عمران خان کے ساتھ ایک مکالمہ

عمران خان کو اپنے سیاسی مخالفین پر برتری حاصل ہے کہ ان کے پاس کمزو ر بیانیہ ہے

salmanabidpk@gmail.com

پاکستان کی مجموعی سیاست اس وقت عمران خان کے گرد گھوم رہی ہے ۔ ماضی میں قومی سیاست کی ایک بڑی جھلک ہمیں اینٹی بھٹو اور پرو بھٹو سیاست کے تناظر میں دیکھنے کو ملتی تھی ۔ اس سیاست میں بھٹو کی سیاست ایک طرف اوران کے تمام مخالفین دوسرہ طرف یکجا نظر آتے تھے۔

آج قومی سیاست بھٹو کی مخالفت یا اس کی حمایت سے باہر نکل کر عمران خان مخالفت اور حمایت میں واضح طورپر دیکھی جاسکتی ہے ۔ اس وقت ایک طرف عمران خان کی سیاست ہے تو دوسری طرف ان کی مخالفت میں تیرہ جماعتی اتحاد ہے۔

اس اتحاد میں مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی، عوامی نیشنل پارٹی ، جے یو آئی ، ایم کیو ایم ، پختونخواہ ملی عوامی پارٹی نمایاں ہیں ۔ عمران خان اپنی سیاسی مقبولیت میں ماضی کے مقابلے میں بہت آگے ہیں اوراس کا اعتراف ان کے سیاسی مخالفین بھی نجی مجالس میں کرتے ہیں۔

پچھلے دنوں عمران خان سے ان کے گھر ایک ملاقات ہوئی جس میں کچھ اور صحافی بھی شامل تھے۔ یہ ملاقات ایک سیاسی مکالمہ تھا اور کھل کر عمران خان نے اپنا سیاسی بیانیہ مختلف سوالات کی روشنی میں پیش کیا ۔ایک گھنٹے پر محیط یہ ملاقات ایک ایسے موقع پر ہوئی جب ملک کا سیاسی بحران اپنے عروج پر ہے اور حکومت کے بقول یہ سارا بحران عمران خا ن کا پیدا کردہ ہے۔

عمران خان کا موقف تھا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ سے ٹکراؤ نہیں چاہتے بلکہ میں تو صاف و شفاف انتخابات کامطالبہ کرتا ہوں ۔ ان کا موقت تھا کہ اگر ہم نے سیاست سے اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی کردار کا خاتمہ کرنا ہے اورملک کو آئین ، قانون او رجمہوریت کے طور پر چلانا ہے تو اس کا واحد حل سیاسی انجینرنگ کا خاتمہ اور شفاف انتخابات ہیں تاکہ حقیقی معنوں میں عوام کے منتخب افراد یا حکومت کو اقتدار کی باگ ڈور دی جاسکے۔

جو سیاسی مخالفین مجھ پر اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے حصول کا طعنہ دیتے ہیں یا ان کے بقول میں اسٹیبلشمنٹ پر دباو ڈال رہا ہوں کہ وہ مجھے اقتدار دے ،ان کی اپنی مجموعی سیاست اسٹیبلیشمنٹ کی حمایت پرکھڑی ہے ۔میں فوج کا حامی ہوں اوراسے ملکی سلامتی کے لیے ناگزیر سمجھتا ہوں او رمیری تنقید سیاسی بالادستی سے جڑی ہوئی ہے جو لوگ میرے اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ٹکراؤ پیدا کرنے کا عملی ایجنڈا رکھتے ہیں، ان کو سوائے مایوسی کے او رکچھ نہیں ملے گا۔

لانگ مارچ پر ان کا موقف تھا کہ وہ کسی جلدی میں نہیں، حکمت عملی ، ٹائمنگ اورطریقہ کار میں نے اپنی سیاسی ضرورت کے تحت ہی طے کرنا ہے ۔میرا بنیادی مطالبہ فوری انتخابات کا ہے اور اس مطالبہ کی وجہ محض میری ضد نہیں بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ اگر فوری انتخابات کا راستہ اختیار نہ کیا گیا تو اگلے برس اکتوبر تک ملک کے سیاسی او رمعاشی حالات میں جو غیر یقینی کی صورتحال رہے گی اس کی ذمے داری بھی ریاستی اور حکومتی فیصلوں کے ساتھ ہی جڑی ہوگی۔


ایک بات جو عمران خان نے زور دے کر کہی کہ وہ اپنے حکومتی تجربہ سے اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ ملک کی ضرورت ایک مضبوط سیاسی نظام اور مستحکم اور مضبوط حکومت پر ہے ۔ وہ مخلوط یا کمزور حکومت کے حامی نہیں،اس لیے وہ عوام کو بھی یہ ہی پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ جسے بھی ووٹ دیں واضح اکثریت سے ووٹ دیں جو ملک میں پائیدار او رمضبوط ترقی او رحقیقی اصلاحات کی طرف بڑھ سکے ۔ کیونکہ کمزور حکومتوں کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ ان کی توجہ اصلاحات سے زیادہ اپنی حکومت کی بقا کی جنگ ہوتی ہے اور اس میں حکومتوں کو مختلف نوعیت کی سیاسی اور غیر سیاسی بلیک میلنگ کا شکار ہونا پڑتا ہے۔

عمران خان انتخابی اصلاحات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے حامی ہیں اور ان کے بقول اس سے دھاندلی کے امکانات کو کافی کم کیا جاسکتا ہے مگر ان کے مخالفین اس کے لیے تیار نہیں اور نہ ہی الیکشن کمیشن اس پر پیش رفت چاہتا ہے ۔ اگر ایسا نہ ہوسکا تو اگلے انتخابات میں بھی دھاندلی کا شور ختم نہیں ہوگا۔ البتہ عمران خان کی کوشش ہے کہ اگر فوری انتخابات نہیں بھی ہوتے تو وہ حکومت پر زیادہ دباؤ بڑھاکر انتخابات سے قبل الیکٹرانک ووٹنگ مشین یا اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دلواسکیں اور اگر وہ ایسا کرنے میں کامیا ب ہوگئے تو ان کو اپنے سیاسی مخالفین پر برتری مل سکتی ہے۔

اگر انتخابات فوری طور پر نہیں ہوتے او رعمران خان کا مطالبہ نہیں مانا جاتا تو اس کے باوجود عمران خان کو اپنی توجہ وقت پر ہونے والے انتخابات پر دینی ہوگی ، فوری انتخابات کے نام پر محاذ آرائی کی سیاست ان سمیت ملک کے مفاد میں نہیں ۔

اس سوال پر کہ آپ اپنے سیاسی مخالفین سے بات چیت کے لیے تیار نہیں تو کیسے جمہوری عمل آگے بڑھ سکے گا ؟ اس سوال پر عمران خان کا جواب واضح نہیں او راس میں تضاد ہے ۔ وہ نواز شریف ، زرداری یا فضل الرحمن یا شہباز شریف سے بات چیت کے لیے تیار نہیں البتہ ان کی جماعتوں سے بات چیت کے لیے تیار ہیں۔

سوال یہ ہے کہ اگر مذاکرات ہوںگے تو ان کی سیاسی قیادت سے ہی ہوںگے اس پر عمران خان کو اپنے سیاسی فیصلے میں سیاسی لچک کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور چند اہم بنیادی نکات جن میں سول ملٹری تعلقات، اسٹیبلیشمنٹ کی سیاست میں مداخلت، شفاف انتخابات اور معیشت جیسے معاملات پر کچھ بنیادی اصولوں پر اتفاق کرنا ہوگا کیونکہ تمام جماعتوں کو رد کرکے مفاہمت کی عملی سیاست آگے نہیں بڑھ سکے گی۔

اسٹیبلیشمنٹ یا حکومت سے پس پردہ مذاکرات کے بارے میں ان کا موقف تھا کہ یہ مذاکرات ہوئے تھے مگر جو مطالبات میری جماعت کے ہیں اس پر وہ تیار نہیں، اس لیے مذاکرات کے نتائج نہیں نکلے اوراس کے امکانات بھی کم ہیں ۔ عمران خان اس لانگ مارچ کے بعد سندھ اوربلوچستان کے دورے پر جانے کا ارادہ رکھتے ہیں اور اس دورہ کواپنی انتخابی مہم کا حصہ بنا کر جانا چاہتے ہیں او ران کے بقول کافی سیاسی لوگ آنے والے دنوں میں ان دونوں صوبوں سے ان کی جماعت کا حصہ بنیں گے ۔

عمران خان کو اپنے سیاسی مخالفین پر برتری حاصل ہے کہ ان کے پاس کمزو ر بیانیہ ہے اور حکومت معاشی میدان میں وہ کچھ نہیں کرسکے گی جو لوگ چاہتے ہیں لہٰذا عمران خان زیادہ پراعتماد ہیں اوران کو لگتا ہے کہ عام انتخابات میں وہی ووٹرز کی چوائس ہوسکتے ہیں ۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ عمران خان مزاحمتی سیاست ضرور کریں لیکن یہ آئینی ، قانونی ، سیاسی او رجمہوری فریم ورک میں ہونی چاہیے کیونکہ ملک محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہوسکتا ، ملک کے مسائل کا حل مکالمے اور مفاہمت کے ساتھ ہی جڑا ہوا ہے۔
Load Next Story