موسمیاتی تبدیلیاں اور درپیش چیلنجز
پاکستان کی معیشت اور مالیاتی نظام کو بہتر بنانے کے لیے ہر ممکن اقدام کیے جانے چاہیں
وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ انھوں نے کوپ27 سمٹ کے موقعے پر دنیا کو پاکستان میں سیلاب کے بعد تعمیر نو کے حوالے سے درپیش چیلنجز سے آگاہ کیا ہے۔
اپنے ایک ٹویٹ میں انھوں نے بتایا کہ اجلاس کے موقعے پر عالمی رہنماؤں سے ملاقاتیں ہوئی، ان ملاقاتوں میں انھوں نے عالمی رہنماؤں کو حالیہ سیلاب کے بعد حکومت کی طرف سے کیے جانے والے اقدامات اور متاثرین کی بحالی کے لیے بین الاقوامی سطح پر تعاون کی فوری ضرورت کو اجاگر کیا اور زور دیا ہے کہ عالمی برادری موسمیاتی تبدیلی کے واضح چیلنج سے نمٹنے کے حوالے سے اپنے وعدوں کو عملی شکل دے۔
ادھر مصر کے شہر شرم الشیخ میں مڈل ایسٹ گرین انیشی ایٹیو سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کم کرنے کے لیے فوری اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔
پاکستان خشک علاقوں میں جنگلات کی بحالی کے لیے تکنیکی مہارت کی فراہمی کے ذریعے مڈل ایسٹ گرین انیشییٹیوکے مقاصد کے حصول کے لیے پرعزم ہے،کرہ ارض کو ماحولیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات سے محفوظ بنانے کے لیے قریبی تعاون کو فروغ دینا ہو گا۔ گرین انیشیٹو کانفرنس کے اختتام پر مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ ماحولیاتی تحفظ کے لیے خطے میں 50 ارب درخت لگائے جائیں گے۔
اس کے ساتھ ساتھ کاربن کے اخراج میں کمی لانے پر بھی اتفاق ہوا ہے،اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے 39 ارب ریال کا بجٹ مختص کیا گیا ہے۔ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے آیندہ دس سال کے دوران میں ''مشرق اوسط سبزاقدام'' کے لیے ڈھائی ارب ڈالردینے کا اعلان کیا ہے۔
اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے ممالک ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں ہونے والی تباہ کاری کے خدشات سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں،سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلطان اس معاملے میں بہت زیادہ دلچسپی لے رہے ہیں۔
اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ پوری دنیا کو موسمیاتی تبدیلیوں سے ہونے والی تباہی اور خطرات کا بخوبی ادراک ہے،خاص طور پر پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں سے آنے والے حالیہ سیلاب اور تباہی نے سب کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ اس خطرے سے ابھی سے نہ نمٹا گیا تو آنے والے برسوں میں وہ بھی اس مصیبت کا شکار ہو سکتے ہیں۔
خوش آیند امر یہ ہے کہ سب نے اس خطرے کو بڑھنے سے قبل ہی اس کے تدارک کے لیے لائحہ عمل طے کرنا شروع کر دیا ہے۔مسلم ممالک کی اکثریت ترقی پذیر علاقوں میں شمار ہوتی ہے ،ان کے پاس وسائل اور ٹیکنالوجی کی بھی کمی ہے ،اس لیے موسمیاتی تبدیلیوں سے آنے والے خطرات سے نمٹنے کے لیے ان کا اکٹھا ہونا قابل ستائش ہے۔
مشترکہ اعلامیہ میں موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث تباہ کن طوفانوں سے خبردار کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی جانب سے گلوبل early warning سسٹم بنانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ آئی ایم ایف کی سربراہ کرسٹالینا جارجیوا نے کہا کہ دنیا افراط زراور کساد بازاری سے تو بچ سکتی ہے مگر موسمیاتی بحران سے نہیں بچ سکتی۔ یہ بات حقیقت پر مبنی ہے۔
کرہ ارض کی بقا کے لیے بنی نوع انسان کو غیرمعمولی ذہانت اور ذمے داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا اس معاملے میں اگر کوتاہی برتی یا تاخیر کی گئی تو اس کا مزید نقصان بھی بنی نوع انسان ہی کو اٹھانا ہو گا۔
پاکستان کی حکومت بھی اس حوالے سے اپنے وسائل کے مطابق جدوجہد میں مصروف ہے تاہم حالیہ بارشوں اور سیلاب نے ملک کی معیشت کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔
پاکستان کی معیشت تنہا اتنے بڑے نقصان کو بوجھ اٹھانے کی متحمل نہیں ہو سکتی، اس کی معیشت پہلے قرضوں کے بوجھ تلی دبی سسک رہی ہے لہذا سیلاب سے پیدا ہونے والے مسائل اور اپنی مالی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے پاکستان عالمی برادری اور عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ بات چیت بھی کررہا ہے۔
پاکستان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان ادارہ جاتی اصلاحات اور معاشی ترقی کے لیے عالمی بینک کی طرف سے فراہم کی جانے والی مالی اور تکنیکی مدد کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے، پاکستان میں عالمی بینک کی جانب سے شروع کیے جانے والے جاری منصوبوں کے لیے موجودہ حکومت کی جانب سے ہر ممکن تعاون فراہم کیا جائے گا۔
وزارت خزانہ کی طرف سے جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق وفاقی وزیر خزانہ نے ان خیالات کا اظہار اگلے روز خزانہ ڈویژن میں ملاقات کے لیے آئے ہوئے عالمی بینک کے ریجنل ڈائریکٹر برائے جنوبی ایشیا انفرااسٹرکچر گوانگ ژیچن سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
ادھر ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ وفاقی حکومت نے 50کروڑ ڈالر کا مہنگا قرضہ لینے کے لیے پیش کی گئی شرائط کی منظوری دیدی، یہ قرضہ دو ارب ڈالر سے زائد مالیت کے فارن فنڈنگ پیکیج کا حصہ ہے۔
خبر میں وزارت منصوبہ بندی کے ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ سینٹرل ڈیولپمنٹ ورکنگ پارٹی (CDWP) نے منگل کو ایشین انفرااسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک(AIIB) سے بجٹ سپورٹ قرضے کے طور پر50کروڑ ڈالر کے حصول کے لیے کانسیپٹ کلیئرنس دے دی ہے۔
یہ قرضہ ایشین ڈیویلپمنٹ بینک سے لیے جانے والے ڈیڑھ ارب ڈالر کے اس قرضے کے علاوہ ہے، جس کی منظوری گزشتہ ماہ دی گئی تھی۔حکومت یہ دونوں قرضے 2.4 ارب ڈالر مالیت کے اس کاؤنٹر سائیکلیکل ایکسپینڈیچر پلان کے لیے فنڈز کے حصول کی خاطر لے رہی ہے، جس کا مقصد عالمی مہنگائی اور دیگر بیرونی عوامل سے لگنے والے دھچکوں سے سنبھلنے میں قومی معیشت کی مدد کرنا ہے۔ پاکستان پچاس کروڑ ڈالر کا نیا قرضہ مختصر ترین میچورٹی دورانیے کے لیے لے رہا ہے، جو سات سال کا ہے۔
اس قرضے پر 4.9 فیصد کے لگ بھگ شرح سے سود ادا کرنا پڑے گا۔ پاکستان مالیاتی سسٹم کو ٹریک پر رکھنے کے لیے بھی مناسب اقدامات کررہا ہے۔اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے سفری مقاصد کے لیے غیرملکی نقد کرنسی لے جانے کی موجودہ حد پر نظر ثانی کرتے ہوئے فیصلہ کیا ہے کہ اسے مزید معقول بنایا جائے۔
نظر ثانی شدہ حد کے مطابق 18 سال اور اس سے زائد عمر کے (بالغ)افراد اب پاکستان سے 5 ہزار امریکی ڈالر یا اس کے مساوی غیر ملکی کرنسی فی دورہ لے جاسکتے ہیں جب کہ 18 سال سے کم عمر کے(نابالغ)افراد کو فی دورہ 2,500 امریکی ڈالر یا اس کے مساوی غیرملکی کرنسی لے جانے کی اجازت ہوگی۔ مزید برآں بالغ اور نابالغ افراد کے لیے غیر ملکی کر نسی لے جانے کی سالانہ حد بالترتیب 30 ہزار اور 15ہزار امریکی ڈالر ہوگی۔
غیرملکی کرنسی کی فی دورہ حدیں فوری طور پر نافذالعمل ہوں گی جب کہ سالانہ حدیں یکم جنوری 2023سے لاگو ہوں گی۔ مزید برآں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مشاہدے میں آیا ہے کہ ڈیبٹ/کریڈٹ کارڈز ایسے لین دین کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں جو متعلقہ فرد کے پروفائل کے مطابق نہیں یا پھر یہ کارڈز تجارتی مقاصد کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔
چنانچہ مرکزی بینک نے کمرشل بینکوں کو یہ بات یقینی بنانے کا مشورہ دیا ہے کہ بین الاقوامی ادائیگیوں کے لیے ڈیبٹ/کریڈٹ کارڈز کا استعمال کارڈ ہولڈرز کے انفرادی پروفائل کے مطابق اور صرف ذاتی ضروریات کے لیے ہو۔
اسٹیٹ بینک اور ایف آئی اے نے زرمبادلہ آپریٹرز کی سٹے بازی اور گرے مارکیٹ ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے ، اسٹیٹ بینک، ایف آئی اے کی ٹیمیں اس غیرقانونی کام میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کریں گی، یہ فیصلہ اسٹیٹ بینک کے گورنر اور ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل نے اگلے روز منعقدہ مشترکہ اجلاس میں کیا۔
اجلاس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ ملک بھر میں زرمبادلہ کے غیرقانونی آپریٹروں اور سٹے بازوں کو پکڑنے اور قانونی کارروائی کے لیے مربوط کوششوں کی ضرورت ہے، اسی لیے اسٹیٹ بینک اور ایف آئی اے نے زرمبادلہ کے غیر قانونی آپریٹروں کے خلاف مشترکہ کارروائی شروع کی ہے۔
پاکستان کی معیشت اور مالیاتی نظام کو بہتر بنانے کے لیے ہر ممکن اقدام کیے جانے چاہیں،پاکستان کی حکومت عالمی برادری سے مالی تعاون کی جدوجہد کررہی ہے اور یہ جدوجہد اسی صورت میں کامیاب ہوسکتی ہے، جب پاکستان اپنے مالیاتی نظام کو بہتر سے بہتر بنائے ، معیشت کو چلانے کے لیے درست حکمت عملی اختیار کرے تاکہ اقوام عالم اور عالمی مالیاتی اداروں کا اعتماد حاصل کیا جاسکے۔
اپنے ایک ٹویٹ میں انھوں نے بتایا کہ اجلاس کے موقعے پر عالمی رہنماؤں سے ملاقاتیں ہوئی، ان ملاقاتوں میں انھوں نے عالمی رہنماؤں کو حالیہ سیلاب کے بعد حکومت کی طرف سے کیے جانے والے اقدامات اور متاثرین کی بحالی کے لیے بین الاقوامی سطح پر تعاون کی فوری ضرورت کو اجاگر کیا اور زور دیا ہے کہ عالمی برادری موسمیاتی تبدیلی کے واضح چیلنج سے نمٹنے کے حوالے سے اپنے وعدوں کو عملی شکل دے۔
ادھر مصر کے شہر شرم الشیخ میں مڈل ایسٹ گرین انیشی ایٹیو سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کم کرنے کے لیے فوری اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔
پاکستان خشک علاقوں میں جنگلات کی بحالی کے لیے تکنیکی مہارت کی فراہمی کے ذریعے مڈل ایسٹ گرین انیشییٹیوکے مقاصد کے حصول کے لیے پرعزم ہے،کرہ ارض کو ماحولیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات سے محفوظ بنانے کے لیے قریبی تعاون کو فروغ دینا ہو گا۔ گرین انیشیٹو کانفرنس کے اختتام پر مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ ماحولیاتی تحفظ کے لیے خطے میں 50 ارب درخت لگائے جائیں گے۔
اس کے ساتھ ساتھ کاربن کے اخراج میں کمی لانے پر بھی اتفاق ہوا ہے،اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے 39 ارب ریال کا بجٹ مختص کیا گیا ہے۔ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے آیندہ دس سال کے دوران میں ''مشرق اوسط سبزاقدام'' کے لیے ڈھائی ارب ڈالردینے کا اعلان کیا ہے۔
اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے ممالک ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں ہونے والی تباہ کاری کے خدشات سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں،سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلطان اس معاملے میں بہت زیادہ دلچسپی لے رہے ہیں۔
اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ پوری دنیا کو موسمیاتی تبدیلیوں سے ہونے والی تباہی اور خطرات کا بخوبی ادراک ہے،خاص طور پر پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں سے آنے والے حالیہ سیلاب اور تباہی نے سب کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ اس خطرے سے ابھی سے نہ نمٹا گیا تو آنے والے برسوں میں وہ بھی اس مصیبت کا شکار ہو سکتے ہیں۔
خوش آیند امر یہ ہے کہ سب نے اس خطرے کو بڑھنے سے قبل ہی اس کے تدارک کے لیے لائحہ عمل طے کرنا شروع کر دیا ہے۔مسلم ممالک کی اکثریت ترقی پذیر علاقوں میں شمار ہوتی ہے ،ان کے پاس وسائل اور ٹیکنالوجی کی بھی کمی ہے ،اس لیے موسمیاتی تبدیلیوں سے آنے والے خطرات سے نمٹنے کے لیے ان کا اکٹھا ہونا قابل ستائش ہے۔
مشترکہ اعلامیہ میں موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث تباہ کن طوفانوں سے خبردار کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی جانب سے گلوبل early warning سسٹم بنانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ آئی ایم ایف کی سربراہ کرسٹالینا جارجیوا نے کہا کہ دنیا افراط زراور کساد بازاری سے تو بچ سکتی ہے مگر موسمیاتی بحران سے نہیں بچ سکتی۔ یہ بات حقیقت پر مبنی ہے۔
کرہ ارض کی بقا کے لیے بنی نوع انسان کو غیرمعمولی ذہانت اور ذمے داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا اس معاملے میں اگر کوتاہی برتی یا تاخیر کی گئی تو اس کا مزید نقصان بھی بنی نوع انسان ہی کو اٹھانا ہو گا۔
پاکستان کی حکومت بھی اس حوالے سے اپنے وسائل کے مطابق جدوجہد میں مصروف ہے تاہم حالیہ بارشوں اور سیلاب نے ملک کی معیشت کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔
پاکستان کی معیشت تنہا اتنے بڑے نقصان کو بوجھ اٹھانے کی متحمل نہیں ہو سکتی، اس کی معیشت پہلے قرضوں کے بوجھ تلی دبی سسک رہی ہے لہذا سیلاب سے پیدا ہونے والے مسائل اور اپنی مالی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے پاکستان عالمی برادری اور عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ بات چیت بھی کررہا ہے۔
پاکستان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان ادارہ جاتی اصلاحات اور معاشی ترقی کے لیے عالمی بینک کی طرف سے فراہم کی جانے والی مالی اور تکنیکی مدد کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے، پاکستان میں عالمی بینک کی جانب سے شروع کیے جانے والے جاری منصوبوں کے لیے موجودہ حکومت کی جانب سے ہر ممکن تعاون فراہم کیا جائے گا۔
وزارت خزانہ کی طرف سے جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق وفاقی وزیر خزانہ نے ان خیالات کا اظہار اگلے روز خزانہ ڈویژن میں ملاقات کے لیے آئے ہوئے عالمی بینک کے ریجنل ڈائریکٹر برائے جنوبی ایشیا انفرااسٹرکچر گوانگ ژیچن سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
ادھر ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ وفاقی حکومت نے 50کروڑ ڈالر کا مہنگا قرضہ لینے کے لیے پیش کی گئی شرائط کی منظوری دیدی، یہ قرضہ دو ارب ڈالر سے زائد مالیت کے فارن فنڈنگ پیکیج کا حصہ ہے۔
خبر میں وزارت منصوبہ بندی کے ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ سینٹرل ڈیولپمنٹ ورکنگ پارٹی (CDWP) نے منگل کو ایشین انفرااسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک(AIIB) سے بجٹ سپورٹ قرضے کے طور پر50کروڑ ڈالر کے حصول کے لیے کانسیپٹ کلیئرنس دے دی ہے۔
یہ قرضہ ایشین ڈیویلپمنٹ بینک سے لیے جانے والے ڈیڑھ ارب ڈالر کے اس قرضے کے علاوہ ہے، جس کی منظوری گزشتہ ماہ دی گئی تھی۔حکومت یہ دونوں قرضے 2.4 ارب ڈالر مالیت کے اس کاؤنٹر سائیکلیکل ایکسپینڈیچر پلان کے لیے فنڈز کے حصول کی خاطر لے رہی ہے، جس کا مقصد عالمی مہنگائی اور دیگر بیرونی عوامل سے لگنے والے دھچکوں سے سنبھلنے میں قومی معیشت کی مدد کرنا ہے۔ پاکستان پچاس کروڑ ڈالر کا نیا قرضہ مختصر ترین میچورٹی دورانیے کے لیے لے رہا ہے، جو سات سال کا ہے۔
اس قرضے پر 4.9 فیصد کے لگ بھگ شرح سے سود ادا کرنا پڑے گا۔ پاکستان مالیاتی سسٹم کو ٹریک پر رکھنے کے لیے بھی مناسب اقدامات کررہا ہے۔اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے سفری مقاصد کے لیے غیرملکی نقد کرنسی لے جانے کی موجودہ حد پر نظر ثانی کرتے ہوئے فیصلہ کیا ہے کہ اسے مزید معقول بنایا جائے۔
نظر ثانی شدہ حد کے مطابق 18 سال اور اس سے زائد عمر کے (بالغ)افراد اب پاکستان سے 5 ہزار امریکی ڈالر یا اس کے مساوی غیر ملکی کرنسی فی دورہ لے جاسکتے ہیں جب کہ 18 سال سے کم عمر کے(نابالغ)افراد کو فی دورہ 2,500 امریکی ڈالر یا اس کے مساوی غیرملکی کرنسی لے جانے کی اجازت ہوگی۔ مزید برآں بالغ اور نابالغ افراد کے لیے غیر ملکی کر نسی لے جانے کی سالانہ حد بالترتیب 30 ہزار اور 15ہزار امریکی ڈالر ہوگی۔
غیرملکی کرنسی کی فی دورہ حدیں فوری طور پر نافذالعمل ہوں گی جب کہ سالانہ حدیں یکم جنوری 2023سے لاگو ہوں گی۔ مزید برآں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مشاہدے میں آیا ہے کہ ڈیبٹ/کریڈٹ کارڈز ایسے لین دین کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں جو متعلقہ فرد کے پروفائل کے مطابق نہیں یا پھر یہ کارڈز تجارتی مقاصد کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔
چنانچہ مرکزی بینک نے کمرشل بینکوں کو یہ بات یقینی بنانے کا مشورہ دیا ہے کہ بین الاقوامی ادائیگیوں کے لیے ڈیبٹ/کریڈٹ کارڈز کا استعمال کارڈ ہولڈرز کے انفرادی پروفائل کے مطابق اور صرف ذاتی ضروریات کے لیے ہو۔
اسٹیٹ بینک اور ایف آئی اے نے زرمبادلہ آپریٹرز کی سٹے بازی اور گرے مارکیٹ ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے ، اسٹیٹ بینک، ایف آئی اے کی ٹیمیں اس غیرقانونی کام میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کریں گی، یہ فیصلہ اسٹیٹ بینک کے گورنر اور ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل نے اگلے روز منعقدہ مشترکہ اجلاس میں کیا۔
اجلاس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ ملک بھر میں زرمبادلہ کے غیرقانونی آپریٹروں اور سٹے بازوں کو پکڑنے اور قانونی کارروائی کے لیے مربوط کوششوں کی ضرورت ہے، اسی لیے اسٹیٹ بینک اور ایف آئی اے نے زرمبادلہ کے غیر قانونی آپریٹروں کے خلاف مشترکہ کارروائی شروع کی ہے۔
پاکستان کی معیشت اور مالیاتی نظام کو بہتر بنانے کے لیے ہر ممکن اقدام کیے جانے چاہیں،پاکستان کی حکومت عالمی برادری سے مالی تعاون کی جدوجہد کررہی ہے اور یہ جدوجہد اسی صورت میں کامیاب ہوسکتی ہے، جب پاکستان اپنے مالیاتی نظام کو بہتر سے بہتر بنائے ، معیشت کو چلانے کے لیے درست حکمت عملی اختیار کرے تاکہ اقوام عالم اور عالمی مالیاتی اداروں کا اعتماد حاصل کیا جاسکے۔