’’ایم ٹی وی سے مکہ تک‘‘
یورپ کے پہلے میوزک چینل کی میزبان کرسٹیان بیکر کے قبول اسلام کا سفر۔
واصف علی واصف مرحوم کہا کرتے تھے: ''اے اللہ! اسلام کو مسلمانوں سے بچا''۔
یہ سچ ہے کہ آج کل مسلم ممالک اور مسلمانوں کا کردار ایسا قابل رشک نہیں ہے کہ ان کے کردار اور اعلیٰ اخلاقی اوصاف سے متاثر ہوکر غیر مسلم دین اسلام کی طرف مائل ہوں۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اگر خرابی ہے تو ہم جیسے مسلمانوں میں ہے، اسلام میں نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب غیر مسلم خود اسلام کا مطالعہ کرتے ہیں تو اسے سب سے بہتر مذہب قرار دیتے ہیں۔
ہم مسلمانوں کی اکثریت، جوکہ مسلم گھرانوں میں پیدا ہوئی ہے، اسلام پر سوچنے اور غور و فکر کرنے کی زحمت ذرا کم ہی کرتی ہے۔ ہم نے دین اسلام کو چند مخصوص عبادات اور رسوم تک محدود کرلیا ہے۔ جبکہ اس کے برعکس جب کوئی غیر مسلم اسلام قبول کرتا ہے تو وہ پہلے اسلام کے پیغام کو خوب اچھی طرح سمجھتا ہے، اور اس کو اپنے دل میں اتار لیتا ہے۔ نو مسلموں کے قبول اسلام کی کہانیاں عام مسلمانوں کیلئے ہمیشہ سے ایمان افروز رہی ہیں۔
کرسٹیان بیکر یورپ کے پہلے میوزک چینل MTv کی میزبان تھی، جس نے 1995ء میں اسلام قبول کیا۔ اس کی کتاب ''MTv سے مکہ تک'' 2009ء میں جرمن زبان میں شائع ہوئی تھی۔ جس کا حال ہی میں انگریزی زبان میں بین الاقوامی ایڈیشن شائع ہوا ہے۔ زیر نظر مضمون میں کرسٹیان بیکر کی کہانی اور اسلام کے بارے میں اس کے تاثرات اور خیالات کو اس کے اپنے الفاظ میںبیان کیا گیا ہے۔
''میں جرمنی کے خوبصورت شہر ہیمبرگ میں پیدا ہوئی۔21 سال کی عمر میں، میری پیشہ وارانہ زندگی کا آغاز اس وقت ہوا'جب میں نے ریڈیو جرنلسٹ کے طور پر کام کرنے کیلئے ہیمبرگ ریڈیو میں دو سال تک رضا کارانہ طور پر تربیت حاصل کی۔ میں ان ہزاروں امیدواروں میں سے ایک تھی، جس نے یورپ کے پہلے میوزک چینل MTv میں میزبان بننے کیلئے آڈیشن دیا تھا۔ اور پھر اس کیلئے مجھے منتخب کرلیا گیا۔ میں جرمنی سے تعلق رکھنے والی پہلی میزبان تھی، جس نے MTv یورپ کیلئے کام کیا۔ میرے سامنے بس ایک شرط رکھی گئی کہ مجھے پروگرام کیلئے لندن جانا ہوگا۔
لندن وہ جگہ ہے' جسے دیکھتے ہی پہلی نظر میں مجھے اس سے پیار ہوگیا تھا۔
MTV یورپ کے میزبان کی حیثیت سے میں 1989ء میں لندن پہنچی۔ اب میری زندگی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ میں اپنے پروگرام کیلئے اس وقت کی میوزک انڈسٹری کے بڑے بڑے نامور لوگوں سے ملی اور ان کے انٹرویو کیے۔
MTV یورپ اپنی نوعیت کا ایک منفرد رجحان ساز چینل بن گیا تھا، جوکہ جرمنی، سیکنڈے نیوین اور شمال مغربی یورپی ممالک میں خاص طور پر مقبول تھا۔
میں بھی پورے یورپ میں مقبول تھی اور میرے لیے یہ خیال بہت مسحور کن تھا کہ میں یورپی نوجوانوں کی زندگی کا حصہ ہوں۔ 1992ء میں مجھے اسپین میں MTV کے نمائندے کے طور پر اولمپکس مشتعل اٹھانے کا اعزاز حاصل ہوا۔
میرا شمار MTV یورپ کے صف اول کے میزبانوں میں ہوتا تھا۔ میں کئی پروگراموں کی میزبان تھی، جس میں سب سے زیادہ دیکھا جانے والا پروگرام ''کوکا کولا رپورٹ'' بھی شامل تھا۔
اگرچہ میں اپنے کیریئر کے اعتبار سے ایسے مقام پر پہنچ گئی تھی، جس کا ہزاروں لوگ صرف خواب دیکھتے ہیں۔ لیکن شام کو جب میں اپنے فلیٹ پر پہنچتی تھی تو مجھے تنہائی میں اپنی زندگی کے خالی پن اور بے معنویت کا احساس ہوتا تھا۔ مجھے اپنی زندگی بے مقصد نظر آتی تھی۔
پاکستانی کرکٹر عمران خان، جس سے میں 1992ء میں پہلی مرتبہ ملی تھی، میری نئی اور پرانی زندگی کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کیا۔اس نے میری رہنمائی کی اور مجھے اسلام پر مختلف کتابیں پڑھنے کیلئے دیں۔ میں صوفی شعرا بلھے شاہ اور جلال الدین رومی سے بہت متاثر تھی اور اس وجہ سے صوفی ازم اور روحانیت کی طرف مائل تھی۔ بعدازاں میں نے قرآن مجید کا ترجمہ بھی پڑھا اور اس کے مدلل بیان، واضح اسلوب اور آفاقی پیغام سے متاثر ہوئی۔
1992ء میں مجھے ایک مختلف دنیا دیکھنے کا موقع ملا جب میں نے کچھ مسلم مشرقی ممالک کادورہ کیا۔ میں ان ممالک کے صوفی میوزک سے بہت متاثر ہوئی۔ مختلف ممالک میں واقع مسلم آرٹ سے مزین عمارتوں اور مغلیہ آرٹ نے بھی مجھ پر انمٹ نقوش چھوڑے۔ مجھے اسلامی آرٹ اور فن تعمیر بہت پسند ہے۔ یہ دیکھنے میں بہت دلاویز ہے۔ ''اللہ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے'' اللہ کے آخری رسولؐ کا یہ فرمان مجھے بہت متاثر کرتا ہے۔ میں یہاں بسنے والے لوگوں سے بھی بہت متاثر ہوئی۔ ان میں اگرچہ بہت غریب لوگ بھی تھے۔ لیکن ان کے چہرے پر مسکراہٹ نکھری رہتی تھی اور آنکھیں روشن تھیں۔
1995ء میں میں نے اسلام قبول کرلیا۔ مجھے اس پر شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔ لوگ اسلام کے بارے میں تعصب برتتے ہیں اور ان کا علم اس کے متعلق ناقص ہے۔ وہ اسلام کے بارے میں غلط نظریات کے حامل ہیں۔ جرمنی میں تو ایسا لگتا ہے کہ لوگوں کو اسلامو فوبیا(اسلام سے خوف اور نفرت) ہوگیا ہے۔ تاہم لندن میں لوگ عموماً کسی کی ذاتی زندگی میں زیادہ عمل دخل روا نہیں رکھتے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان تک اسلام کا اصل پیغام پہنچایا جائے اور اسلام کی درست منظرکشی کی جائے۔
1996ء میں مجھے MTV کی ملازمت ترک کرنا پڑی۔ جس کے بعد میں نے نئے سرے سے اپنے کیریئر کا مختلف انداز میں آغاز کیا۔
2006ء میں مجھے حج پر جانے کی سعادت نصیب ہوئی۔ یہ ایک روحانیت سے بھر پور سفر تھا۔ جو میری پوری زندگی کیلئے ایک اثاثہ ہے۔ یہ ایک بڑا ہی دلاویز روح پرور منظر تھا کہ خانہ کعبہ کے سامنے زبان' رنگ، نسل سے بالاتر ہوکر سب ایک ہی خدا کے سامنے ایک طرح کے لباس میں حاضر تھے۔ حج کے موقع پر پوری دنیا سے مسلمان آتے ہیں۔ ایک ادنیٰ آدمی کے ساتھ ہی کسی ملک کا حکمران بھی گزر رہا ہوتا ہے۔ ادھر آکر احساس ہوتا ہے کہ خدا کے سامنے آدمی کی نیتوں اور اعمال کے علاوہ اور کسی چیز کی اہمیت نہیں ہے۔
میں نے تقریباً 14 برس اسلام کا مطالعہ کیا ہے۔لندن یونیورسٹی میں بھی اور ذاتی طور پر بھی۔ ایسے اسکالرز جن سے میں خاص طور پر متاثر ہوں ان میں مارٹن لنگز، ڈاکٹر سید حسین، گائی ایٹن، این میری شمل، ڈاکٹر ذکی بداوی، مرادہف مین اور محمد اسد وغیرہ شامل ہیں۔ ان میں سے کچھ اسکالرز سے میں باقاعدگی سے ملتی بھی رہی ہوں اور ان سے اسلام کے متعلق بہت کچھ جانکاری حاصل کی ہے۔
اسلام پر امن بقائے باہمی کا علم بردار ہے۔ دین میں کوئی جبر نہیں۔ یورپ میں مذہب ہر فرد کا ذاتی معاملہ ہے۔ جس سے ریاست کو کوئی سروکار نہیں ہے۔
مسلمانوں کی یورپ اور برطانیہ میں جڑیں بہت گہری ہیں اور وہ دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کی طرح معاشرے میں اپنا مثبت کردار ادا کررہے ہیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ مسلمانوں کو جرمن زبان کو اچھی طرح سے سیکھنا چاہیے تاکہ وہ جرمن معاشرے کے سرگرم رکن بن سکیں۔ میں چاہتی ہوں کہ وہاں موجود مسلم جرمن کمیونٹی کو اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
یورپ میں لوگ بہت سی غیر ضروری اور معمولی اہمیت کی چیزوں کو ضرورت سے زیادہ سرپر سوار کرلیتے ہیں مثلاً وہ کون سا لباس پہنیں۔ انھیں کون سا نیا فیشن اپنانا چاہیے تاکہ وہ لوگوں کو متاثر کرسکیں۔ جبکہ اس کے برعکس، اسلام میں ہر کوئی ایک بڑے مقصد کو ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھتا ہے کہ ہر وہ کام کرنا چاہیے جس سے اللہ کی خوشنودی حاصل کی جاسکے۔ باقی سب کام ثانوی اور غیراہم ہیں۔''
یہ سچ ہے کہ آج کل مسلم ممالک اور مسلمانوں کا کردار ایسا قابل رشک نہیں ہے کہ ان کے کردار اور اعلیٰ اخلاقی اوصاف سے متاثر ہوکر غیر مسلم دین اسلام کی طرف مائل ہوں۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اگر خرابی ہے تو ہم جیسے مسلمانوں میں ہے، اسلام میں نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب غیر مسلم خود اسلام کا مطالعہ کرتے ہیں تو اسے سب سے بہتر مذہب قرار دیتے ہیں۔
ہم مسلمانوں کی اکثریت، جوکہ مسلم گھرانوں میں پیدا ہوئی ہے، اسلام پر سوچنے اور غور و فکر کرنے کی زحمت ذرا کم ہی کرتی ہے۔ ہم نے دین اسلام کو چند مخصوص عبادات اور رسوم تک محدود کرلیا ہے۔ جبکہ اس کے برعکس جب کوئی غیر مسلم اسلام قبول کرتا ہے تو وہ پہلے اسلام کے پیغام کو خوب اچھی طرح سمجھتا ہے، اور اس کو اپنے دل میں اتار لیتا ہے۔ نو مسلموں کے قبول اسلام کی کہانیاں عام مسلمانوں کیلئے ہمیشہ سے ایمان افروز رہی ہیں۔
کرسٹیان بیکر یورپ کے پہلے میوزک چینل MTv کی میزبان تھی، جس نے 1995ء میں اسلام قبول کیا۔ اس کی کتاب ''MTv سے مکہ تک'' 2009ء میں جرمن زبان میں شائع ہوئی تھی۔ جس کا حال ہی میں انگریزی زبان میں بین الاقوامی ایڈیشن شائع ہوا ہے۔ زیر نظر مضمون میں کرسٹیان بیکر کی کہانی اور اسلام کے بارے میں اس کے تاثرات اور خیالات کو اس کے اپنے الفاظ میںبیان کیا گیا ہے۔
''میں جرمنی کے خوبصورت شہر ہیمبرگ میں پیدا ہوئی۔21 سال کی عمر میں، میری پیشہ وارانہ زندگی کا آغاز اس وقت ہوا'جب میں نے ریڈیو جرنلسٹ کے طور پر کام کرنے کیلئے ہیمبرگ ریڈیو میں دو سال تک رضا کارانہ طور پر تربیت حاصل کی۔ میں ان ہزاروں امیدواروں میں سے ایک تھی، جس نے یورپ کے پہلے میوزک چینل MTv میں میزبان بننے کیلئے آڈیشن دیا تھا۔ اور پھر اس کیلئے مجھے منتخب کرلیا گیا۔ میں جرمنی سے تعلق رکھنے والی پہلی میزبان تھی، جس نے MTv یورپ کیلئے کام کیا۔ میرے سامنے بس ایک شرط رکھی گئی کہ مجھے پروگرام کیلئے لندن جانا ہوگا۔
لندن وہ جگہ ہے' جسے دیکھتے ہی پہلی نظر میں مجھے اس سے پیار ہوگیا تھا۔
MTV یورپ کے میزبان کی حیثیت سے میں 1989ء میں لندن پہنچی۔ اب میری زندگی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ میں اپنے پروگرام کیلئے اس وقت کی میوزک انڈسٹری کے بڑے بڑے نامور لوگوں سے ملی اور ان کے انٹرویو کیے۔
MTV یورپ اپنی نوعیت کا ایک منفرد رجحان ساز چینل بن گیا تھا، جوکہ جرمنی، سیکنڈے نیوین اور شمال مغربی یورپی ممالک میں خاص طور پر مقبول تھا۔
میں بھی پورے یورپ میں مقبول تھی اور میرے لیے یہ خیال بہت مسحور کن تھا کہ میں یورپی نوجوانوں کی زندگی کا حصہ ہوں۔ 1992ء میں مجھے اسپین میں MTV کے نمائندے کے طور پر اولمپکس مشتعل اٹھانے کا اعزاز حاصل ہوا۔
میرا شمار MTV یورپ کے صف اول کے میزبانوں میں ہوتا تھا۔ میں کئی پروگراموں کی میزبان تھی، جس میں سب سے زیادہ دیکھا جانے والا پروگرام ''کوکا کولا رپورٹ'' بھی شامل تھا۔
اگرچہ میں اپنے کیریئر کے اعتبار سے ایسے مقام پر پہنچ گئی تھی، جس کا ہزاروں لوگ صرف خواب دیکھتے ہیں۔ لیکن شام کو جب میں اپنے فلیٹ پر پہنچتی تھی تو مجھے تنہائی میں اپنی زندگی کے خالی پن اور بے معنویت کا احساس ہوتا تھا۔ مجھے اپنی زندگی بے مقصد نظر آتی تھی۔
پاکستانی کرکٹر عمران خان، جس سے میں 1992ء میں پہلی مرتبہ ملی تھی، میری نئی اور پرانی زندگی کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کیا۔اس نے میری رہنمائی کی اور مجھے اسلام پر مختلف کتابیں پڑھنے کیلئے دیں۔ میں صوفی شعرا بلھے شاہ اور جلال الدین رومی سے بہت متاثر تھی اور اس وجہ سے صوفی ازم اور روحانیت کی طرف مائل تھی۔ بعدازاں میں نے قرآن مجید کا ترجمہ بھی پڑھا اور اس کے مدلل بیان، واضح اسلوب اور آفاقی پیغام سے متاثر ہوئی۔
1992ء میں مجھے ایک مختلف دنیا دیکھنے کا موقع ملا جب میں نے کچھ مسلم مشرقی ممالک کادورہ کیا۔ میں ان ممالک کے صوفی میوزک سے بہت متاثر ہوئی۔ مختلف ممالک میں واقع مسلم آرٹ سے مزین عمارتوں اور مغلیہ آرٹ نے بھی مجھ پر انمٹ نقوش چھوڑے۔ مجھے اسلامی آرٹ اور فن تعمیر بہت پسند ہے۔ یہ دیکھنے میں بہت دلاویز ہے۔ ''اللہ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے'' اللہ کے آخری رسولؐ کا یہ فرمان مجھے بہت متاثر کرتا ہے۔ میں یہاں بسنے والے لوگوں سے بھی بہت متاثر ہوئی۔ ان میں اگرچہ بہت غریب لوگ بھی تھے۔ لیکن ان کے چہرے پر مسکراہٹ نکھری رہتی تھی اور آنکھیں روشن تھیں۔
1995ء میں میں نے اسلام قبول کرلیا۔ مجھے اس پر شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔ لوگ اسلام کے بارے میں تعصب برتتے ہیں اور ان کا علم اس کے متعلق ناقص ہے۔ وہ اسلام کے بارے میں غلط نظریات کے حامل ہیں۔ جرمنی میں تو ایسا لگتا ہے کہ لوگوں کو اسلامو فوبیا(اسلام سے خوف اور نفرت) ہوگیا ہے۔ تاہم لندن میں لوگ عموماً کسی کی ذاتی زندگی میں زیادہ عمل دخل روا نہیں رکھتے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان تک اسلام کا اصل پیغام پہنچایا جائے اور اسلام کی درست منظرکشی کی جائے۔
1996ء میں مجھے MTV کی ملازمت ترک کرنا پڑی۔ جس کے بعد میں نے نئے سرے سے اپنے کیریئر کا مختلف انداز میں آغاز کیا۔
2006ء میں مجھے حج پر جانے کی سعادت نصیب ہوئی۔ یہ ایک روحانیت سے بھر پور سفر تھا۔ جو میری پوری زندگی کیلئے ایک اثاثہ ہے۔ یہ ایک بڑا ہی دلاویز روح پرور منظر تھا کہ خانہ کعبہ کے سامنے زبان' رنگ، نسل سے بالاتر ہوکر سب ایک ہی خدا کے سامنے ایک طرح کے لباس میں حاضر تھے۔ حج کے موقع پر پوری دنیا سے مسلمان آتے ہیں۔ ایک ادنیٰ آدمی کے ساتھ ہی کسی ملک کا حکمران بھی گزر رہا ہوتا ہے۔ ادھر آکر احساس ہوتا ہے کہ خدا کے سامنے آدمی کی نیتوں اور اعمال کے علاوہ اور کسی چیز کی اہمیت نہیں ہے۔
میں نے تقریباً 14 برس اسلام کا مطالعہ کیا ہے۔لندن یونیورسٹی میں بھی اور ذاتی طور پر بھی۔ ایسے اسکالرز جن سے میں خاص طور پر متاثر ہوں ان میں مارٹن لنگز، ڈاکٹر سید حسین، گائی ایٹن، این میری شمل، ڈاکٹر ذکی بداوی، مرادہف مین اور محمد اسد وغیرہ شامل ہیں۔ ان میں سے کچھ اسکالرز سے میں باقاعدگی سے ملتی بھی رہی ہوں اور ان سے اسلام کے متعلق بہت کچھ جانکاری حاصل کی ہے۔
اسلام پر امن بقائے باہمی کا علم بردار ہے۔ دین میں کوئی جبر نہیں۔ یورپ میں مذہب ہر فرد کا ذاتی معاملہ ہے۔ جس سے ریاست کو کوئی سروکار نہیں ہے۔
مسلمانوں کی یورپ اور برطانیہ میں جڑیں بہت گہری ہیں اور وہ دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کی طرح معاشرے میں اپنا مثبت کردار ادا کررہے ہیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ مسلمانوں کو جرمن زبان کو اچھی طرح سے سیکھنا چاہیے تاکہ وہ جرمن معاشرے کے سرگرم رکن بن سکیں۔ میں چاہتی ہوں کہ وہاں موجود مسلم جرمن کمیونٹی کو اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
یورپ میں لوگ بہت سی غیر ضروری اور معمولی اہمیت کی چیزوں کو ضرورت سے زیادہ سرپر سوار کرلیتے ہیں مثلاً وہ کون سا لباس پہنیں۔ انھیں کون سا نیا فیشن اپنانا چاہیے تاکہ وہ لوگوں کو متاثر کرسکیں۔ جبکہ اس کے برعکس، اسلام میں ہر کوئی ایک بڑے مقصد کو ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھتا ہے کہ ہر وہ کام کرنا چاہیے جس سے اللہ کی خوشنودی حاصل کی جاسکے۔ باقی سب کام ثانوی اور غیراہم ہیں۔''