سیاسی مداخلت کے اصل ذمے دار
یہ سو فیصد حقیقت ہے کہ عمران خان اور نواز شریف غیر سول قوتوں کی مدد سے اقتدار میں آئے
اسٹیبلشمنٹ کا غیر سیاسی کردار ادا کرنے اور سیاسی معاملات میں مداخلت نہ کرنے کا فیصلہ خوش آیند تو ہے ہی مگر ماضی میں ہونے والی غیر سول مداخلت کے ذمے دار زیادہ سیاستدان قرار پاتے ہیں ۔
اکتوبر 1958 میں اس وقت کے صدر اسکندر مرزا نے غیر سول قوتوں کو استعمال کیا تھا اور ملکی سیاسی خراب صورت حال کے باعث صرف 20 روز بعد جنرل ایوب خان نے ملک میں پہلا مارشل لا لگا کر صدر اسکندر مرزا کو اقتدار سے ہٹانے کا جو اقدام کیا تھا وہ یوم انقلاب کہلایا تھا۔ یہ یوم انقلاب ایوب حکومت تک منایا گیا اور مختلف تقریبات منعقد ہوتی تھیں۔
جنرل ایوب کے مارشل لا میں مہنگائی اور ملاوٹ کے خلاف سخت کارروائی نظر آئی اور تمام دکانداروں نے اپنی دکانوں پر رنگ کرایا تھا۔
ایوب خان کے مارشل لا کی وجہ صدر اسکندر مرزا کی ہوس اقتدار اور سیاسی ریشہ دوانیاں تھیں۔ سیاستدان باہمی انتشار کا شکار اور سیاسی حکومتوں کا جلد جلد تبدیل ہونا بھی تھا۔
ایوب خان نے 1956 کا آئین منسوخ کرکے بہت سے سیاستدانوں پر ایبڈو کے تحت پابندیاں لگا کر بہت سوں کو گرفتار بھی کرایا تھا اور ذوالفقار علی بھٹو ایوب حکومت میں وزیر خارجہ تھے۔
جنرل ایوب خان نے اپنی پارٹی مسلم لیگ کنونشن بنوائی تھی جس میں ان کے حامی سیاستدان شامل تھے۔
معاہدہ تاشقند پر ایوب خان سے اختلافات پر ذوالفقارعلی بھٹو نے حکومت چھوڑ کر 1967 میں پیپلز پارٹی بنائی تھی جس کے آغاز پر اچھی شہرت کے سیاستدانوں نے اچھی توقعات پر اسی طرح پی پی میں شمولیت اختیار کی تھی جس طرح تحریک انصاف کے قیام پر عمران خان کی باتوں اور دعوؤں سے متاثر ہو کر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) سے نالاں رہنماؤں نے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی تھی۔
پی پی میں شامل اس وقت کے بعض رہنماؤں نے ذوالفقارعلی بھٹو کے آمرانہ مزاج کے باعث جلد ہی پی پی اسی طرح چھوڑ دی تھی جس طرح عمران خان کی تحریک انصاف میں قیام کے بعد بااصول رہنماؤں نے تحریک انصاف چھوڑ دی تھی کیونکہ عمران خان کے دو روپ تھے۔ ان کا عوام میں رویہ مختلف اور رہنماؤں کے ساتھ آمرانہ تھا اور وہ اپنی مرضی کے فیصلے کرنے اور من مانی کے عادی تھے۔
زیڈ اے بھٹو، نواز شریف، بے نظیر بھٹو اور عمران خان غیر سول قوتوں کی مرضی سے اقتدار میں آئے۔ بے نظیر کے سوا تینوں اقتدار سے قبل غیر سول قوتوں کے حمایت یافتہ تھے۔
بھٹو کو سقوط ڈھاکہ کے بعد مجبور ہو کر اقتدار میں لایا گیا تھا مگر اپنے مضبوط اقتدار میں بھٹو صاحب اپوزیشن کے سخت خلاف اور اپنی من مانی سے حکومت کرتے رہے مگر وہ اپوزیشن کو عمران خان کی طرح اپنا دشمن نہیں سمجھتے تھے۔ انھوں نے 1973 کا متفقہ آئین بنوایا اور 1977 کے دھاندلی زدہ انتخابات میں اپوزیشن رہنماؤں سے مذاکرات بھی کیے تھے۔
نظام مصطفیٰ کی تحریک کو کچلنے کی کوشش ذوالفقار علی بھٹو نے کی اور تین شہروں میں مارشل لا لگایا۔ اپوزیشن رہنماؤں سے جب انھوں نے جیلیں بھر دیں تو اصغر خان نے غیر سول قوتوں کو مداخلت کا خط لکھا تھا جس پر جنرل ضیا الحق نے مارشل لا لگا دیا تھا ۔
جنرل ضیا کی کابینہ میں پی ڈی پی، مسلم لیگ، جے یو آئی اور جماعت اسلامی شامل تھی، مگر الیکشن نہ ہونے پر حکومت چھوڑ دی تھی۔ بے نظیر بھٹو کو 1988 میں واضح اکثریت نہیں ملی تھی مگر بعد میں ان کی حکومت بنوائی گئی تھی ۔
بے نظیر اور نواز شریف کی پہلی اور دوسری چاروں حکومتیں صدر غلام اسحاق خان اور صدر فاروق لغاری نے 58/2B کے اختیار سے برطرف کی تھیں اور چاروں نگران حکومتوں میں بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے مخالف سیاستدان شامل تھے اور بے نظیر اور نواز شریف نے ایک دوسرے کی حکومت کے خاتمے کا خیر مقدم کیا تھا۔
جنرل پرویز نے 1999 میں جب نواز شریف حکومت برطرف کی تو پیپلز پارٹی سمیت تمام نواز مخالف سیاستدانوں نے جنرل پرویز مشرف کے غیر آئینی اقدام کی بھرپور حمایت کی تھی جس کے بعد جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کو جلاوطن کیا جب کہ جنرل پرویز مشرف سے مایوس ہو کر بے نظیر بھٹو خود ملک سے چلی گئی تھیں۔
جنرل پرویز مشرف بھی یہی چاہتے تھے کہ یہ دونوں ملک کی سیاست سے فارغ ہو جائیں۔ جنرل پرویز مشرف نے 2022 کے الیکشن میں جو مسلم لیگ (ق) بنوائی اس میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے اہم رہنما (ق) لیگی حکومت میں شامل تھے۔
جنرل پرویز مشرف نے بے نظیر بھٹو سے این آر او کا معاہدہ کیا مگر بے نظیر بھٹو جنرل پرویز مشرف کے منع کرنے کے باوجود وطن واپس آگئیں اور دو ماہ میں ہی شہید کردی گئیں ۔
بے نظیر اور نواز شریف دونوں جنرل پرویز مشرف کے ڈسے ہوئے تھے اس لیے دونوں نے میثاق جمہوریت کیا تھا۔ دونوں کی غیر موجودگی کا فائدہ اٹھا کر عمران خان وزیر اعظم بننا چاہتے تھے مگر جنرل پرویز مشرف نے اس سے ہٹ کر راستہ اختیار کیا تھا۔
عمران خان 2018-2013 کے الیکشن میں ناکام رہے اور انھوں نے غیر سول قوتوں کو اپنی وفاداری کی بھرپور یقین دہانی کرائی اور کرپشن کے نام پر انھوں نے غیر سول قوتوں کی مدد سے 2018 میں اقتدار حاصل کیا ۔
مگر 2021 میں غیر سول قوتوں نے غیر سیاسی ہونے کا فیصلہ کیا اور تحریک عدم اعتماد کی ناکامی میں ساتھ نہ دیا تو غیر سول قوتوں کی مخالفت میں عمران خان نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا اور عمران خان سے متعلق حقائق پہلی بار قوم کو بتائے گئے کہ عمران خان اقتدار کے لیے کیا کچھ کرتے رہے۔
یہ سو فیصد حقیقت ہے کہ عمران خان اور نواز شریف غیر سول قوتوں کی مدد سے اقتدار میں آئے اور ان سے قبل بھی اکثر سیاستدان غیر سول قوتوں کی مداخلت کے حامی رہے۔ انھوں نے ہر غیر سول حکومت میں فائدے اٹھائے مگر عمران خان جیسی زبان کسی سیاستدان نے استعمال نہیں کی۔
اکتوبر 1958 میں اس وقت کے صدر اسکندر مرزا نے غیر سول قوتوں کو استعمال کیا تھا اور ملکی سیاسی خراب صورت حال کے باعث صرف 20 روز بعد جنرل ایوب خان نے ملک میں پہلا مارشل لا لگا کر صدر اسکندر مرزا کو اقتدار سے ہٹانے کا جو اقدام کیا تھا وہ یوم انقلاب کہلایا تھا۔ یہ یوم انقلاب ایوب حکومت تک منایا گیا اور مختلف تقریبات منعقد ہوتی تھیں۔
جنرل ایوب کے مارشل لا میں مہنگائی اور ملاوٹ کے خلاف سخت کارروائی نظر آئی اور تمام دکانداروں نے اپنی دکانوں پر رنگ کرایا تھا۔
ایوب خان کے مارشل لا کی وجہ صدر اسکندر مرزا کی ہوس اقتدار اور سیاسی ریشہ دوانیاں تھیں۔ سیاستدان باہمی انتشار کا شکار اور سیاسی حکومتوں کا جلد جلد تبدیل ہونا بھی تھا۔
ایوب خان نے 1956 کا آئین منسوخ کرکے بہت سے سیاستدانوں پر ایبڈو کے تحت پابندیاں لگا کر بہت سوں کو گرفتار بھی کرایا تھا اور ذوالفقار علی بھٹو ایوب حکومت میں وزیر خارجہ تھے۔
جنرل ایوب خان نے اپنی پارٹی مسلم لیگ کنونشن بنوائی تھی جس میں ان کے حامی سیاستدان شامل تھے۔
معاہدہ تاشقند پر ایوب خان سے اختلافات پر ذوالفقارعلی بھٹو نے حکومت چھوڑ کر 1967 میں پیپلز پارٹی بنائی تھی جس کے آغاز پر اچھی شہرت کے سیاستدانوں نے اچھی توقعات پر اسی طرح پی پی میں شمولیت اختیار کی تھی جس طرح تحریک انصاف کے قیام پر عمران خان کی باتوں اور دعوؤں سے متاثر ہو کر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) سے نالاں رہنماؤں نے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی تھی۔
پی پی میں شامل اس وقت کے بعض رہنماؤں نے ذوالفقارعلی بھٹو کے آمرانہ مزاج کے باعث جلد ہی پی پی اسی طرح چھوڑ دی تھی جس طرح عمران خان کی تحریک انصاف میں قیام کے بعد بااصول رہنماؤں نے تحریک انصاف چھوڑ دی تھی کیونکہ عمران خان کے دو روپ تھے۔ ان کا عوام میں رویہ مختلف اور رہنماؤں کے ساتھ آمرانہ تھا اور وہ اپنی مرضی کے فیصلے کرنے اور من مانی کے عادی تھے۔
زیڈ اے بھٹو، نواز شریف، بے نظیر بھٹو اور عمران خان غیر سول قوتوں کی مرضی سے اقتدار میں آئے۔ بے نظیر کے سوا تینوں اقتدار سے قبل غیر سول قوتوں کے حمایت یافتہ تھے۔
بھٹو کو سقوط ڈھاکہ کے بعد مجبور ہو کر اقتدار میں لایا گیا تھا مگر اپنے مضبوط اقتدار میں بھٹو صاحب اپوزیشن کے سخت خلاف اور اپنی من مانی سے حکومت کرتے رہے مگر وہ اپوزیشن کو عمران خان کی طرح اپنا دشمن نہیں سمجھتے تھے۔ انھوں نے 1973 کا متفقہ آئین بنوایا اور 1977 کے دھاندلی زدہ انتخابات میں اپوزیشن رہنماؤں سے مذاکرات بھی کیے تھے۔
نظام مصطفیٰ کی تحریک کو کچلنے کی کوشش ذوالفقار علی بھٹو نے کی اور تین شہروں میں مارشل لا لگایا۔ اپوزیشن رہنماؤں سے جب انھوں نے جیلیں بھر دیں تو اصغر خان نے غیر سول قوتوں کو مداخلت کا خط لکھا تھا جس پر جنرل ضیا الحق نے مارشل لا لگا دیا تھا ۔
جنرل ضیا کی کابینہ میں پی ڈی پی، مسلم لیگ، جے یو آئی اور جماعت اسلامی شامل تھی، مگر الیکشن نہ ہونے پر حکومت چھوڑ دی تھی۔ بے نظیر بھٹو کو 1988 میں واضح اکثریت نہیں ملی تھی مگر بعد میں ان کی حکومت بنوائی گئی تھی ۔
بے نظیر اور نواز شریف کی پہلی اور دوسری چاروں حکومتیں صدر غلام اسحاق خان اور صدر فاروق لغاری نے 58/2B کے اختیار سے برطرف کی تھیں اور چاروں نگران حکومتوں میں بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے مخالف سیاستدان شامل تھے اور بے نظیر اور نواز شریف نے ایک دوسرے کی حکومت کے خاتمے کا خیر مقدم کیا تھا۔
جنرل پرویز نے 1999 میں جب نواز شریف حکومت برطرف کی تو پیپلز پارٹی سمیت تمام نواز مخالف سیاستدانوں نے جنرل پرویز مشرف کے غیر آئینی اقدام کی بھرپور حمایت کی تھی جس کے بعد جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کو جلاوطن کیا جب کہ جنرل پرویز مشرف سے مایوس ہو کر بے نظیر بھٹو خود ملک سے چلی گئی تھیں۔
جنرل پرویز مشرف بھی یہی چاہتے تھے کہ یہ دونوں ملک کی سیاست سے فارغ ہو جائیں۔ جنرل پرویز مشرف نے 2022 کے الیکشن میں جو مسلم لیگ (ق) بنوائی اس میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے اہم رہنما (ق) لیگی حکومت میں شامل تھے۔
جنرل پرویز مشرف نے بے نظیر بھٹو سے این آر او کا معاہدہ کیا مگر بے نظیر بھٹو جنرل پرویز مشرف کے منع کرنے کے باوجود وطن واپس آگئیں اور دو ماہ میں ہی شہید کردی گئیں ۔
بے نظیر اور نواز شریف دونوں جنرل پرویز مشرف کے ڈسے ہوئے تھے اس لیے دونوں نے میثاق جمہوریت کیا تھا۔ دونوں کی غیر موجودگی کا فائدہ اٹھا کر عمران خان وزیر اعظم بننا چاہتے تھے مگر جنرل پرویز مشرف نے اس سے ہٹ کر راستہ اختیار کیا تھا۔
عمران خان 2018-2013 کے الیکشن میں ناکام رہے اور انھوں نے غیر سول قوتوں کو اپنی وفاداری کی بھرپور یقین دہانی کرائی اور کرپشن کے نام پر انھوں نے غیر سول قوتوں کی مدد سے 2018 میں اقتدار حاصل کیا ۔
مگر 2021 میں غیر سول قوتوں نے غیر سیاسی ہونے کا فیصلہ کیا اور تحریک عدم اعتماد کی ناکامی میں ساتھ نہ دیا تو غیر سول قوتوں کی مخالفت میں عمران خان نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا اور عمران خان سے متعلق حقائق پہلی بار قوم کو بتائے گئے کہ عمران خان اقتدار کے لیے کیا کچھ کرتے رہے۔
یہ سو فیصد حقیقت ہے کہ عمران خان اور نواز شریف غیر سول قوتوں کی مدد سے اقتدار میں آئے اور ان سے قبل بھی اکثر سیاستدان غیر سول قوتوں کی مداخلت کے حامی رہے۔ انھوں نے ہر غیر سول حکومت میں فائدے اٹھائے مگر عمران خان جیسی زبان کسی سیاستدان نے استعمال نہیں کی۔