پاکستان میں غربت کی اصل وجہ سیکھنے کے جذبے کی کمی
سوشل میڈیاپر وقت ضائع کرنیوالے نوجوان مفت آن لائن کورسزکرنے پرتوجہ نہیں دیتے
پاکستان اس لیے غریب نہیں کہ ہمارے پاس مادی وسائل کی کمی ہے بلکہ یہ ملک اس لیے مفلس ہے کہ یہاں کے لوگوں بالخصوص نوجوانوں میں سیکھنے کے جذبے کی کمی ہے۔
وطن عزیز کو خسارے کا سامنا بھی اسی وجہ سے ہے کہ ہمارے نوجوان سوشل میڈیا پر تو ہر روز کئی گھنٹے صرف کردیتے ہیں لیکن اپنے علم وہنر میں اضافے کے لیے کبھی مفت آن لائن کورسز کرنے پر توجہ مرکوز نہیں کرتے۔
ماہرین معاشیات، دانشور اور میڈیا اکثر یہ تو بتاتا ہے کہ ادائیگیوں کے توازن اور معیشت کا خسارہ کس طرح ہماری اقتصادی کارکردگی کو متاثر کررہا ہے لیکن اس خسارے کی بنیادی وجہ یعنی سیکھنے میں عدم دلچسپی پر کبھی بات نہیں کی جاتی۔
پاکستان میں تعلیمی اداروں کی تمام تر توجہ صرف کلاس روم میں حاضری، امتحانات کے انعقاد اور ڈگریاں تفویض کرنے پر ہے ، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر سال ہزاروں نوجوان ڈگریاں لے کر فارغ التحصیل ہوتے ہیں اور پھر اچھی نوکری کی تلاش میں برسوں مارے مارے پھرتے ہیں۔
ہمارے تعلیمی ادارے یقینی طور پر اس بات کے ذمے دار ہیں کہ وہ طلبہ میں سیکھنے اور اپنا علم وہنر بڑھانے کا ذوق وشوق پیدا نہیں کرتے۔ ڈیجیٹل رابطوں کے اس جدید دور میں بھی ہمارے نوجوان تک نت نئے علوم وفنون سیکھنے کے لیے ذاتی کوششیں کرتے ہوئے نظر نہیں آتے۔
ہمارے لوگوں کی ساری دلچسپی افواہ سازی اور سیاسی بیان بازی میں ہوتی ہے جبکہ کتب خوانی اور فری آن لائن کورسز کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں لیتا۔اس معاملے میں طلبہ، کاروباری حضرات، سرکاری عہدیداران اور پالیسی سازوں کا رویہ ایک جیسا ہی دکھائی دیتا ہے۔
نوجوانوں کا معاملہ تو ایک طرف رہا، عمر رسیدہ افراد بھی سیکھنے میں دلچسپی نہیں رکھتے، وہ سمجھتے ہیں کہ اب ان کی عمر سیکھنے کی نہیں رہی اور انہیں سالہا سال کا جو تجربہ حاصل ہے، وہ سیکھنے کے عمل کا متبادل ہوسکتا ہے جبکہ درحقیقت ایسا نہیں ہے۔
اس دور میں کسی بھی شخص کے، چاہے وہ کسی بھی عمر کا ہو، اپنے شعبے میں مقابلہ آرائی کے قابل ہونے کے لیے نئے علوم وفنون پر دسترس نہ سہی، اس سے شدھ بدھ حاصل کرنا لازم ہے۔
ہمارے سیاست دان بھی کانفرنسوں اور سیمینارز میں بھی محض اس لیے شریک ہوتے ہیں کہ وہ اسے اظہارخیال کا ایک موقع گردانتے ہیں، انہیں کچھ سیکھنے سے ہرگز کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔حکومت اور بلدیاتی اداروں کی بھی ساری دلچسپی پارک اور نئی سڑکیں بنانے میں ہوتی ہے، وہ کتب خانے بنانے کو ہرگز ضروری خیال نہیں کرتے۔
پاکستانی اسکولوں میں جانے والے بچوں کے بیگ ترقی یافتہ ملکوں کے بچوں کے بیگس کے مقابلے میں زیادہ بھاری ضرور ہوتے ہیں لیکن ہمارے طلباء وطالبات میں اختراع پسندی، مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت اور ٹیم ورک اسکلز کی کمی پائی جاتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ آخر پاکستان کیسے مالی اور ادائیگیوں کے توازن کے خسارے سے چھٹکارا پاسکتا ہے، اس کا جواب یہی ہے کہ نوجوانوں میں علم وتحقیق سے دلچسپی پیدا کرکے اور لوگوں میں سیکھنے کے جذبے کو نمو دے کر ہی ہم اس خسارے سے جان چھڑا سکتے ہیں۔
وطن عزیز کو خسارے کا سامنا بھی اسی وجہ سے ہے کہ ہمارے نوجوان سوشل میڈیا پر تو ہر روز کئی گھنٹے صرف کردیتے ہیں لیکن اپنے علم وہنر میں اضافے کے لیے کبھی مفت آن لائن کورسز کرنے پر توجہ مرکوز نہیں کرتے۔
ماہرین معاشیات، دانشور اور میڈیا اکثر یہ تو بتاتا ہے کہ ادائیگیوں کے توازن اور معیشت کا خسارہ کس طرح ہماری اقتصادی کارکردگی کو متاثر کررہا ہے لیکن اس خسارے کی بنیادی وجہ یعنی سیکھنے میں عدم دلچسپی پر کبھی بات نہیں کی جاتی۔
پاکستان میں تعلیمی اداروں کی تمام تر توجہ صرف کلاس روم میں حاضری، امتحانات کے انعقاد اور ڈگریاں تفویض کرنے پر ہے ، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر سال ہزاروں نوجوان ڈگریاں لے کر فارغ التحصیل ہوتے ہیں اور پھر اچھی نوکری کی تلاش میں برسوں مارے مارے پھرتے ہیں۔
ہمارے تعلیمی ادارے یقینی طور پر اس بات کے ذمے دار ہیں کہ وہ طلبہ میں سیکھنے اور اپنا علم وہنر بڑھانے کا ذوق وشوق پیدا نہیں کرتے۔ ڈیجیٹل رابطوں کے اس جدید دور میں بھی ہمارے نوجوان تک نت نئے علوم وفنون سیکھنے کے لیے ذاتی کوششیں کرتے ہوئے نظر نہیں آتے۔
ہمارے لوگوں کی ساری دلچسپی افواہ سازی اور سیاسی بیان بازی میں ہوتی ہے جبکہ کتب خوانی اور فری آن لائن کورسز کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں لیتا۔اس معاملے میں طلبہ، کاروباری حضرات، سرکاری عہدیداران اور پالیسی سازوں کا رویہ ایک جیسا ہی دکھائی دیتا ہے۔
نوجوانوں کا معاملہ تو ایک طرف رہا، عمر رسیدہ افراد بھی سیکھنے میں دلچسپی نہیں رکھتے، وہ سمجھتے ہیں کہ اب ان کی عمر سیکھنے کی نہیں رہی اور انہیں سالہا سال کا جو تجربہ حاصل ہے، وہ سیکھنے کے عمل کا متبادل ہوسکتا ہے جبکہ درحقیقت ایسا نہیں ہے۔
اس دور میں کسی بھی شخص کے، چاہے وہ کسی بھی عمر کا ہو، اپنے شعبے میں مقابلہ آرائی کے قابل ہونے کے لیے نئے علوم وفنون پر دسترس نہ سہی، اس سے شدھ بدھ حاصل کرنا لازم ہے۔
ہمارے سیاست دان بھی کانفرنسوں اور سیمینارز میں بھی محض اس لیے شریک ہوتے ہیں کہ وہ اسے اظہارخیال کا ایک موقع گردانتے ہیں، انہیں کچھ سیکھنے سے ہرگز کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔حکومت اور بلدیاتی اداروں کی بھی ساری دلچسپی پارک اور نئی سڑکیں بنانے میں ہوتی ہے، وہ کتب خانے بنانے کو ہرگز ضروری خیال نہیں کرتے۔
پاکستانی اسکولوں میں جانے والے بچوں کے بیگ ترقی یافتہ ملکوں کے بچوں کے بیگس کے مقابلے میں زیادہ بھاری ضرور ہوتے ہیں لیکن ہمارے طلباء وطالبات میں اختراع پسندی، مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت اور ٹیم ورک اسکلز کی کمی پائی جاتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ آخر پاکستان کیسے مالی اور ادائیگیوں کے توازن کے خسارے سے چھٹکارا پاسکتا ہے، اس کا جواب یہی ہے کہ نوجوانوں میں علم وتحقیق سے دلچسپی پیدا کرکے اور لوگوں میں سیکھنے کے جذبے کو نمو دے کر ہی ہم اس خسارے سے جان چھڑا سکتے ہیں۔