شہادت پر سیاست کا مکروہ دھندہ

چشم کشا اور زمینی حقائق کے بعد اداروں پر لگایا گیا وہ سراسر بہتان ہے

ashfaqkhan@express.com.pk

گزشتہ کالم میں ارشد شریف شہید کی شہادت پر اپنا درد دل اور ان کی صحافتی زندگی پر بوجھل ذہن کے ساتھ لکھا۔ آج اپنے ذہن میں آنے والے محرکات و اسباب کے ساتھ ساتھ شہیدوں کی لاشوں پر سیاست کے مکروہ اور گھناؤنے دھندے پر لکھوں گا جو ہمارے معاشرے میں زہر کی طرح پھیلتا چلا جا رہا ہے۔

دنیا میں بیشمار نشے ہیں لیکن اقتدار کا نشہ ان سب نشوں سے بڑھ کر ہے۔ جسے اس نشے کی لت پڑ جائے وہ خود کہیں کا رہتا ہے نہ کسی دوسرے کو کہیں کا رہنے دیتا ہے۔

سیاست کے حمام میں سب سیاست دان ننگے ہیں' یہ سب جس دن ایوان اقتدار سے نکلتے ہیں اسی دن فرسٹریشن کا شکار اور ایک بار پھر اقتدار حاصل کرنے کے ہر جائز و ناجائزہ کام کرنے کے لیے کمر کس لیتے ہیں مگر افسوس اس پر کہ ہمارے صحافی قبیلے کے کچھ دوست بھی اس کھیل کا حصہ بن جاتے ہیں اور سیاست دانوں کے شوگر کوٹیڈ زہریلی، انتقامی سیاست اور ہوس اقتدار کو کبھی ووٹ کو عزت دو اور کبھی حقیقی آزادی اور جہاد سمجھ کر اس کا ایندھن بن جاتے ہیں۔

اس کھیل میں کوئی ملک سے گیا تو کوئی جان سے! اس بے رحم کھیل میں ایک محب وطن، نڈر، بیباک صحافی ارشد شریف اپنی جان سے گیا۔ حکومت پاکستان نے اعلیٰ سطح تحقیقاتی ٹیم بنا دی ہے جو صرف پاکستان میں ہی نہیں کینیا جا کر بھی تحقیقات کررہی ہے۔

اصولاً تو سب کو اس ٹیم کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے مگر اس کے برعکس ارشد شریف کے قتل دونوں کو سب نے اپنی اپنی سیاست اور دکانداری کے لیے بڑی سنگ دلی کے ساتھ استعمال کیا اور پتا نہیں کب تک استعمال ہوتا رہے گا، مجھے احساس ہے کہ میڈیا اور سیاست دانوں نے جس انداز میں ان کی شہادت کو تختہ مشق بنا لیا ہے۔

اس میں ان کی ماں، بیوہ اور بچوں کا درد کہیں محسوس ہی نہیں ہوتا بلکہ ان کے زخموں پر باقاعدہ نمک پاشی ہو رہی ہے، ڈر ہے کہ الزام تراشی کے اس طوفان میں ان کے بزدل قاتل نظروں سے اوجھل ہوجائیں گے۔

ارشد شریف کا قتل اس وقت معمہ بن کر کھڑا ہے، کینیا پولیس کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق پولیس اہلکاروں نے شناخت میں غلط فہمی میں اس گاڑی پر گولیاں چلائیں جس میں ارشد شریف سوار تھے آج تک کینیا پولیس تین مرتبہ اپنا موقف بدل چکی ہے۔

جس سے یہ سارا معاملہ مشکوک ہوگیا' اب اس میں دو رائے اور کوئی شک نہیں کہ ارشد شریف شہید کی موت حادثہ نہیں قتل ہے۔ ارشد شریف کی شہادت پر غمزدہ ہر فرد سوچتا ہے کہ آخر کیوں اور کس نے یہ ظلم کیا اور ہر بندہ اپنے علم، فہم، عقل و فراست اور معاف کیجیے گا اپنے مفادات کے مطابق کڑیاں ملانے کی کوشش میں کسی نہ کسی پر شک کرتا رہا ہے۔

اذیت ناک پہلو یہ کہ ارشد شریف کی شہادت سیاست کی بھینٹ چڑھ رہی ہے۔ حکمران جماعت عمران اور ان کی جماعت کو قاتل یا سہولت کار کہہ رہی ہے، کسی کو یہ بیرونی اور کسی کو اندرونی سازش لگ رہی ہے، مگر المیہ یہ ہے کہ عمران خان کی توپوں کا رخ پاکستان کے سلامتی کے اداروں کی جانب ہے، حب الوطنی اور انصاف کا تقاضا ہے کہ جب تک عمران یہ الزام ثابت نہ کریں اس کی مذمت کی جائے، اللہ کرے قاتل نہ حکمران ہو، نہ عمران اور نہ ہمارے ادارے مگر ہر ایک کو دوسرے اور ارشد شریف شہید کی ماں اور بیوہ کو سب پر شک کا حق ہے۔

اور سب سے مقدم اور قابل توجہ شک ان کے اہل خانہ کا ہوگا جو صرف درد دل اور اصل قاتلوں کے خواہش مند ہونگے۔

لہٰذا سب سے پہلے ارشد شریف شہید کے خاندان کی منشاء اور خواہش کے مطابق سپریم کورٹ کے حاضر سروس جج کی سربراہی میں کمیشن بنایا جایا اور یہ کمیشن ان کے اہل خانہ اور قریبی دوستوں سے مکمل معلومات لینے سے ابتدا کرے، پھر ان چند بنیادی سوالات کے جوابات ڈھونڈتے ہوئے آگے بڑھے۔ سب سے پہلے کہ "واقعی ارشد شریف کی جان کو پاکستان میں خطرہ تھا؟"


کس نے ارشد شریف کو پاکستان چھوڑنے پر آمادہ کیا؟

وہ دو افراد کون تھے جنھوں نے ارشد شریف کو دبئی چھوڑنے کا کہا تھا اور کینیا جانے کا مشورہ دیا' وہ کون ہے۔

ارشد شریف کی شہادت کا فائدہ کس کو اور کسے نقصان پہنچا؟

پاکستان میں پوسٹ مارٹم کے دوران ارشد شریف کے جسم سے ملنے والی گولی کا فرانزک بتا دیگا کہ گولی کینیا پولیس کے اسلحہ سے چلی یا کسی دوسرے سے، اگر ان سوالات کا جواب مل جائے تو کافی حد تک مسئلہ حل ہوجائے گا۔

ارشد شریف شہید کے پوسٹ مارٹم میں گولی لگنے کی جگہ پر زخم کے ارد گرد سکار (زخم کے گرد جلنے اور بارودی زرات) کے نشانات سے تو یہ بات بالکل ثابت ہوگئی کہ انھی بہت ہی قریب سے دونوں گولیاں ماری گئیں۔ اگر گولی گاڑی کی باڈی یا شیشے سے نکل کر ارشد شریف کو لگی ہوتی تو زخم کے گرد سکار (جلنے اور بارودی زرات) کے نشانات ہوتے اور نہ گولی سر کے آرپار ہوتی، پوسٹ مارٹم رپورٹ سے بالکل واضح ہے کہ گولی گاڑی کے اندر ماری گئی یا ارشد شریف کو اتار کر گولیاں ماری گئیں اور پھر ان کو سیٹ پر بیٹھا کر سیٹ بلٹ لگائی گئی۔

کینیا کی پولیس دنیا کی بدنام زمانہ پولیس ہے۔ کینیا پولیس کے بدلتے ہوئے موقف کو اپنے ذمے لینے کے موقف کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ حقائق کچھ اور ہیں۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ اگر پولیس کے ساتھ کوئی لین دین ہوا ہے تو اسے کینیا کی پولیس ہی بے نقاب کر سکتی ہے۔

ارشد شریف کی شہادت پاکستان کے خلاف سازش بھی ہوسکتی ہے' یہ کوئی غدار پاکستانی اور بیرونی دشمن مل کر بھی کرسکتے ہیں۔

جو ممالک پاکستان میں بم دھماکے اور بے گناہ پاکستانیوں پر خود کش حملے کرنے والوں کی پشت پناہی کرتے ہیں' جن کا واحد مقصد ملک میں انتشار اور امن عامہ کا مسئلہ پیدا کرنا ہوتا تو وہ ارشد شریف شہید کے قتل کو ملک میں انتشار پھیلانے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ قاتل کوئی بھی ہو اس تک پہنچنا ہماری ریاست کی ذمے داری ہے۔ اس بار قوم توقع کر رہی ہے کہ صرف حساب برابر کرنے کے لیے نہیں، اصل قاتلوں کو سزا ضرور ملے گی۔

ارشد شریف ایک محب وطن صحافی تھے۔ پاک فوج میں ارشد شریف کی کس قدر عزت و احترام تھا وہ ڈی جی آئی ایس پی آر اور ڈی جی آئی ایس آئی کے خراج تحسین سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے، ارشد شریف شہید پاکستان نیوی کے ایک کمانڈر کا بیٹا اور پاکستان آرمی کے ایک شہید کا بھائی ہے اور اس رشتے کے ہوتے ہوئے تمام فورسز کے ہاں ان کا احترام فطری ہے۔

ارشد شریف کے قتل کی ابھی ابتدائی آفیشل رپورٹ بھی نہیں آئی لیکن کچھ شرپسند لوگوں نے اداروں پر الزام لگانا شروع کر دیا۔ سیکیورٹی ادارے محض باتوں پر بندے مارنے لگیں تو شاید ہی کوئی صحافی زندہ بچے اور سوشل میڈیا پر تو صرف ''ٹر گئے یار محبتاں والے'' اسٹیٹس کے سوا کچھ نہ نظر آئے۔

ان چشم کشا اور زمینی حقائق کے بعد اداروں پر لگایا گیا وہ سراسر بہتان ہے مگر فرض اور قرض ریاستی اداروں پر ہے کہ وہ قوم کو بتائیں کہ اس قتل کے پیچھے کون ہے؟

اللہ رب العزت ارشد شریف شہید کی شہادت کو ریاست پاکستان کے استحکام کا ذریعہ و وسیلہ بنائے۔ آمین
Load Next Story