انٹربینک میں ڈالر کی قدر میں اضافہ 22168روپے کا ہوگیا
اوپن کرنسی مارکیٹ میں دوسرے ہفتے بھی ڈالر کی قدر بغیر کسی تبدیلی کے 227.75روپے پر منجمد رہی
انٹربینک کرنسی ماکیٹ میں ڈالر کے ریٹ صرف 4پیسے کے اضافے سے 221.68روپے کی سطح پر بند ہوئےتاہم اسکے برعکس اوپن کرنسی مارکیٹ میں دوسرے ہفتے بھی ڈالر کی قدر بغیر کسی تبدیلی کے 227.75روپے پر منجمد رہی۔
انٹربینک مارکیٹ میں کاروبار کےتمام دورانئیے میں ڈالر کی محدود پیشقدمی جارہی جس سے ایک موقع پر ڈالر کی قدر 26پیسے کے اضافے سے 221.90روپے کی سطح پر بھی پہنچی۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کریڈٹ ڈیفالٹ سواپ رسک بڑھنے اور پاکستان کے عالمی سکوک اور یوروبانڈز کی ایلڈ بڑھنے سے پاکستانی روپیہ پر دباؤ بڑھتا جارہا ہے کیونکہ ان عوامل سے عالمی سطح پر اس بات کا اشارہ مل رہا ہے کہ ادائیگیوں کے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔
ماہرین کاکہنا ہے کہ سعودی ولی عہد کے دورہ پاکستان ملتوی ہونے اور سیاسی افق پر غیر یقینی صورتحال بھی مارکیٹ پر اثر انداز ہیں جبکہ ملکی ذرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے کے ذرائع بھی واضح طور پر نظر نہیں آرہے ہیں جس سے مارکیٹ میں منفی چمیگوئیاں بھی زیر گردش ہیں۔
ماہرین کاکہنا ہے کہ حکومتی اقدامات کی بدولت کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اگرچہ کنٹرول میں آگیا ہے لیکن صنعتوں کے لیے تین ماہ کے طویل دورانئیے پرمحیط قدرتی گیس کی سپلائی بند کیے جانے سے ذرمبادلہ کمانے کا اہم برآمدی شعبہ متاثر ہوسکتا ہے اور برآمدی آمدنی گھٹنے کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں لہذا ملکی ذرمبادلہ کے ذخائر میں مطلوبہ اضافہ دوست ممالک کے تعاون اور عالمی مالیاتی اداروں کی فنڈنگ پرمنحصر ہوگیا ہے۔
انٹربینک مارکیٹ میں کاروبار کےتمام دورانئیے میں ڈالر کی محدود پیشقدمی جارہی جس سے ایک موقع پر ڈالر کی قدر 26پیسے کے اضافے سے 221.90روپے کی سطح پر بھی پہنچی۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کریڈٹ ڈیفالٹ سواپ رسک بڑھنے اور پاکستان کے عالمی سکوک اور یوروبانڈز کی ایلڈ بڑھنے سے پاکستانی روپیہ پر دباؤ بڑھتا جارہا ہے کیونکہ ان عوامل سے عالمی سطح پر اس بات کا اشارہ مل رہا ہے کہ ادائیگیوں کے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔
ماہرین کاکہنا ہے کہ سعودی ولی عہد کے دورہ پاکستان ملتوی ہونے اور سیاسی افق پر غیر یقینی صورتحال بھی مارکیٹ پر اثر انداز ہیں جبکہ ملکی ذرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے کے ذرائع بھی واضح طور پر نظر نہیں آرہے ہیں جس سے مارکیٹ میں منفی چمیگوئیاں بھی زیر گردش ہیں۔
ماہرین کاکہنا ہے کہ حکومتی اقدامات کی بدولت کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اگرچہ کنٹرول میں آگیا ہے لیکن صنعتوں کے لیے تین ماہ کے طویل دورانئیے پرمحیط قدرتی گیس کی سپلائی بند کیے جانے سے ذرمبادلہ کمانے کا اہم برآمدی شعبہ متاثر ہوسکتا ہے اور برآمدی آمدنی گھٹنے کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں لہذا ملکی ذرمبادلہ کے ذخائر میں مطلوبہ اضافہ دوست ممالک کے تعاون اور عالمی مالیاتی اداروں کی فنڈنگ پرمنحصر ہوگیا ہے۔