پہلی مرتبہ تجربہ گاہ میں تیار خون انسانوں میں منتقل
برطانوی ماہرین نے آکسیجن سے بھرپور خون کے خلیات تجربہ گاہ میں تیار کرکے ان کی معمولی مقدار انسانوں کو لگائی ہے
انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ تجربہ گاہ میں تیار خون کے خلیات کو انسانوں میں منتقل کرنے کا تجربہ کیا گیا ہے۔
ابتدائی طور پر چند چمچے بھر مقدار ہی مریضوں کو دی جائے گی اور انسانی جسم میں ان کےاثرات کا جائزہ لیا جائے گا۔ اس تحقیق میں برسٹل، کیمبرج اور لندن کی جامعات کے علاوہ این ایچ ایس بلڈ اینڈ ٹرانسپلانٹ سے وابستہ ماہرین شامل ہیں۔ ابتدائی طور پر خون کے سرخ خلیات بنائے گئے ہیں جو پھیپھڑوں اور باقی جسم تک آکسیجن پہنچاتے ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا میں لاکھوں کروڑوں افراد کو ماہانہ خون کے عطئے کی ضرورت پڑتی ہے اور بعض اقسام کے خون انتہائی کمیاب ہوتے ہیں۔ پھر سِکل سیل انیمیا کے مریضوں کو بھی باقاعدہ خون درکار ہوتا ہے۔
تحقیق میں شامل پروفیسر ایشلے ٹوائی ککےمطابق انسانی خون کے بعض گروپ اتنے کمیاب ہیں کہ ایک ملک میں اس کے صرف دس افراد ہی پائے جاتے ہیں۔ دوسری مثال'بمبئی بلڈ گروپ' کی ہے اور برطانیہ میں اس کے حامل صرف تین افراد ہی سامنے آئے ہیں۔
خون کیسے بنایا گیا؟
خون سازی کے لیے سائنسدانوں نے ایک پنٹ یا 470 ملی لیٹر خون لیا اور اس میں مقناطیسی باریک موتی ڈالے تاکہ لچکدار خلیاتِ ساق (اسٹیم سیل) کو الگ کیا جاسکے اوربعد میں ان سے خون کے سرخ خلیات بنائے جاسکیں کیونکہ اسٹیم سیل موزوں حالات میں کئی اقسام کے خلیات میں ڈھل سکتے ہیں۔
ماہرین نے احتیاط سے خلیاتِ ساق سے خون کے سرخ خلیات ڈھالنے کا آغاز کیا تو تین ہفتوں میں 5 لاکھ اسٹیم سیل سے 50 ارب ایسے خلیات بن گئے جو خون کے سرخ خلیات تھے۔ تمام خلیات مریض کو لگانے کے لیے بالکل موزوں رہے۔
اس کے بعد دو افراد پر ان کی آزمائش کی جائے گی اور پھر دس افراد پر اسے آزمایا جائے گا۔ کم ازکم چار مہینے کے وقفے سے دونوں مریضوں کو 5 تا10 ملی لیٹر خون لگایا جائے گا لیکن ایک کو عام اور دوسرے کو تجربہ گاہ میں تیار خون منتقل کیا جائے گا۔ مصنوعی خون میں قدرے بے ضرر ریڈیو ایکٹو مادہ ہوگا جس سے ماہرین اس کی بدن میں موجودگی کا دورانیہ دیکھا جاسکے گا اور یہ طبی مقاصد میں عام استعمال ہوتا ہے۔
خون کے صرف خلیات بدن میں 120 روز تک موجود رہتے ہیں یا پھر ختم ہوکر نئے خلیات ان کی جگہ لے لیتے ہیں یا پھر مرض کی صورت میں عطیہ کردہ خون لگایا جاتا ہے۔ توقع ہے کہ تجربہ گاہی خون بھی 120 دن پورے کرلے گا۔ اگر یہ عمل کامیاب ہوجاتا ہے تو ہم خون بنانے والی مشینیں لگا سکیں گے اور خون کے عطیات کے لیے ہزاروں رضاکاروں کی ضرورت نہیں رہے گی۔ تاہم اب تک کی تحقیق کے مطابق اس پر بہت لاگت آئے گی جس کی تفصیلات نہیں دی گئی ہیں۔
.
ابتدائی طور پر چند چمچے بھر مقدار ہی مریضوں کو دی جائے گی اور انسانی جسم میں ان کےاثرات کا جائزہ لیا جائے گا۔ اس تحقیق میں برسٹل، کیمبرج اور لندن کی جامعات کے علاوہ این ایچ ایس بلڈ اینڈ ٹرانسپلانٹ سے وابستہ ماہرین شامل ہیں۔ ابتدائی طور پر خون کے سرخ خلیات بنائے گئے ہیں جو پھیپھڑوں اور باقی جسم تک آکسیجن پہنچاتے ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا میں لاکھوں کروڑوں افراد کو ماہانہ خون کے عطئے کی ضرورت پڑتی ہے اور بعض اقسام کے خون انتہائی کمیاب ہوتے ہیں۔ پھر سِکل سیل انیمیا کے مریضوں کو بھی باقاعدہ خون درکار ہوتا ہے۔
تحقیق میں شامل پروفیسر ایشلے ٹوائی ککےمطابق انسانی خون کے بعض گروپ اتنے کمیاب ہیں کہ ایک ملک میں اس کے صرف دس افراد ہی پائے جاتے ہیں۔ دوسری مثال'بمبئی بلڈ گروپ' کی ہے اور برطانیہ میں اس کے حامل صرف تین افراد ہی سامنے آئے ہیں۔
خون کیسے بنایا گیا؟
خون سازی کے لیے سائنسدانوں نے ایک پنٹ یا 470 ملی لیٹر خون لیا اور اس میں مقناطیسی باریک موتی ڈالے تاکہ لچکدار خلیاتِ ساق (اسٹیم سیل) کو الگ کیا جاسکے اوربعد میں ان سے خون کے سرخ خلیات بنائے جاسکیں کیونکہ اسٹیم سیل موزوں حالات میں کئی اقسام کے خلیات میں ڈھل سکتے ہیں۔
ماہرین نے احتیاط سے خلیاتِ ساق سے خون کے سرخ خلیات ڈھالنے کا آغاز کیا تو تین ہفتوں میں 5 لاکھ اسٹیم سیل سے 50 ارب ایسے خلیات بن گئے جو خون کے سرخ خلیات تھے۔ تمام خلیات مریض کو لگانے کے لیے بالکل موزوں رہے۔
اس کے بعد دو افراد پر ان کی آزمائش کی جائے گی اور پھر دس افراد پر اسے آزمایا جائے گا۔ کم ازکم چار مہینے کے وقفے سے دونوں مریضوں کو 5 تا10 ملی لیٹر خون لگایا جائے گا لیکن ایک کو عام اور دوسرے کو تجربہ گاہ میں تیار خون منتقل کیا جائے گا۔ مصنوعی خون میں قدرے بے ضرر ریڈیو ایکٹو مادہ ہوگا جس سے ماہرین اس کی بدن میں موجودگی کا دورانیہ دیکھا جاسکے گا اور یہ طبی مقاصد میں عام استعمال ہوتا ہے۔
خون کے صرف خلیات بدن میں 120 روز تک موجود رہتے ہیں یا پھر ختم ہوکر نئے خلیات ان کی جگہ لے لیتے ہیں یا پھر مرض کی صورت میں عطیہ کردہ خون لگایا جاتا ہے۔ توقع ہے کہ تجربہ گاہی خون بھی 120 دن پورے کرلے گا۔ اگر یہ عمل کامیاب ہوجاتا ہے تو ہم خون بنانے والی مشینیں لگا سکیں گے اور خون کے عطیات کے لیے ہزاروں رضاکاروں کی ضرورت نہیں رہے گی۔ تاہم اب تک کی تحقیق کے مطابق اس پر بہت لاگت آئے گی جس کی تفصیلات نہیں دی گئی ہیں۔
.