مولا جٹ بمقابلہ دی لیجنڈ آف مولا جٹ

اگر پاکستانی عوام کے سامنے ایک اچھی مقامی فلم رکھی جائے تو یہ اس صنعت کو دوبارہ منافع بخش بنا سکتے ہیں

فلم مولا جٹ اور نوری نت کی دشمنی اور لڑائی کے اردگرد ہی گھومتی ہے۔ (فوٹو: فائل)

آفرینش سے آج تک انسان دو گروہوں میں منقسم ہے۔ ایک گروہ زمین پر فساد برپا کرنے والے شیطان کا پیروکار ہے تو دوسرا گروہ خدا کا فرمانبردار اور مخلوق سے انصاف کرنے اور انصاف دلانے والا۔ یہی مولا جٹ کی کہانی کی بنیاد ہے۔ مولا جٹ ایک منصف اور نوری نت زمین پر فساد برپا کرنے والوں کا سردار۔

احمد ندیم قاسمی کی ایک شارٹ اسٹوری ''گنڈاسا'' کے مرکزی خیال مولا کو جب 1979 میں فلمساز محمد سرور بھٹی اور مصنف ناصر ادیب نے عوام کے سامنے ایک جیتے جاگتے کردار کی صورت میں سینما گھروں کی پردہ اسکرین پر پیش کیا تو انہوں نے دل کھول کر داد دی۔ دوسری طرف حکومت وقت کو یوں لگا کہ انہیں نوری نت بنا کر پیش کیا گیا ہے اور نتیجہ یہ کہ فلم پابندی کا شکار بھی ہوئی۔ اس فلم سے متاثر ہوکر ڈائریکٹر بلال لاشاری نے جب 2013 میں ایک ایسی کلاسک فلم کا ورژن بنانے کا اعلان کیا جس فلم پر یہ الزام تھا کہ اس میں چلنے والے گنڈاسے نے پاکستانی فلمی صنعت کی ہیئت اور سمت ہی بدل کر رکھ دی، تو فلمی نقادوں نے بلال لاشاری کو زیادہ سنجیدگی سے نہ لیا، کیونکہ ان کے نزدیک یہ ایک نوجوان کی آنکھوں میں اپنے دور کی ایک بلاک بسٹر فلم کا عکس تھا جسے خواب بھی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔

بلال لاشاری اور اس کی پروڈکشن ٹیم کی خوش نصیبی ہے کہ بھلے آج کے دور میں عہد ماضی جیسی ہی آب و ہوا ہے مگر اسے اُس جبر اور مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا جو پرانی مولا جٹ کی ٹیم کو کرنا پڑا تھا۔ پھر وہ وقت آیا جب اس خواب نے حقیقت کا روپ دھارا اور پردہ اسکرین پر ''مولا جٹ'' نئی کہانی اور نئے کرداروں کے ساتھ جلوہ افروز ہوئی۔ اس فلم میں اداکارہ فواد خان نے مولا جٹ اور حمزہ عباسی نے نوری نت کا کردار نبھایا ہے جب کہ دیگر کاسٹ بھی اپنے اپنے کردار بخوبی نبھانے میں کامیاب ہوئی ہے۔ فلم کے لکھاری ان کرداروں کے حقیقی خالق ناصر ادیب اور بلال لاشاری ہیں۔

فلم مولا جٹ کو مقامی اور بین الاقوامی سطح پر سینما گھروں میں پیش کیا گیا تو روز اول ہی سے باکس آفس پر اس نے بے پناہ کامیابی حاصل کی۔ جب فلم تکمیل کے مراحل میں تھی تو لوگوں کے ذہن میں یہ تصور مضبوط تھا کہ یہ فلم ماضی کی مولا جٹ کا ری میک ہے یا اس میں وہی تسلسل ہوگا۔ بہت سے لوگوں نے تو پرانی مولا جٹ کو سرچ کرکے آن لائن کسی نہ کسی پلیٹ فارم پر دیکھا، اور کچھ نے ''دی لیجنڈ آف مولا جٹ'' دیکھنے کے بعد پرانی فلم دیکھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے بارے میں عوام نے ملاجلا ردعمل دیا مگر کامران لاشاری نے وضاحت دی کہ یہ فلم کسی طرح سے بھی مولا جٹ کا ری میک نہیں ہے۔


یہ فلم مولا جٹ اور نوری نت کی دشمنی اور لڑائی کے اردگرد ہی گھومتی ہے مگر اس کا مولا فواد خان اور نوری نت حمزہ علی عباسی ہے۔ سلطان راہی اور مصطفیٰ قریشی نے وہ کردار ادا نہیں کیے تھے بلکہ ناصر ادیب اور ان کی پروڈکشن ٹیم نے سارے کرداروں کو ایسے رنگ میں رنگ ڈالا تھا کہ آج اتنے سال بعد بھی چاہے کسی نے اس فلم کو دیکھا ہو یا نہیں مگر اس کے ڈائیلاگز آج بھی اسی طرح روزمرہ کی زندگی پر اپنی گرفت رکھے دکھائی دیتے ہیں، جیسے ''نواں آیا ایں سوہنیا''، ''مولا نوں مولا نہ مارے تے مولا نئی مردا'' آج بھی زبان زد عام ہیں۔ سلطان راہی اور مصطفیٰ قریشی کا یہ کمال ہے کہ ہر کردار کو انہوں نے ایک کیفیت بناکر خود پر طاری کرلیا اور اس خوبی نے انہیں لازوال کردیا جبکہ یہاں اس کے تمام کرداروں نے برملا اس کا اظہار کیا کہ یہ ایک مشکل پروجیکٹ تھا۔

سوشل میڈیا پر جو تبصرے دیکھنے کو ملے وہ بھی کافی دلچسپ تھے مگر اسے دیکھ کر یہ ضرور سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر پاکستانی عوام کے سامنے ایک اچھی مقامی فلم رکھی جائے تو یہ اس صنعت کو دوبارہ منافع بخش بنا سکتے ہیں۔ اگر ان کی تنقید کو تعمیری سمجھ کر فلمسازی کی جائے تو یہ فلم ایک سنگ میل ہے۔

مصطفیٰ قریشی نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ بلال لاشاری نے بہت بڑی فلم بنائی ہے، وہ کافی سمجھدار ڈائریکٹر اور پروڈیوسر ہیں اور ظاہر نے انہوں نے سوچ سمجھ کر ہی فلم بنائی ہے، فلم پنجابی میں ہے لیکن مجھے پنجابیوں والا ماحول نظر نہیں آیا۔ مولا جٹ چالیس سال پہلے بنی اور گویا یہ لوگ اس سے متاثر ہوئے تو آج چالیس سال بعد بھی یہ والی مولا جٹ بنائی تو یہ کامیابی ہماری مولا جٹ کی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story