ڈی جے کالج کی میرٹ میں کمی سیشن کے دوران ایک بار پھر داخلے شروع
کم نمبر کے حامل طلبہ کو تعلیمی سیشن کے بیچ میں داخلہ دینے کا سرکاری کالجوں کی معلومہ تاریخ کا یہ انوکھا واقعہ ہے
صوبائی محکمہ کالج ایجوکیشن نے تنقید اور عوامی ردعمل سے بچنے کے لیے سندھ کے قدیم ترین ڈی جے سائنس کالج میں پری انجینیئرنگ کی میرٹ بیچ سیشن میں تبدیل کردی اور میرٹ کو 51 مارکس تک کم کرتے ہوئے کالج میں دوبارہ داخلے شروع کردیے۔
یہ فیصلہ جمعہ کو سامنے آیا ہے جب ایک سرکلر کے ذریعے ڈی جے کالج میں پڑی انجینیئرنگ کا میرٹ 519 مارکس سے کم کرکے 468 مارکس کر دیا گیا اور مذکورہ مارکس کے طلبہ سے کہا گیا کہ وہ بھی ڈی جے سائنس کالج میں داخلے لیں۔ ڈائریکٹر جنرل کالجز سندھ ڈاکٹر محمد علی مانجی نے اس فیصلے کی تصدیق کر دی ہے۔
نسبتاً کم نمبر کے حامل طلبہ سے کہا گیا ہے کہ اب وہ بھی ڈی جے سائنس کالج میں داخلہ لے سکتے ہیں جو سرکاری کالجوں کی دستیاب تاریخ کا ایک انوکھا واقعہ ہے۔
واضح رہے کہ یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ڈی جے سائنس کالج میں پرانے اور اوریجنل میرٹ کے حامل سمیت ہزاروں دیگر طلبہ دوسرے سرکاری و نجی کالجوں میں داخلے لے چکے ہیں، ان کے انرولمنٹ فارم انٹر بورڈ بھجوانے کی تیاری کی جارہی ہے اور رواں سیشن کی کلاسز کو کم از کم ڈھائی ماہ ہوچکے ہیں جس کے سبب اب طلبہ کا ڈی جے کالج کی جانب ایک بار پھر رخ کرنے کے امکانات معدوم ہیں۔
یاد رہے کہ ڈی جے سائنس کالج میں پری انجینیئرنگ فیکلٹی میں کم داخلوں کے معاملے پر محکمہ کالج ایجوکیشن کو شدید تنقید اور عوامی ردعمل کا سامنا ہے، محکمہ نے صرف 85 طلبہ کو پری انجینیئرنگ فیکلٹی میں داخلے دیے تھے اور باقی ذہین طلبہ کو اس کالج سے محروم کر دیا گیا تھا جبکہ ہر سال اے ون گریڈ 600 طلبہ کو اس کالج کی پری انجینیئرنگ فیکلٹی میں داخلے دیے جاتے تھے۔
''ایکسپریس'' نے جب اس سلسلے میں مرکزی داخلہ پالیسی پر کام کرنے والے سیکشن افسر راشد کھوسو سے رابطہ کرکے ان سے پوچھا کہ اس فیصلے سے تو ڈی جے کالج کا میرٹ گر گیا ہے اور وہاں کم مارکس کے حامل طلبہ بھی چلے جائیں گے جس پر ان کا کہنا تھا کہ ''یہ فیصلہ سیکریٹری کالج ایجوکیشن اور ڈی جی کالجز نے کیا ہے ہم صرف ٹیکنیکل کام کرتے ہیں۔
جب راشد کھوسو سے استفسار کیا گیا کہ آخر اس کالج میں اتنے کم داخلے کیوں دیے گئے جس کے سبب میرٹ کم کرکے ایک بار پھر داخلے دینے پڑ رہے ہیں، جس پر ان کا کہنا تھا کہ ہم نے 300 طلبہ کی لسٹ کالج پرنسپل کو بھیجی تھے لیکن صرف 85 کو داخلے دیے ہیں۔
ادھر جب پرنسپل کالج پروفیسر محمد مہر سے رابطہ کرکے اس دعوے کی تصدیق کہ کوشش کی گئی تو انھوں نے فون ریسیوو نہیں کیا۔
یہ فیصلہ جمعہ کو سامنے آیا ہے جب ایک سرکلر کے ذریعے ڈی جے کالج میں پڑی انجینیئرنگ کا میرٹ 519 مارکس سے کم کرکے 468 مارکس کر دیا گیا اور مذکورہ مارکس کے طلبہ سے کہا گیا کہ وہ بھی ڈی جے سائنس کالج میں داخلے لیں۔ ڈائریکٹر جنرل کالجز سندھ ڈاکٹر محمد علی مانجی نے اس فیصلے کی تصدیق کر دی ہے۔
نسبتاً کم نمبر کے حامل طلبہ سے کہا گیا ہے کہ اب وہ بھی ڈی جے سائنس کالج میں داخلہ لے سکتے ہیں جو سرکاری کالجوں کی دستیاب تاریخ کا ایک انوکھا واقعہ ہے۔
واضح رہے کہ یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ڈی جے سائنس کالج میں پرانے اور اوریجنل میرٹ کے حامل سمیت ہزاروں دیگر طلبہ دوسرے سرکاری و نجی کالجوں میں داخلے لے چکے ہیں، ان کے انرولمنٹ فارم انٹر بورڈ بھجوانے کی تیاری کی جارہی ہے اور رواں سیشن کی کلاسز کو کم از کم ڈھائی ماہ ہوچکے ہیں جس کے سبب اب طلبہ کا ڈی جے کالج کی جانب ایک بار پھر رخ کرنے کے امکانات معدوم ہیں۔
یاد رہے کہ ڈی جے سائنس کالج میں پری انجینیئرنگ فیکلٹی میں کم داخلوں کے معاملے پر محکمہ کالج ایجوکیشن کو شدید تنقید اور عوامی ردعمل کا سامنا ہے، محکمہ نے صرف 85 طلبہ کو پری انجینیئرنگ فیکلٹی میں داخلے دیے تھے اور باقی ذہین طلبہ کو اس کالج سے محروم کر دیا گیا تھا جبکہ ہر سال اے ون گریڈ 600 طلبہ کو اس کالج کی پری انجینیئرنگ فیکلٹی میں داخلے دیے جاتے تھے۔
''ایکسپریس'' نے جب اس سلسلے میں مرکزی داخلہ پالیسی پر کام کرنے والے سیکشن افسر راشد کھوسو سے رابطہ کرکے ان سے پوچھا کہ اس فیصلے سے تو ڈی جے کالج کا میرٹ گر گیا ہے اور وہاں کم مارکس کے حامل طلبہ بھی چلے جائیں گے جس پر ان کا کہنا تھا کہ ''یہ فیصلہ سیکریٹری کالج ایجوکیشن اور ڈی جی کالجز نے کیا ہے ہم صرف ٹیکنیکل کام کرتے ہیں۔
جب راشد کھوسو سے استفسار کیا گیا کہ آخر اس کالج میں اتنے کم داخلے کیوں دیے گئے جس کے سبب میرٹ کم کرکے ایک بار پھر داخلے دینے پڑ رہے ہیں، جس پر ان کا کہنا تھا کہ ہم نے 300 طلبہ کی لسٹ کالج پرنسپل کو بھیجی تھے لیکن صرف 85 کو داخلے دیے ہیں۔
ادھر جب پرنسپل کالج پروفیسر محمد مہر سے رابطہ کرکے اس دعوے کی تصدیق کہ کوشش کی گئی تو انھوں نے فون ریسیوو نہیں کیا۔