عظیم راہ بر چوہدری رحمت علی
تاریخ ساز راہ نما کے متعلق چشم کُشا حقائق
''قیام پاکستان رحمت علی کے تخیل اور دور اندیشی کا اتنا ہی مرہون منت ہے جتنا کہ آل انڈیا مسلم لیگ کی جدو جہد کا۔''
(پروفیسر ڈاکٹر بیرسٹر خورشیدکمال عزیز)
حقیقت یہ ہے کہ بعض بڑے مسلمان راہ نماؤں کے علاوہ آل انڈیامسلم لیگ کی قیادت بھی چودھری رحمت کی منفرد فکر سے متأثر ہوئی اور اس نے بھی بالآخر چودھری رحمت علی ہی کے تجویز کردہ خاکے کے مطابق، مطالبہ پاکستان اختیار کر لیا تھا۔
یہ اور بات ہے کہ مسلم لیگ نے چودھری رحمت علی کی پاکستان اسکیم ، اُن کی فکری مساعی کا اعتراف کیے بغیر مستعار لی۔ مسلم لیگ نے جب تک چودھری رحمت علی کی پاکستان اسکیم سے استفادہ نہیں کیا۔
اس وقت تک اسے عوامی حمایت نہیں ملی تھی، جس کا ثبوت یہ ہے کہ 1937ء میں، صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں مسلم لیگ 485 مسلم نشستوں میں سے صرف 108 نشستیں جیت سکی، کیوںکہ اُس وقت تک اس نے پاکستان کے مطالبے کو اپنا نصب العین نہیں بنایا تھا لیکن جب 1940ء میں مسلم لیگ نے پاکستان کو اپنی منزل بنالیا تو1946ء کے انتخابات میں اسے بے مثال کام یابی ملی۔
یہ حقیقت بھی جدید تحقیق کی رُو سے ثابت ہو چکی ہے کہ سر ڈاکٹرعلامہ شیخ محمد اقبال کے1930 ء کے خطبہ الہٰ آباد میں پیش کی گئی مسلم ریاست کی تجویز ایک، الگ، آزادوخودمختار ملک کے قیام کی تجویز نہیں تھی۔
بقول خود علامہ اقبال:
ا)۔''میں نے برطانوی سلطنت سے باہر ایک مسلم ریاست کا مطالبہ پیش نہیں کیا ۔'' (ایڈورڈ ٹامسن کے مضمون کا جواب ۔ اخبار ٹائمز۔ لندن۔12اکتوبر1931ئ)
ـب)۔''میری اسکیم کے مطابق یہ نیا صوبہ مجوزہ انڈین فیڈریشن کا ایک حصہ ہوگا۔'' (خط بنام ایڈورڈ ٹامسن۔4 مارچ 1934ئ)
ج)۔''میں نے انڈین فیڈریشن کے اندر ایک مسلم صوبہ بنانے کی تجویز پیش کی تھی'' (خط بنام راغب احسن۔ 6 مارچ 1934ئ)
ا س لحاظ سے ایک آزاد مسلم ملک کا تصور1930ء کے خطبہ الہٰ آباد میں نہیں بلکہ1933ء میں لکھے گئے، چودھری رحمت علی کے پمفلٹ ''اب یا کبھی نہیں'' [Now or Never] میں پیش کیا گیا تھا۔
اگرچہ علامہ اقبال نے بھی بالآخر1937ء میں ایک آزاد مسلم ملک کا مطالبہ بطور سیاسی مسلک اختیار کر لیا تھا۔ اسی لیے انھوں نے اسی سال، قائداعظم کو اس بارے میں خطوط لکھے۔
لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے تقریباً تمام مصنفین اپنی ہر تحریر میں یہی لکھتے ہیں کہ ''ایک آزاد مسلم مملکت کا تصور علامہ محمد اقبال نے 1930ء کے خطبہ الٰہ آباد میں پیش کیا تھا''۔ بلکہ اب یہ من گھڑت دعویٰ ایک مسلمہ تاریخی حقیقت بنا کر تاریخ کی ہر کتاب میں لکھ دیا گیا ہے، جس کی واضح تردید خود علامہ محمد اقبال کر چکے ہیں۔
بلندپایہ مورخ ڈاکٹر صفدر محمود کے مطابق:''علامہ محمد اقبال مرحوم یہ خطبہ دینے کے بعد تقریباً آٹھ برس تک زندہ رہے۔
انھوں نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ الٰہ آباد کے خطبے میں آزاد مسلمان مملکت کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ جب خود علامہ اقبال خطبہ الٰہ آباد اور اپنے تصور کی بار بار وضاحت کرتے ہوئے یہ فرماتے ہیں کہ انھوں نے انڈین فیڈریشن کے اندر ایک مسلمان اکثریتی صوبے کی تجویز پیش کی ہے نہ کہ ایک آزاد مسلم ریاست کا تصور، تو پھر کیا ہمارے لیے یہ مناسب اور جائز ہے کہ ہم ان سے کئی قدم آگے جاکر خطبہ الٰہ آباد سے ایک آزاد مسلمان مملکت کا تصور تلاش کریں؟'' (''اقبال،جناح اور پاکستان'' صفحہ،60-56)
''چودھری رحمت علی کو اپنے ہم عصروں پر یہ فوقیت بھی حاصل ہے کہ انھوں نے 1933ء میں پنجاب، سرحد، سندھ اور بلوچستان پر مشتمل ایک آزاد مسلم ریاست کا واضح تصور پیش کیا۔'' (ڈاکٹر صفدر محمود، ایضاً، صفحہ144)۔ چودھری رحمت علی نے ان صوبوں میں کشمیر کو بھی شامل کیا تھا۔
یہ درست ہے کہ چودھری رحمت علی کی کچھ اسکیمیں (ہندو اکثریتی علاقوں میں مسلم ریاستیں) قابل عمل نہ تھیں لیکن پہلی بات یہ ہے کہ رحمت علی نے خود ان مسلم ریاستوں کی وضاحت اپنی کتاب''پاکستان ۔ پاک قوم کا آبائی وطن'' کے صفحہ نمبر271 پر کی ہے، جس کے مطابق ان مسلم ریاستوں کے مطالبے کا مقصد یہ تھا کہ کم از کم ان مسلمانوں کا مطالبہ آزادی تاریخ میں ریکارڈ ہوجائے اور یہ مطالبہ پاکستان، بانگستان اور عثمانستان (حیدر آباد، دکن) کے مطالبہ آزادی کو تقویت دے سکے۔
دوسرے لفظوں میں ان سات مضبوط مراکز (مسلم ریاستوں) کے مطالبے کا مقصد ہندوؤں پر پاکستان، بانگستان اور عثمانستان کے حصول کے لیے، سیاسی دباؤ بڑھانا تھا اور یہ دباؤ واقعتاً بڑھا بھی تھا۔ اسی دباؤ کے تحت، ہندوستان کے وزیرداخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل نے 25 دسمبر1948ء کو بنارس ہندو یونیورسٹی میں خطاب کے دوران کہا:
'' میں نے محسوس کیا کہ اگر ہم نے تقسیم قبول نہ کی تو ہندوستان بہت سے حصوں میں تقسیم ہو جائے گا۔ بالکل تباہ و برباد ہو جائے گا........ اس طرح صرف ایک پاکستان نہیں بنے گا بلکہ کئی پاکستان بن جائیں گے۔''
نومبر1949ء میں سردار پٹیل نے دستورساز اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا:
''میں نے تقسیم کو آخری حربے کے طور پر قبول کیا، کیوںکہ ہم ایک ایسے مرحلے میں داخل ہوچکے تھے کہ ہم اپنا سب کچھ گنوا سکتے تھے۔''
یہ کئی پاکستان کا مطالبہ کس کا تھا؟ ظاہر ہے چودھری رحمت علی کا، یعنی ان کئی پاکستان سے مراد وہی سات مسلم ریاستیں (صدیقستان، فاروقستان، معینستان وغیرہ) ہی تھیں۔
چودھری رحمت علی چاہتے تھے کہ پاکستان میں بھی ہندوؤں اور سکھوں کے لیے کچھ علاقے مخصوص کردیے جائیں اور پھر ان کے ساتھ ویسا ہی مساوی سلوک کیا جائے جیسا مسلمانوں کے ساتھ ہندو اکثریتی علاقوں میں ہو۔ اس برابری کے سلوک سے دونوں طرف کی اقلیتیں محفوظ رہتیں۔
لیکن ہندوستان کی غلط تقسیم سے یہ ممکن نہ ہوسکا۔ ان مسلمان ریاستوں کے مطالبے سے چودھری رحمت علی کے ان ہندوستانی مسلمانوں کے بقاء و تحفظ کی فکر کا اظہار ہوتا ہے ، جن کے لیے وہ اقوام متحدہ تک گئے اور اس ضمن میں ان کے بعد کسی نے کچھ نہ کیا۔ ان مسلم ریاستوں کے مطالبے اور چودھری رحمت علی کے وسیع پلان کے بارے میں ڈاکٹر راجندر پرشاد بھی خوف کا شکار نظر آتے ہیں، جب وہ لکھتے ہیں:
''رحمت علی کا دعویٰ ہے کہ مسلم لیگ کسی حد تک ان کے خیالات سے متفق ہو گئی ہے ۔ کسی کو کیا معلوم کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس اسکیم کے دوسرے حصوں سے بھی وہ متفق ہو جائے جو شائع ہو چکے ہیں ۔یا۔ ابھی شائع نہیں ہوئے۔
اور اس لحاظ سے ہندوؤں کو مستقبل کے اس دن کی طرف دیکھنا چاہیے جب انڈیا کا نام مٹ جائے گا اور ہر جگہ ملت (یعنی ملت اسلامیہ) کا دور دورہ ہو گا اور پھر براعظم کا نام بھی دِینیا ہو جائے گا۔'' (India Divided, P.187)
چودھری رحمت علی کے انتقال پر ان کے عمانویل کالج کیمبرج کے میگزین (مطبوعہ1951ئ) میں انھیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا گیا:
''کسی بات چیت کے دوران وہ ایسے مؤثر انداز میں مدعا پیش کرتے کہ ہر لفظ سے ان کا خلوص نظر آتا تھا۔ وہ اپنے موضوع پر اتنی فصاحت و بلاغت سے بات کرتے، جیسے ان پر الہام (نازل) ہورہا ہو۔
ان کا مدعا ہمیشہ ہندو قومیت کے مقابلے میں اسلام کی حفاظت ہوتا تھا۔ عمانویل کالج کا یہ گمنام طالب علم اس دنیا کے حالات پر اس قدر اثرانداز ہوا، اور مستقبل میں اس سے بھی زیادہ اثر انداز ہوگا، ایسا کسی ایک انسان کی قسمت میں نہیں ہوتا..... یہ کالج پاکستان کے بانی کا کالج تھا۔''
کیمبرج کے اخبار''Daily News'' نے لکھا:
'' پوری دنیا میں ان کے احترام کی بنیادی وجہ ان کی عظمت و اعلیٰ ظرفی، اپنے مقصد پر یکسوئی اور مستقل مزاجی ہے..... یہ بہت فخر کی بات ہے کہ کیمبرج، چودھری رحمت علی کو 1933ء میں پاکستان کا تصور پیش کرنے والا کہہ کر یاد رکھے گا..... دنیا ایک ایسے عظیم شخص سے محروم ہو گئی جو ایک تخلیقی نظریہ ساز تھا۔''
چودھری رحمت علی نے مطالبہ پاکستان کی تخلیق ، ترویج و تشہیر اور برصغیر کے تمام مسلمانوں کی آزادی کے لیے اپنی پوری زندگی وقف کر دی۔ شادی تک نہیں کی ۔ گھر بار نہیں بنایا۔ اس مقصد کے لیے اپنی تعلیم، پیشہ، مستقبل، زندگی، غرضیکہ سب کچھ قربان کر دیا۔
انہوں نے 1950ء میں اپنی زندگی کا آخری پمفلٹ لکھا جس میں پاکستان کو درپیش مسائل و خطرات کی نشان دہی کر تے ہوئے ان سے نبرد آزما ہونے کے لیے تجاویز بھی پیش کیں۔ انھوں نے جتنا کام تن تنہا کیا۔ اتنا کوئی پوری جماعت مل کر نہیں کر سکتی تھی۔
یہ سب کام ان کی لگن، محنت اور خلوص ظاہر کرتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ان کی عمر بھر کی پرخلوص جدوجہد اور اپنے مشن سے بے انتہا وفادار ی اور جاں نثاری مثالی تھی۔ لیکن وہ جن حالات سے گزرے اور جس بے اعتنائی، احسان فراموشی، نظرانداز ی اور الزام تراشی کا سلوک ان کے ساتھ کیا گیا، جس کسمپرسی اور مقروض حالت میں دیارغیر (کیمبرج) میں ان کا انتقال ہوا، یہ کسی بھی باعزت قوم کے لیے انتہائی شرم ناک اور افسوس ناک ہے۔
چودھری رحمت علی کے اولین سوانح نگار، پروفیسر ڈاکٹر بیرسٹر خورشیدکمال (کے ۔ کے) عزیز کے بیان کے مطابق:
''کسی انسان کو اس سے بڑی کام یابی نہیں مل سکتی تھی۔ کوئی پارٹی اس سے زیادہ احسان فراموشی نہیں کر سکتی تھی۔ یہ لفظ (پاکستان) اور یہ تصور چرایا گیا۔ ان کے خالق کو پہلے نظرانداز کیا گیا، پھر مسترد کیا گیا اور آخر میں اسے (اپنے ہی لوگوں کی نظر میں) ایک دشمن بنا دیا گیا'' (سوانح حیات: رحمت علی، صفحہ242)
قیام پاکستان کے لیے سب سے زیادہ کام تو یقیناً قائد اعظم محمد علی جناح نے کیا تھا۔ ان کے بغیر قیام پاکستان ممکن ہی نہیں تھا۔ دیگر قومی راہ نماؤں بشمول علامہ اقبال نے بھی بے مثال کام کیا۔
راقم کا نقطہ نظریہ ہے کہ ہمارے تمام راہ نماؤں کا کام اپنی اپنی جگہ ''اہم'' تھا۔ اس لیے سب راہ نماؤں کے کام کا اعتراف کیا جائے۔ سب کو خراج تحسین پیش کیا جائے ۔ سب کا احسان مانا جائے۔ کسی کو بھی نظر انداز نہ کیا جائے، کسی کی بھی حق تلفی نہ کی جائے۔ کسی کو بھی تاریخ پاکستان سے زبردستی خارج نہ کیا جائے۔
راقم کے والد نے 1948ء میں لاہور میں چودھری رحمت علی سے ملاقات کی تھی جس میں چودھری رحمت علی نے ان سے فرمایا تھا کہ:
''عمر الدین! مجھے کوئی اچھا سا نوکر ڈھونڈ کر لادو۔ میں اب پاکستان میں مستقل قیام کروںگا۔'' اس کے بعد انہوں نے پاکستان میں رہنے کی اپنی اسی خواہش کا اظہار اپنے 1950ء کے آخری پمفلٹ میں بھی کیا ہے۔ لیکن افسوس، اس سے پہلے کہ والدصاحب ان کی اس سلسلے میں کوئی مدد کرتے۔ انھیں حکومت کی طر ف سے پاکستان سے چلے جانے یا بصورت دیگر گرفتاری کا پیغام پہنچا دیا گیا۔
چوںکہ انہوں نے اخبارPakistan Timesکو دیے گئے اپنے انٹرویو میں کشمیر کی آزادی، تکمیل پاکستان اور ہندوستان میں رہ جانے والے5 کروڑ مسلمانوں کے تحفظ کے لیے ایک تحریک شروع کرنے کا اعلان کر دیا تھا، جس کے باعث ان کی نگرانی شروع کر دی گئی حالانکہ انہوں نے اسی انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ حکومت سے کوئی ٹکراؤ نہیں کریں گے۔
بالآخر وہ یکم اکتوبر1948ء کو اپنے پیارے ''پاکستان'' سے ہمیشہ کے لیے چلے گئے کیوںکہ پھر 3 فروری 1951کو ان کا کیمبرج (انگلستان) ہی میں انتقال ہوگیا۔
وہ اپنے عمر بھر کے خواب ''پاکستان'' میں صرف چھے ماہ رہ سکے لیکن ان کی روح تو یقیناً ان کی آخری خواہش کے مطابق پاکستان کی مٹی کے لیے تڑپ رہی ہوگی۔ صد افسوس کہ ہم آج تک ان کی یہ آخری خواہش بھی پوری نہ کر سکے۔ ان کی پر خلوص قومی خدمات کا اعتراف کرنا ہم سب کی قومی ذمے داری ہے، اگرچہ اپنے محسنوں کی قدر دانی اور احسان مندی کے لحاظ سے پاکستانی قوم کا ریکارڈ اچھا نہیں ہے۔
چودھری رحمت علی تحریک پاکستان کے بانی تھے۔ اُنہوں نے یہ تحریک 1933ء سے شروع کردی تھی۔ جب انہوں نے اپنے مشہور زمانہ پمفلٹ ''اب یا کبھی نہیں'' میں پاکستان کا مطالبہ کیا تھا۔ اور اپنی جماعت ''پاکستان قومی تحریک'' [Pakistan National Movement] کی بنیاد رکھی۔ وہ نہایت دوراندیش راہ نما تھے۔
وہ اپنی بصیرت سے مستقبل کو بہت دور تک دیکھ سکتے تھے۔ چودھری رحمت علی نے اپنے پمفلٹوں پر پاکستان کا جو جھنڈا شائع کیا اس میں سبز پس منظر پر ہلالی چاند اور پانچ ستارے دکھائے گئے تھے۔
پانچ ستاروں سے اُن کا مطلب پاکستان کے کشمیر سمیت پانچ صوبے تھے۔ پاکستان کی قومی زبان اردو کو انہوں نے ''پاک'' زبان کا نام دے دیا تھا۔ انھوں نے پاکستان کے پانچ صوبوں کو مسلمانوں کے ''انڈین ہوم لینڈز'' اور ایران، افغانستان، تخارستان (وہ قدیم علاقہ جو اب افغانستان، ازبکستان اور تاجکستان کا حصہ ہے) کو ''ایشین ہوم لینڈز'' کہا تھا، جس سے اُن کا مقصد پڑوسی ممالک کے ساتھ قریبی برادرانہ تعلقات کو مضبوط کرنا اور اتحاد پیدا کرنا تھا۔
اُن کی یہ فراست اور دوراَندیشی بعد میں آر۔سی۔ڈی(Regional Cooperation for Development ) کی شکل میں سامنے آئی، جس میں پاکستان، ایران اور ترکی شامل تھے (اور بعداَزآں اسے ECOکا نام دیا گیا)۔
چودھری رحمت علی کی دیگر پیش گوئیاں یہ تھیں۔ (1)''ہم ایک آزاد مسلم ملک بنائیں گے''۔ (1915ٗئ: بزم شبلی) (2)۔ پاکستان کا مطالبہ (28جنوری 1933ئ) جو بالآخر عملی شکل میں سامنے آگیا۔ (3)''ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں پر ظلم وستم ہو گا''، جو آج جاری ہے۔
اسی لیے انھوں نے ان مسلمانوں کو ہندوستان میں اقلیتی حیثیت میں رکھنے کی بجائے ان کی آٹھ آزاد خود مختار مسلم ریاستیں (فاروقستان، صدیقستان وغیرہ) بنانے کا پلان پیش کیا۔ (4)''جموں و کشمیر کو پاکستان میں شامل نہ کرنے کی صورت میں کشمیر ہندوسرزمین بن جائے گا اور کشمیر کے بغیر پاکستان ریگستان بن جائے گا''۔5 اگست2019ء کو ہندوستان نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرکے وہاں ہندوؤں کی آبادی بڑھانے کے اقدامات شروع کر دیے ہیں تاکہ یہ ہندوسرزمین بن جائے۔ نیز کشمیر سے آنے والے دریاؤں پر ڈیم بنا کر پاکستان کو پانی سے محروم کر دیا ہے۔
(5) ''مشرقی بنگال کا پاکستان میں انضمام غلط ہے''۔ جو آخرکار1971ء کی شکست کے بعد بنگلادیش کی صورت میں الگ ہوگیا۔ چودھری رحمت علی اس کو شروع ہی سے ایک علیٰحدہ آزاد مسلم ریاست ''بانگستان'' بنانا چاہتے تھے۔ (6) ''صوبہ سرحد کا نا م وہاں کے باشندوں کے نام پر رکھنا ہو گا''۔ آخر کار اسے خیبر پختونخواہ کا نام دے دیا گیا۔ (7)''پاکستان دینیا، یورپ اور ایشیا کے درمیان زمینی اور فضائی راستوں کے سب سے زیادہ ڈائریکٹ روٹ کا جنکشن ہو گا۔'' یہ بات اب سی پیک کی شکل میں پوری ہو رہی ہے۔
اُنھیں اپنی آزادی کی اسکیموں (پاک پلان) کے کام یاب ہونے کا بہت پختہ یقین تھا۔ سب سے پہلے انھوں نے اپنے اس پختہ یقین کا اظہار 1915ء میں اپنے طالب علمی کے دور میں، اپنی ہی تشکیل دی ہوئی بزم شبلی کے تاسیسی اجلاس میں کیا:''انڈیا کا شمالی علاقہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔
ہم اسے مسلم علاقہ ہی رکھیں گے نہ صرف یہ بلکہ ہم اسے ایک مسلم ملک بنائیں گے۔'' آخر کار اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے اُن کے نعرہ انقلاب کو باریاب کردیا اور پاکستان قائم ہو گیا۔ اسی طرح اپنے سب سے پہلے اور مشہور زمانہ پمفلٹ ''اب یا کبھی نہیں'' کے بارے میں لکھتے ہیں: ''جتنی بھی بے اعتنائی (میرے کام سے) برتی جاتی یا (میری) مخالفت کی جاتی، وہ میرے اس یقین کو متزلزل نہیں کر سکتی تھی کہ یہ پمفلٹ ایشیا اور انڈیا کی قدیم تاریخ کا دھارا موڑ دے گا۔
مسلمان سیاست داں جنھوں نے اس اعلان کی اہمیت کم کرنے کی کوشش کی تھی، انھیں جلدہی اس کی حمایت کرنی پڑے گی اور میری طرح اپنی نجا ت اسی میں تلاش کرنی پڑے گی۔ انگریز اور ہندوجنھوں نے اسے نامنظور کیا ہے، انھیں جلد ہی اس پمفلٹ میں کیے گئے مطالبات کو ماننا پڑے گا۔ یہ یقین اتنا ہی غیرمتزلزل تھا جتنا کہ آج مجھے اپنے دوسرے پمفلٹس کے بارے میں ہے''۔ (''پاکستان۔پاک قوم کا آبائی وطن'':صفحہ نمبر280)۔ چودھری رحمت علی نے اپنی کتاب کے پیش لفظ میں لکھا ہے:
''تاریخ کا آخری فیصلہ جو بھی ہو، ایک بات پہلے سے واضح ہے، وہ یہ کہ پاکستان کے مشن کی آخری فتح یقینی ہے۔''
چودھری رحمت علی نے برصغیر میں ہندوستانیت (Indianism) کے عفریت کو ختم کرنے پر بہت زور دیا ہے جو اُن کے بقول کئی پرانے مذاہب کو ہڑپ کر چکا ہے۔ ہندوستانیت سے اُن کی مراد تمام دیگر اقوام (مسلمان، سکھ، عیسائی، پارسی وغیرہ) کا اپنی انفرادی قو میت کو ختم کرکے ہندوستانی بن جانا تھا۔ انہوں نے اپنی کتاب ''پاکستان''۔ پاک قوم کا آبائی وطن'' میں کئی جگہوں پر، اس ہندوستانیت کی شدید مخالفت ومذمت کی ہے:
ا)۔''ہم یا تو اسلام کے جھنڈے تلے اپنے عالی شان قومی مقام کا آخری انتخاب کرلیں اور یا پھر ہندوستانیت کے تحت اپنے لیے انتہائی گھٹیا اقلیتی مقام کو قبول کرلیں۔''
ب)۔''اگر انڈیا کی علاقائی وحدت (متحدہ ہندوستان) کو قائم رکھا گیا تو 'ہندوستانیت' ہی مرکزی حکومت بنائے گی۔ سول انتظامیہ پر اسی کا کنٹرول ہوگا اور فوجی طاقت پر بھی اسی کا قبضہ ہو گا تاکہ ہمیں مکمل طور پر غلامی میں رکھا جاسکے۔''
انھوں نے بار بار ہندوستانیت کے نظریے پر کاری ضربیں لگائی ہیں اور اسے مسلمانوں کی ناکامیوں اور محرومیوں کی وجہ قرار دیا ہے۔ اور اس کے فریب میں آنے سے روکا ہے انھوں نے اپنی کتاب کا ایک پورا باب ہندوستانیت کے خلاف لکھا ہے جس کا نام ''ملت اسلام اور ہندوستانیت کا بھیانک خطرہ'' ہے۔
انھوں نے اسی نام سے 15اگست1941ء کو ایک پمفلٹ بھی شائع کیا تھا۔ انھوں نے اپنی کتاب میں شامل اپنے ایک پمفلٹ ''انڈیا، براعظم دینیا ۔یا۔تباہی کے دہانے پر کھڑا ملک'' میں ناقابل تردید ٹھوس دلائل سے یہ بات ثابت کی ہے کہ ہندوستان صرف ہندوؤں کا ملک نہیں ہے بلکہ یہ بہت سے مذاہب کا مجموعہ یعنی براعظم دینیا ہے۔
چودھری رحمت علی اپنے مشن (پاک پلان) کی آخری منزل کو یوں بیان کرتے ہیں:''ہمارا مشن صرف اصلی یا قدیم پاکستان ہی کو دوبارہ قائم کرنا نہیں۔ نہ ہی یہ فقط بانگستان، عثمانستان، فاروقستان، حیدرستان، معینستان، ماپلستان، صفیستان اور نصارستان بنانے تک محدود ہے;حتیٰ کہ یہ مشن ان تمام ممالک کو ''پاک دولت مشترکہ'' [Pak Commonwealth of Nations] میں منسلک کرنا بھی نہیں ہے، یہ اس سے بھی بڑا، عالی شان اور عظیم ہے۔ یہ انڈیا کے ملک اور اس کے جزائر کو براعظم دینیا اور اس کے ماتحت علاقوں میں تبدیل کرنے اور انھیں پاک ایشیا کے ثقافتی حلقے میں منظم کرنا ہے''۔
یعنی اُن کی آخری منزل پاک ایشیا تھی۔ چودھری رحمت علی میں اپنی مخالفت، بے اعتنائی اور بے قدری برداشت کرنے کو حوصلہ بہت زیادہ تھا۔ ان کی یہ مخالفت اُن کے کالج کے زمانہ طالب علمی سے ہی شروع ہو گئی تھی، جب انھوں نے 1915ء میں بزم شبلی کے اجلاس میں آزاد مسلم ملک کا تصور پیش کیا تھا۔
اسی طرح 1933ء میں ان کے مطالبۂ پاکستان کی بھی بہت مخالفت کی گئی۔ یہ مخالفت انگریزوں اور ہندوؤں کے ساتھ ساتھ چند مسلمان راہ نماؤں کی طرف سے بھی ہوئی (اگرچہ عام مسلمان تو ان کے مطالبہ پاکستان کے زبردست حامی تھے)۔
ان کے اس مطالبہ پاکستان کو گول میز کانفرنس کے مسلم مندوبین نے ناقابل عمل اور طالب علم کا خواب کہا، ان کی ذات پر حملے کیے گئے، انھیں انگریزوں کا ایجنٹ، مذہبی متعصب (Fanatic)، خیالی اسکیمیں بنانے والا کہا گیا، اُن کا تخلیق کردہ نام اور مطالبہ پاکستان اختیار کرلینے کے باوجود کبھی ان کا نام نہیں لیا گیا، ان کی قومی خدمات کا اعتراف نہیں کیا گیا، انہیں 1940ء میں پاکستان آنے سے روکا گیا اور پنجاب میں داخلے پر پابندی لگا دی گئی، حالانکہ اس وقت پیش کی گئی قراردادلاہور میں اُنھی کا پروگرام، بغیر پاکستان کا نام لیے منظور کیا گیا، مجبوراً وہ کراچی میں تین ماہ قیام کے بعد واپس برطانیہ چلے گئے۔
وہ ہوشیارپور (مشرقی پنجاب) میں واقع اپنے گاؤں بھی نہ جا سکے۔ 1948ء میں ان کے پیچھے سی آئی ڈی لگا دی گئی اور بالآخر انھیں ملک سے چلے جانے کا پیغام پہنچا دیا گیا۔ (سوانح حیات، کے ۔کے عزیز: صفحہ 353) وہ اپنے عمر بھر کے خواب، اپنے پیارے پاکستان میں صرف چھے ماہ رہ سکے۔
اخباری مضامین میں اُن کی تضحیک کی گئی۔ بے بنیاد، گمراہ کن اور من گھڑت الزامات لگائے گئے۔ انھیں بہت زیادہ نظانداز کیا گیا۔ احسان فراموشی کی انتہاکردی گئی لیکن ان سب ناانصافیوں کے باوجود وہ کبھی مایوس نہیں ہوئے (اگرچہ ان کا دل تو یقیناً ٹوٹ گیا ہوگا اور ان کی دل جوئی کرنے کے لیے اُن کی بیوی تھی نہ بچے)۔ اس تمام ناروا سلوک کے باوجود انھوں نے برصغیر کے تمام مسلمانوں کی آزادی و خودمختاری کی اپنی بے لوث، پرخلوص اور بے مثال جدوجہد کبھی ترک نہیں کی۔
وہ مسلمانوں کی آزادی کے مزید پروگرام اور منصوبے بناتے رہے۔ انھوں نے اپنے1933ء کے مطالبہ پاکستان کو نظرانداز کیے جانے کے باوجود 1933ء ہی میں ایک اور پمفلٹ بعنوان ''پاکستان نیشنل موومنٹ کے اغراض و مقاصد'' شائع کیا، 1935ء میں برطانوی پارلیمنٹ کے اراکین کو خط اور 1935ء ہی میں پمفلٹ بعنوان ''اسلامی آبائی وطن اور انڈین فیڈریشن، پاکستان کے لیے جدوجہد جاری رہے گی'' شائع کیا۔
1937ء میں ترک مصنفہ خالدہ ادیب کی کتاب Inside India میں ایک پورا باب پاکستان کے حصول کے لیے لکھا اور1938ء میں لندن کے اخبارٹائمز میں پاکستان کے لیے ایک مراسلہ لکھا۔ انھوں نے 1940ء کے تلخ تجربے اور بدسلوکی کے باوجود 1941ء میں ''ہندوستانیت'' کے خلاف پمفلٹ شائع کیا۔ 1942ء میں پمفلٹ ''ملت اور اس کا مشن''، 1943ء میں ''ملت اور اس کی اقلیتیں'' (سات مسلم ریاستوں کے لیے سات الگ الگ پمفلٹ) 1944ء میں پمفلٹ ''ملت اور اس کی دس اقوام ''، 1945ء میں پمفلٹ ''انڈیا براعظم دینیا یا تباہی کے دہانے پر کھڑا ملک''، 1946ء میں پمفلٹ ''پاکستان نیشنل موومنٹ اور انڈیا کے بارے میں برطانوی فیصلہ (کیبنٹ مشن پلان)، 1946ء ہی میں پاک ایشیا، دینیا، پاکستان اور عثمانستان کے لیے الگ الگ پمفلٹ شائع کیے۔ 1947ء میں مکمل پنجاب اور کشمیر کے بغیر نامکمل پاکستان ملنے پر شدید غم اور دکھ کے زیراثر ایک بہت سخت عنوان سے پمفلٹ ''عظیم غداری'' [The Great Betrayal] شائع کیا۔1947ء ہی میں اپنی کتاب ''پاکستان۔ پاک قوم کا آبائی وطن'' شائع کی۔
1948ء میں اپنے خواب کی تعبیر، پاکستان سے نکالے جانے کے باوجود ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کے تحفظ کے لیے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو خط لکھا اور ان مسلمانوں کے لیے اقوام متحدہ کو اپیل کا پمفلٹ ''ہندوستان کی مسلم اقلیت اور اقوام متحدہ کی ذمہ داری'' شائع کیا۔ 1949ء میں پھر اِن مسلمانوں کے لیے پمفلٹ ''ہندوستان کی مسلم اقلیت اور اقوام متحدہ کو دینیا کا مشن'' شائع کیا، 1950ء میں پمفلٹ ''پاکستان یا پاستان: منزلِ مقصودیا ناکامی'' شائع کیا، جس میں پاکستان کو درپیش مسائل کی نشان دہی کی اور ان کا حل بھی پیش کیا، جواُن کا آخری پمفلٹ ثابت ہوا اور وہ 3 فروری 1951ء کو اس بے قدر دنیا سے ہمیشہ کے لیے چلے گئے۔ اس سے زیادہ مخالفت، احسان فراموشی بلکہ دشمنی نہیں ہو سکتی۔
اس سے زیادہ برداشت، حوصلہ، بے لوث اور انتھک محنت اور خلوص، اپنے مشن (برصغیر کے تمام مسلمانوں کی آزادی) سے انتہائی لگن، والہانہ وفاداری اور جاں نثاری نہیں ہو سکتی۔
بقول خود اُن کے:''جو کچھ میرے پاس تھا میں نے اس عظیم مقصد کے لیے1933ء میں وقف کردیا تھا۔ صرف یہی نہیں اس عظیم مقصد کو میری زندگی کی بھی ضرورت تھی۔ وہ بھی اس وقت سے اسی کے ہاتھ میں ہے اور میری آخری سانس تک اسی کے ہاتھ میں رہے گی'' (پاکستان صفحہ 284)
چودھری رحمت علی نے تن تنہا جتنا کام کیا اتنا کام پوری ایک جماعت بھی نہیں کر سکتی تھی۔کے کے عزیز کے مطابق:
''وہ جو کچھ کرسکتے تھے، انھوں نے کیا اس سے زیادہ کوئی بھی شخص نہیں کر سکتا تھا۔ وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے انڈیا میں مسلمانوں کی اقتدارعلیٰ کی حامل حیثیت (Sovereignty)کے بارے میں سوچا، اس کے بارے میں ایک باقاعدہ منصوبہ پیش کیا، اس مقصد کے لیے ایک تحریک (پاکستان قومی تحریک) کو منظم کیا اور لوگوں کو قائل کرنے کے لیے باقاعدہ مہم شروع کی ۔ انھوں نے یہ سب کچھ تن تنہا کیا جو اُن کی لگن، حوصلہ، محنت اور جانثاری کو ظاہر کرتا ہے۔'' (سوانح حیات،صفحہ549)
چودھری رحمت علی نے اپنی کتاب میں اپنے اور اپنی جماعت پاکستان نیشنل موومنٹ پر لگائے جانے والے جھوٹے الزامات کا بھی مدلل جواب دیا ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ یہ تمام الزامات غلط ہیں۔ چودھری رحمت علی نے اس کتاب میں اپنے مطالبہ پاکستان ''اب یا کبھی نہیں'' کو علامہ اقبال کے خطبہ الٰہ آباد سے بالکل مختلف قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق:
''علامہ اقبال نے اپنے اس خطبہ میں ایک ایسی انڈین فیڈریشن کی حمایت کی ہے جس میں مسلمانوں کے صوبے بھی شامل ہوتے۔ اور لفظ اسٹیٹ سے ان کا مطلب ایک علیحدہ اقتدار اعلٰی کی حامل اسٹیٹ (ایک آزاد ملک) نہیں تھا بلکہ ان کا مطلب مجوزہ انڈین فیڈریشن کے اندر اور اس کے ایک حصے کے طور پر ایک بڑا صوبہ تھا''۔
یہی فرق چودھری رحمت علی نے اپنے رسالہ ''اب یا کبھی نہیں'' میں بھی بیان کیا ہے:''یہ مطالبہ ڈاکٹر اقبال کی اس تجویز سے بنیادی طور پر مختلف ہے جو انھوں نے 1930ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اپنے صدارتی خطاب میں پیش کی تھی۔ انھوں نے ان صوبوں کو ملا کر ایک ایسی ریاست بنا دینے کی تجویز دی تھی جو آل انڈیا فیڈریشن کا ہی ایک یونٹ ہو جب کہ ہماری تجویز یہ ہے کہ ان صوبوں کی اپنی ایک علیحدہ فیڈریشن ہو۔''
(پروفیسر ڈاکٹر بیرسٹر خورشیدکمال عزیز)
حقیقت یہ ہے کہ بعض بڑے مسلمان راہ نماؤں کے علاوہ آل انڈیامسلم لیگ کی قیادت بھی چودھری رحمت کی منفرد فکر سے متأثر ہوئی اور اس نے بھی بالآخر چودھری رحمت علی ہی کے تجویز کردہ خاکے کے مطابق، مطالبہ پاکستان اختیار کر لیا تھا۔
یہ اور بات ہے کہ مسلم لیگ نے چودھری رحمت علی کی پاکستان اسکیم ، اُن کی فکری مساعی کا اعتراف کیے بغیر مستعار لی۔ مسلم لیگ نے جب تک چودھری رحمت علی کی پاکستان اسکیم سے استفادہ نہیں کیا۔
اس وقت تک اسے عوامی حمایت نہیں ملی تھی، جس کا ثبوت یہ ہے کہ 1937ء میں، صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں مسلم لیگ 485 مسلم نشستوں میں سے صرف 108 نشستیں جیت سکی، کیوںکہ اُس وقت تک اس نے پاکستان کے مطالبے کو اپنا نصب العین نہیں بنایا تھا لیکن جب 1940ء میں مسلم لیگ نے پاکستان کو اپنی منزل بنالیا تو1946ء کے انتخابات میں اسے بے مثال کام یابی ملی۔
یہ حقیقت بھی جدید تحقیق کی رُو سے ثابت ہو چکی ہے کہ سر ڈاکٹرعلامہ شیخ محمد اقبال کے1930 ء کے خطبہ الہٰ آباد میں پیش کی گئی مسلم ریاست کی تجویز ایک، الگ، آزادوخودمختار ملک کے قیام کی تجویز نہیں تھی۔
بقول خود علامہ اقبال:
ا)۔''میں نے برطانوی سلطنت سے باہر ایک مسلم ریاست کا مطالبہ پیش نہیں کیا ۔'' (ایڈورڈ ٹامسن کے مضمون کا جواب ۔ اخبار ٹائمز۔ لندن۔12اکتوبر1931ئ)
ـب)۔''میری اسکیم کے مطابق یہ نیا صوبہ مجوزہ انڈین فیڈریشن کا ایک حصہ ہوگا۔'' (خط بنام ایڈورڈ ٹامسن۔4 مارچ 1934ئ)
ج)۔''میں نے انڈین فیڈریشن کے اندر ایک مسلم صوبہ بنانے کی تجویز پیش کی تھی'' (خط بنام راغب احسن۔ 6 مارچ 1934ئ)
ا س لحاظ سے ایک آزاد مسلم ملک کا تصور1930ء کے خطبہ الہٰ آباد میں نہیں بلکہ1933ء میں لکھے گئے، چودھری رحمت علی کے پمفلٹ ''اب یا کبھی نہیں'' [Now or Never] میں پیش کیا گیا تھا۔
اگرچہ علامہ اقبال نے بھی بالآخر1937ء میں ایک آزاد مسلم ملک کا مطالبہ بطور سیاسی مسلک اختیار کر لیا تھا۔ اسی لیے انھوں نے اسی سال، قائداعظم کو اس بارے میں خطوط لکھے۔
لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے تقریباً تمام مصنفین اپنی ہر تحریر میں یہی لکھتے ہیں کہ ''ایک آزاد مسلم مملکت کا تصور علامہ محمد اقبال نے 1930ء کے خطبہ الٰہ آباد میں پیش کیا تھا''۔ بلکہ اب یہ من گھڑت دعویٰ ایک مسلمہ تاریخی حقیقت بنا کر تاریخ کی ہر کتاب میں لکھ دیا گیا ہے، جس کی واضح تردید خود علامہ محمد اقبال کر چکے ہیں۔
بلندپایہ مورخ ڈاکٹر صفدر محمود کے مطابق:''علامہ محمد اقبال مرحوم یہ خطبہ دینے کے بعد تقریباً آٹھ برس تک زندہ رہے۔
انھوں نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ الٰہ آباد کے خطبے میں آزاد مسلمان مملکت کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ جب خود علامہ اقبال خطبہ الٰہ آباد اور اپنے تصور کی بار بار وضاحت کرتے ہوئے یہ فرماتے ہیں کہ انھوں نے انڈین فیڈریشن کے اندر ایک مسلمان اکثریتی صوبے کی تجویز پیش کی ہے نہ کہ ایک آزاد مسلم ریاست کا تصور، تو پھر کیا ہمارے لیے یہ مناسب اور جائز ہے کہ ہم ان سے کئی قدم آگے جاکر خطبہ الٰہ آباد سے ایک آزاد مسلمان مملکت کا تصور تلاش کریں؟'' (''اقبال،جناح اور پاکستان'' صفحہ،60-56)
''چودھری رحمت علی کو اپنے ہم عصروں پر یہ فوقیت بھی حاصل ہے کہ انھوں نے 1933ء میں پنجاب، سرحد، سندھ اور بلوچستان پر مشتمل ایک آزاد مسلم ریاست کا واضح تصور پیش کیا۔'' (ڈاکٹر صفدر محمود، ایضاً، صفحہ144)۔ چودھری رحمت علی نے ان صوبوں میں کشمیر کو بھی شامل کیا تھا۔
یہ درست ہے کہ چودھری رحمت علی کی کچھ اسکیمیں (ہندو اکثریتی علاقوں میں مسلم ریاستیں) قابل عمل نہ تھیں لیکن پہلی بات یہ ہے کہ رحمت علی نے خود ان مسلم ریاستوں کی وضاحت اپنی کتاب''پاکستان ۔ پاک قوم کا آبائی وطن'' کے صفحہ نمبر271 پر کی ہے، جس کے مطابق ان مسلم ریاستوں کے مطالبے کا مقصد یہ تھا کہ کم از کم ان مسلمانوں کا مطالبہ آزادی تاریخ میں ریکارڈ ہوجائے اور یہ مطالبہ پاکستان، بانگستان اور عثمانستان (حیدر آباد، دکن) کے مطالبہ آزادی کو تقویت دے سکے۔
دوسرے لفظوں میں ان سات مضبوط مراکز (مسلم ریاستوں) کے مطالبے کا مقصد ہندوؤں پر پاکستان، بانگستان اور عثمانستان کے حصول کے لیے، سیاسی دباؤ بڑھانا تھا اور یہ دباؤ واقعتاً بڑھا بھی تھا۔ اسی دباؤ کے تحت، ہندوستان کے وزیرداخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل نے 25 دسمبر1948ء کو بنارس ہندو یونیورسٹی میں خطاب کے دوران کہا:
'' میں نے محسوس کیا کہ اگر ہم نے تقسیم قبول نہ کی تو ہندوستان بہت سے حصوں میں تقسیم ہو جائے گا۔ بالکل تباہ و برباد ہو جائے گا........ اس طرح صرف ایک پاکستان نہیں بنے گا بلکہ کئی پاکستان بن جائیں گے۔''
نومبر1949ء میں سردار پٹیل نے دستورساز اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا:
''میں نے تقسیم کو آخری حربے کے طور پر قبول کیا، کیوںکہ ہم ایک ایسے مرحلے میں داخل ہوچکے تھے کہ ہم اپنا سب کچھ گنوا سکتے تھے۔''
یہ کئی پاکستان کا مطالبہ کس کا تھا؟ ظاہر ہے چودھری رحمت علی کا، یعنی ان کئی پاکستان سے مراد وہی سات مسلم ریاستیں (صدیقستان، فاروقستان، معینستان وغیرہ) ہی تھیں۔
چودھری رحمت علی چاہتے تھے کہ پاکستان میں بھی ہندوؤں اور سکھوں کے لیے کچھ علاقے مخصوص کردیے جائیں اور پھر ان کے ساتھ ویسا ہی مساوی سلوک کیا جائے جیسا مسلمانوں کے ساتھ ہندو اکثریتی علاقوں میں ہو۔ اس برابری کے سلوک سے دونوں طرف کی اقلیتیں محفوظ رہتیں۔
لیکن ہندوستان کی غلط تقسیم سے یہ ممکن نہ ہوسکا۔ ان مسلمان ریاستوں کے مطالبے سے چودھری رحمت علی کے ان ہندوستانی مسلمانوں کے بقاء و تحفظ کی فکر کا اظہار ہوتا ہے ، جن کے لیے وہ اقوام متحدہ تک گئے اور اس ضمن میں ان کے بعد کسی نے کچھ نہ کیا۔ ان مسلم ریاستوں کے مطالبے اور چودھری رحمت علی کے وسیع پلان کے بارے میں ڈاکٹر راجندر پرشاد بھی خوف کا شکار نظر آتے ہیں، جب وہ لکھتے ہیں:
''رحمت علی کا دعویٰ ہے کہ مسلم لیگ کسی حد تک ان کے خیالات سے متفق ہو گئی ہے ۔ کسی کو کیا معلوم کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس اسکیم کے دوسرے حصوں سے بھی وہ متفق ہو جائے جو شائع ہو چکے ہیں ۔یا۔ ابھی شائع نہیں ہوئے۔
اور اس لحاظ سے ہندوؤں کو مستقبل کے اس دن کی طرف دیکھنا چاہیے جب انڈیا کا نام مٹ جائے گا اور ہر جگہ ملت (یعنی ملت اسلامیہ) کا دور دورہ ہو گا اور پھر براعظم کا نام بھی دِینیا ہو جائے گا۔'' (India Divided, P.187)
چودھری رحمت علی کے انتقال پر ان کے عمانویل کالج کیمبرج کے میگزین (مطبوعہ1951ئ) میں انھیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا گیا:
''کسی بات چیت کے دوران وہ ایسے مؤثر انداز میں مدعا پیش کرتے کہ ہر لفظ سے ان کا خلوص نظر آتا تھا۔ وہ اپنے موضوع پر اتنی فصاحت و بلاغت سے بات کرتے، جیسے ان پر الہام (نازل) ہورہا ہو۔
ان کا مدعا ہمیشہ ہندو قومیت کے مقابلے میں اسلام کی حفاظت ہوتا تھا۔ عمانویل کالج کا یہ گمنام طالب علم اس دنیا کے حالات پر اس قدر اثرانداز ہوا، اور مستقبل میں اس سے بھی زیادہ اثر انداز ہوگا، ایسا کسی ایک انسان کی قسمت میں نہیں ہوتا..... یہ کالج پاکستان کے بانی کا کالج تھا۔''
کیمبرج کے اخبار''Daily News'' نے لکھا:
'' پوری دنیا میں ان کے احترام کی بنیادی وجہ ان کی عظمت و اعلیٰ ظرفی، اپنے مقصد پر یکسوئی اور مستقل مزاجی ہے..... یہ بہت فخر کی بات ہے کہ کیمبرج، چودھری رحمت علی کو 1933ء میں پاکستان کا تصور پیش کرنے والا کہہ کر یاد رکھے گا..... دنیا ایک ایسے عظیم شخص سے محروم ہو گئی جو ایک تخلیقی نظریہ ساز تھا۔''
چودھری رحمت علی نے مطالبہ پاکستان کی تخلیق ، ترویج و تشہیر اور برصغیر کے تمام مسلمانوں کی آزادی کے لیے اپنی پوری زندگی وقف کر دی۔ شادی تک نہیں کی ۔ گھر بار نہیں بنایا۔ اس مقصد کے لیے اپنی تعلیم، پیشہ، مستقبل، زندگی، غرضیکہ سب کچھ قربان کر دیا۔
انہوں نے 1950ء میں اپنی زندگی کا آخری پمفلٹ لکھا جس میں پاکستان کو درپیش مسائل و خطرات کی نشان دہی کر تے ہوئے ان سے نبرد آزما ہونے کے لیے تجاویز بھی پیش کیں۔ انھوں نے جتنا کام تن تنہا کیا۔ اتنا کوئی پوری جماعت مل کر نہیں کر سکتی تھی۔
یہ سب کام ان کی لگن، محنت اور خلوص ظاہر کرتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ان کی عمر بھر کی پرخلوص جدوجہد اور اپنے مشن سے بے انتہا وفادار ی اور جاں نثاری مثالی تھی۔ لیکن وہ جن حالات سے گزرے اور جس بے اعتنائی، احسان فراموشی، نظرانداز ی اور الزام تراشی کا سلوک ان کے ساتھ کیا گیا، جس کسمپرسی اور مقروض حالت میں دیارغیر (کیمبرج) میں ان کا انتقال ہوا، یہ کسی بھی باعزت قوم کے لیے انتہائی شرم ناک اور افسوس ناک ہے۔
چودھری رحمت علی کے اولین سوانح نگار، پروفیسر ڈاکٹر بیرسٹر خورشیدکمال (کے ۔ کے) عزیز کے بیان کے مطابق:
''کسی انسان کو اس سے بڑی کام یابی نہیں مل سکتی تھی۔ کوئی پارٹی اس سے زیادہ احسان فراموشی نہیں کر سکتی تھی۔ یہ لفظ (پاکستان) اور یہ تصور چرایا گیا۔ ان کے خالق کو پہلے نظرانداز کیا گیا، پھر مسترد کیا گیا اور آخر میں اسے (اپنے ہی لوگوں کی نظر میں) ایک دشمن بنا دیا گیا'' (سوانح حیات: رحمت علی، صفحہ242)
قیام پاکستان کے لیے سب سے زیادہ کام تو یقیناً قائد اعظم محمد علی جناح نے کیا تھا۔ ان کے بغیر قیام پاکستان ممکن ہی نہیں تھا۔ دیگر قومی راہ نماؤں بشمول علامہ اقبال نے بھی بے مثال کام کیا۔
راقم کا نقطہ نظریہ ہے کہ ہمارے تمام راہ نماؤں کا کام اپنی اپنی جگہ ''اہم'' تھا۔ اس لیے سب راہ نماؤں کے کام کا اعتراف کیا جائے۔ سب کو خراج تحسین پیش کیا جائے ۔ سب کا احسان مانا جائے۔ کسی کو بھی نظر انداز نہ کیا جائے، کسی کی بھی حق تلفی نہ کی جائے۔ کسی کو بھی تاریخ پاکستان سے زبردستی خارج نہ کیا جائے۔
راقم کے والد نے 1948ء میں لاہور میں چودھری رحمت علی سے ملاقات کی تھی جس میں چودھری رحمت علی نے ان سے فرمایا تھا کہ:
''عمر الدین! مجھے کوئی اچھا سا نوکر ڈھونڈ کر لادو۔ میں اب پاکستان میں مستقل قیام کروںگا۔'' اس کے بعد انہوں نے پاکستان میں رہنے کی اپنی اسی خواہش کا اظہار اپنے 1950ء کے آخری پمفلٹ میں بھی کیا ہے۔ لیکن افسوس، اس سے پہلے کہ والدصاحب ان کی اس سلسلے میں کوئی مدد کرتے۔ انھیں حکومت کی طر ف سے پاکستان سے چلے جانے یا بصورت دیگر گرفتاری کا پیغام پہنچا دیا گیا۔
چوںکہ انہوں نے اخبارPakistan Timesکو دیے گئے اپنے انٹرویو میں کشمیر کی آزادی، تکمیل پاکستان اور ہندوستان میں رہ جانے والے5 کروڑ مسلمانوں کے تحفظ کے لیے ایک تحریک شروع کرنے کا اعلان کر دیا تھا، جس کے باعث ان کی نگرانی شروع کر دی گئی حالانکہ انہوں نے اسی انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ حکومت سے کوئی ٹکراؤ نہیں کریں گے۔
بالآخر وہ یکم اکتوبر1948ء کو اپنے پیارے ''پاکستان'' سے ہمیشہ کے لیے چلے گئے کیوںکہ پھر 3 فروری 1951کو ان کا کیمبرج (انگلستان) ہی میں انتقال ہوگیا۔
وہ اپنے عمر بھر کے خواب ''پاکستان'' میں صرف چھے ماہ رہ سکے لیکن ان کی روح تو یقیناً ان کی آخری خواہش کے مطابق پاکستان کی مٹی کے لیے تڑپ رہی ہوگی۔ صد افسوس کہ ہم آج تک ان کی یہ آخری خواہش بھی پوری نہ کر سکے۔ ان کی پر خلوص قومی خدمات کا اعتراف کرنا ہم سب کی قومی ذمے داری ہے، اگرچہ اپنے محسنوں کی قدر دانی اور احسان مندی کے لحاظ سے پاکستانی قوم کا ریکارڈ اچھا نہیں ہے۔
چودھری رحمت علی تحریک پاکستان کے بانی تھے۔ اُنہوں نے یہ تحریک 1933ء سے شروع کردی تھی۔ جب انہوں نے اپنے مشہور زمانہ پمفلٹ ''اب یا کبھی نہیں'' میں پاکستان کا مطالبہ کیا تھا۔ اور اپنی جماعت ''پاکستان قومی تحریک'' [Pakistan National Movement] کی بنیاد رکھی۔ وہ نہایت دوراندیش راہ نما تھے۔
وہ اپنی بصیرت سے مستقبل کو بہت دور تک دیکھ سکتے تھے۔ چودھری رحمت علی نے اپنے پمفلٹوں پر پاکستان کا جو جھنڈا شائع کیا اس میں سبز پس منظر پر ہلالی چاند اور پانچ ستارے دکھائے گئے تھے۔
پانچ ستاروں سے اُن کا مطلب پاکستان کے کشمیر سمیت پانچ صوبے تھے۔ پاکستان کی قومی زبان اردو کو انہوں نے ''پاک'' زبان کا نام دے دیا تھا۔ انھوں نے پاکستان کے پانچ صوبوں کو مسلمانوں کے ''انڈین ہوم لینڈز'' اور ایران، افغانستان، تخارستان (وہ قدیم علاقہ جو اب افغانستان، ازبکستان اور تاجکستان کا حصہ ہے) کو ''ایشین ہوم لینڈز'' کہا تھا، جس سے اُن کا مقصد پڑوسی ممالک کے ساتھ قریبی برادرانہ تعلقات کو مضبوط کرنا اور اتحاد پیدا کرنا تھا۔
اُن کی یہ فراست اور دوراَندیشی بعد میں آر۔سی۔ڈی(Regional Cooperation for Development ) کی شکل میں سامنے آئی، جس میں پاکستان، ایران اور ترکی شامل تھے (اور بعداَزآں اسے ECOکا نام دیا گیا)۔
چودھری رحمت علی کی دیگر پیش گوئیاں یہ تھیں۔ (1)''ہم ایک آزاد مسلم ملک بنائیں گے''۔ (1915ٗئ: بزم شبلی) (2)۔ پاکستان کا مطالبہ (28جنوری 1933ئ) جو بالآخر عملی شکل میں سامنے آگیا۔ (3)''ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں پر ظلم وستم ہو گا''، جو آج جاری ہے۔
اسی لیے انھوں نے ان مسلمانوں کو ہندوستان میں اقلیتی حیثیت میں رکھنے کی بجائے ان کی آٹھ آزاد خود مختار مسلم ریاستیں (فاروقستان، صدیقستان وغیرہ) بنانے کا پلان پیش کیا۔ (4)''جموں و کشمیر کو پاکستان میں شامل نہ کرنے کی صورت میں کشمیر ہندوسرزمین بن جائے گا اور کشمیر کے بغیر پاکستان ریگستان بن جائے گا''۔5 اگست2019ء کو ہندوستان نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرکے وہاں ہندوؤں کی آبادی بڑھانے کے اقدامات شروع کر دیے ہیں تاکہ یہ ہندوسرزمین بن جائے۔ نیز کشمیر سے آنے والے دریاؤں پر ڈیم بنا کر پاکستان کو پانی سے محروم کر دیا ہے۔
(5) ''مشرقی بنگال کا پاکستان میں انضمام غلط ہے''۔ جو آخرکار1971ء کی شکست کے بعد بنگلادیش کی صورت میں الگ ہوگیا۔ چودھری رحمت علی اس کو شروع ہی سے ایک علیٰحدہ آزاد مسلم ریاست ''بانگستان'' بنانا چاہتے تھے۔ (6) ''صوبہ سرحد کا نا م وہاں کے باشندوں کے نام پر رکھنا ہو گا''۔ آخر کار اسے خیبر پختونخواہ کا نام دے دیا گیا۔ (7)''پاکستان دینیا، یورپ اور ایشیا کے درمیان زمینی اور فضائی راستوں کے سب سے زیادہ ڈائریکٹ روٹ کا جنکشن ہو گا۔'' یہ بات اب سی پیک کی شکل میں پوری ہو رہی ہے۔
اُنھیں اپنی آزادی کی اسکیموں (پاک پلان) کے کام یاب ہونے کا بہت پختہ یقین تھا۔ سب سے پہلے انھوں نے اپنے اس پختہ یقین کا اظہار 1915ء میں اپنے طالب علمی کے دور میں، اپنی ہی تشکیل دی ہوئی بزم شبلی کے تاسیسی اجلاس میں کیا:''انڈیا کا شمالی علاقہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔
ہم اسے مسلم علاقہ ہی رکھیں گے نہ صرف یہ بلکہ ہم اسے ایک مسلم ملک بنائیں گے۔'' آخر کار اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے اُن کے نعرہ انقلاب کو باریاب کردیا اور پاکستان قائم ہو گیا۔ اسی طرح اپنے سب سے پہلے اور مشہور زمانہ پمفلٹ ''اب یا کبھی نہیں'' کے بارے میں لکھتے ہیں: ''جتنی بھی بے اعتنائی (میرے کام سے) برتی جاتی یا (میری) مخالفت کی جاتی، وہ میرے اس یقین کو متزلزل نہیں کر سکتی تھی کہ یہ پمفلٹ ایشیا اور انڈیا کی قدیم تاریخ کا دھارا موڑ دے گا۔
مسلمان سیاست داں جنھوں نے اس اعلان کی اہمیت کم کرنے کی کوشش کی تھی، انھیں جلدہی اس کی حمایت کرنی پڑے گی اور میری طرح اپنی نجا ت اسی میں تلاش کرنی پڑے گی۔ انگریز اور ہندوجنھوں نے اسے نامنظور کیا ہے، انھیں جلد ہی اس پمفلٹ میں کیے گئے مطالبات کو ماننا پڑے گا۔ یہ یقین اتنا ہی غیرمتزلزل تھا جتنا کہ آج مجھے اپنے دوسرے پمفلٹس کے بارے میں ہے''۔ (''پاکستان۔پاک قوم کا آبائی وطن'':صفحہ نمبر280)۔ چودھری رحمت علی نے اپنی کتاب کے پیش لفظ میں لکھا ہے:
''تاریخ کا آخری فیصلہ جو بھی ہو، ایک بات پہلے سے واضح ہے، وہ یہ کہ پاکستان کے مشن کی آخری فتح یقینی ہے۔''
چودھری رحمت علی نے برصغیر میں ہندوستانیت (Indianism) کے عفریت کو ختم کرنے پر بہت زور دیا ہے جو اُن کے بقول کئی پرانے مذاہب کو ہڑپ کر چکا ہے۔ ہندوستانیت سے اُن کی مراد تمام دیگر اقوام (مسلمان، سکھ، عیسائی، پارسی وغیرہ) کا اپنی انفرادی قو میت کو ختم کرکے ہندوستانی بن جانا تھا۔ انہوں نے اپنی کتاب ''پاکستان''۔ پاک قوم کا آبائی وطن'' میں کئی جگہوں پر، اس ہندوستانیت کی شدید مخالفت ومذمت کی ہے:
ا)۔''ہم یا تو اسلام کے جھنڈے تلے اپنے عالی شان قومی مقام کا آخری انتخاب کرلیں اور یا پھر ہندوستانیت کے تحت اپنے لیے انتہائی گھٹیا اقلیتی مقام کو قبول کرلیں۔''
ب)۔''اگر انڈیا کی علاقائی وحدت (متحدہ ہندوستان) کو قائم رکھا گیا تو 'ہندوستانیت' ہی مرکزی حکومت بنائے گی۔ سول انتظامیہ پر اسی کا کنٹرول ہوگا اور فوجی طاقت پر بھی اسی کا قبضہ ہو گا تاکہ ہمیں مکمل طور پر غلامی میں رکھا جاسکے۔''
انھوں نے بار بار ہندوستانیت کے نظریے پر کاری ضربیں لگائی ہیں اور اسے مسلمانوں کی ناکامیوں اور محرومیوں کی وجہ قرار دیا ہے۔ اور اس کے فریب میں آنے سے روکا ہے انھوں نے اپنی کتاب کا ایک پورا باب ہندوستانیت کے خلاف لکھا ہے جس کا نام ''ملت اسلام اور ہندوستانیت کا بھیانک خطرہ'' ہے۔
انھوں نے اسی نام سے 15اگست1941ء کو ایک پمفلٹ بھی شائع کیا تھا۔ انھوں نے اپنی کتاب میں شامل اپنے ایک پمفلٹ ''انڈیا، براعظم دینیا ۔یا۔تباہی کے دہانے پر کھڑا ملک'' میں ناقابل تردید ٹھوس دلائل سے یہ بات ثابت کی ہے کہ ہندوستان صرف ہندوؤں کا ملک نہیں ہے بلکہ یہ بہت سے مذاہب کا مجموعہ یعنی براعظم دینیا ہے۔
چودھری رحمت علی اپنے مشن (پاک پلان) کی آخری منزل کو یوں بیان کرتے ہیں:''ہمارا مشن صرف اصلی یا قدیم پاکستان ہی کو دوبارہ قائم کرنا نہیں۔ نہ ہی یہ فقط بانگستان، عثمانستان، فاروقستان، حیدرستان، معینستان، ماپلستان، صفیستان اور نصارستان بنانے تک محدود ہے;حتیٰ کہ یہ مشن ان تمام ممالک کو ''پاک دولت مشترکہ'' [Pak Commonwealth of Nations] میں منسلک کرنا بھی نہیں ہے، یہ اس سے بھی بڑا، عالی شان اور عظیم ہے۔ یہ انڈیا کے ملک اور اس کے جزائر کو براعظم دینیا اور اس کے ماتحت علاقوں میں تبدیل کرنے اور انھیں پاک ایشیا کے ثقافتی حلقے میں منظم کرنا ہے''۔
یعنی اُن کی آخری منزل پاک ایشیا تھی۔ چودھری رحمت علی میں اپنی مخالفت، بے اعتنائی اور بے قدری برداشت کرنے کو حوصلہ بہت زیادہ تھا۔ ان کی یہ مخالفت اُن کے کالج کے زمانہ طالب علمی سے ہی شروع ہو گئی تھی، جب انھوں نے 1915ء میں بزم شبلی کے اجلاس میں آزاد مسلم ملک کا تصور پیش کیا تھا۔
اسی طرح 1933ء میں ان کے مطالبۂ پاکستان کی بھی بہت مخالفت کی گئی۔ یہ مخالفت انگریزوں اور ہندوؤں کے ساتھ ساتھ چند مسلمان راہ نماؤں کی طرف سے بھی ہوئی (اگرچہ عام مسلمان تو ان کے مطالبہ پاکستان کے زبردست حامی تھے)۔
ان کے اس مطالبہ پاکستان کو گول میز کانفرنس کے مسلم مندوبین نے ناقابل عمل اور طالب علم کا خواب کہا، ان کی ذات پر حملے کیے گئے، انھیں انگریزوں کا ایجنٹ، مذہبی متعصب (Fanatic)، خیالی اسکیمیں بنانے والا کہا گیا، اُن کا تخلیق کردہ نام اور مطالبہ پاکستان اختیار کرلینے کے باوجود کبھی ان کا نام نہیں لیا گیا، ان کی قومی خدمات کا اعتراف نہیں کیا گیا، انہیں 1940ء میں پاکستان آنے سے روکا گیا اور پنجاب میں داخلے پر پابندی لگا دی گئی، حالانکہ اس وقت پیش کی گئی قراردادلاہور میں اُنھی کا پروگرام، بغیر پاکستان کا نام لیے منظور کیا گیا، مجبوراً وہ کراچی میں تین ماہ قیام کے بعد واپس برطانیہ چلے گئے۔
وہ ہوشیارپور (مشرقی پنجاب) میں واقع اپنے گاؤں بھی نہ جا سکے۔ 1948ء میں ان کے پیچھے سی آئی ڈی لگا دی گئی اور بالآخر انھیں ملک سے چلے جانے کا پیغام پہنچا دیا گیا۔ (سوانح حیات، کے ۔کے عزیز: صفحہ 353) وہ اپنے عمر بھر کے خواب، اپنے پیارے پاکستان میں صرف چھے ماہ رہ سکے۔
اخباری مضامین میں اُن کی تضحیک کی گئی۔ بے بنیاد، گمراہ کن اور من گھڑت الزامات لگائے گئے۔ انھیں بہت زیادہ نظانداز کیا گیا۔ احسان فراموشی کی انتہاکردی گئی لیکن ان سب ناانصافیوں کے باوجود وہ کبھی مایوس نہیں ہوئے (اگرچہ ان کا دل تو یقیناً ٹوٹ گیا ہوگا اور ان کی دل جوئی کرنے کے لیے اُن کی بیوی تھی نہ بچے)۔ اس تمام ناروا سلوک کے باوجود انھوں نے برصغیر کے تمام مسلمانوں کی آزادی و خودمختاری کی اپنی بے لوث، پرخلوص اور بے مثال جدوجہد کبھی ترک نہیں کی۔
وہ مسلمانوں کی آزادی کے مزید پروگرام اور منصوبے بناتے رہے۔ انھوں نے اپنے1933ء کے مطالبہ پاکستان کو نظرانداز کیے جانے کے باوجود 1933ء ہی میں ایک اور پمفلٹ بعنوان ''پاکستان نیشنل موومنٹ کے اغراض و مقاصد'' شائع کیا، 1935ء میں برطانوی پارلیمنٹ کے اراکین کو خط اور 1935ء ہی میں پمفلٹ بعنوان ''اسلامی آبائی وطن اور انڈین فیڈریشن، پاکستان کے لیے جدوجہد جاری رہے گی'' شائع کیا۔
1937ء میں ترک مصنفہ خالدہ ادیب کی کتاب Inside India میں ایک پورا باب پاکستان کے حصول کے لیے لکھا اور1938ء میں لندن کے اخبارٹائمز میں پاکستان کے لیے ایک مراسلہ لکھا۔ انھوں نے 1940ء کے تلخ تجربے اور بدسلوکی کے باوجود 1941ء میں ''ہندوستانیت'' کے خلاف پمفلٹ شائع کیا۔ 1942ء میں پمفلٹ ''ملت اور اس کا مشن''، 1943ء میں ''ملت اور اس کی اقلیتیں'' (سات مسلم ریاستوں کے لیے سات الگ الگ پمفلٹ) 1944ء میں پمفلٹ ''ملت اور اس کی دس اقوام ''، 1945ء میں پمفلٹ ''انڈیا براعظم دینیا یا تباہی کے دہانے پر کھڑا ملک''، 1946ء میں پمفلٹ ''پاکستان نیشنل موومنٹ اور انڈیا کے بارے میں برطانوی فیصلہ (کیبنٹ مشن پلان)، 1946ء ہی میں پاک ایشیا، دینیا، پاکستان اور عثمانستان کے لیے الگ الگ پمفلٹ شائع کیے۔ 1947ء میں مکمل پنجاب اور کشمیر کے بغیر نامکمل پاکستان ملنے پر شدید غم اور دکھ کے زیراثر ایک بہت سخت عنوان سے پمفلٹ ''عظیم غداری'' [The Great Betrayal] شائع کیا۔1947ء ہی میں اپنی کتاب ''پاکستان۔ پاک قوم کا آبائی وطن'' شائع کی۔
1948ء میں اپنے خواب کی تعبیر، پاکستان سے نکالے جانے کے باوجود ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کے تحفظ کے لیے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو خط لکھا اور ان مسلمانوں کے لیے اقوام متحدہ کو اپیل کا پمفلٹ ''ہندوستان کی مسلم اقلیت اور اقوام متحدہ کی ذمہ داری'' شائع کیا۔ 1949ء میں پھر اِن مسلمانوں کے لیے پمفلٹ ''ہندوستان کی مسلم اقلیت اور اقوام متحدہ کو دینیا کا مشن'' شائع کیا، 1950ء میں پمفلٹ ''پاکستان یا پاستان: منزلِ مقصودیا ناکامی'' شائع کیا، جس میں پاکستان کو درپیش مسائل کی نشان دہی کی اور ان کا حل بھی پیش کیا، جواُن کا آخری پمفلٹ ثابت ہوا اور وہ 3 فروری 1951ء کو اس بے قدر دنیا سے ہمیشہ کے لیے چلے گئے۔ اس سے زیادہ مخالفت، احسان فراموشی بلکہ دشمنی نہیں ہو سکتی۔
اس سے زیادہ برداشت، حوصلہ، بے لوث اور انتھک محنت اور خلوص، اپنے مشن (برصغیر کے تمام مسلمانوں کی آزادی) سے انتہائی لگن، والہانہ وفاداری اور جاں نثاری نہیں ہو سکتی۔
بقول خود اُن کے:''جو کچھ میرے پاس تھا میں نے اس عظیم مقصد کے لیے1933ء میں وقف کردیا تھا۔ صرف یہی نہیں اس عظیم مقصد کو میری زندگی کی بھی ضرورت تھی۔ وہ بھی اس وقت سے اسی کے ہاتھ میں ہے اور میری آخری سانس تک اسی کے ہاتھ میں رہے گی'' (پاکستان صفحہ 284)
چودھری رحمت علی نے تن تنہا جتنا کام کیا اتنا کام پوری ایک جماعت بھی نہیں کر سکتی تھی۔کے کے عزیز کے مطابق:
''وہ جو کچھ کرسکتے تھے، انھوں نے کیا اس سے زیادہ کوئی بھی شخص نہیں کر سکتا تھا۔ وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے انڈیا میں مسلمانوں کی اقتدارعلیٰ کی حامل حیثیت (Sovereignty)کے بارے میں سوچا، اس کے بارے میں ایک باقاعدہ منصوبہ پیش کیا، اس مقصد کے لیے ایک تحریک (پاکستان قومی تحریک) کو منظم کیا اور لوگوں کو قائل کرنے کے لیے باقاعدہ مہم شروع کی ۔ انھوں نے یہ سب کچھ تن تنہا کیا جو اُن کی لگن، حوصلہ، محنت اور جانثاری کو ظاہر کرتا ہے۔'' (سوانح حیات،صفحہ549)
چودھری رحمت علی نے اپنی کتاب میں اپنے اور اپنی جماعت پاکستان نیشنل موومنٹ پر لگائے جانے والے جھوٹے الزامات کا بھی مدلل جواب دیا ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ یہ تمام الزامات غلط ہیں۔ چودھری رحمت علی نے اس کتاب میں اپنے مطالبہ پاکستان ''اب یا کبھی نہیں'' کو علامہ اقبال کے خطبہ الٰہ آباد سے بالکل مختلف قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق:
''علامہ اقبال نے اپنے اس خطبہ میں ایک ایسی انڈین فیڈریشن کی حمایت کی ہے جس میں مسلمانوں کے صوبے بھی شامل ہوتے۔ اور لفظ اسٹیٹ سے ان کا مطلب ایک علیحدہ اقتدار اعلٰی کی حامل اسٹیٹ (ایک آزاد ملک) نہیں تھا بلکہ ان کا مطلب مجوزہ انڈین فیڈریشن کے اندر اور اس کے ایک حصے کے طور پر ایک بڑا صوبہ تھا''۔
یہی فرق چودھری رحمت علی نے اپنے رسالہ ''اب یا کبھی نہیں'' میں بھی بیان کیا ہے:''یہ مطالبہ ڈاکٹر اقبال کی اس تجویز سے بنیادی طور پر مختلف ہے جو انھوں نے 1930ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اپنے صدارتی خطاب میں پیش کی تھی۔ انھوں نے ان صوبوں کو ملا کر ایک ایسی ریاست بنا دینے کی تجویز دی تھی جو آل انڈیا فیڈریشن کا ہی ایک یونٹ ہو جب کہ ہماری تجویز یہ ہے کہ ان صوبوں کی اپنی ایک علیحدہ فیڈریشن ہو۔''