داخلہ پالیسی کی نمائشی حیثیتڈی جے کالج میں سی ڈی اور ای گریڈ میں داخلوں کا انکشاف
بچے چالاکی کرتے ہیں غلط مارکس لکھ کر پلیسمنٹ لے لیتے ہیں لیکن مارک شیٹ پر ان کے مارکس کم ہوتے ہیں، اسسٹنٹ پروفیسر
صوبائی محکمہ کالج ایجوکیشن نے کراچی کے سرکاری کالجوں میں مرکزی داخلہ پالیسی کی حیثیت "نمائشی" کرتے ہوئے اسے عملی طور پر ختم کردیا ہے اور دستیاب تاریخ میں پہلی بار ڈی جے سندھ گورنمنٹ سائنس کالج میں "سی ،ڈی اور ای" گریڈز کے حامل طلبہ کو داخلے دے دیے گئے ہیں۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق صوبائی محکمہ کالج ایجوکیشن نے کراچی کے سرکاری کالجوں میں مرکزی داخلہ پالیسی کی حیثیت "نمائشی" کرتے ہوئے اسے عملی طور پر ختم کردیا ہے اور دستیاب تاریخ میں پہلی بار ڈی جے سندھ گورنمنٹ سائنس کالج میں "سی ،ڈی اور ای" گریڈز کے حامل طلبہ کو داخلے دے دیے گئے ہیں۔
نمائندہ ایکسپیریس کا کہنا ہے کہ یہ داخلے کالج میں انٹرمیڈیٹ کی سطح پر پہلی بار متعارف کرائی گئی کمپیوٹر سائنس فیکلٹی میں دیے گئے ہیں اور اب کراچی کے صف اول کے تعلیمی ادارے اور میرٹ کے حوالے سے اپنی شناخت رکھنے والے ڈی جے سائنس کالج میں ایک ہی کلاس میں اے ون گریڈ سے ای گریڈ تک کے طلبہ موجود ہوتے ہیں۔
اس بات کا انکشاف " ایکسپریس" کو داخلوں کے حوالے سے شناخت کیے جانے والے ای کیپ کے ڈیش بورڈ میں ڈی جے سائنس کالج کے حوالے سے محفوظ معلومات سے ہوا ہے۔
ایکسپریس کو ملنے والی اس معلومات کے مطابق کالج میں اس سال مجموعی طور پر 440 طلبہ کی انٹر سال اول کی پلیسمنٹ لسٹ مرکزی داخلہ کمیٹی کی جانب سے بھجوائی گئی جس میں پری انجینیئرنگ کے 89، پری میڈیکل کے 245 اور نئی شروع کی گئی کمپیوٹر سائنس فیکلٹی میں 106 داخلے دیے گئے کمپیوٹر سائنس کے ان داخلوں میں اے ون گریڈ کے 12، اے گریڈ کے 11، بی گریڈ کے 19، سی گریڈ کے 34 اور ڈی گریڈ کے 26 طلبہ کو داخلے دیے گئے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق بات یہیں آکر نہیں رکی بلکہ گریڈ ای کے بھی 4 طلبہ کو کمپیوٹر سائنس میں داخلے دے دیئے گئے جبکہ قاعدے کے مطابق ای گریڈ کے طالب کو سائنس فیکلٹی میں داخلہ نہیں دیا جاتا۔
"ایکسپریس" نے اس سلسلے میں مرکزی داخلہ پالیسی کو چلانے والے اسسٹنٹ پروفیسر راشد کھوسو سے جب اس سلسلے میں رابطہ کیا تو پہلے تو انھوں نے موقف اختیار کیا کہ "بعض اوقات بچے چالاکی کرتے ہیں غلط مارکس لکھ کر پلیسمنٹ لے لیتے ہیں لیکن مارک شیٹ پر ان کے مارکس کم ہوتے ہیں تاہم جب ان سے پوچھا گیا کہ پلیسمنٹ لسٹ تو میٹرک بورڈ کے حاصل کیے گئے ڈیٹا کی بنیاد پر جاری ہوتی ہے پھر طلبہ ایسی چالاکی کس طرح کرگئے۔
جس پر ان کا کہنا تھا کہ اگر پلیسمنٹ لسٹ سے غلط داخلے دیئے گئے تو کالج انھیں منسوخ کرسکتا ہے کالج نے ایسا کیوں نہیں کیا اگر کمیٹی ایسا کرے گی تو طلبہ کے لیے زیادہ مشکلات ہونگی کالج کے لیے یہ کرنا آسان ہے۔
علاوہ ازیں راشد کھوسو کے اس دعوے کی تصدیق اور کالج انتظامیہ کا مؤقف جاننے کے "ایکسپریس" نے ڈی جے سائنس کالج کے پرنسپل پروفیسر مہر منگی سے رابطہ کیا تاہم وہ رابطے سے گریز کرتے رہے اور میسج کا جواب بھی نہیں دیا۔
یاد رہے کہ 22 سال قبل سن 2000 میں حکومت سندھ کی جانب سے کراچی کے سرکاری کالجوں میں دبائو کو مسترد کرنے اور میرٹ قائم کرنے کے لیے مرکزی داخلہ پالیسی بنائی گئی تھی اور پرنسپلز سے داخلوں کا اختیار مرکزی داخلہ کمیٹی کو منتقل کردیا تھا کیونکہ عموما بڑے اور معروف کالجوں کے پرنسپلز طلبہ تنظیموں، سیاسی جماعتوں اور وزراء کی جانب سے میرٹ کے برعکس داخلوں کے لیے دبائو ڈالنے کی شکایات کیا کرتے تھے اور جن کالجوں میں اے ون گریڈ پر داخلے بند ہوتے تھے وہاں دبائو میں آکر سی اور ڈی گریڈ کے داخلے کرنے پڑتے تھے۔
تاہم اب یہی کام 22 سال بعد ایک لیگل فریم ورک میں مرکزی داخلہ پالیسی کے پلیٹ فارم سے کردیا گیا علاوہ ازیں کیپ کی موجودہ صورتحال اور ڈی جے سائنس کالج سے متعلق معاملے پر سیکریٹری کالجز علیم لاشاری سے بھی رابطے کی کوشش کی گئی تاہم انھوں نے فون ریسیوو نہیں کیا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق صوبائی محکمہ کالج ایجوکیشن نے کراچی کے سرکاری کالجوں میں مرکزی داخلہ پالیسی کی حیثیت "نمائشی" کرتے ہوئے اسے عملی طور پر ختم کردیا ہے اور دستیاب تاریخ میں پہلی بار ڈی جے سندھ گورنمنٹ سائنس کالج میں "سی ،ڈی اور ای" گریڈز کے حامل طلبہ کو داخلے دے دیے گئے ہیں۔
نمائندہ ایکسپیریس کا کہنا ہے کہ یہ داخلے کالج میں انٹرمیڈیٹ کی سطح پر پہلی بار متعارف کرائی گئی کمپیوٹر سائنس فیکلٹی میں دیے گئے ہیں اور اب کراچی کے صف اول کے تعلیمی ادارے اور میرٹ کے حوالے سے اپنی شناخت رکھنے والے ڈی جے سائنس کالج میں ایک ہی کلاس میں اے ون گریڈ سے ای گریڈ تک کے طلبہ موجود ہوتے ہیں۔
اس بات کا انکشاف " ایکسپریس" کو داخلوں کے حوالے سے شناخت کیے جانے والے ای کیپ کے ڈیش بورڈ میں ڈی جے سائنس کالج کے حوالے سے محفوظ معلومات سے ہوا ہے۔
ایکسپریس کو ملنے والی اس معلومات کے مطابق کالج میں اس سال مجموعی طور پر 440 طلبہ کی انٹر سال اول کی پلیسمنٹ لسٹ مرکزی داخلہ کمیٹی کی جانب سے بھجوائی گئی جس میں پری انجینیئرنگ کے 89، پری میڈیکل کے 245 اور نئی شروع کی گئی کمپیوٹر سائنس فیکلٹی میں 106 داخلے دیے گئے کمپیوٹر سائنس کے ان داخلوں میں اے ون گریڈ کے 12، اے گریڈ کے 11، بی گریڈ کے 19، سی گریڈ کے 34 اور ڈی گریڈ کے 26 طلبہ کو داخلے دیے گئے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق بات یہیں آکر نہیں رکی بلکہ گریڈ ای کے بھی 4 طلبہ کو کمپیوٹر سائنس میں داخلے دے دیئے گئے جبکہ قاعدے کے مطابق ای گریڈ کے طالب کو سائنس فیکلٹی میں داخلہ نہیں دیا جاتا۔
"ایکسپریس" نے اس سلسلے میں مرکزی داخلہ پالیسی کو چلانے والے اسسٹنٹ پروفیسر راشد کھوسو سے جب اس سلسلے میں رابطہ کیا تو پہلے تو انھوں نے موقف اختیار کیا کہ "بعض اوقات بچے چالاکی کرتے ہیں غلط مارکس لکھ کر پلیسمنٹ لے لیتے ہیں لیکن مارک شیٹ پر ان کے مارکس کم ہوتے ہیں تاہم جب ان سے پوچھا گیا کہ پلیسمنٹ لسٹ تو میٹرک بورڈ کے حاصل کیے گئے ڈیٹا کی بنیاد پر جاری ہوتی ہے پھر طلبہ ایسی چالاکی کس طرح کرگئے۔
جس پر ان کا کہنا تھا کہ اگر پلیسمنٹ لسٹ سے غلط داخلے دیئے گئے تو کالج انھیں منسوخ کرسکتا ہے کالج نے ایسا کیوں نہیں کیا اگر کمیٹی ایسا کرے گی تو طلبہ کے لیے زیادہ مشکلات ہونگی کالج کے لیے یہ کرنا آسان ہے۔
علاوہ ازیں راشد کھوسو کے اس دعوے کی تصدیق اور کالج انتظامیہ کا مؤقف جاننے کے "ایکسپریس" نے ڈی جے سائنس کالج کے پرنسپل پروفیسر مہر منگی سے رابطہ کیا تاہم وہ رابطے سے گریز کرتے رہے اور میسج کا جواب بھی نہیں دیا۔
یاد رہے کہ 22 سال قبل سن 2000 میں حکومت سندھ کی جانب سے کراچی کے سرکاری کالجوں میں دبائو کو مسترد کرنے اور میرٹ قائم کرنے کے لیے مرکزی داخلہ پالیسی بنائی گئی تھی اور پرنسپلز سے داخلوں کا اختیار مرکزی داخلہ کمیٹی کو منتقل کردیا تھا کیونکہ عموما بڑے اور معروف کالجوں کے پرنسپلز طلبہ تنظیموں، سیاسی جماعتوں اور وزراء کی جانب سے میرٹ کے برعکس داخلوں کے لیے دبائو ڈالنے کی شکایات کیا کرتے تھے اور جن کالجوں میں اے ون گریڈ پر داخلے بند ہوتے تھے وہاں دبائو میں آکر سی اور ڈی گریڈ کے داخلے کرنے پڑتے تھے۔
تاہم اب یہی کام 22 سال بعد ایک لیگل فریم ورک میں مرکزی داخلہ پالیسی کے پلیٹ فارم سے کردیا گیا علاوہ ازیں کیپ کی موجودہ صورتحال اور ڈی جے سائنس کالج سے متعلق معاملے پر سیکریٹری کالجز علیم لاشاری سے بھی رابطے کی کوشش کی گئی تاہم انھوں نے فون ریسیوو نہیں کیا۔