کراچی سیکیورٹی گارڈ کی فائرنگ سے 8سالہ بچہ جاں بحق
ملزم نے لاش رومال میں لپیٹ کر کچرا کنڈی میں پھنک دی
بوٹ بیسن بلاول چورنگی کے قریب پیزا شاپ کے سیکیورٹی گارڈ نے 8 سالہ بچے کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا اور لاش رومال میں لپیٹ کر کچرا کنڈی میں پھنک دی۔
تفصیلات کے مطابق بوٹ بیسن کے علاقے کلفٹن بلاول چورنگی دعا ہوٹل کے قریب فائرنگ سے 8 سالہ بچہ جاں بحق ہوگیا، مقتول کی لاش چھیپا ایمبولینس کے ذریعے سول اسپتال منتقل کی گئی۔ ترجمان کراچی پولیس کے مطابق مقتول کی شناخت 8 سالہ محمد عمر ولد محمد خادم کے نام سے کی گئی۔
جیکسن پولیس کے مطابق مقتول شاہ جی چوک شیریں جناح کالونی کلفٹن حاجی رستم بلڈنگ کے قریب کا رہائشی تھا، مقتول کی لاش جیکسن تھانے کی حدود ضیا الدین اسپتال کے عقب میں کچرا کنڈی سے ملی ہے، تاہم فائرنگ کا واقعہ جیکسن تھانے کی حدود میں پیش آیا۔
انہوں نے بتایا کہ ابتدائی اطلاعات کے مطابق محمد عمر دعا ہوٹل کے قریب پیزا شاپ کے سامنے بھیک مانگ رہا تھا کہ سیکیورٹی گارڈ نے اسے وہاں بھیک مانگنے سے منع کیا، بات نہ ماننے پر سیکیورٹی گارڈ نے بچے پر دو گولیاں فائر کیں جب وہ شدید زخمی ہوگیا تو اسے اپنے ایک ساتھی کے ساتھ موٹرسائیکل پر لے کر جا رہا تھا کہ ضیا الدین اسپتال کے قریب بچہ دم توڑ گیا جس پر سیکیورٹی گارڈ بچے کی لاش کچرا کنڈی میں پھینک کر فرار ہوگیا، پوسٹ مارٹم، 174 کی کارروائی اور قتل کا مقدمہ بوٹ بیسن پولیس کرے گی۔
مقتول کے والد محمد خادم نے ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اس کا تعلق بلوچستان کے بگٹی قبیلے سے ہے، بلوچ کے حالات کی وجہ سے وہ اپنے فیملی کے ہمراہ سکھر شفٹ ہوگئے تھے تاہم تقریباً 4 سال قبل روزگار کے سلسلے میں کراچی آگئے۔
انہوں نے بتایا کہ ان کے 6 بیٹے ہیں مقتول محمد عمر چوتھے نمبر پر تھا، رکشا چلانے کا کام کرتے ہیں جبکہ ان کے دو بیٹے بوٹ بیسن دعا ہوٹل اور سب وے پیزا شاپ کے سامنے برگر والے کے پاس کام کرتے ہیں، محمد عمر اکثر اپنے بھائیوں کے پاس آجاتا تھا اور وہیں کھیلتا رہتا تھا لیکن محمد عمر بھیک نہیں مانگتا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ بڑے بیٹے نے بتایا کہ عمر کو گولی مار دی گئی ہے جس پر وہ فوری طور پر موقع پر پہنچے تاہم عمر کا کچھ پتہ نہیں چلا اور نہ ہی کسی نے بتایا جس پر وہ فوری طور پر اپنے قبیلے کے سردار مرحوم اکبر بگٹی کے پوتے نواب میر علی بگٹی کے چھوٹے بھائی زامران بگٹی کے گھر گئے اور انہیں سوتے سے اٹھا کر اپنی فریاد سنائی جس پر انہوں نے اپنا اثر رسوخ استعمال کرتے ہوئے معلومات حاصل کیں اور مقتول محمد عمر کی والدہ، والد اور دیگر بہن بھائیوں کو اپنے گاڑی میں بٹھا کر جیکسن تھانے لے گئے جہاں مقتول محمد عمر کی لاش موجود تھی بعدازاں لاش اسپتال منتقل کی گئی۔
زامران بگٹی نے چیف آف آرمی اسٹاف، چیف جسٹس آف پاکستان، سندھ حکومت اور آئی جی سندھ سے اپیل کی ہے کہ مقتول محمد عمر کے والد محمد خادم کو انصاف دلایا جائے یہ لوگ غریب ہیں کچھ کر نہیں سکتے، پاکستان سے محبت کرتے ہیں اسی لیے بلوچستان کے حالات کے پیش نظر وہاں سے دوسرے شہر منتقل ہوگئے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم ہمیشہ پاکستان سے محبت کرنے والے لوگ ہیں ہمیں پوری امید ہے کہ ہمارے قبیلے کے مظلوم لوگوں کو انصاف دلانے کے لیے اعلیٰ حکام فوری طور پر احکامات جاری کریں گے۔ مقتول بچے کی والدہ نے بھی ایکسپریس میڈیا گروپ کے توسط سے اعلیٰ حکام سے انصاف دلانے کی اپیل کی ہے۔
بوٹ بیسن پولیس نے کمسن بچے کے قتل میں ملوث ملزم کے خلاف مقدمہ درج کر کے اس کی تلاش شروع کر دی۔
تفصیلات کے مطابق بوٹ بیسن کے علاقے کلفٹن بلاول چورنگی دعا ہوٹل کے قریب فائرنگ سے 8 سالہ بچہ جاں بحق ہوگیا، مقتول کی لاش چھیپا ایمبولینس کے ذریعے سول اسپتال منتقل کی گئی۔ ترجمان کراچی پولیس کے مطابق مقتول کی شناخت 8 سالہ محمد عمر ولد محمد خادم کے نام سے کی گئی۔
جیکسن پولیس کے مطابق مقتول شاہ جی چوک شیریں جناح کالونی کلفٹن حاجی رستم بلڈنگ کے قریب کا رہائشی تھا، مقتول کی لاش جیکسن تھانے کی حدود ضیا الدین اسپتال کے عقب میں کچرا کنڈی سے ملی ہے، تاہم فائرنگ کا واقعہ جیکسن تھانے کی حدود میں پیش آیا۔
انہوں نے بتایا کہ ابتدائی اطلاعات کے مطابق محمد عمر دعا ہوٹل کے قریب پیزا شاپ کے سامنے بھیک مانگ رہا تھا کہ سیکیورٹی گارڈ نے اسے وہاں بھیک مانگنے سے منع کیا، بات نہ ماننے پر سیکیورٹی گارڈ نے بچے پر دو گولیاں فائر کیں جب وہ شدید زخمی ہوگیا تو اسے اپنے ایک ساتھی کے ساتھ موٹرسائیکل پر لے کر جا رہا تھا کہ ضیا الدین اسپتال کے قریب بچہ دم توڑ گیا جس پر سیکیورٹی گارڈ بچے کی لاش کچرا کنڈی میں پھینک کر فرار ہوگیا، پوسٹ مارٹم، 174 کی کارروائی اور قتل کا مقدمہ بوٹ بیسن پولیس کرے گی۔
مقتول کے والد محمد خادم نے ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اس کا تعلق بلوچستان کے بگٹی قبیلے سے ہے، بلوچ کے حالات کی وجہ سے وہ اپنے فیملی کے ہمراہ سکھر شفٹ ہوگئے تھے تاہم تقریباً 4 سال قبل روزگار کے سلسلے میں کراچی آگئے۔
انہوں نے بتایا کہ ان کے 6 بیٹے ہیں مقتول محمد عمر چوتھے نمبر پر تھا، رکشا چلانے کا کام کرتے ہیں جبکہ ان کے دو بیٹے بوٹ بیسن دعا ہوٹل اور سب وے پیزا شاپ کے سامنے برگر والے کے پاس کام کرتے ہیں، محمد عمر اکثر اپنے بھائیوں کے پاس آجاتا تھا اور وہیں کھیلتا رہتا تھا لیکن محمد عمر بھیک نہیں مانگتا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ بڑے بیٹے نے بتایا کہ عمر کو گولی مار دی گئی ہے جس پر وہ فوری طور پر موقع پر پہنچے تاہم عمر کا کچھ پتہ نہیں چلا اور نہ ہی کسی نے بتایا جس پر وہ فوری طور پر اپنے قبیلے کے سردار مرحوم اکبر بگٹی کے پوتے نواب میر علی بگٹی کے چھوٹے بھائی زامران بگٹی کے گھر گئے اور انہیں سوتے سے اٹھا کر اپنی فریاد سنائی جس پر انہوں نے اپنا اثر رسوخ استعمال کرتے ہوئے معلومات حاصل کیں اور مقتول محمد عمر کی والدہ، والد اور دیگر بہن بھائیوں کو اپنے گاڑی میں بٹھا کر جیکسن تھانے لے گئے جہاں مقتول محمد عمر کی لاش موجود تھی بعدازاں لاش اسپتال منتقل کی گئی۔
زامران بگٹی نے چیف آف آرمی اسٹاف، چیف جسٹس آف پاکستان، سندھ حکومت اور آئی جی سندھ سے اپیل کی ہے کہ مقتول محمد عمر کے والد محمد خادم کو انصاف دلایا جائے یہ لوگ غریب ہیں کچھ کر نہیں سکتے، پاکستان سے محبت کرتے ہیں اسی لیے بلوچستان کے حالات کے پیش نظر وہاں سے دوسرے شہر منتقل ہوگئے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم ہمیشہ پاکستان سے محبت کرنے والے لوگ ہیں ہمیں پوری امید ہے کہ ہمارے قبیلے کے مظلوم لوگوں کو انصاف دلانے کے لیے اعلیٰ حکام فوری طور پر احکامات جاری کریں گے۔ مقتول بچے کی والدہ نے بھی ایکسپریس میڈیا گروپ کے توسط سے اعلیٰ حکام سے انصاف دلانے کی اپیل کی ہے۔
بوٹ بیسن پولیس نے کمسن بچے کے قتل میں ملوث ملزم کے خلاف مقدمہ درج کر کے اس کی تلاش شروع کر دی۔