پنجاب فشریز کی کوششوں کے باوجود کیج فش فارمنگ فروغ نہیں پاسکی

فش فارمنگ کو پذیرائی نہ ملنے کی بڑی وجہ فارمرز کی ان طریقوں سے لاعلمی ہے، ماہرین

فوٹو: ایکسپریس

پنجاب فشریز کی کوششوں کے باوجود کیج فش فارمنگ اور بائیوفلاک جیسے جدید طریقے فروغ نہیں پاسکے ہیں صوبےمیںآج بھی تالابوں کے روایتی طریقے سے فش فارمنگ کی جارہی ہے۔

ماہرین کے مطابق اس کی جدید طریقوں سے فش فارمنگ کو پذیرائی نہ ملنے کی بڑی وجہ فارمرز کی ان طریقوں سے متعلق لاعلمی اوران سے ہونیوالے نقصانات ہیں۔

پاکستان میں بڑھتی ہوئی غذائی ضروریات کے لئے مچھلی کی پیداواربڑھانا انتہائی ضروری ہے۔ فش فارمنگ کے روایتی طریقے میں ایک مرلہ کے تالاب میں ایک ہزاربچہ مچھلی چھوڑی جاتی ہے جبکہ جدید طریقوں میں ایک فش کیج اور ڈرم میں ایک ہزارمچھلی چھوڑی جاتی ہے۔

پوری دنیا میں یہ طریقے مقبول ہورہے ہیں جبکہ ہمارے یہاں آج بھی روایتی طریقہ کارکے تحت ایک ایکڑکے تالاب سے صرف 40 من مچھلی کی پیداوار حاصل کی جارہی ہے۔

مزید پڑھیں:پنجاب میں غذائی ضروریات پوری کرنے کیلیے فش فارمنگ کے نئے منصوبے کا آغاز

لاہورکے ایک سرحدی علاقہ میں بائیوفلاک کے ذریعے فش فارمنگ کرنیوالے نوجوان عبدالرحمن اس کام سے خاصے مایوس ہوئے ہیں۔ایک سال کے دوران انہیں لاکھوں روپے کا خسارہ برداشت کرناپڑااوربالاخر فش فارمنگ کو خیرباد کہہ دیا۔

عبدالرحمن کے مطابق سوشل میڈیا پر بائیوفلاک کا طریقہ دیکھا تھا، اپنی حویلی میں 12 ڈرموں میں اس طریقے سے فش فارمنگ شروع کی لیکن چندماہ بعد ہی تقریبا تمام مچھلیاں مرگئیں۔عبدالرحمن کے مطابق ڈرموں میں زہریلی گیس پیداہونا شروع ہوگئی تھی جس سے مچھلیوں کی اموات ہوئیں۔

ڈی جی خان میں گزشتہ دوسال سے کیج فش فارمنگ کرنیوالے محمد طارق سمجھتے ہیں ان کے لئے فش فارمنگ کا یہ طریقہ کافی سود مند رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کیج فش فارمنگ کے لئے ویت نام سے ماڈل لیا گیاہے۔

مزید پڑھیں:پنجاب میں ماہی پروری کے فروغ کیلیے 18 لاکھ بچہ مچھلی تیار


ان کاکہنا تھا کہ کیج میں 30 سے 40 گرام وزن کا فش سیڈ ڈالاجاتا ہے، 8 ماہ میں مچھلیاں تیارہوجاتی ہیں اوران کا وزن ایک کلو تک پہنچ جاتا ہے۔ایک مچھلی آٹھ ماہ کے دوران تقریبا ایک کلوگرام خوراک کھاجاتی ہے جس کا خرچہ 180 روپے کے قریب ہے۔

محمد طارق نے بتایا بنیادی تربیت کے بغیراگریہ کام شروع کیاجائے تونقصان کا اندیشہ رہتا ہے ،کئی فارمرزکو نقصان بھی پہنچا ہے۔

ایک اورفارمرڈاکٹروقاص نے بتایا بائیوفلاک فش فارمنگ میں تکنیکی مہارت کی زیادہ ضرورت ہے، ٹینک کا سائز،اونچائی،اس میں کتناپانی اسٹورہوسکتاہے۔ یہ چیزیں بہت اہم ہیں، اگر ٹینک چھوٹے سائزکا ہوگا اوراس کی اونچائی کم ہوگی تواس میں مچھلی کی زیادہ پیداوارنہیں لی جاسکتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس 10 ٹینک ہیں جن کی اونچائی چارفٹ تک ہے اس میں تقریبا 17 ہزارلیٹرپانی اسٹورہوتا ہے، اس میں تقریبا 8 ماہ کے اندرمچھلی تیارہوجائیگی جس کا وزن ایک کلوگرام کے قریب ہوگا۔

پنجاب فشریزکے اسٹنٹ ڈائریکٹرمیاں غلام قادر کہتے ہیں بائیوفلاک اورکیج فش فارمنگ میں جب آپ ایک محدودجگہ میں ایک ہزاربچہ مچھلی چھوڑتے ہیں توجیسے جیسے مچھلی بڑی ہوتی ہے ان کے لئے جگہ تنگ پڑناشروع ہوجاتی ہے۔

اس کے علاوہ سب سے اہم مسئلہ آکسیجن کا ہوتاہے۔ایک ڈرم کے اندر مچھلیوں کو آکسیجن کی کمی کاسامناکرناپڑتا ہے جس کی وجہ سے ان کی اموات ہوناشروع ہوجاتی ہیں۔

اسی طرح انہیں جو خوراک دی جاتی ہے اورمچھلیوں کا فضلے میں شامل ہوجاتی ہے جس سے امونیاجیسی خطرناک گیس پیداہوتی ہے اورمچھلیاں مرجاتی ہیں۔ کیج فش فارمنگ میں سبزکائی پیداہوناشروع ہوجاتی ہے جو یوٹروفیکیشن کاسبب بنتی ہے۔

غلام قادر کے مطابق ایسے نقصانات اس وقت سامنے آتے ہیں جب فارمر کسی تربیت اورآگاہی کے بغیر صرف سوشل میڈیا پر ویڈیو دیکھ کرفش فارمنگ شروع کردیتےہیں۔

پنجاب فشریز نے فارمرزکی ٹریننگ کا سلسلہ شروع کررکھا ہے جس میں انہیں بتایا جاتا ہے کہ کیج فش فارمنگ اوربائیوفلاک میں مچھلیوں کوکس قسم کی خوراک دینی ہے تاکہ وہ خوراک مچھلیوں کے فضلے میں شامل ہوکر زہریلی گیس کی شکل اختیارنہ کرسکے۔اس کے علاوہ مچھلیوں کی صرف چندایک اقسام کی ہی جدید طریقوں سے فارمنگ کی جاسکتی ہے۔
Load Next Story