی اس فلم نے ایک داستان رقم کردی تھی اور ''مغل اعظم'' جیسی بے مثال اور لافانی فلم بنا کر کے آصف انڈین فلم انڈسٹری کا بے تاج بادشاہ کہلائے جانے کا مستحق تھا۔
ایسی عظیم شخصیت انڈین سینما کو شاید ہی کوئی نصیب ہوگی۔ کے آصف نے فلم انڈسٹری میں کئی بڑے بڑے معرکے سر کیے مگر پھر بھی اس کو عمر بڑی نہ مل سکی تھی۔ کے آصف کو صرف اڑتالیس برس ہی زندگی کے ملے اور پھر یہ نام ور ہدایت کار 9 مارچ 1971 میں ایک دن چپ چاپ اس دنیا سے رخصت ہو گیا تھا۔ مگر ایک ایسی تاریخ رقم کر گیا کہ جس کی وجہ سے اس کا نام ہندوستان کی فلم انڈسٹری میں ہمیشہ کہکشاں کی طرح جگمگاتا رہے گا۔