عطا کی ہیں بشر کو نعمتیں بے انتہاء تُونے
تم اپنے رب کی کس کس نعمت کا انکار کروگے۔۔۔۔!
عنایات خداوندی کی قدر و منزلت کو پہچانیے، ان کی حفاظت کیجیے، ماہرین ارضیات خبردار کر رہے ہیں کہ پانی کے اسراف و ضیاع کی وجہ سے اس کی سطح تشویش ناک حد تک کم ہوتی جا رہی ہے۔
ظاہر ہے کہ یہ کم یابی ناصرف ذی روح مخلوقات کے لیے خطرناک ہے بل کہ فصلوں کے لیے بھی سخت نقصان دہ ہے۔
خدائے بزرگ و برتر نے تخلیق آدم کے بعد اس کے سر پر اشرف المٖخلوقات کا تاج رکھا، پھر اسے مسجود ملائک ہونے کا اعزاز بخشا۔ اسے اپنی نیابت کا رفیع الشان عز و شرف بخشا۔ ''لقد کرمنا بنی آدم'' کا بے عدیل مقام و مرتبہ عطا کیا۔ اسے کارگہۂ حیات میں زندگی بسر کرنے کی صلاحیت سے بہرہ یاب کیا۔ اسے ایسی جسمانی ساخت عطا کی جو اسے موجودات عالم سے ممیز کرتی ہے۔
اسے کائنات ہست و بود کا مرکز نگاہ بنا کر اسے تہی داماں نہیں چھوڑ دیا۔ اسے نظام تنفس کو بحال رکھنے اور ایک دل پذیر تسلسل پیدا کرنے کے لیے وسعت کائنات کو آکسیجن جیسی دولتِ کمیاب سے معمور کر دیا۔ اس کی دل فریبیٔ نگاہ کے لیے سر سبز و گلستان اور گل ہائے رنگا رنگ سے چمنستانوں کا وسیع سلسلہ آفرید کیا۔
وہاں ایسی رعنائی و زیبائی محو خرام کر دی جو انسانی قلب و نظر کو حلقہ بہ گوش بنائے رکھتی ہے۔ خورشید جہاں تاب کی تمازت عطا کر کے اپنے نائب کو دن کے اجالوں میں مصروف کار کر دیا۔ پھر اس کی اعصاب شکن تکان کو دُور کرنے کے لیے برودت ِ شب عطا کی۔ تاکہ رات کی تاریکی اسے آغوشِ مادر کی طرح دولت طمانیت عطا کرے۔
جب انسان تھکن سے چُور ظلمت ِ شب میں بستر پر دراز ہوتا ہے تو ناگاہ اس کی آنکھ چرخ نیلی فام پر پڑتی ہے وہاں بزم انجم جذب ِ باہم کے ساتھ جگ مگ جگ مگ کر رہی ہوتی ہے، جو اس کی آنکھوں کو طراوت عطا کرتی ہے۔ پھر ستاروں کے ساتھ مۂ کامل الگ ضیاء پاشی کر رہا ہوتا ہے۔ قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالی ہے کہ سخر الشمس و القمر دائبین آفتاب و قبضہ قمر کی طرف اشارہ ہے۔
سلسلہ ہائے کوہ و دمن چشم انسانیت کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیتا ہے۔ دشت و جبل خلاق دو جہاں نے عبث تخلیق نہیں فرمائے۔ یہ سُرخ و سیاہ فام پہاڑ محض نشانات ِ جمود و سکوت کے طور پر نہیں کھڑے کر دیے گئے۔ ان کی تہہ میں ایسے ایسے لولوئے لالہ اور جواہرات مستور ہیں جو انسانی ذوقِ جستجو کے منتظر ہیں۔
پھر یہ طویل سلسلہ ہائے جبال زمین میں کو ئی لرزش پیدا نہیں ہونے دیتا۔ سمندروں کی طلاطم خیز موجیں ہیں کہ چشمِ آدمیت کو جلال خداوندی کا مشاہدہ کروانے کے ساتھ ساتھ مینہ برسانے کا سبب بھی بنتی ہیں۔ نسیم صبح کے جاں فزا جھونکے ہیں کہ رحمت ِ پروردگار کی صورت مشام ِ انسانیت کو معطر کرتے کرتے چلے جاتے ہیں۔ چمنستانِ برگ ہائے لالہ و گل ہیں کہ تزئین گیتی میں اضافہ کیے جا رہے ہیں۔
ترے لطف و کرم کا اس زباں سے ہو بیاں کیوں کر
عطا کی ہیں بشر کو نعمتیں بے انتہاء تُونے
ان لا محدود نعائم فطرت کا تذکرہ یوں تو قرآن حکیم کے میں جا بہ جا ذکر فرمایا گیا ہے، باری تعالیٰ قرآن حکیم میں انسانوں سے مخاطب ہوکر واضح طور پر ارشاد فرماتا ہے کہ تم اگر ان نعمتوں کو گننا چاہو تو نہیں گن سکتے۔ اور ساتھ ہی یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اگر تم شکر گزار بندے بنو گے تو اور عطا کروں گا۔
مگر سورۃ رحمن پوری کی پوری ان عنایات ِ ذات کبریا کے تذکرۂ حسنہ سے بھری پڑی ہے اس میں جنّت کی جن نادر الوجود نعمتوں کا ذکر ہے ان جیسی مشابہ اہل جنت دنیا میں بھی کھا چکے ہوں گے۔ البتہ ان کی حلاوت اور لذت و لطافت میں زمین آسمان کا فرق ہوگا۔
ﷲ کی عطا کردہ ان بے شمار نعمتوں میں سے دو کا خصوصی طور پر ذکر کرنا چاہوں گا ان میں ایک پانی اور ایک درخت۔ قرآن میں پانی کا ذکر بے شمار مرتبہ آیا ہے۔ اس کی اہمیت و ضرورت آفرینشِ کائنات سے ہی حکیم کائنات نے محسوس کی تھی۔ خالق ِ دو جہاں کو علم تھا کہ اس کے بغیر بقائے حیات ِ انسانی ناممکن ہے ۔
چناں چہ کسی نہ کسی شکل میں تشنگی عالم انسانیت کو مٹانے کے لیے پانی چشموں یا کنوؤں کی صورت میں موجود رہا۔ صحرائے عرب کے بے برگ و گیاہ علاقہ میں سیدنا اسمٰعیلؑ کو شدت ِ پیاس نے بے قرار کیا تو قسام ِ ازل نے ان کے ایڑیاں رگڑنے سے زم زم جاری فرما دیا جو آج بھی تسلسل سے اُبل رہا ہے۔ زائرین ناصرف پیاس بجھاتے ہیں بل کہ وہ کئی خطرناک بیماریوں کا ایک آزمودہ تریاق ثابت ہوا ہے۔
ﷲ رب العزت نے پوری دنیا میں ہر ذی روح کے لیے پینے اور نہانے کے لیے پانی جیسی دولت بے بہا مہیا فرما رکھی ہے۔ ایک ایسی نعمت جس کے بغیر انسان چرند، پرند، نباتات و جمادات زندہ نہیں رہ سکتے، لیکن ہم اس کی قدر افزائی میں بہت سست واقع ہوئے ہیں۔ اگرچہ اس رازق حقیقی کی عنایات میں کمی تو نہیں ہو سکتی لیکن ان کے استعمال میں اسراف بھی تو بہ ہر حال زیادتی ہے۔
اس کی قدر و قیمت دنیا کے ان گوشہ ہائے عزلت کے مکینوں کے پوچھیے جنہیں بہت ہی محدود صورت میں یہ نعمت ِ غیر مترقبہ میسر ہے اور وہ پانی کے ایک ایک قطرے کی حفاظت جان کی طرح کرتے ہیں۔ ہمارے ماہرین ارضیات چیخ چیخ کر ہمیں خبردار کر رہے ہیں کہ پانی کے اسراف و ضیاع کی وجہ سے تحت الثریٰ کے عمق میں پانی کی سطح تشویش ناک حد تک کم ہوتی جا رہی ہے۔
ظاہر ہے کہ یہ کم یابی ناصرف ذی روح مخلوقات کے لیے خطرناک ہے بل کہ فصلوں کے لیے بھی سخت نقصان دہ ہے۔ اہل ثروت تو دیگر مشروبات سے بھی لطف اٹھا سکتے ہیں مگر سفید پوش اور مفلوک الحال لوگوں کے لیے تو لے دے کے ایک پانی ہی باقی رہ جاتا ہے جس سے وہ کاروان حیات کو حرارت کی آنچ دے سکتے ہیں۔ دوسرا بڑا عطیہ خداوندی درخت ہیں۔
درختوں کا ذکر بھی مختلف زاویوں سے قرآن حکیم میں موجود ہے۔ دنیا اور جنت کے اثمار درختوں کے ساتھ ہی لٹکے ہوتے ہیں۔ یہ شہد بھرے اثمار صناعی ِ فطرت کا دل فریب اظہار ہوتے ہیں۔ سپاہ سالار اعظم جیوش ِ اسلام رحمت اللعالمین ختم المرسلین حضور سرورِ دو عالم ﷺ کو درختوں سے اتنا پیار تھا کہ فدا کاران اسلام کو میدان جنگ میں بھیجنے سے قبل جو بصیرت افروز ہدایات عطا فرماتے اُن میں ایک یہ بھی ہدایت شامل ہوتی کہ درختوں کو نہ کاٹنا۔ کیوں کہ فراست ِ نبوی ﷺ کو اس مفیض چیز کے فوائد کا کماحقہ ادراک تھا۔
صانعء حقیقی نے اہل پاکستان کو چار دل کش موسموں سے نواز رکھا ہے۔ ان میں ہر موسم اپنی الگ خصوصیت رکھتا ہے مگر گزشتہ دو دہائیوں سے گرمیوں کا موسم نسبتاً طوالت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ تمازت ِ آفتاب کی شدت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ باد ِ سموم کے تھپیڑوں سے اب نسیم سحر لرزہ بر اندام نظر آتی ہے۔
کسی دور میں ملک میں چھے ماہ گرمی اور چھے ماہ ٹھنڈک ہوا کرتی تھی۔ مگر کیا وجہ ہے کہ سرما جیسا لذت آگیں موسم سمٹ کر محض دو ماہ رہ گیا ہے۔ ماہرین اس کی بنیادی وجہ ایک ہی بتاتے ہیں کہ ملک میں درختوں کی کمی تشویش ناک حد تک ہو گئی ہے اور اس کمی میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔
ازروئے قرآن جنّت کی تزئین بھی درختوں کی وجہ سے ہی ہوگی اور اگر جنّت درختوں کی کثرت کے سبب حسین ہوگی تو لا محالہ دنیا کی شادابی بھی تو انہی کے سبب سے ہے۔ جس بھی ملک میں درختوں کی کثرت ہوگی وہاں موسم کا حسن بھی دو آتشہ بل کہ سہ آتشہ ہوگا۔ میں اہل پاکستان کی خدمت میں بہ صد احترام گزارش کرنا چاہوں گا کہ بہ راہ کرم شجر کاری کو حکم دین قیّم سمجھ کر فروغ دیا جائے۔ جتنی شجر کاری زیادہ ہوگی اتنا ہی پاکستان کے موسم میں ٹھنڈک بھی پیدا ہوگی۔ پھر اہل پاکستان دیکھیں گے:
کچھ دنوں بعد زمانے کی ہوا بدلے گی
وقت کے ساتھ رہ و رسم ِ وفا بدلے گی
شاخساروں سے نئے پھول نکل آئیں گے
لالہ زاروں میں شگوفوں کی ردا بدلے گی
ظاہر ہے کہ یہ کم یابی ناصرف ذی روح مخلوقات کے لیے خطرناک ہے بل کہ فصلوں کے لیے بھی سخت نقصان دہ ہے۔
خدائے بزرگ و برتر نے تخلیق آدم کے بعد اس کے سر پر اشرف المٖخلوقات کا تاج رکھا، پھر اسے مسجود ملائک ہونے کا اعزاز بخشا۔ اسے اپنی نیابت کا رفیع الشان عز و شرف بخشا۔ ''لقد کرمنا بنی آدم'' کا بے عدیل مقام و مرتبہ عطا کیا۔ اسے کارگہۂ حیات میں زندگی بسر کرنے کی صلاحیت سے بہرہ یاب کیا۔ اسے ایسی جسمانی ساخت عطا کی جو اسے موجودات عالم سے ممیز کرتی ہے۔
اسے کائنات ہست و بود کا مرکز نگاہ بنا کر اسے تہی داماں نہیں چھوڑ دیا۔ اسے نظام تنفس کو بحال رکھنے اور ایک دل پذیر تسلسل پیدا کرنے کے لیے وسعت کائنات کو آکسیجن جیسی دولتِ کمیاب سے معمور کر دیا۔ اس کی دل فریبیٔ نگاہ کے لیے سر سبز و گلستان اور گل ہائے رنگا رنگ سے چمنستانوں کا وسیع سلسلہ آفرید کیا۔
وہاں ایسی رعنائی و زیبائی محو خرام کر دی جو انسانی قلب و نظر کو حلقہ بہ گوش بنائے رکھتی ہے۔ خورشید جہاں تاب کی تمازت عطا کر کے اپنے نائب کو دن کے اجالوں میں مصروف کار کر دیا۔ پھر اس کی اعصاب شکن تکان کو دُور کرنے کے لیے برودت ِ شب عطا کی۔ تاکہ رات کی تاریکی اسے آغوشِ مادر کی طرح دولت طمانیت عطا کرے۔
جب انسان تھکن سے چُور ظلمت ِ شب میں بستر پر دراز ہوتا ہے تو ناگاہ اس کی آنکھ چرخ نیلی فام پر پڑتی ہے وہاں بزم انجم جذب ِ باہم کے ساتھ جگ مگ جگ مگ کر رہی ہوتی ہے، جو اس کی آنکھوں کو طراوت عطا کرتی ہے۔ پھر ستاروں کے ساتھ مۂ کامل الگ ضیاء پاشی کر رہا ہوتا ہے۔ قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالی ہے کہ سخر الشمس و القمر دائبین آفتاب و قبضہ قمر کی طرف اشارہ ہے۔
سلسلہ ہائے کوہ و دمن چشم انسانیت کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیتا ہے۔ دشت و جبل خلاق دو جہاں نے عبث تخلیق نہیں فرمائے۔ یہ سُرخ و سیاہ فام پہاڑ محض نشانات ِ جمود و سکوت کے طور پر نہیں کھڑے کر دیے گئے۔ ان کی تہہ میں ایسے ایسے لولوئے لالہ اور جواہرات مستور ہیں جو انسانی ذوقِ جستجو کے منتظر ہیں۔
پھر یہ طویل سلسلہ ہائے جبال زمین میں کو ئی لرزش پیدا نہیں ہونے دیتا۔ سمندروں کی طلاطم خیز موجیں ہیں کہ چشمِ آدمیت کو جلال خداوندی کا مشاہدہ کروانے کے ساتھ ساتھ مینہ برسانے کا سبب بھی بنتی ہیں۔ نسیم صبح کے جاں فزا جھونکے ہیں کہ رحمت ِ پروردگار کی صورت مشام ِ انسانیت کو معطر کرتے کرتے چلے جاتے ہیں۔ چمنستانِ برگ ہائے لالہ و گل ہیں کہ تزئین گیتی میں اضافہ کیے جا رہے ہیں۔
ترے لطف و کرم کا اس زباں سے ہو بیاں کیوں کر
عطا کی ہیں بشر کو نعمتیں بے انتہاء تُونے
ان لا محدود نعائم فطرت کا تذکرہ یوں تو قرآن حکیم کے میں جا بہ جا ذکر فرمایا گیا ہے، باری تعالیٰ قرآن حکیم میں انسانوں سے مخاطب ہوکر واضح طور پر ارشاد فرماتا ہے کہ تم اگر ان نعمتوں کو گننا چاہو تو نہیں گن سکتے۔ اور ساتھ ہی یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اگر تم شکر گزار بندے بنو گے تو اور عطا کروں گا۔
مگر سورۃ رحمن پوری کی پوری ان عنایات ِ ذات کبریا کے تذکرۂ حسنہ سے بھری پڑی ہے اس میں جنّت کی جن نادر الوجود نعمتوں کا ذکر ہے ان جیسی مشابہ اہل جنت دنیا میں بھی کھا چکے ہوں گے۔ البتہ ان کی حلاوت اور لذت و لطافت میں زمین آسمان کا فرق ہوگا۔
ﷲ کی عطا کردہ ان بے شمار نعمتوں میں سے دو کا خصوصی طور پر ذکر کرنا چاہوں گا ان میں ایک پانی اور ایک درخت۔ قرآن میں پانی کا ذکر بے شمار مرتبہ آیا ہے۔ اس کی اہمیت و ضرورت آفرینشِ کائنات سے ہی حکیم کائنات نے محسوس کی تھی۔ خالق ِ دو جہاں کو علم تھا کہ اس کے بغیر بقائے حیات ِ انسانی ناممکن ہے ۔
چناں چہ کسی نہ کسی شکل میں تشنگی عالم انسانیت کو مٹانے کے لیے پانی چشموں یا کنوؤں کی صورت میں موجود رہا۔ صحرائے عرب کے بے برگ و گیاہ علاقہ میں سیدنا اسمٰعیلؑ کو شدت ِ پیاس نے بے قرار کیا تو قسام ِ ازل نے ان کے ایڑیاں رگڑنے سے زم زم جاری فرما دیا جو آج بھی تسلسل سے اُبل رہا ہے۔ زائرین ناصرف پیاس بجھاتے ہیں بل کہ وہ کئی خطرناک بیماریوں کا ایک آزمودہ تریاق ثابت ہوا ہے۔
ﷲ رب العزت نے پوری دنیا میں ہر ذی روح کے لیے پینے اور نہانے کے لیے پانی جیسی دولت بے بہا مہیا فرما رکھی ہے۔ ایک ایسی نعمت جس کے بغیر انسان چرند، پرند، نباتات و جمادات زندہ نہیں رہ سکتے، لیکن ہم اس کی قدر افزائی میں بہت سست واقع ہوئے ہیں۔ اگرچہ اس رازق حقیقی کی عنایات میں کمی تو نہیں ہو سکتی لیکن ان کے استعمال میں اسراف بھی تو بہ ہر حال زیادتی ہے۔
اس کی قدر و قیمت دنیا کے ان گوشہ ہائے عزلت کے مکینوں کے پوچھیے جنہیں بہت ہی محدود صورت میں یہ نعمت ِ غیر مترقبہ میسر ہے اور وہ پانی کے ایک ایک قطرے کی حفاظت جان کی طرح کرتے ہیں۔ ہمارے ماہرین ارضیات چیخ چیخ کر ہمیں خبردار کر رہے ہیں کہ پانی کے اسراف و ضیاع کی وجہ سے تحت الثریٰ کے عمق میں پانی کی سطح تشویش ناک حد تک کم ہوتی جا رہی ہے۔
ظاہر ہے کہ یہ کم یابی ناصرف ذی روح مخلوقات کے لیے خطرناک ہے بل کہ فصلوں کے لیے بھی سخت نقصان دہ ہے۔ اہل ثروت تو دیگر مشروبات سے بھی لطف اٹھا سکتے ہیں مگر سفید پوش اور مفلوک الحال لوگوں کے لیے تو لے دے کے ایک پانی ہی باقی رہ جاتا ہے جس سے وہ کاروان حیات کو حرارت کی آنچ دے سکتے ہیں۔ دوسرا بڑا عطیہ خداوندی درخت ہیں۔
درختوں کا ذکر بھی مختلف زاویوں سے قرآن حکیم میں موجود ہے۔ دنیا اور جنت کے اثمار درختوں کے ساتھ ہی لٹکے ہوتے ہیں۔ یہ شہد بھرے اثمار صناعی ِ فطرت کا دل فریب اظہار ہوتے ہیں۔ سپاہ سالار اعظم جیوش ِ اسلام رحمت اللعالمین ختم المرسلین حضور سرورِ دو عالم ﷺ کو درختوں سے اتنا پیار تھا کہ فدا کاران اسلام کو میدان جنگ میں بھیجنے سے قبل جو بصیرت افروز ہدایات عطا فرماتے اُن میں ایک یہ بھی ہدایت شامل ہوتی کہ درختوں کو نہ کاٹنا۔ کیوں کہ فراست ِ نبوی ﷺ کو اس مفیض چیز کے فوائد کا کماحقہ ادراک تھا۔
صانعء حقیقی نے اہل پاکستان کو چار دل کش موسموں سے نواز رکھا ہے۔ ان میں ہر موسم اپنی الگ خصوصیت رکھتا ہے مگر گزشتہ دو دہائیوں سے گرمیوں کا موسم نسبتاً طوالت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ تمازت ِ آفتاب کی شدت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ باد ِ سموم کے تھپیڑوں سے اب نسیم سحر لرزہ بر اندام نظر آتی ہے۔
کسی دور میں ملک میں چھے ماہ گرمی اور چھے ماہ ٹھنڈک ہوا کرتی تھی۔ مگر کیا وجہ ہے کہ سرما جیسا لذت آگیں موسم سمٹ کر محض دو ماہ رہ گیا ہے۔ ماہرین اس کی بنیادی وجہ ایک ہی بتاتے ہیں کہ ملک میں درختوں کی کمی تشویش ناک حد تک ہو گئی ہے اور اس کمی میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔
ازروئے قرآن جنّت کی تزئین بھی درختوں کی وجہ سے ہی ہوگی اور اگر جنّت درختوں کی کثرت کے سبب حسین ہوگی تو لا محالہ دنیا کی شادابی بھی تو انہی کے سبب سے ہے۔ جس بھی ملک میں درختوں کی کثرت ہوگی وہاں موسم کا حسن بھی دو آتشہ بل کہ سہ آتشہ ہوگا۔ میں اہل پاکستان کی خدمت میں بہ صد احترام گزارش کرنا چاہوں گا کہ بہ راہ کرم شجر کاری کو حکم دین قیّم سمجھ کر فروغ دیا جائے۔ جتنی شجر کاری زیادہ ہوگی اتنا ہی پاکستان کے موسم میں ٹھنڈک بھی پیدا ہوگی۔ پھر اہل پاکستان دیکھیں گے:
کچھ دنوں بعد زمانے کی ہوا بدلے گی
وقت کے ساتھ رہ و رسم ِ وفا بدلے گی
شاخساروں سے نئے پھول نکل آئیں گے
لالہ زاروں میں شگوفوں کی ردا بدلے گی