پدرم سلطان بود اور دخترم سلطان بود
قبروں اور شجروں کی سیاست کا انجام شرمناک ہی ہوتا ہے۔ کیونکہ قبروں کی سیاست سے ملک ملک نہیں، قبرستان بنتے ہیں۔
ROME:
مرحوم بھٹو کا یہ بیان بہت بامعنیٰ تھا '' میں قبر میں لیٹ کر اس ملک پر حکومت کروں گا ''۔ بھٹو جانتا تھا کہ شخصیت پرستی اور بت پرستی کے سحر میں جکڑے لوگ جذباتیت کا شکار ہوکر خود اپنے مستقبل کے شکار پر روانہ ہوجاتے ہیں۔اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں مگر ہم سیکھنے سے انکاری ہیں۔ جیسا کہ موتی لال نہرو کا بیٹا جواہر لال نہرو وزیراعظم بنا، نہرو کی بیٹی اندراگاندھی اور اندراگاندھی کا بیٹا راجیو گاندھی بھی وزیراعظم بنا۔ پھر سونیا گاندھی کانگریس کی سربراہ بنی اور ان کے بچے راہول اور پریانکا بھی سیاست میں ہیں، مقبوضہ کشمیر میں شیخ عبداللہ کا بیٹا فاروق عبداللہ اور پوتا عمر عبداللہ بھی سیاست میں سرگرم ہیں۔
دوسری جانب فرانس کے تین صدور کے خاندان بھی سیاست میں حصہ لیتے رہے ہیں ۔ ڈیگال اور متراں کے بعد سرکوزی کے بیٹے جین سرکوزی بھی سیاست میں آئے جبکہ امریکی صدر جان ایف کینڈی کے بھائی نے کوشش کی لیکن عوام نے میرٹ کی کسوٹی پر پرکھنے کے بعد اعلان کردیا کہ یہ سونا نہیں پیتل ہے اور یوں اتنے بڑے سیاسی لیجنڈ کے خاندان قصہء پارینہ ہوگئے۔
انگلستان کے عظیم لیڈر چرچل جس نے انگلستان کو نئی زندگی بخشی تھی ، لیکن اس کے خاندان میں سے کسی نے بھی وزارت عظمیٰ پر اپنا دعویٰ نہیں کیا، نہ وہاں کے عوام نے اس کی اولاد میں سے کسی کو وہ مقام دینے کے لیے دھمالیں اور بھنگڑیں ڈالے۔ اسی طرح ملائشیا کے عظیم لیڈر اور معمار مہاتیرمحمد کے دو بیٹے سیاست میں آئے اور میرٹ پر پورے نہ اترے اور مسترد کردیئے گئے۔ آئز ہاور ، رونالڈریگن کے کسی بھائی، بھتیجے ، بیٹے چاچا تائے اور دیگر عظیم لیڈران کے فرزندوں نے تو وہاں کی سیاست میں پنگا لے کر بزرگوں کی مقبولیت کیش کرانے کی کوشش ہی نہیں کی، یہی بنیادی فرق ہے پہلی دنیا اور تیسری دنیا میں کہ پہلی دنیا کے نزدیک پہلی بات میرٹ ہے اور تیسری دنیا کے لیے پہلی بات شخصیت پرستی اور بت پرستی ہے۔
لیکن ہمارے یہاں آج بھی ''پدرم سلطان بود اور دخترم سلطان بود'' کا گندا دھندا اپنے عروج پر ہے، ایوب خان کے بعد گوہر ایوب، بھٹو کے بعد بنت بھٹو ، ضیاء الحق کے بعد ابن ضیاء الحق، باچا خان کے بعد ولی خان پھر اسفند یار ولی اور اب ان کے داماد اور عزیز و اقارب، چوہدری شجاعت بن ظہور الہٰی، اسی طرح پرویز الہٰی کے بعد ابن پرویز الہٰی، جب کے شریف خاندان کے تو کیا ہی کہنے نوازشریف، بھائی شہبازشریف، بیٹی مریم نواز، بھتیجا حمزہ شریف، بھانجا عابد شیر علی، دامار کیپٹن صفدر، سمدھی اسحاق ڈار اور خاندان کے دیگر افراد کی لمبی فہرست ہے۔ جبکہ غوث بخش بزنجو جیسے ترقی پسند لیڈر کے بعد ان کا بیٹا حاصل بزنجو اور رسول بخش پلیجو جیسے پڑھے لکھے سیاستدان کا بیٹا ایاز لطیف پلیجو بھی اپنے والدین کے عہدے اور سیاسی اثرورسوخ کو اپنی سیاست کی بے ساکھیاں بنانے کی کوشش کرہے ہیں۔
یہ بات درست ہے کہ محض اس بنا پر کسی کو سیاست میں آنے سے نہیں روکا جاسکتا کہ اس کا باپ، بھائی، بیٹا بھی سیاست میں ہیں، لیکن معیار صرف اور صرف میرٹ ہونا چاہیے، قبروں اور شجروں کی سیاست کا انجام شرمناک ہی ہوتا ہے۔ کیونکہ قبروں کی سیاست سے ملک ملک نہیں، قبرستان بنتے ہیں۔ آج کی صدی میں بھی ہم تیسری دنیا کے لوگ ان مصائب اور اذیتوں سے گزررہے ہیں اور اس کی زیادہ تر ذمہ داری خود ہمارے ہی کاندھوں پر عائد ہوتی ہے۔ ہم ان ہی کاندھوں پر ''ابن فلاں'' اور ''بنت فلاں'' کو بٹھا کر وہ اقتدار تک پہنچاتے ہیںاور پھر خود ہی ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
مرحوم بھٹو کا یہ بیان بہت بامعنیٰ تھا '' میں قبر میں لیٹ کر اس ملک پر حکومت کروں گا ''۔ بھٹو جانتا تھا کہ شخصیت پرستی اور بت پرستی کے سحر میں جکڑے لوگ جذباتیت کا شکار ہوکر خود اپنے مستقبل کے شکار پر روانہ ہوجاتے ہیں۔اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں مگر ہم سیکھنے سے انکاری ہیں۔ جیسا کہ موتی لال نہرو کا بیٹا جواہر لال نہرو وزیراعظم بنا، نہرو کی بیٹی اندراگاندھی اور اندراگاندھی کا بیٹا راجیو گاندھی بھی وزیراعظم بنا۔ پھر سونیا گاندھی کانگریس کی سربراہ بنی اور ان کے بچے راہول اور پریانکا بھی سیاست میں ہیں، مقبوضہ کشمیر میں شیخ عبداللہ کا بیٹا فاروق عبداللہ اور پوتا عمر عبداللہ بھی سیاست میں سرگرم ہیں۔
دوسری جانب فرانس کے تین صدور کے خاندان بھی سیاست میں حصہ لیتے رہے ہیں ۔ ڈیگال اور متراں کے بعد سرکوزی کے بیٹے جین سرکوزی بھی سیاست میں آئے جبکہ امریکی صدر جان ایف کینڈی کے بھائی نے کوشش کی لیکن عوام نے میرٹ کی کسوٹی پر پرکھنے کے بعد اعلان کردیا کہ یہ سونا نہیں پیتل ہے اور یوں اتنے بڑے سیاسی لیجنڈ کے خاندان قصہء پارینہ ہوگئے۔
انگلستان کے عظیم لیڈر چرچل جس نے انگلستان کو نئی زندگی بخشی تھی ، لیکن اس کے خاندان میں سے کسی نے بھی وزارت عظمیٰ پر اپنا دعویٰ نہیں کیا، نہ وہاں کے عوام نے اس کی اولاد میں سے کسی کو وہ مقام دینے کے لیے دھمالیں اور بھنگڑیں ڈالے۔ اسی طرح ملائشیا کے عظیم لیڈر اور معمار مہاتیرمحمد کے دو بیٹے سیاست میں آئے اور میرٹ پر پورے نہ اترے اور مسترد کردیئے گئے۔ آئز ہاور ، رونالڈریگن کے کسی بھائی، بھتیجے ، بیٹے چاچا تائے اور دیگر عظیم لیڈران کے فرزندوں نے تو وہاں کی سیاست میں پنگا لے کر بزرگوں کی مقبولیت کیش کرانے کی کوشش ہی نہیں کی، یہی بنیادی فرق ہے پہلی دنیا اور تیسری دنیا میں کہ پہلی دنیا کے نزدیک پہلی بات میرٹ ہے اور تیسری دنیا کے لیے پہلی بات شخصیت پرستی اور بت پرستی ہے۔
لیکن ہمارے یہاں آج بھی ''پدرم سلطان بود اور دخترم سلطان بود'' کا گندا دھندا اپنے عروج پر ہے، ایوب خان کے بعد گوہر ایوب، بھٹو کے بعد بنت بھٹو ، ضیاء الحق کے بعد ابن ضیاء الحق، باچا خان کے بعد ولی خان پھر اسفند یار ولی اور اب ان کے داماد اور عزیز و اقارب، چوہدری شجاعت بن ظہور الہٰی، اسی طرح پرویز الہٰی کے بعد ابن پرویز الہٰی، جب کے شریف خاندان کے تو کیا ہی کہنے نوازشریف، بھائی شہبازشریف، بیٹی مریم نواز، بھتیجا حمزہ شریف، بھانجا عابد شیر علی، دامار کیپٹن صفدر، سمدھی اسحاق ڈار اور خاندان کے دیگر افراد کی لمبی فہرست ہے۔ جبکہ غوث بخش بزنجو جیسے ترقی پسند لیڈر کے بعد ان کا بیٹا حاصل بزنجو اور رسول بخش پلیجو جیسے پڑھے لکھے سیاستدان کا بیٹا ایاز لطیف پلیجو بھی اپنے والدین کے عہدے اور سیاسی اثرورسوخ کو اپنی سیاست کی بے ساکھیاں بنانے کی کوشش کرہے ہیں۔
یہ بات درست ہے کہ محض اس بنا پر کسی کو سیاست میں آنے سے نہیں روکا جاسکتا کہ اس کا باپ، بھائی، بیٹا بھی سیاست میں ہیں، لیکن معیار صرف اور صرف میرٹ ہونا چاہیے، قبروں اور شجروں کی سیاست کا انجام شرمناک ہی ہوتا ہے۔ کیونکہ قبروں کی سیاست سے ملک ملک نہیں، قبرستان بنتے ہیں۔ آج کی صدی میں بھی ہم تیسری دنیا کے لوگ ان مصائب اور اذیتوں سے گزررہے ہیں اور اس کی زیادہ تر ذمہ داری خود ہمارے ہی کاندھوں پر عائد ہوتی ہے۔ ہم ان ہی کاندھوں پر ''ابن فلاں'' اور ''بنت فلاں'' کو بٹھا کر وہ اقتدار تک پہنچاتے ہیںاور پھر خود ہی ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 300 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔