ڈار صاحب کی کرشمہ سازی
اسحاق ڈار صاحب کی حکمت عملی نے جہاں روپے کی قدر میں جادوگری دکھائی وہاں مہنگائی کے بوجھ تلے
اسحاق ڈار صاحب کی حکمت عملی نے جہاں روپے کی قدر میں جادوگری دکھائی وہاں مہنگائی کے بوجھ تلے دبے عوام اب امید بھری نگاہوں سے ڈار صاحب کی جادوئی چھڑی کی طرف دیکھ رہے ہیں شاید اس کی کرشمہ سازی سے آسمان کو چھوتی قیمتیں زمین کو چھونے لگیں اور اس طرح آئی سی یو میں پڑے عوام کے ڈھانچے میں زندگی کی نئی لہر دوڑ جائے اور خوشحالی کا وہ خواب جو الیکشن سے پہلے دکھایا گیا تھا اس کی تعبیر مل جائے ۔ اور ہم آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے چنگل سے شاید نکل آئیں گے تو ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائے نومبر 2013ء میں جب وزیر خزانہ نے ڈالر 109 سے 100 تک لانے کا وعدہ کیا تھا تو اکثر ماہرین اسے دیوانے کا خواب سمجھے تھے لیکن یہ دیوانہ دیوانگی کی اس حد کو چھو جائے گا اس کا اندازہ شاید کسی کو بھی نہیں تھا۔ روپے کی قدر میں اضافے سے عام لوگوں میں خوشی کی جو لہر پیدا ہوئی ہے اسے بعض ناقدین مصنوئی اور عارضی تصور کر رہے ہیں۔
لیکن ڈار صاحب کے جذبے کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ اپنے ہاتھ آئی اس کامیابی کو اتنی آسانی سے جانے دیں گے۔ بلکہ اس اقدام کے بعد انھیں جو ملکی اور عوامی سطح پر اعتماد ملا ہے، اس کا بھر پور مظاہرہ ہمیں آنے والے مہینوں میں ملے گا۔ جو روپ وزیر خزانہ کو چڑھا ہے 800 ارب کے قرضے اترنے سے ۔۔۔۔ اس جمال سے ہم سرشار ہونگے آنے والے کچھ مہینوں میں۔ روپے کی قدر میں اضافہ اس حوالے سے خوش آیند ہے کہ یہ ملکی معیشت کے استحکام پکڑنے کا اشارہ ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اقتصادی لحاظ سے معاملات بہتر ہو رہے ہیں۔ حکومت نے ڈالر کو مستحکم کرنے کے لیے جو پلاننگ کی ہے اگر یہ کامیاب اسی طرح رہی تو چند ماہ بعد روپے کی قدر میں ایک بار پھر اضافہ ہو گا ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کوئی بھی ملک زیادہ عرصے تک اپنی کرنسی کو منجمد نہیں رکھ سکتا ۔۔۔۔لیکن ایسے اقدامات کیے جا سکتے ہیں کہ یہ زیادہ لمبے عرصے تک مستحکم رہے۔ قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے عوام اب بھی اپنے کندھے جھکے ہوئے محسوس کرتے ہیں۔
اگر ڈار صاحب یونہی نیک نیتی کے ساتھ کام کرتے رہے تو وہ دن دور نہیں جب انشاء اللہ وہ کندھے اوپر کو اٹھاتے نظر آئیں گے۔ ملک کے ہر شعبے میں باصلاحیت لوگوں کو ذمے داری سونپی جائے تا کہ کالی بھیڑوں کا قلع قمع کیا جا سکے بہتر مالیتی پالیسی کی بدولت ملکی وسائل تمام افراد میں یکساں منتقل ہوں، نا کہ چند خاندانوں میں ہی مرکوز ہو کر رہ جائے۔ کیونکہ ناقص پالیسی کی وجہ سے غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہوتا جا رہا ہے۔ اسی لیے امام کو قائدانہ صلاحیت کا حامل ہونا ضروری ہے۔ الیگزینڈر نے کہا تھا مجھے شیروں کی ایسی فوج سے کوئی ڈر نہیں جس کی قیادت بھیڑ کررہی ہو لیکن مجھے خوف ہے بھیڑوں کی اس فوج سے جس کی قیادت شیر کر رہا ہو، ہر محکمے کا سربراہ اگر ایسا شیر ہو گا تو وزیر اعظم حقیقی شیر کی طرح گرجیں گے اور دل و دماغ میں ان کی دھاک بیٹھے گی۔ معیشت میں مضبوطی کا اندازہ ملکی کرنسی کے استحکام سے ہوتا ہے۔
معیشت کی بنیادیں جتنی پائیدار ہونگی اتنی ہی قوم ترقی یافتہ ہوتی چلی جائے گی۔ توانائی کے بحران پر قابو پانا اس سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے۔ ملک جو کہ ایک عرصے سے بجلی کی قلت کا شکار ہے۔ اب اس جن کو بوتل میں بند کرنا ہو گا۔ تا کہ ہماری معیشت ترقی کر سکے معیشت کی بحالی کے لیے زراعت، انڈسٹری اور سروسز سیکٹرز میں اقدامات کی ضرورت ہے۔ نیشنل گرڈ میں اضافی بجلی لانے کے لیے حکومت نے نندی پور اور چیچو کی ملیاں پراجیکٹس پر ہنگامی بنیادوں پر دن رات کام شروع کر رکھا ہے۔ ان منصوبوں سے بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں کمی کے ساتھ ساتھ صنعت کو بھی تقویت ملے گی۔ چائنیز حکومت سے ملنے والے تقریباً 32 بلین روپے توانائی کے شعبے میں حقیقی بجلی بھر دیں گے۔ آنے والے چند سالوں میں جب تھر کوئلے کے ذریعے بجلی پیدا ہونا شروع ہو گی تو ایک محتاط اندازہ ہے کہ دو سو سالوں تک ہم انرجی مسائل سے بچ جائیں گے۔ موجودہ حکومت کے ابتدائی8 ماہ میں غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر، بیرونی تجارت اور صنعتی ترقی میں بہتری آئی ہے۔ تاہم روپے کی قدر میں سب اعداد و شمار پر بازی لے لی ہے۔
امید ہے ڈالر میں کمی کا فائدہ عوام کو جلد دیا جائے گا۔ اس کے لیے اب صوبوں کو بھی اپنی اپنی جگہ پر قیمتوں پر کنٹرول کرنے کے لیے لائحہ عمل بنانا ہو گا کیونکہ ہمارے ہاں آٹا اور گندم سستا ہونے کے باوجود روٹی سستی کرنے اور پیٹرول سستا ہونے کے باوجود ٹرانسپورٹ کرایوں میں خوشدلی سے کمی کرنے کا رحجان نہیں پایا جاتا۔ اب یقینا جلد خوردنی تیل، خشک دودھ سمیت بہت سی چیزوں کی قیمتوں میں کمی آئیگی۔ جب کہ آلو ٹماٹر اور دیگر سبزیوں کی قیمت میں کمی کا نعرہ ڈار صاحب لگا چکے ہیں۔ میری نظر میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ عام آدمی کو روز مرہ کی چیزیں سستے داموں فراہم کرنے کا مستقل نظام سامنے آنا چاہیے۔ وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ جلد پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر 10 ارب ڈالر سے بڑھ جائیں گے۔ سب جانتے ہیں کہ حکومتی معاشی اصلاحات کی آئی ایم ایف نے بھی تعریف کی ہے۔ ہمیں امید ہے 2015ء تک وزیر خزانہ عملی اصلاحات کے ذریعے ملک کو معاشی طور پر مضبوط بنا دیں گے۔
اسٹیٹ بینک نے ملک میں مہنگائی میں کمی پر بھی اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ مالی سال کی پہلی ششماہی میں مالیتی خسارہ بھی قابو میں رہا۔ زر مبادلہ کے ذخائر بڑھ کر 4.6 ارب ڈالر تک پہنچ گئے جو کہ جنوری 2014ء میں 3.2 ارب ڈالر تھے۔ اس کے ساتھ ہی 17 جنوری سے اب تک ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں 6 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ پہلی مرتبہ لوگ ڈالر خریدنے کی بجائے بیچنے کی فکر میں ہیں۔ امید ہے کہ ایک عرصہ سے ٹھنڈی پڑی ہوئی ہماری اسٹاک مارکیٹ مندی سے نکل آئے گی اور 2006ء کے دور کی طرح ریکارڈ حد کو دوبارہ پہنچے گی۔ اسٹاک مارکیٹ کی موجودہ صورتحال بتا رہی ہے کہ مارکیٹ اب دھیرے دھیرے مستحکم پوزیشن پر آ رہی ہے اور تکنیکی کریش کے خطرات حد درجہ کم ہو گئے ہیں۔
اسٹاک انڈیکس 27000 پوائنٹس کی ریکارڈ سطح کو چھو رہا ہے اور یہ مثبت رحجان بھی حکومت کے درست سمت میں گامزن ہونے کی دلیل ہے۔ جب مندی کے بادل چھٹ جائیں گئے تو فیڈرل بورڈ آف ریونیو بھی ریکارڈ حد تک پہنچے گا۔ اسحاق ڈار کا ایک اور وژنری اقدام سیلز ٹیکس، ریفنڈز کلیر کرنے کا ہے۔ اس سے ایکسپورٹر کو بہت ریلیف ملے گا جو ڈالر کی قیمت میں کمی کے باعث ہونے والے نقصان سے پریشان ہیں۔ ایک عام خیال ہے کہ اگر فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو یہ ہدایات جاری کر دی جائیں کہ ایکسپورٹ آرڈرز پورے ہونے کے ایک ماہ کے اندر ریفنڈز کا عمل مکمل کیا جائے تو برآمدات میں نمایاں اضافہ ہو گا۔ وزارت خزانہ کے فیصلے سے ریفنڈز کے منتظر 36 ہزار میں سے26 ہزار کلیم کنند گان کو فائدہ ہو گا۔ اس طرح معاشی سرگرمیاں یقینا بڑھیں گی اور انشاء اللہ میرا سوہنا پاکستان سچ مچ کا خوشحال پاکستان بننے کی طرف گامزن ہوگا۔
نوٹ میرے گزشتہ کالم (بسیٹ مدر ایوارڈ ) میں ٹائپنگ ایرر کے سبب شعر کے الفاظ غلط چھپ گئے تھے برائے مہربانی اسے ریکارڈ میں درست کر لیں علامہ اقبال کا یہ شعر کچھ یوں ہے۔
میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خود ی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
لیکن ڈار صاحب کے جذبے کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ اپنے ہاتھ آئی اس کامیابی کو اتنی آسانی سے جانے دیں گے۔ بلکہ اس اقدام کے بعد انھیں جو ملکی اور عوامی سطح پر اعتماد ملا ہے، اس کا بھر پور مظاہرہ ہمیں آنے والے مہینوں میں ملے گا۔ جو روپ وزیر خزانہ کو چڑھا ہے 800 ارب کے قرضے اترنے سے ۔۔۔۔ اس جمال سے ہم سرشار ہونگے آنے والے کچھ مہینوں میں۔ روپے کی قدر میں اضافہ اس حوالے سے خوش آیند ہے کہ یہ ملکی معیشت کے استحکام پکڑنے کا اشارہ ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اقتصادی لحاظ سے معاملات بہتر ہو رہے ہیں۔ حکومت نے ڈالر کو مستحکم کرنے کے لیے جو پلاننگ کی ہے اگر یہ کامیاب اسی طرح رہی تو چند ماہ بعد روپے کی قدر میں ایک بار پھر اضافہ ہو گا ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کوئی بھی ملک زیادہ عرصے تک اپنی کرنسی کو منجمد نہیں رکھ سکتا ۔۔۔۔لیکن ایسے اقدامات کیے جا سکتے ہیں کہ یہ زیادہ لمبے عرصے تک مستحکم رہے۔ قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے عوام اب بھی اپنے کندھے جھکے ہوئے محسوس کرتے ہیں۔
اگر ڈار صاحب یونہی نیک نیتی کے ساتھ کام کرتے رہے تو وہ دن دور نہیں جب انشاء اللہ وہ کندھے اوپر کو اٹھاتے نظر آئیں گے۔ ملک کے ہر شعبے میں باصلاحیت لوگوں کو ذمے داری سونپی جائے تا کہ کالی بھیڑوں کا قلع قمع کیا جا سکے بہتر مالیتی پالیسی کی بدولت ملکی وسائل تمام افراد میں یکساں منتقل ہوں، نا کہ چند خاندانوں میں ہی مرکوز ہو کر رہ جائے۔ کیونکہ ناقص پالیسی کی وجہ سے غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہوتا جا رہا ہے۔ اسی لیے امام کو قائدانہ صلاحیت کا حامل ہونا ضروری ہے۔ الیگزینڈر نے کہا تھا مجھے شیروں کی ایسی فوج سے کوئی ڈر نہیں جس کی قیادت بھیڑ کررہی ہو لیکن مجھے خوف ہے بھیڑوں کی اس فوج سے جس کی قیادت شیر کر رہا ہو، ہر محکمے کا سربراہ اگر ایسا شیر ہو گا تو وزیر اعظم حقیقی شیر کی طرح گرجیں گے اور دل و دماغ میں ان کی دھاک بیٹھے گی۔ معیشت میں مضبوطی کا اندازہ ملکی کرنسی کے استحکام سے ہوتا ہے۔
معیشت کی بنیادیں جتنی پائیدار ہونگی اتنی ہی قوم ترقی یافتہ ہوتی چلی جائے گی۔ توانائی کے بحران پر قابو پانا اس سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے۔ ملک جو کہ ایک عرصے سے بجلی کی قلت کا شکار ہے۔ اب اس جن کو بوتل میں بند کرنا ہو گا۔ تا کہ ہماری معیشت ترقی کر سکے معیشت کی بحالی کے لیے زراعت، انڈسٹری اور سروسز سیکٹرز میں اقدامات کی ضرورت ہے۔ نیشنل گرڈ میں اضافی بجلی لانے کے لیے حکومت نے نندی پور اور چیچو کی ملیاں پراجیکٹس پر ہنگامی بنیادوں پر دن رات کام شروع کر رکھا ہے۔ ان منصوبوں سے بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں کمی کے ساتھ ساتھ صنعت کو بھی تقویت ملے گی۔ چائنیز حکومت سے ملنے والے تقریباً 32 بلین روپے توانائی کے شعبے میں حقیقی بجلی بھر دیں گے۔ آنے والے چند سالوں میں جب تھر کوئلے کے ذریعے بجلی پیدا ہونا شروع ہو گی تو ایک محتاط اندازہ ہے کہ دو سو سالوں تک ہم انرجی مسائل سے بچ جائیں گے۔ موجودہ حکومت کے ابتدائی8 ماہ میں غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر، بیرونی تجارت اور صنعتی ترقی میں بہتری آئی ہے۔ تاہم روپے کی قدر میں سب اعداد و شمار پر بازی لے لی ہے۔
امید ہے ڈالر میں کمی کا فائدہ عوام کو جلد دیا جائے گا۔ اس کے لیے اب صوبوں کو بھی اپنی اپنی جگہ پر قیمتوں پر کنٹرول کرنے کے لیے لائحہ عمل بنانا ہو گا کیونکہ ہمارے ہاں آٹا اور گندم سستا ہونے کے باوجود روٹی سستی کرنے اور پیٹرول سستا ہونے کے باوجود ٹرانسپورٹ کرایوں میں خوشدلی سے کمی کرنے کا رحجان نہیں پایا جاتا۔ اب یقینا جلد خوردنی تیل، خشک دودھ سمیت بہت سی چیزوں کی قیمتوں میں کمی آئیگی۔ جب کہ آلو ٹماٹر اور دیگر سبزیوں کی قیمت میں کمی کا نعرہ ڈار صاحب لگا چکے ہیں۔ میری نظر میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ عام آدمی کو روز مرہ کی چیزیں سستے داموں فراہم کرنے کا مستقل نظام سامنے آنا چاہیے۔ وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ جلد پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر 10 ارب ڈالر سے بڑھ جائیں گے۔ سب جانتے ہیں کہ حکومتی معاشی اصلاحات کی آئی ایم ایف نے بھی تعریف کی ہے۔ ہمیں امید ہے 2015ء تک وزیر خزانہ عملی اصلاحات کے ذریعے ملک کو معاشی طور پر مضبوط بنا دیں گے۔
اسٹیٹ بینک نے ملک میں مہنگائی میں کمی پر بھی اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ مالی سال کی پہلی ششماہی میں مالیتی خسارہ بھی قابو میں رہا۔ زر مبادلہ کے ذخائر بڑھ کر 4.6 ارب ڈالر تک پہنچ گئے جو کہ جنوری 2014ء میں 3.2 ارب ڈالر تھے۔ اس کے ساتھ ہی 17 جنوری سے اب تک ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں 6 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ پہلی مرتبہ لوگ ڈالر خریدنے کی بجائے بیچنے کی فکر میں ہیں۔ امید ہے کہ ایک عرصہ سے ٹھنڈی پڑی ہوئی ہماری اسٹاک مارکیٹ مندی سے نکل آئے گی اور 2006ء کے دور کی طرح ریکارڈ حد کو دوبارہ پہنچے گی۔ اسٹاک مارکیٹ کی موجودہ صورتحال بتا رہی ہے کہ مارکیٹ اب دھیرے دھیرے مستحکم پوزیشن پر آ رہی ہے اور تکنیکی کریش کے خطرات حد درجہ کم ہو گئے ہیں۔
اسٹاک انڈیکس 27000 پوائنٹس کی ریکارڈ سطح کو چھو رہا ہے اور یہ مثبت رحجان بھی حکومت کے درست سمت میں گامزن ہونے کی دلیل ہے۔ جب مندی کے بادل چھٹ جائیں گئے تو فیڈرل بورڈ آف ریونیو بھی ریکارڈ حد تک پہنچے گا۔ اسحاق ڈار کا ایک اور وژنری اقدام سیلز ٹیکس، ریفنڈز کلیر کرنے کا ہے۔ اس سے ایکسپورٹر کو بہت ریلیف ملے گا جو ڈالر کی قیمت میں کمی کے باعث ہونے والے نقصان سے پریشان ہیں۔ ایک عام خیال ہے کہ اگر فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو یہ ہدایات جاری کر دی جائیں کہ ایکسپورٹ آرڈرز پورے ہونے کے ایک ماہ کے اندر ریفنڈز کا عمل مکمل کیا جائے تو برآمدات میں نمایاں اضافہ ہو گا۔ وزارت خزانہ کے فیصلے سے ریفنڈز کے منتظر 36 ہزار میں سے26 ہزار کلیم کنند گان کو فائدہ ہو گا۔ اس طرح معاشی سرگرمیاں یقینا بڑھیں گی اور انشاء اللہ میرا سوہنا پاکستان سچ مچ کا خوشحال پاکستان بننے کی طرف گامزن ہوگا۔
نوٹ میرے گزشتہ کالم (بسیٹ مدر ایوارڈ ) میں ٹائپنگ ایرر کے سبب شعر کے الفاظ غلط چھپ گئے تھے برائے مہربانی اسے ریکارڈ میں درست کر لیں علامہ اقبال کا یہ شعر کچھ یوں ہے۔
میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خود ی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر