اگر انسان بھی فیکس ہو

ہمارے سائنس دان کسی نہ کسی طرح وہ ایک ایسی مشین بنائیں جس سے انسان پورے کا پورا ایک جگہ سے دوسری جگہ فیکس ہو جائے...

ہمارے سائنس دان کسی نہ کسی طرح وہ ایک ایسی مشین بنائیں جس سے انسان پورے کا پورا ایک جگہ سے دوسری جگہ فیکس ہو جائے.

ایسا لگتا ہے کہ سیکنڈز میں صبح کا سورج طلوع ہوگیا ہے ارے میں صحیح کہہ رہا ہوں کیونکہ آج ہم پچاسویں صدی میں جی رہے ہیں۔یہاں نہ کسی کو کوئی فکر ہے نہ ٹینشن۔اب ہمارے ہاں نہ کوئی روڈ ٹریفک ہے اور نہ ہی فضائی ذریعہ پرواز،سڑکیں بنجر پڑی ہیں، جحازوں کا نام و نشان تک نہیں اورآٹو رکشے کی '' پھٹ پھٹ '' سنے تو صدیاںگزر گئیں ہیں۔لیکن اب اس کے باوجود کسی کو کہیں بھی آنے جانے میں کوئی پریشانی کا سامنا نہیں ہے،بیرون ممالک جانے کیلئے گھنٹوں سفر نہیں کرنا پڑتا۔مجھ سمیت آپ سب صرف چند سیکنڈز میں دنیا کے کسی بھی کونے میں باآسانی پہنچ سکتے ہیں۔آپ کو حیرت ہو گی یہ سن کر کہ کل صبح 9 بجے سے 3 بجے تک میں آفس میں تھا ،کل شام ہی دوست کی شادی میں امریکہ اور آج پھر آپ کے ساتھ آفس،بھلا کیسے۔۔۔؟

اگر واقعی ایسا ہوجائے تو یہ خبر سن کر میری طرح آپ کادل بھی خوش ہوجائے گا کہ ہمارے ملک کے سائنس دان اس کوشش میں ہیں کہ وہ کسی نہ کسی طرح ایک ایسی مشین بنائیں جس سے انسان پورے کا پورا ایک جگہ سے دوسری جگہ فیکس ہو جائے گا۔اندازہ کیجئے کہ ایسا ہو گیا توکیسی مزیدار صورتحال ہو گی ، ہر گھر میں ایک بڑی سی کیبن نما مشین لگی ہو گی لگ بھگ ٹیلی فون جیسا سسٹم ہو گا ،بندہ اندر داخل ہو گا ،نمبر گھمائے گا اور تھوڑی دیر میں جلیانوالہ سے غائب ہو کر فیصل آباد کی مشین میں ظاہر ہو جائے گا۔ تاہم ملک میں لوڈشیڈنگ کی سنگین صورت حالت کو مد نظر رکھتے ہوئے فیکس مشین سے گزرتے ہوئے عجیب وغریب صورتحال بھی پیش آ سکتی ہے۔مثلاََ ایک بندہ فیکس ہو رہا ہو اور درمیان میں لائٹ چلی جائے ،پتا چلے کہ سر بھائی پھیرو میں ہے اور دھڑ پتوکی میں پھنسا ہوا ہے ،گھر والے رو رو کر بجلی آنے کی دعائیں کر رہے ہوں ،اور بچے ہمسائیوں کے گھر جا کر منتیں کر رہے ہوں کہ ـ'' انکل پلیز'' تھوڑی دیر کیلئے اپنا جنریٹر دے دیں ،ابو کا سر نکالنا ہے۔بیوی غصے سے کہہ رہی ہو گی ،جب آپ کو پتا بھی ہے کہ ہر گھنٹے بعد لائٹ جاتی ہے تو عین 7 بج کر 59 منٹ پر فیکس ہونے کی کیا ضرورت تھی؟؟

یہ بھی ممکن ہے کہ بندہ رانگ نمبر پر فیکس ہو جائے ،ذرا تصور کیجئے کہ آپ دوکان کے باہر بنیان پہنے،بالٹی میں آم ٹھنڈئے کر کے ''چوپ'' رہے ہوں اتنے میں ایک خوبصورت لڑکی مشین میں نمودار ہو تی ہے اور پوچھتی ہے '' کیا ڈاکٹر یاسین صا حب کا کلینک یہی ہے'' تو آپ بڑا بنا سنوار کر کہتے ہیں ''او نہی بی بی اے تے صدیق برا ئلر والے دا پھٹا اے ''۔ اس سے بھی زیاد ہ خطرناک صورتحال اس وقت پیش آ سکتی ہے جب اک بڑی بڑی مونچھوںوالا بندہ نمودار ہو اورمسکراتے ہوئے کہےـ''السلام و علیکم!ذرا ساتھ والے گھر سے'' ببلی ''کو تو بلا دیں ''۔

میں سوچ رہا ہوں کہ یہ مشین شروع شروع میں چو نکہ بہت ہی مہنگی ہو گی۔ اس لیئے عین ممکن ہے کہ پی سی اوکی طرح اس کے بھی جگہ جگہ سینٹرز کھل جائیں اور کلو میٹر زکے حساب سے آنے جانے کی قیمت وصول ہوں ۔اور ساتھ ہی دیوار پرلگے کاغذ پر لکھا ہو۔ رونگ نمبر پر جا نے کی صورت میں دوکاندار ذمہ دار نہ ہو گااور بجلی جانے کی صورت میں جتنا حصہ مشین کے اندر ہو گا اس کی ذمہ داری گاہک کے اپنے اوپر ہے۔جبکہ 8سال سے بڑے بچے کے الگ سے پیسے دینا ہونگے ۔ براہ کرم پیسے فیکس ہونے سے پہلے ادا کریں۔

مجھے لگتا ہے جب دنیا میں یہ ٹیکنا لو جی آئے گی۔تو اس کے فنکشنز بھی لگ بھگ موبائل جیسے ہوں گے۔ یعنی مشین کو ہر چار گھنٹے بعد باریک پن والا چارجر لگانا پڑے گا۔سگنل بھی ڈراپ ہو جایا کریں گے۔لیکن اس کے باوجوداس کی سہولتوں کے بارے میں سوچتا ہوں تو سوچتا ہی رہ جاتا ہوں۔یہ مشین آ گئی تو عاشقوں کے تو سارے مسائل ہی حل ہو جائیں گے۔جو لڑکا لڑکی پہلے چھپ چھپ کے پارک میں ملا کرتے تھے۔وہ اپنے اپنے گھروں میں یہ مشین لگوا لیں گے۔لڑکا اِدھر سے داخل ہو کر لڑکی کے کمرے میں برآمد ہو گا،اور ذرا سا کھٹکا ہونے پر چند سیکنڈ میں اپنے کمرئے میں پہنچ جایا کرئے گا۔



لوگ عام استعمال کی چیزیں بھی اِسی فیکس مشین کے ذریعے منگوا لیا کریں گے۔بلکہ عین ممکن ہے کہ آپ اطمینان سے ٹی وی دیکھ رہے ہوں اور مشین میں سے دھڑا دھڑا خربوزے گرنے شروع ہو جائیں ۔اور تھوڑی دیر بعد بڑے خالو گردن نکال کر کہیں کہ چیک کر یار میٹھے ہیں ناں؟؟۔سوچا جائے تو اس عجیب و غریب فیکس مشین کی وجہ سے گھریلو جھگڑئے بھی جدید رُخ اختیار کر جائیں گے۔شوہر بیوی کو طلاق دے کر گھر سے نکالنے کی بجائے میکے فیکس کر دیا کرے گا۔ٹھیک دو منٹ بعد مشین سے بیوی کے تین بھائی برآمد ہوں گے اور شوہر کی ٹھکائی کر کے اُسے اسپتال فیکس کر دیں گے ۔خواتین اس مشین سے اپنے ہی مطلب کا فائدہ اُٹھائیں گی۔کراچی کی نورین مشین میں سے سر نکال کر لاہور کی فائزہ سے کہے گی ''بھابی ! ذرا کالے دھاگے کی نلکی تو دیجئے گا'' ۔ لڑکیاں کسی بھی وقت گردن نکال کر سہیلی سے پوچھ لیا کریں گی '' عاشی ! تمہارئے پاس کوئی فالتو پین ہوگا؟''۔


اس مشین کی وجہ لوگ بغیر گھر سے نکلے ایک دوسرے کے گھر باآسانی آ جا سکیں گے۔چوری چکاری بھی ختم ہو جائے گی ،پھر تو صرف یہ مشین ہی چوری ہوا کرئے گی۔میرے خیال میں اس مشین کا طریقہ استعمال کچھ یوں ہو گا ۔ کہ پہلے بندہ اندر داخل ہو گا،شیشے کا دروازہ بند کرئے گا ،دوسری طرف کا نمبر ملائے گا،دوسری طرف بیل جائے گی اگر وہ قبول کا بٹن دبائیں گے تو ہلکی سی روشنی پھیلے گی اور بندہ دوسری طرف منتقل ہونا شروع ہو جائے گا ۔پھر سب احتیاط کیا کریں گے کہ کوئی غلط نمبر کوئی نہ ریسو کرئے۔

اس مشین کی وجہ سے سڑکوں پر بھی رش بہت کم ہو جائے گا۔کوئی بچہ زیادہ دیر گھر سے باہر رہے گا تو اُس کی ماں دس منٹ میں پوری دنیا میں خود جا کر سب رشتہ داروں کے گھر پتا کر ے گی،کہ''چاند'' ادھر تو نہیں آیا۔لوگ آپس میں عجیب و غریب باتیں کیا کریں گے ، گجرات کا ''شان'' فون پر دوست سے کہہ رہا ہو گا کہ یار میں اس وقت جنوبی کوریا میں ہوں ،تم ڈرائنگ روم میں بیٹھو میں دو منٹ میں آیا۔باپ اپنے بیٹے پر ناراض ہو رہا ہو گا کہ تم تو کہہ کر گئے تھے کہ اپنے دوست کی سالگرہ میں سعودیہ جا رہا ہوں،پھر انگلینڈ کیا کرنے گئے تھے؟؟۔

اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عین ممکن ہے اس میں فیس بک شیئر کی بھی آپشن شامل ہو جائے۔ یعنی آپ کوئی بھی ''اچھی چیز'' اپنے فیس بک فرینڈز کے ساتھ شیئر کر سکتے ہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ موبائل فونز کی طرح یہ مشین بھی کچھ عرصے بعد گلی گلی،تھڑئے تھڑئے بِک رہی ہو گی۔چائنہ کی مشینیں بھی آ جائیں گی جن کی قیمت تو بہت کم ہو گی لیکن عین ممکن ہے اس میں امریکہ جانے کا آپشن تو ہو گا لیکن واپس بائی روڈ آنا پڑئے ۔ اور اگر سائنس نے مزید ترقی کرلی تو اگلے چند سالوں تک ''دو سِموں والی فیکس مشین'' بھی مارکیٹ میں آجائیگی،یعنی ایک کا نمبر سب کے پاس ہو گا،دوسرا صرف مخصوص فرینڈز کے پاس ۔

اللہ کرے اس ملک کے سائنسدان جلد از جلد یہ مشین بنا لیں تاکہ ہم اِس کے ذریعے پوری دنیا میں جا جا کر بتائیں کہ ہم پاکستانی بھی کسی سے کم نہیں،جب ہم انسان کو فیکس کرنے والی مشین ایجاد کر سکتے ہیں تو دنیا کا کوئی بھی کام ہماری دسترس سے باہر نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔


اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 300 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story