منچھر جھیل میں ملک کا پہلا ’بوٹ اسکول‘ قائم
تیرتے ہوئے گاؤں کے بچوں کے لیے کشتی میں ہی اسکول قائم کردیا
سندھ کے سماجی ورکر اور تعلیم کے فروغ کے لیے کوشاں ٹیچر نے منچھر جھیل میں تعلیم سے محروم کمیونٹی کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے لیے ملک کا پہلا "بوٹ اسکول" قائم کردیا ہے۔
سیہون سے تعلق رکھنے والے پرعزم استاد اور 110 اینوویٹ انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے روح رواں ساجد بھٹو نے منچھر جھیل میں تیرتے ہوئے گاؤں کے بچوں کے لیے کشتی میں ہی اسکول قائم کردیا ہے۔
ساجد بھٹو کے مطابق سیلاب کی تباہ کاریوں کے دوران ریلیف کے کاموں میں منچھرجھیل کے بچوں نے تعلیم کے حصول میں دلچسپی کا اظہار کیا۔ منچھر جھیل میں 40 سے زائد گھرانے کشتیوں پر آباد گھرانے صدیوں سے مقیم ہیں جن کے بچوں نے کبھی اسکول کی شکل نہیں دیکھی۔
انہوں نے کہا کہ یہ کمیونٹی جھیل میں شکار کے سیزن اور پانی کی سطح میں ردوبدل کے ساتھ ہی اپنی جگہ تبدیل کرتے رہتے ہیں تاہم کبھی بھی خشکی پر نہیں رہتے اس لیے ان کے بچوں کیلیے روایتی اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنا ممکن نہیں۔
ان کا کہنا تھا تین سو کے لگ بھگ نفوس پر مشتمل اس تیرتے ہوئے گاؤں میں 60 بچے 15 سال اور اس سے کم عمر کے ہیں جبکہ 70سے 90کے لگ بھگ بچے جوان ہوچکے ہیں جو تمام کے تمام تعلیم سے محروم ہیں۔
ساجد بھٹو نے بتایا کہ اس آبادی کے بڑی عمر کے افراد بھی ناخواندہ ہیں اور موبائل فون نمبر بھی ہندسوں کی بناوٹ کے لحاظ سے یاد رکھتے ہیں۔ یہ پاکستان کی واحد کمیونٹی ہے جو اکیسویں صدی میں بھی مکمل طو رپر ناخواندہ ہے اور ترقی کی دوڑ میں کہیں پیچھے رہ گئی ہے۔
ساجد بھٹو نے بتایا کہ انہوں نے کم عمر بچوں کے لیے پری اسکول تعلیم کا بندوبست کیا اور کمیونٹی کے ایک فرد کی ہی کشتی کرائے پر لے کر اس میں تعلیم کا سلسلہ شروع کیا ہے جبکہ ایک استاد مقرر کیا ہے جو انہیں اردو انگریزی حروف تجہی اور پری اسکول کی سطح کی کتابوں کے ذریعے ابتدائی تعلیم دینے کے لیے روز ایک چھوٹی کشتی سے سفر کرکے بوٹ اسکول میں تین سے چار گھنٹے تدریس کے فرائض انجام دیتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اپنی نوعیت کے اس منفرد اسکول میں کلاس کا آغاز 24اکتوبر سے کیا گیا ہے۔ ساجد بھٹونے بتایا کہ پری اسکول کی تعلیم کا مرحلہ مکمل ہونے پر ان بچوں کی رجسٹریشن نزدیکی سرکاری اسکول میں کرائی جائیگی تاکہ ان کی اسناد کا مسئلہ حل ہوسکے جبکہ سالانہ بنیادوں پر محکمہ تعلیم کے تحت اسکول میں ہونے والے امتحان میں بھی بٹھایا جائے گا۔
ساجد بھٹو نے کہا کہ انہوں نے اس کمیونٹی کے 60 بچوں کو اس سال پری اسکول تعلیم دینے کا ہدف مقررر کیا ہے جس کے لیے فلاحی انجمنوں اور سندھ حکومت کا اشتراک درکار ہے۔
فلوٹنگ اسکول چلانے میں درپیش مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے ساجد بھٹو نے کہا کہ جس کشتی میں اسکول کھولا گیا وہ دراصل اسی کمیونٹی کے ایک فرد کا گھر ہے جو تین گھنٹوں کے لیے اسکول بن جاتا ہے بچوں ک تعداد بڑھنے کی وجہ سے کشتی کرائے پر دینے والے گھرانے کی مشکلات بڑھ رہی ہیں اس لیے وہ ایک علیحدہ کشتی مخصوص کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں اسی طرح اساتذہ کی آمدورفت کے لیے بھی ایک چھوٹی کشتی خریدنے کے لیے وسائل جمع کررہے ہیں۔
ساجد بھٹو کے مطابق وہ بڑی عمر کے بچوں اور بچیوں میں تکنیکی تعلیم اور تربیت کے لیے کورس مرتب کررہے ہیں تاکہ بڑی عمر کے بچوں کو خواندہ بنانے کے ساتھ روزگار کے قابل بنایا جاسکے۔ انہوں نے بتایا کہ سیہون اور اس کے اردگرد سیلاب سے متاثرہ کمیونٹیز میں تعلیم کا انفرااسٹرکچر تباہ ہونے کے بعد عارضی اسکولوں کے ذریعے بچوں کو تعلیم فراہم کررہے ہیں اور اس مقصد کے لیے شاہ حسن ولیج، عبدالرحمن ملاح ولیج میں عارضی اسکول چلارہے ہیں۔
سیہون سے تعلق رکھنے والے پرعزم استاد اور 110 اینوویٹ انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے روح رواں ساجد بھٹو نے منچھر جھیل میں تیرتے ہوئے گاؤں کے بچوں کے لیے کشتی میں ہی اسکول قائم کردیا ہے۔
ساجد بھٹو کے مطابق سیلاب کی تباہ کاریوں کے دوران ریلیف کے کاموں میں منچھرجھیل کے بچوں نے تعلیم کے حصول میں دلچسپی کا اظہار کیا۔ منچھر جھیل میں 40 سے زائد گھرانے کشتیوں پر آباد گھرانے صدیوں سے مقیم ہیں جن کے بچوں نے کبھی اسکول کی شکل نہیں دیکھی۔
انہوں نے کہا کہ یہ کمیونٹی جھیل میں شکار کے سیزن اور پانی کی سطح میں ردوبدل کے ساتھ ہی اپنی جگہ تبدیل کرتے رہتے ہیں تاہم کبھی بھی خشکی پر نہیں رہتے اس لیے ان کے بچوں کیلیے روایتی اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنا ممکن نہیں۔
ان کا کہنا تھا تین سو کے لگ بھگ نفوس پر مشتمل اس تیرتے ہوئے گاؤں میں 60 بچے 15 سال اور اس سے کم عمر کے ہیں جبکہ 70سے 90کے لگ بھگ بچے جوان ہوچکے ہیں جو تمام کے تمام تعلیم سے محروم ہیں۔
ساجد بھٹو نے بتایا کہ اس آبادی کے بڑی عمر کے افراد بھی ناخواندہ ہیں اور موبائل فون نمبر بھی ہندسوں کی بناوٹ کے لحاظ سے یاد رکھتے ہیں۔ یہ پاکستان کی واحد کمیونٹی ہے جو اکیسویں صدی میں بھی مکمل طو رپر ناخواندہ ہے اور ترقی کی دوڑ میں کہیں پیچھے رہ گئی ہے۔
ساجد بھٹو نے بتایا کہ انہوں نے کم عمر بچوں کے لیے پری اسکول تعلیم کا بندوبست کیا اور کمیونٹی کے ایک فرد کی ہی کشتی کرائے پر لے کر اس میں تعلیم کا سلسلہ شروع کیا ہے جبکہ ایک استاد مقرر کیا ہے جو انہیں اردو انگریزی حروف تجہی اور پری اسکول کی سطح کی کتابوں کے ذریعے ابتدائی تعلیم دینے کے لیے روز ایک چھوٹی کشتی سے سفر کرکے بوٹ اسکول میں تین سے چار گھنٹے تدریس کے فرائض انجام دیتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اپنی نوعیت کے اس منفرد اسکول میں کلاس کا آغاز 24اکتوبر سے کیا گیا ہے۔ ساجد بھٹونے بتایا کہ پری اسکول کی تعلیم کا مرحلہ مکمل ہونے پر ان بچوں کی رجسٹریشن نزدیکی سرکاری اسکول میں کرائی جائیگی تاکہ ان کی اسناد کا مسئلہ حل ہوسکے جبکہ سالانہ بنیادوں پر محکمہ تعلیم کے تحت اسکول میں ہونے والے امتحان میں بھی بٹھایا جائے گا۔
ساجد بھٹو نے کہا کہ انہوں نے اس کمیونٹی کے 60 بچوں کو اس سال پری اسکول تعلیم دینے کا ہدف مقررر کیا ہے جس کے لیے فلاحی انجمنوں اور سندھ حکومت کا اشتراک درکار ہے۔
فلوٹنگ اسکول چلانے میں درپیش مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے ساجد بھٹو نے کہا کہ جس کشتی میں اسکول کھولا گیا وہ دراصل اسی کمیونٹی کے ایک فرد کا گھر ہے جو تین گھنٹوں کے لیے اسکول بن جاتا ہے بچوں ک تعداد بڑھنے کی وجہ سے کشتی کرائے پر دینے والے گھرانے کی مشکلات بڑھ رہی ہیں اس لیے وہ ایک علیحدہ کشتی مخصوص کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں اسی طرح اساتذہ کی آمدورفت کے لیے بھی ایک چھوٹی کشتی خریدنے کے لیے وسائل جمع کررہے ہیں۔
ساجد بھٹو کے مطابق وہ بڑی عمر کے بچوں اور بچیوں میں تکنیکی تعلیم اور تربیت کے لیے کورس مرتب کررہے ہیں تاکہ بڑی عمر کے بچوں کو خواندہ بنانے کے ساتھ روزگار کے قابل بنایا جاسکے۔ انہوں نے بتایا کہ سیہون اور اس کے اردگرد سیلاب سے متاثرہ کمیونٹیز میں تعلیم کا انفرااسٹرکچر تباہ ہونے کے بعد عارضی اسکولوں کے ذریعے بچوں کو تعلیم فراہم کررہے ہیں اور اس مقصد کے لیے شاہ حسن ولیج، عبدالرحمن ملاح ولیج میں عارضی اسکول چلارہے ہیں۔