بالی سربراہی کانفرنس
ساری دُنیا، خصوصاً ترقی یافتہ ممالک، کی نظریں اِس کانفرنس پر لگی ہُوئی ہیں
15اور 16نومبر 2022ء کو مالی، معاشی اور صنعتی اعتبار سے دُنیا کے طاقتور ترین ممالک (G20) کی17ویں سالانہ کانفرنس ہو رہی ہے۔ یہ کانفرنس ''بالی'' میں ہو رہی ہے جس میں دُنیا کے 20امیر ترین ممالک کے سربراہان شریک ہوں گے اور دو روز تک عالمی معیشتوں پر کئی حساس بحثیں اور مشورے کیے جائیں گے۔
ساری دُنیا، خصوصاً ترقی یافتہ ممالک، کی نظریں اِس کانفرنس پر لگی ہُوئی ہیں۔ بھارت تو ''جی ٹوئنٹی'' کا رکن ملک ہے، لیکن پاکستان نہیں۔ پاکستان ایسا غریب ملک G20 کی اِس کانفرنس کو محض بغور اس لیے بھی دیکھ رہا ہے کہ اِس دو روزہ عالمی بیٹھک کے نتائج میں ہمارے مفاد کا حصہ کتنا اور کس قدر نکلتا ہے ۔
اگلے روز شرم الشیخ (مصر) میں ہونے والی ''COP27'' کانفرنس میں اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے البتہ کہا :''اُمید ہے G20 کانفرنس میں امیر ممالک سیلابوں سے شدید متاثر ہونے والے پاکستان کی مدد کرنے کا اعلان بھی کریں گے۔''
بالی، انڈونیشیا کا ایک خوبصورت اور پُر امن جزیرہ بھی ہے اور صوبہ بھی۔ دُنیا بھر کے سیاح اس کی جانب کشاں کشاں چلے آتے ہیں۔ یہ خوبصورتی ہی ہے جو ہالی وُڈ کے فلمسازوں کو بھی فلمیں بنانے کے لیے ''بالی'' کی جانب کھینچ لے آتی ہے۔ اب تک ہالی وُڈ کی درجنوں فلمیں ''بالی'' میں فلمائی جا چکی ہیں۔
اِن میں Ticket to Paradiseممتاز ترین حیثیت رکھتی ہے۔ دو عشرے قبل اکتوبر، نومبر کے یہی دن تھے جب ''بالی'' کا پُر امن ماحول ایک دھماکے سے اُڑ گیا۔
دو مبینہ دہشت گردوں نے ''بالی'' کے علاقے کوٹہ (Kuta)کے دو نائیٹ کلبز پر اُس وقت خود کش حملہ کر دیا تھا جب دونوں عالمی سیاحوں سے بھرے ہُوئے تھے۔ دونوں دھماکوں نے200سے زائد افراد کو ہلاک اور 300کے قریب افراد کو شدید زخمی کر دیا تھا۔
مبینہ طور پر دونوں خود کش دھماکے انڈونیشیا کی تنظیم ''جمعہ الاسلامیہ'' اور مقامی ''القاعدہ'' کی لیڈر شپ نے کرائے تھے ۔ ''جمعہ الاسلامیہ'' کے انڈونیشیائی لیڈر ابوبکر البشیر تھے ۔ ''القاعدہ'' کی عالمی تنظیم نے تسلیم کیا تھا کہ اُس نے ان دونوں خود کش دھماکوں کے لیے بھاری رقوم ''بالی'' بھجوائی تھیں ۔
کڑی تحقیقات کے بعد انڈونیشیا نے مذکورہ دونوں تنظیموں اور ان کے سربراہوں کو دہشت گرد قرار دے کر پابندی عائد کر دی تھی۔ یہ پابندیاں اب بھی جاری ہیں۔ دھماکوں کی جگہ پر انڈونیشیائی حکومت نے ایک خوبصورت یادگار تعمیر کر دی ہے ۔
عالمی سیاح یہاں حاضر ہو کر اُن رُوحوں کو یاد کرتے ہیں جو نفرت اور دہشت گردی کے بھینٹ چڑھ گئیں۔امریکی جریدے (Foreign Policy) نے اپنے تازہ شمارے میں مصنفہ، جولی چرنوف، کا ایک آرٹیکل بالی سانحہ کی بیسویں ''سالگرہ'' کی یاد میں شائع کیا ہے ۔ مصنفہ نے سوال اُٹھایا ہے کہ ''بالی'' میں آخر کیوں G20کی 17ویں کانفرنس ہو رہی ہے ؟
انڈونیشیا کی فوج اور پولیس کے سخت اقدامات کے بعد ''بالی'' کی ہوائیں اور فضائیں دوبارہ امن کے گیت گا رہی ہیں۔ شدت پسند تنظیموں اور دہشت گرد شخصیات کو پس دیوارِ زنداں دھکیلا جا چکا ہے۔ انڈونیشیا ''بالی'' میں ہونے والی G20کی مذکورہ 17ویں سالانہ کانفرنس پر کڑی نظر رکھے ہُوئے ہے۔
اِس کانفرنس میں، دیگر امیر ممالک کی طرح، سعودی عرب اور امریکہ بھی شریک تو ہو رہے ہیں لیکن آج کل دونوں کے تعلقات کشیدہ ہیں ۔ امریکہ سے جوبائیڈن اور سعودی عرب سے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان تشریف لا رہے ہیں۔حالات تناؤ اور کھچاؤ کا شکار ہیں۔اِس کھچاؤ کو امریکی میڈیا نے دانستہ بڑھایا اور اُچھالا ہے ۔
یہ مفسد امریکی میڈیا ہی ہے کہ جب رواں برس کے دوران (جولائی میں) امریکی صدر نے سعودی عرب کا سرکاری دَورہ کیا تو امریکی میڈیا نے واویلا مچایا تھا کہ بائیڈن کیوں سعودیہ گئے ہیں ؟۔
امریکی صدر ، جو بائیڈن سعودی عرب بھی گئے اور امریکی میڈیا کے دباؤ اور طنزو تعریض کے باوصف شہزادہ محمد بن سلمان سے مصافحہ اور معانقہ بھی کیا۔ امریکہ کے سامنے سعودی عرب کو گھٹنوں کے بَل گرانے کا آرزُو مند امریکی شدت پسند میڈیا اب بھی یہی چاہتا ہے کہ پندرہ، سولہ نومبر کو ''بالی'' کیG20 کانفرنس میں بھی جو بائیڈن ، شہزادہ محمد بن سلمان کے درمیان ملاقات نہ ہوسکے۔
امریکی صدر کا اصرار ہے کہ سعودی عرب تیل کی پیداوار بڑھائے کہ جو بائیڈن کو امریکہ میں مہنگے تیل کا عوامی ردِ عمل مہنگا پڑے گا لیکن سعودی عرب نے یہ تجویز نہیں مانی، اِس ضمن میں ''اوپیک پلس'' نے بھی سعودیہ کا ساتھ دیا ہے۔ پاکستان بھی سعودی موقف کے ساتھ کھڑا ہے۔
امریکہ کہتا ہے کہ سعودی تیل کی پیداوار کم ہو گی تو تیل کی عالمی قیمتیں بڑھیں گی اور اس کا براہِ راست فائدہ رُوس، کو ہوگا ۔
بہرحال 5نومبر2022ء کو مشہور امریکی اخبار، واشنگٹن پوسٹ، میں ممتاز امریکی تجزیہ نگار ( کیرن ڈی ینگ) کا امریکہ ، سعودی تازہ تعلقات پر مبنی ایک تفصیلی تجزیہ شائع ہُوا ہے ۔ جس میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان اِس کشیدہ ماحول میں امریکی انتظامیہ چاہتی ہے کہ سعودی عرب کو مزید ناراض نہ کیا جائے ۔ بالی کانفرنس سے قبل یہ ایک اچھی پیشرفت ہے ۔
ساری دُنیا، خصوصاً ترقی یافتہ ممالک، کی نظریں اِس کانفرنس پر لگی ہُوئی ہیں۔ بھارت تو ''جی ٹوئنٹی'' کا رکن ملک ہے، لیکن پاکستان نہیں۔ پاکستان ایسا غریب ملک G20 کی اِس کانفرنس کو محض بغور اس لیے بھی دیکھ رہا ہے کہ اِس دو روزہ عالمی بیٹھک کے نتائج میں ہمارے مفاد کا حصہ کتنا اور کس قدر نکلتا ہے ۔
اگلے روز شرم الشیخ (مصر) میں ہونے والی ''COP27'' کانفرنس میں اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے البتہ کہا :''اُمید ہے G20 کانفرنس میں امیر ممالک سیلابوں سے شدید متاثر ہونے والے پاکستان کی مدد کرنے کا اعلان بھی کریں گے۔''
بالی، انڈونیشیا کا ایک خوبصورت اور پُر امن جزیرہ بھی ہے اور صوبہ بھی۔ دُنیا بھر کے سیاح اس کی جانب کشاں کشاں چلے آتے ہیں۔ یہ خوبصورتی ہی ہے جو ہالی وُڈ کے فلمسازوں کو بھی فلمیں بنانے کے لیے ''بالی'' کی جانب کھینچ لے آتی ہے۔ اب تک ہالی وُڈ کی درجنوں فلمیں ''بالی'' میں فلمائی جا چکی ہیں۔
اِن میں Ticket to Paradiseممتاز ترین حیثیت رکھتی ہے۔ دو عشرے قبل اکتوبر، نومبر کے یہی دن تھے جب ''بالی'' کا پُر امن ماحول ایک دھماکے سے اُڑ گیا۔
دو مبینہ دہشت گردوں نے ''بالی'' کے علاقے کوٹہ (Kuta)کے دو نائیٹ کلبز پر اُس وقت خود کش حملہ کر دیا تھا جب دونوں عالمی سیاحوں سے بھرے ہُوئے تھے۔ دونوں دھماکوں نے200سے زائد افراد کو ہلاک اور 300کے قریب افراد کو شدید زخمی کر دیا تھا۔
مبینہ طور پر دونوں خود کش دھماکے انڈونیشیا کی تنظیم ''جمعہ الاسلامیہ'' اور مقامی ''القاعدہ'' کی لیڈر شپ نے کرائے تھے ۔ ''جمعہ الاسلامیہ'' کے انڈونیشیائی لیڈر ابوبکر البشیر تھے ۔ ''القاعدہ'' کی عالمی تنظیم نے تسلیم کیا تھا کہ اُس نے ان دونوں خود کش دھماکوں کے لیے بھاری رقوم ''بالی'' بھجوائی تھیں ۔
کڑی تحقیقات کے بعد انڈونیشیا نے مذکورہ دونوں تنظیموں اور ان کے سربراہوں کو دہشت گرد قرار دے کر پابندی عائد کر دی تھی۔ یہ پابندیاں اب بھی جاری ہیں۔ دھماکوں کی جگہ پر انڈونیشیائی حکومت نے ایک خوبصورت یادگار تعمیر کر دی ہے ۔
عالمی سیاح یہاں حاضر ہو کر اُن رُوحوں کو یاد کرتے ہیں جو نفرت اور دہشت گردی کے بھینٹ چڑھ گئیں۔امریکی جریدے (Foreign Policy) نے اپنے تازہ شمارے میں مصنفہ، جولی چرنوف، کا ایک آرٹیکل بالی سانحہ کی بیسویں ''سالگرہ'' کی یاد میں شائع کیا ہے ۔ مصنفہ نے سوال اُٹھایا ہے کہ ''بالی'' میں آخر کیوں G20کی 17ویں کانفرنس ہو رہی ہے ؟
انڈونیشیا کی فوج اور پولیس کے سخت اقدامات کے بعد ''بالی'' کی ہوائیں اور فضائیں دوبارہ امن کے گیت گا رہی ہیں۔ شدت پسند تنظیموں اور دہشت گرد شخصیات کو پس دیوارِ زنداں دھکیلا جا چکا ہے۔ انڈونیشیا ''بالی'' میں ہونے والی G20کی مذکورہ 17ویں سالانہ کانفرنس پر کڑی نظر رکھے ہُوئے ہے۔
اِس کانفرنس میں، دیگر امیر ممالک کی طرح، سعودی عرب اور امریکہ بھی شریک تو ہو رہے ہیں لیکن آج کل دونوں کے تعلقات کشیدہ ہیں ۔ امریکہ سے جوبائیڈن اور سعودی عرب سے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان تشریف لا رہے ہیں۔حالات تناؤ اور کھچاؤ کا شکار ہیں۔اِس کھچاؤ کو امریکی میڈیا نے دانستہ بڑھایا اور اُچھالا ہے ۔
یہ مفسد امریکی میڈیا ہی ہے کہ جب رواں برس کے دوران (جولائی میں) امریکی صدر نے سعودی عرب کا سرکاری دَورہ کیا تو امریکی میڈیا نے واویلا مچایا تھا کہ بائیڈن کیوں سعودیہ گئے ہیں ؟۔
امریکی صدر ، جو بائیڈن سعودی عرب بھی گئے اور امریکی میڈیا کے دباؤ اور طنزو تعریض کے باوصف شہزادہ محمد بن سلمان سے مصافحہ اور معانقہ بھی کیا۔ امریکہ کے سامنے سعودی عرب کو گھٹنوں کے بَل گرانے کا آرزُو مند امریکی شدت پسند میڈیا اب بھی یہی چاہتا ہے کہ پندرہ، سولہ نومبر کو ''بالی'' کیG20 کانفرنس میں بھی جو بائیڈن ، شہزادہ محمد بن سلمان کے درمیان ملاقات نہ ہوسکے۔
امریکی صدر کا اصرار ہے کہ سعودی عرب تیل کی پیداوار بڑھائے کہ جو بائیڈن کو امریکہ میں مہنگے تیل کا عوامی ردِ عمل مہنگا پڑے گا لیکن سعودی عرب نے یہ تجویز نہیں مانی، اِس ضمن میں ''اوپیک پلس'' نے بھی سعودیہ کا ساتھ دیا ہے۔ پاکستان بھی سعودی موقف کے ساتھ کھڑا ہے۔
امریکہ کہتا ہے کہ سعودی تیل کی پیداوار کم ہو گی تو تیل کی عالمی قیمتیں بڑھیں گی اور اس کا براہِ راست فائدہ رُوس، کو ہوگا ۔
بہرحال 5نومبر2022ء کو مشہور امریکی اخبار، واشنگٹن پوسٹ، میں ممتاز امریکی تجزیہ نگار ( کیرن ڈی ینگ) کا امریکہ ، سعودی تازہ تعلقات پر مبنی ایک تفصیلی تجزیہ شائع ہُوا ہے ۔ جس میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان اِس کشیدہ ماحول میں امریکی انتظامیہ چاہتی ہے کہ سعودی عرب کو مزید ناراض نہ کیا جائے ۔ بالی کانفرنس سے قبل یہ ایک اچھی پیشرفت ہے ۔