برطانوی خواتین کا قبول اسلام

مسلمان ہونے والے لوگوں کی ایک قابل ذکر تعداد یورپ بالخصوص برطانیہ سے تعلق رکھتی ہے۔

کمیلالی لینڈ (قبول اسلام سے پہلے اور بعد)۔ فوٹو: فائل

KARACHI:
اسلام دنیا کا تیزی سے پھیلتا ہوا مذہب ہے۔ مسلمان ہونے والے لوگوں کی ایک قابل ذکر تعداد یورپ بالخصوص برطانیہ سے تعلق رکھتی ہے۔

برطانیہ میں شائع ہونے والی ایک جائزہ رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں ہر سال تقریباً 5 ہزار سے زائد لوگ اسلام قبول کر رہے ہیں۔ پچھلے عشرے کے دوران اسلام قبول کرنے والے لوگوں کی تعداد میں تقریباً دگنا اضافہ ہوا ہے اور برطانیہ میں اب تک تقریباً ایک لاکھ سے زائد لوگ اسلام قبول کرچکے ہیں۔

عام طور پر دین اسلام کے بارے میں ناقص معلومات رکھنے والے غیر مسلم یہ پروپیگنڈا کرتے رہتے ہیں کہ اسلام میں خواتین کو آزادی حاصل نہیں ہے اور انھیں ان کے حقوق نہیں دیئے جاتے۔ اگر ایسی سوچ رکھنے والے افراد اگریورپ میں اسلام قبول کرنے سے متعلق جائزوں کو غور سے پڑھیں تو انھیں چشم کشا جواب مل جائے گا۔ اعدادو شمار کے مطابق یورپی خواتین، مردوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ اسلام قبول کررہی ہیں بلکہ ان کی تعداد مردوں کی نسبت تقریباً دگنا ہے۔ یہاں ہم چند ایسی مشہور برطانوی خواتین کا ذکر کرتے ہیں، جنہوں نے حالیہ برسوں میں اسلام قبول کیا ہے۔


برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر کی خواہر نسبتی لورین بوتھ نے بھی کچھ سال پہلے اسلام قبول کیا تھا۔ وہ پیشے کے اعتبار سے صحافی اور براڈ کاسٹر ہے۔ وہ دن میں پانچ وقت نماز پڑھتی ہے اور گھر سے باہر جاتے ہوئے سر کو حجاب سے ڈھانپ لیتی ہے۔ اس نے اپنے کام کے سلسلے میں فلسطین میں بھی قابل ذکر وقت گزارا ہے۔ اپنے دورہ ایران سے واپس آکر 'جہاں اس نے قم میں حضرت فاطمہ معصومہؓ کے مزار پر حاضری دی تھی' اس نے اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کیا۔

اسی طرح کمیلالی لینڈ، جوکہ چونتیس سالہ یوگا ٹیچر اور ایک بیٹی کی ماں ہے، نے بھی فکری وجوہات پر اور تحریک حقوق نسواں (Feminisim) کی علمبردار ہونے کے ناطے، اسلام قبول کیا ہے۔ وہ کہتی ہے: ''مجھے معلوم ہے کہ لوگ جب میرے منہ سے ایک ہی سانس میں ''تحریک حقوق نسواں'' اور ''اسلام'' سنیں گے تو انھیں حیرت ہوگئی۔

لیکن درحقیقت اسلامی تعلیمات کے مطابق خواتین کو مردوں کے برابر کا درجہ حاصل ہے۔ لوگ مقامی ثقافت کو مذہب کے ساتھ ملا کر مغالطے کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ بعض مسلم معاشرے ایسے ہیں، جو خواتین کو انفرادی حقوق نہیں دیتے۔ لیکن جہاں تک میرا تعلق ہے، میں سمجھتی ہوں کہ مجھے مغربی معاشرے میں زیادہ محکوم بناکر رکھا گیا ہے۔''
Load Next Story