ہنگامہ آرائی کی سیاست اور عوامی بے اعتنائی
کرپشن کے خلاف جہاد اور جدوجہد کرنا اُن کا مقصد ہرگز نہیں ہے
تمام پاکستانی جانتے ہیں کہ خانصاحب کس کو آرمی چیف لگانا چاہتے تھے لیکن اپنے خلاف ووٹ آف نوکانفیڈنس کی کامیابی اور قبل از وقت محروم اقتدار نے اُن کی یہ خواہش پوری ہونے نہیں دی۔
وہ بھلا اب کتنی ہی وضاحتیں پیش کرتے رہیں کہ مجھے اس سے غرض نہیں کہ کون آرمی چیف بنتا ہے لیکن قوم اچھی طرح جانتی ہے کہ وہ اپریل 2022 سے پہلے کیا کیا پلاننگ کر چکے تھے۔ اُن کا یہ کہنا کہ ایک مفرور شخص یہ فیصلہ کرے گا کہ اس ملک کا نیا آرمی چیف کون بنے گا کوئی زیادہ مدلل اور درست بات نہیں ہے۔
میاں نوازشریف اس سے قبل بھی ایک نہیں چار چار آرمی چیف بنا چکے ہیں اور کسی بھی اپوزیشن کو اُن سے کوئی گلہ یا شکایت نہیں رہی۔ بلکہ یہ کہا جائے تو شاید کوئی اتنا غلط اور غیر مناسب بھی نہیں ہوگا کہ 2016 میں غیر سول قوتوں نے تو خود خان صاحب کے لیے بہت آسانیاں پیدا کیں۔ خان صاحب اپنے دور اقتدار میں اُن سے ہر معاملے میں مشورہ اور مدد بھی حاصل کرتے رہے۔
موجودہ حکومت کے بارے میں تو یہ خبریں گردش کر رہی ہیں کہ وہ اس بار صرف اور صرف سینیارٹی کی بنیاد پر آرمی چیف لگانا چاہتی ہے اور یہی مشورہ بھی نواز شریف نے اپنے بھائی میاں شہباز شریف کو بھی دیا ہے ، وہ اگر واقعی ایسا کرنا چاہتے ہیں تو پھر یہ اس پر سیاست کرنا اور ایک اتنے حساس معاملے کو متنازعہ بنانا کسی بھی لحاظ سے ملک اور قوم کے مفاد میں نہیں ہے۔
اس سے پہلے بھی جتنے آرمی چیف بنائے گئے ،کسی پر بھی اس قدر سیاست اور بیان بازی کبھی نہیں ہوئی جتنی آج ہو رہی ہے۔
خان صاحب اس ملک کے وزیراعظم بھی رہ چکے ہیں قوم اُن سے بجا طور پر توقع کرتی ہے کہ وہ ہر معاملے کو اس طرح رسوا اور متنازعہ نہیں بنائیں گے۔ سیاسی بالیدگی اور اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس معاملے کو اپنے طور پر نمٹ جانے دیں گے۔
یہ وزیراعظم کا آئینی اختیار اور صوابدیدی آپشن ہے کہ وہ موجودہ آرمی چیف کی جانب سے بھیجے جانے والے چند ناموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کر لیں اور وہ یہ کام کرنے سے پہلے کسی سے بھی مشورہ کرسکتے ہیں ، چاہے وہ اُن کا اپنا بھائی بھی کیوں نہ ہو۔ یہ اور بات ہے کہ وہ بھائی آج کل کیوں جلا وطنی کے دن گزار رہا ہے۔ اس پر چلنے والے مقدمات کتنے درست اور سچے تھے یہ تو وقت ہی بتائے گا۔
اس ملک میں سیاستدانوں پرکرپشن اور غداری کے مقدمات تو بنتے رہتے ہیں یہ کوئی نئی اور انہونی بات نہیں ہے۔ دیکھا جائے تو خود خان صاحب کے خلاف بھی اسی طرز کے بہت سے مقدمات آج کل درج ہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ سب کے سب درست اور حقیقت پر مبنی ہوں ، لیکن میاں نوازشریف کے خلاف اُن کی سیاست کا مقصد اُنہیں پنجاب میں عوامی حمایت سے محروم کرنا ہے۔
کرپشن کے خلاف جہاد اور جدوجہد کرنا اُن کا مقصد ہرگز نہیں ہے۔ ایسا ہوتا تو وہ دوسرے کرپٹ لوگوں کے خلاف بھی اسی طرح سرگرم اور پرجوش نظر آتے جیسے وہ میاں صاحب کے خلاف دکھائی دیتے ہیں۔ میاں صاحب اُن کے اصل سیاسی حریف ہیں۔
اُنہیں سیاست میں اگر کوئی مات دے سکتا ہے تو وہی اور اُن کی پارٹی دے سکتی ہے۔ کارکردگی کے لحاظ سے بھی وہ میاں نوازشریف سے بہت پیچھے ہیں۔ اس ملک میں ایوب خان کے بعد اگر کسی سیاسی شخصیت نے کوئی کام کر دکھایا ہے تو وہ میاں نوازشریف ہی ہیں۔
موٹر ویز سے لے کر سی پیک تک بہت سا انفرا اسٹرکچر کا کام میاں نوازشریف کے ادوار ہی میں ہوا ہے۔ اس ملک کو ایٹمی قوت کا درجہ دلانے کا سہرا بھی میاں صاحب کے سر ہی جاتا ہے۔ مخالف خواہ کتنا ہی انکار کردیں لیکن کوئی اُن سے یہ اعزاز چھین نہیں سکتا۔
سابق وزیراعظم عمران خان جب سے محروم اقتدار ہوئے ہیں کچھ زیادہ ہی مضطرب اور بے چین ہوگئے ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں گذرتا کہ وہ سیاسی بیان نہ داغ دیں۔ سڑکوں پر تو وہ 10اپریل کے دن ہی سے نظر آرہے ہیں۔
احتجاج کے علاوہ لانگ مارچ کا شوق بھی وہ ساتھ ہی ساتھ پورا کرتے جا رہے ہیں۔25 مئی 2022 کے لانگ مارچ کی ناکامی نے اُنہیں اور بھی جھنجھلا کے رکھ دیا ہے۔ اُن کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ وہ کس طرح اس حکومت کا دھڑن تختہ کردیں۔
27 اکتوبر سے شروع کیا جانے والا اُن کا دوسرا لانگ مارچ آج تک چارسوکلومیٹر کا فاصلہ بھی طے نہیں کر پایا ہے۔ یہ دنیا کا عجیب القسم لانگ مارچ ہے جو ہر شام دو تین بجے ایک نئے مقام سے شروع ہوتا ہے اور سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے غائب بھی ہو جاتا ہے۔
قوم توقع کر رہی تھی کہ سر پرائز دینے کی باتیں کرنے والے خان صاحب واقعی کوئی ایسا بڑا سر پرائز دیں گے کہ سار ی دنیا حیران رہ جائے گی۔
یہ پھس پھسا سا لانگ مارچ اس بات کی تصدیق کر رہا ہے کہ عوام اس قسم کی سیاست کا ساتھ دینے کو تیار نہیں ہیں ، وہ زبردست عوامی پذیرائی جو عدم اعتماد کی تحریک سے خان صاحب کو ملی تھی ، ان کی اپنی حرکتوں کی وجہ سے کم ہوتی جا رہی ہے۔ وہ اپنی سیاسی چالوں میں ناکام ہوچکے ہیں۔
2022 میں الیکشن کروانے اور اپنی پسند کا نیا آرمی چیف لانے کی اُن کی خواہشیں حقیقت کا روپ دھار نہیں پائی ہیں۔ اُن کے پاس اب اس ملک میں سوائے انارکی پھیلانے کے کوئی اور مقصد باقی نہیں رہا ہے۔ وہ نہیں چاہتے کہ یہ ملک اپنی اقتصادی مشکلات سے باہر نکل پائیٍ کیونکہ اگر ایسا ہوگیا تو پھر اُن کی ساری سیاست دھری کی دھری رہ جائے گی۔
اُن کی اس بے جواز تحریک کے نتیجے میں اسلام آباد آج کنٹینروں کا شہر بن چکا ہے۔ ایسا محصور اور غیر محفوظ دارالحکومت میں کون سا غیر ملکی صدر یا وزیراعظم دورہ کرسکتا ہے۔
سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کا طے شدہ دورہ بھی شاید اسی وجہ سے ملتوی ہوگیا اور ہم پاکستانی 10ارب ڈالرز کی اس سرمایہ کاری سے محروم رہ گئے جو محمد بن سلمان گوادر میں آئل ریفائنری کی شکل میں لگانے والے تھے۔2014 کے دھرنے نے بھی چائنہ کے صدر کا دورہ منسوخ کروا دیا تھا جس سے سی پیک منصوبہ کی بنیاد رکھی جانی تھی۔
سیاست کو سیاست سمجھ کر آئینی اور قانونی دائرے میں کرنا چاہیے۔ ملک اور قوم کے مفاد کے خلاف جو بھی کام ہوگا اُسے کسی طرح بھی اچھا نہیں سمجھا جاسکتا ہے۔ خان صاحب کو یہ بات اب سمجھ لینی چاہیے اور مقررہ وقت پر الیکشن ہونے کا انتظارکر کے سیاست کرنی چاہیے۔ اس کے سوا اب اُن کے پاس کوئی اورآپشن نہیں ہے۔
وہ بھلا اب کتنی ہی وضاحتیں پیش کرتے رہیں کہ مجھے اس سے غرض نہیں کہ کون آرمی چیف بنتا ہے لیکن قوم اچھی طرح جانتی ہے کہ وہ اپریل 2022 سے پہلے کیا کیا پلاننگ کر چکے تھے۔ اُن کا یہ کہنا کہ ایک مفرور شخص یہ فیصلہ کرے گا کہ اس ملک کا نیا آرمی چیف کون بنے گا کوئی زیادہ مدلل اور درست بات نہیں ہے۔
میاں نوازشریف اس سے قبل بھی ایک نہیں چار چار آرمی چیف بنا چکے ہیں اور کسی بھی اپوزیشن کو اُن سے کوئی گلہ یا شکایت نہیں رہی۔ بلکہ یہ کہا جائے تو شاید کوئی اتنا غلط اور غیر مناسب بھی نہیں ہوگا کہ 2016 میں غیر سول قوتوں نے تو خود خان صاحب کے لیے بہت آسانیاں پیدا کیں۔ خان صاحب اپنے دور اقتدار میں اُن سے ہر معاملے میں مشورہ اور مدد بھی حاصل کرتے رہے۔
موجودہ حکومت کے بارے میں تو یہ خبریں گردش کر رہی ہیں کہ وہ اس بار صرف اور صرف سینیارٹی کی بنیاد پر آرمی چیف لگانا چاہتی ہے اور یہی مشورہ بھی نواز شریف نے اپنے بھائی میاں شہباز شریف کو بھی دیا ہے ، وہ اگر واقعی ایسا کرنا چاہتے ہیں تو پھر یہ اس پر سیاست کرنا اور ایک اتنے حساس معاملے کو متنازعہ بنانا کسی بھی لحاظ سے ملک اور قوم کے مفاد میں نہیں ہے۔
اس سے پہلے بھی جتنے آرمی چیف بنائے گئے ،کسی پر بھی اس قدر سیاست اور بیان بازی کبھی نہیں ہوئی جتنی آج ہو رہی ہے۔
خان صاحب اس ملک کے وزیراعظم بھی رہ چکے ہیں قوم اُن سے بجا طور پر توقع کرتی ہے کہ وہ ہر معاملے کو اس طرح رسوا اور متنازعہ نہیں بنائیں گے۔ سیاسی بالیدگی اور اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس معاملے کو اپنے طور پر نمٹ جانے دیں گے۔
یہ وزیراعظم کا آئینی اختیار اور صوابدیدی آپشن ہے کہ وہ موجودہ آرمی چیف کی جانب سے بھیجے جانے والے چند ناموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کر لیں اور وہ یہ کام کرنے سے پہلے کسی سے بھی مشورہ کرسکتے ہیں ، چاہے وہ اُن کا اپنا بھائی بھی کیوں نہ ہو۔ یہ اور بات ہے کہ وہ بھائی آج کل کیوں جلا وطنی کے دن گزار رہا ہے۔ اس پر چلنے والے مقدمات کتنے درست اور سچے تھے یہ تو وقت ہی بتائے گا۔
اس ملک میں سیاستدانوں پرکرپشن اور غداری کے مقدمات تو بنتے رہتے ہیں یہ کوئی نئی اور انہونی بات نہیں ہے۔ دیکھا جائے تو خود خان صاحب کے خلاف بھی اسی طرز کے بہت سے مقدمات آج کل درج ہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ سب کے سب درست اور حقیقت پر مبنی ہوں ، لیکن میاں نوازشریف کے خلاف اُن کی سیاست کا مقصد اُنہیں پنجاب میں عوامی حمایت سے محروم کرنا ہے۔
کرپشن کے خلاف جہاد اور جدوجہد کرنا اُن کا مقصد ہرگز نہیں ہے۔ ایسا ہوتا تو وہ دوسرے کرپٹ لوگوں کے خلاف بھی اسی طرح سرگرم اور پرجوش نظر آتے جیسے وہ میاں صاحب کے خلاف دکھائی دیتے ہیں۔ میاں صاحب اُن کے اصل سیاسی حریف ہیں۔
اُنہیں سیاست میں اگر کوئی مات دے سکتا ہے تو وہی اور اُن کی پارٹی دے سکتی ہے۔ کارکردگی کے لحاظ سے بھی وہ میاں نوازشریف سے بہت پیچھے ہیں۔ اس ملک میں ایوب خان کے بعد اگر کسی سیاسی شخصیت نے کوئی کام کر دکھایا ہے تو وہ میاں نوازشریف ہی ہیں۔
موٹر ویز سے لے کر سی پیک تک بہت سا انفرا اسٹرکچر کا کام میاں نوازشریف کے ادوار ہی میں ہوا ہے۔ اس ملک کو ایٹمی قوت کا درجہ دلانے کا سہرا بھی میاں صاحب کے سر ہی جاتا ہے۔ مخالف خواہ کتنا ہی انکار کردیں لیکن کوئی اُن سے یہ اعزاز چھین نہیں سکتا۔
سابق وزیراعظم عمران خان جب سے محروم اقتدار ہوئے ہیں کچھ زیادہ ہی مضطرب اور بے چین ہوگئے ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں گذرتا کہ وہ سیاسی بیان نہ داغ دیں۔ سڑکوں پر تو وہ 10اپریل کے دن ہی سے نظر آرہے ہیں۔
احتجاج کے علاوہ لانگ مارچ کا شوق بھی وہ ساتھ ہی ساتھ پورا کرتے جا رہے ہیں۔25 مئی 2022 کے لانگ مارچ کی ناکامی نے اُنہیں اور بھی جھنجھلا کے رکھ دیا ہے۔ اُن کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ وہ کس طرح اس حکومت کا دھڑن تختہ کردیں۔
27 اکتوبر سے شروع کیا جانے والا اُن کا دوسرا لانگ مارچ آج تک چارسوکلومیٹر کا فاصلہ بھی طے نہیں کر پایا ہے۔ یہ دنیا کا عجیب القسم لانگ مارچ ہے جو ہر شام دو تین بجے ایک نئے مقام سے شروع ہوتا ہے اور سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے غائب بھی ہو جاتا ہے۔
قوم توقع کر رہی تھی کہ سر پرائز دینے کی باتیں کرنے والے خان صاحب واقعی کوئی ایسا بڑا سر پرائز دیں گے کہ سار ی دنیا حیران رہ جائے گی۔
یہ پھس پھسا سا لانگ مارچ اس بات کی تصدیق کر رہا ہے کہ عوام اس قسم کی سیاست کا ساتھ دینے کو تیار نہیں ہیں ، وہ زبردست عوامی پذیرائی جو عدم اعتماد کی تحریک سے خان صاحب کو ملی تھی ، ان کی اپنی حرکتوں کی وجہ سے کم ہوتی جا رہی ہے۔ وہ اپنی سیاسی چالوں میں ناکام ہوچکے ہیں۔
2022 میں الیکشن کروانے اور اپنی پسند کا نیا آرمی چیف لانے کی اُن کی خواہشیں حقیقت کا روپ دھار نہیں پائی ہیں۔ اُن کے پاس اب اس ملک میں سوائے انارکی پھیلانے کے کوئی اور مقصد باقی نہیں رہا ہے۔ وہ نہیں چاہتے کہ یہ ملک اپنی اقتصادی مشکلات سے باہر نکل پائیٍ کیونکہ اگر ایسا ہوگیا تو پھر اُن کی ساری سیاست دھری کی دھری رہ جائے گی۔
اُن کی اس بے جواز تحریک کے نتیجے میں اسلام آباد آج کنٹینروں کا شہر بن چکا ہے۔ ایسا محصور اور غیر محفوظ دارالحکومت میں کون سا غیر ملکی صدر یا وزیراعظم دورہ کرسکتا ہے۔
سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کا طے شدہ دورہ بھی شاید اسی وجہ سے ملتوی ہوگیا اور ہم پاکستانی 10ارب ڈالرز کی اس سرمایہ کاری سے محروم رہ گئے جو محمد بن سلمان گوادر میں آئل ریفائنری کی شکل میں لگانے والے تھے۔2014 کے دھرنے نے بھی چائنہ کے صدر کا دورہ منسوخ کروا دیا تھا جس سے سی پیک منصوبہ کی بنیاد رکھی جانی تھی۔
سیاست کو سیاست سمجھ کر آئینی اور قانونی دائرے میں کرنا چاہیے۔ ملک اور قوم کے مفاد کے خلاف جو بھی کام ہوگا اُسے کسی طرح بھی اچھا نہیں سمجھا جاسکتا ہے۔ خان صاحب کو یہ بات اب سمجھ لینی چاہیے اور مقررہ وقت پر الیکشن ہونے کا انتظارکر کے سیاست کرنی چاہیے۔ اس کے سوا اب اُن کے پاس کوئی اورآپشن نہیں ہے۔