سونے کی بڑھتی ہوئی قیمتیں…
ان دنوں عالمی صورت حال کی وجہ سے لوگ سونے کو محفوظ سرمایہ شمار کر رہے ہیں
آج کل سونے کی قیمت دنیا بھر میں ریکارڈ سطح پر پہنچ چکی ہے۔ پاکستان میں سونا مسلسل مہنگا ہورہا ہے ، عام آدمی کے لیے اس کا حصول ممکن نہیں رہا ۔سونے کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کا جائزہ بھی انتہائی دلچسپ ہے۔ چودھویں صدی کی پہلی دہائی میں بر صغیر میں سونے کا بھائو دس روپے تولہ تھا ۔(یہ علائو الدین خلجی کا دور ہے )۔
انیسویں صدی کے وسط تک سونے کا بھائو ساٹھ روپے تولہ رہا، 1970 میں 125 روپے تولہ اور پھر اس کی قیمت میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا۔گزشتہ صدی کے آخری برسوں میں سونے کی قیمت ایک بار پھر گری لیکن موجودہ صدی کے آغاز ہی سے سونے کی قیمت میں بتدریج اضافہ ہونے لگا اور اب اس کا ریٹ تمام حدیں پھلانگ گیا ہے۔
ان دنوں عالمی صورت حال کی وجہ سے لوگ سونے کو محفوظ سرمایہ شمار کر رہے ہیں۔ امریکا سونے کے محفوظ ذخائر میں اضافہ کر رہا ہے۔ یہ اضافہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ اگر مستقبل میں ڈالر کے بجائے'' شرح تبادلہ'' سونا طے پاجائے تو امریکا کے پاس وافر ذخائر موجود ہوں۔
دو سال پہلے کوالالمپور میںOICکے سربراہ اجلاس سے ملائشیا کے سابق صدر مہاتیر محمد نے صدارتی خطاب کے دوران بڑے پر زور انداز میں یہ تجویز پیش کی تھی کہ اگر اسلامی دنیا مستقبل میں اپنے اقتدار اعلیٰ کا تحفظ اور امریکی اثرات کو ختم کرنے کی خواہش مند ہے تو تمام اسلامی ممالک کو دنیا بھر سے تجارت کرتے ہوئے ڈالر کے بجائے سونے کو''شرح تبادلہ'' بنانا ہو گا۔
ہوسکتا ہے کہ امریکا کی اقتصادی پالیسی کے ماہرین نے مہاتیر محمد کی اس بات سے لیڈ "LEAD"لیتے ہوئے پیش بندی شروع کی تا کہ شرح تبادلہ کی تبدیلی کی صورت میں بھی عالمی سیاست اور معیشت پر امریکا حاوی رہ سکے ۔
سونے کے تجزیہ سے حیران کن خصوصیات سامنے آئی ہیں۔ اسے دنیا کی بھاری ترین دھات شمار کیا جاتا ہے۔ اس سے برقی رو بڑی تیزی سے گزرتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ سونے کو الیکٹرانک کے ساز و سامان کی تیاری میں استعمال کیا جاتا ہے۔ کمپیوٹر، ٹیلی فون، سیلولر فون کے آلات اور بجلی کے بلبوں میں بھی سونے کی باریک تار کو استعمال میں لایا جاتا ہے۔
سونے کو خلائی جہازوں اور مصنوعی سیاروں کے بیرونی خول میں سورج کے تابکاری اثرات سے محفوظ کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ایک تحقیق بتاتی ہے کہ ایک اونس سونے کو پھیلا کر پچاس میل لمبی تار بنائی جا سکتی ہے۔ سونے کی باریک تہوں کا اندازہ اس بات سے لگایاجا سکتا ہے کہ سونے کی ایک سو باریک تہوں کو اگر اوپر تلے رکھا جائے تو اخبار کے ایک صفحے جتنی موٹائی حاصل ہوگی۔
وسطیٰ ایشیا کی ریاستوں میں دنیا کے سب سے زیادہ سونے کے ذخائر ہیں۔خاص طور پر کر غستان اور ازبکستان کا شمار سونا پیدا کرنے والے دنیا کے بڑے ملکوں میں ہوتا ہے۔ روس اپنی کانوں سے سالانہ تین سو ٹن سونا حاصل کرتا ہے۔ روس کے علاقے سائیبریا میں بھی اب تک سونے کے وسیع ذخائر دریافت ہوئے ہیں۔
سونے کے معیار کو ماپنے کے پیمانے کو "کیرٹ(CARAT)"کہا جاتا ہے۔ 24کیرٹ کے سونے کو اصلی اور خالص تسلیم کیا جاتا ہے۔ 22کیرٹ سونے کو 91.67فی صد اور 18کیرٹ سونے کو 75فی صد اصلی شمار کیا جاتا ہے۔14کیرٹ میں 58.3فی صد سونا ہوتا ہے۔یورپی ممالک کے زیورات میں عمومی طور پر 14سے18کیرٹ کا سونا استعمال کیا جاتا ہے۔ امریکا میں 10سے14کیرٹ جب کہ پاکستان، بھارت میں روایتی طور پر22کیرٹ کے سونے سے زیورات تیار کیے جاتے ہیں۔
قابل غور بات یہ ہے کہ ہم 22کیرٹ کے بیش قیمت سونے کے زیورات آخر کیوں استعما ل کرتے ہیں؟ اس قدر قیمتی سونے کو خریدنے پر کثیر سامایہ کیوں خرچ کیا جاتا ہے اور چند دن استعمال کے بعد اسے محفوظ رکھنے کے لیے کتنے جتن کرنے اور پریشانیاں اٹھانی پڑتی ہیں!
سونے کے زیورات بنانے کے عمل میں بھی سونے کی ایک مقدار سنار کی بھٹی کی نذر ہو جاتی ہے جس سے عظیم قومی سرمایے کا نقصان بھی ہوتا ہے۔اگر یہی سونا حکومت کے پاس محفوظ رہے تو قومی خزانہ اور معیشت کو استحکام حاصل ہو گا۔
کیا یہ ممکن ہے کہ ہم 22کیرٹ سونے کے زیورات بنانے کے بجائےImitation زیورات کا رواج عام کریں۔ سونے کے قیمتی زیورات چند دن پہننے کے بعد اہم انھیں بینکوں کے لاکرز میں محفوظ کر دیتے ہیں یا گھروں میں خفیہ جگہ رکھ کر مسلسل ذہنی دبائو میں رہتے ہیں۔ اس طرح ہماری معاشرت میں ہر گھر ایک کثیر رقم سونے کے زیورات کی شکل میں سرمایہ منجمند کر رہا ہے۔
اگر یہ سرمایہ قومی ترقی کے کاموں میں لگایا جائے تو ملکی معیشت زیادہ متحرک ہو سکتی ہے۔سونے کے زیورات سے متعلق ہماری نفسیات اور سماجی رویے میں تبدیلی ضروری ہے۔ اس عمل کو اگر بڑھانے میں پارلیمنٹ، عدلیہ اور میڈیا انتہائی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
انیسویں صدی کے وسط تک سونے کا بھائو ساٹھ روپے تولہ رہا، 1970 میں 125 روپے تولہ اور پھر اس کی قیمت میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا۔گزشتہ صدی کے آخری برسوں میں سونے کی قیمت ایک بار پھر گری لیکن موجودہ صدی کے آغاز ہی سے سونے کی قیمت میں بتدریج اضافہ ہونے لگا اور اب اس کا ریٹ تمام حدیں پھلانگ گیا ہے۔
ان دنوں عالمی صورت حال کی وجہ سے لوگ سونے کو محفوظ سرمایہ شمار کر رہے ہیں۔ امریکا سونے کے محفوظ ذخائر میں اضافہ کر رہا ہے۔ یہ اضافہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ اگر مستقبل میں ڈالر کے بجائے'' شرح تبادلہ'' سونا طے پاجائے تو امریکا کے پاس وافر ذخائر موجود ہوں۔
دو سال پہلے کوالالمپور میںOICکے سربراہ اجلاس سے ملائشیا کے سابق صدر مہاتیر محمد نے صدارتی خطاب کے دوران بڑے پر زور انداز میں یہ تجویز پیش کی تھی کہ اگر اسلامی دنیا مستقبل میں اپنے اقتدار اعلیٰ کا تحفظ اور امریکی اثرات کو ختم کرنے کی خواہش مند ہے تو تمام اسلامی ممالک کو دنیا بھر سے تجارت کرتے ہوئے ڈالر کے بجائے سونے کو''شرح تبادلہ'' بنانا ہو گا۔
ہوسکتا ہے کہ امریکا کی اقتصادی پالیسی کے ماہرین نے مہاتیر محمد کی اس بات سے لیڈ "LEAD"لیتے ہوئے پیش بندی شروع کی تا کہ شرح تبادلہ کی تبدیلی کی صورت میں بھی عالمی سیاست اور معیشت پر امریکا حاوی رہ سکے ۔
سونے کے تجزیہ سے حیران کن خصوصیات سامنے آئی ہیں۔ اسے دنیا کی بھاری ترین دھات شمار کیا جاتا ہے۔ اس سے برقی رو بڑی تیزی سے گزرتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ سونے کو الیکٹرانک کے ساز و سامان کی تیاری میں استعمال کیا جاتا ہے۔ کمپیوٹر، ٹیلی فون، سیلولر فون کے آلات اور بجلی کے بلبوں میں بھی سونے کی باریک تار کو استعمال میں لایا جاتا ہے۔
سونے کو خلائی جہازوں اور مصنوعی سیاروں کے بیرونی خول میں سورج کے تابکاری اثرات سے محفوظ کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ایک تحقیق بتاتی ہے کہ ایک اونس سونے کو پھیلا کر پچاس میل لمبی تار بنائی جا سکتی ہے۔ سونے کی باریک تہوں کا اندازہ اس بات سے لگایاجا سکتا ہے کہ سونے کی ایک سو باریک تہوں کو اگر اوپر تلے رکھا جائے تو اخبار کے ایک صفحے جتنی موٹائی حاصل ہوگی۔
وسطیٰ ایشیا کی ریاستوں میں دنیا کے سب سے زیادہ سونے کے ذخائر ہیں۔خاص طور پر کر غستان اور ازبکستان کا شمار سونا پیدا کرنے والے دنیا کے بڑے ملکوں میں ہوتا ہے۔ روس اپنی کانوں سے سالانہ تین سو ٹن سونا حاصل کرتا ہے۔ روس کے علاقے سائیبریا میں بھی اب تک سونے کے وسیع ذخائر دریافت ہوئے ہیں۔
سونے کے معیار کو ماپنے کے پیمانے کو "کیرٹ(CARAT)"کہا جاتا ہے۔ 24کیرٹ کے سونے کو اصلی اور خالص تسلیم کیا جاتا ہے۔ 22کیرٹ سونے کو 91.67فی صد اور 18کیرٹ سونے کو 75فی صد اصلی شمار کیا جاتا ہے۔14کیرٹ میں 58.3فی صد سونا ہوتا ہے۔یورپی ممالک کے زیورات میں عمومی طور پر 14سے18کیرٹ کا سونا استعمال کیا جاتا ہے۔ امریکا میں 10سے14کیرٹ جب کہ پاکستان، بھارت میں روایتی طور پر22کیرٹ کے سونے سے زیورات تیار کیے جاتے ہیں۔
قابل غور بات یہ ہے کہ ہم 22کیرٹ کے بیش قیمت سونے کے زیورات آخر کیوں استعما ل کرتے ہیں؟ اس قدر قیمتی سونے کو خریدنے پر کثیر سامایہ کیوں خرچ کیا جاتا ہے اور چند دن استعمال کے بعد اسے محفوظ رکھنے کے لیے کتنے جتن کرنے اور پریشانیاں اٹھانی پڑتی ہیں!
سونے کے زیورات بنانے کے عمل میں بھی سونے کی ایک مقدار سنار کی بھٹی کی نذر ہو جاتی ہے جس سے عظیم قومی سرمایے کا نقصان بھی ہوتا ہے۔اگر یہی سونا حکومت کے پاس محفوظ رہے تو قومی خزانہ اور معیشت کو استحکام حاصل ہو گا۔
کیا یہ ممکن ہے کہ ہم 22کیرٹ سونے کے زیورات بنانے کے بجائےImitation زیورات کا رواج عام کریں۔ سونے کے قیمتی زیورات چند دن پہننے کے بعد اہم انھیں بینکوں کے لاکرز میں محفوظ کر دیتے ہیں یا گھروں میں خفیہ جگہ رکھ کر مسلسل ذہنی دبائو میں رہتے ہیں۔ اس طرح ہماری معاشرت میں ہر گھر ایک کثیر رقم سونے کے زیورات کی شکل میں سرمایہ منجمند کر رہا ہے۔
اگر یہ سرمایہ قومی ترقی کے کاموں میں لگایا جائے تو ملکی معیشت زیادہ متحرک ہو سکتی ہے۔سونے کے زیورات سے متعلق ہماری نفسیات اور سماجی رویے میں تبدیلی ضروری ہے۔ اس عمل کو اگر بڑھانے میں پارلیمنٹ، عدلیہ اور میڈیا انتہائی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔