امریکی سازش کا بیانیہ اور عمران خان

عمران خان کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے، لیکن یہ کافی نہیں، وہ اپنا بہت نقصان کر چکے ہیں

msuherwardy@gmail.com

عمران خان نے ایک برطانوی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی سازش کے بیانیہ والی بات پرانی ہو گئی ہے اور وہ اس کو پیچھے چھوڑ چکے ہیں۔انھوں نے کہا ہے کہ جہاں تک میرا تعلق ہے یہ بات ختم ہو گئی ہے،اور اب بہت پیچھے رہ گئی ہے۔

اسی طرح جہاں تک امریکا کی جانب سے پاکستان کو غلام سمجھنے کی بات ہے عمران خان نے کہا ہے اس میں بھی میں امریکا کے بجائے پاکستان کی حکومتوں کو ذمے دار ٹھہراتا ہوں۔ یہ امریکا کا نہیں پاکستان کی حکومتوں کا قصور رہا ہے۔

اسی انٹرویو میں عمران خان نے یہ بھی عندیہ دیا ہے کہ وہ دوبارہ اقتدار میں آکر امریکا کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے کی کوشش کریں گے۔

یہ بات درست ہے کہ عمران خان نے امریکا مخالف بیانیہ سے جتنا فائدہ اٹھاناتھا اٹھا لیا ہے۔ اب وہ اس سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔ انھیں اندازہ ہے کہ یہ بیانیہ اب ان کے لیے مزید فائدہ مند نہیں بلکہ ان کے لیے نقصان دہ ہے۔

اسی لیے ایک طرف جہاں انھوں نے پاکستان کے عوام میں حقیقی آزادی کا بیانیہ چلایا 'وہیں انھوں نے امریکا کی ایک فرم کی خدمات بھی حاصل کیں تا کہ عمران خان اور امریکا کے درمیان بگڑتے تعلقات کو ٹھیک کر سکے۔ اس فرم نے کافی کام کیا ہے۔

عمران خان کی پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے امریکی حکام سے ملاقاتیں کروائی گئیں۔ رابن رافیل کی ملاقات کا بہت چرچا ہوا۔ اس ملاقات سے بھی پہلے انکار کرنے کی کوشش کی گئی لیکن بعد میں ایک مبہم طریقہ سے اقرار کر لیا گیا۔ اسی طرح امریکی سفیر کو خیبرپختونخوا کے دورے کی دعوت دی گئی۔

وہاں وزیر اعلیٰ نے اپنی کرسی پر امریکی سفیر کو بٹھایا۔ ان کو وائسرائے کا پروٹوکول دیا گیا۔ ایک طرف ایک جماعت امریکی سازش کا بیانیہ لے کر چل رہی تھی دوسری طرف امریکی حکام سے چھپ کر ملاقاتیں بھی جاری تھیں ، امریکا سفیر کو اپنی حکومت میں وی آئی پی پروٹوکول بھی دیا جا رہا تھا۔

چند ایمبولینس کا عطیہ وزیر اعلیٰ کے پی نے ایسے وصول کیا جیسے کوئی شاہی کنجی دی جا رہی ہو۔تا ہم اس سب کے وہ اثرات نہیں نکلے جن کی توقعات تھی۔ عمران خان کی شدید کوشش ایک لابی فرم کی خدمات حاصل کرنے اور اس کو ماہانہ فیس ادا کرنے کے باوجود کوئی بڑی سطح کی نہ تو ملاقات ہو سکی اور نہ ہی کوئی بڑا بریک تھرو ہو سکا۔

بلکہ عمران خان نے جتنی بھی کوشش کی اس سب پر ایک سوال مٹی ڈالتا۔ جب امریکی حکام سے پاکستان میں حکومت بدلنے کی سازش کرنے کا سوال کیا جاتا اور انھیں تردید کرنی پڑتی۔

امریکا حکام ایک دفعہ نہیں درجنوں بار اس کی تردید کر چکے ہیں لیکن سوال ان کا پیچھا نہیں چھوڑ رہا۔ اسی لیے امریکی سفارتکار اور امریکی اہلکار ڈیوڈ لو جس پر عمران خان اس سائفر کے حوالے سے الزام لگاتے ہیں انھوں نے ایک انٹرویو میں واضح کیا کہ وہ عمران خان کے حوالے سے کوئی سوال نہیں لیں گے۔ لیکن سوال ان کا پیچھا نہیں چھوڑ رہا تھا۔

میں سمجھتا ہوں عمران خان نے ایک سائفر کی بنیاد پر ایک جھوٹا بیانیہ تو بنا لیا تھا۔ انھوں نے اس حکومت کو امپورٹڈ حکومت تو قرار دے دیا تھا۔ ٹوئٹر پر ٹرینڈ بھی بنا لیا۔ ایک سائفر سے کھیل لیا۔ لیکن عمران خان کو خود بھی اندازہ ہے کہ انھوں نے اپنا بہت نقصان کر لیا ہے۔


سفارتکاری کی دنیا میں عمران خان نے اپنا اعتماد کھو دیا ہے۔ ممالک کے درمیان بہت سے باتیں ہوتی رہتی ہیں۔ ایک دوسرے کو اپنے تحفظات سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ آپ کے سفیر سے بند کمروں میں کھلی بات کی جاتی ہے،لیکن وہ باتیں سیاسی مقاصد اور بیانیہ بنانے کے لیے نہیں ہوتیں۔ اس طرح تو کوئی بھی ہمارے سفیر سے کوئی بات ہی نہیں کرے گا کہ کب کونسی بات کو بیانیہ بنانے کے لیے استعمال کر لیا جائے گا۔

اس لیے عمران خان کا سائفر کو استعمال کرنا ایک خطرناک کھیل تھا۔ انھیں علم تھا کہ سائفر کو پبلک نہیں کیا جا سکے گا۔ انھیں اندازہ تھا کہ اس کو خفیہ رکھنے کی مجبوریوں کی وجہ سے وہ اس کے ساتھ کھیل سکیں گے۔

پاکستان کی اگلی حکومت اور ملک کی اسٹبلشمنٹ چاہتے ہوئے بھی اس سائفر کو پبلک نہیں کر سکیں گے۔ یہ کوئی سفارتی دستاویز نہیں بلکہ ہمارے سفیر کی رائے ہے کہ اس نے ایک ملاقات سے کیا تاثر لیا۔ یہ امریکی حکام کا کوئی باقاعدہ سرکاری پیغام نہیں ہے۔

یہ ایک غیر رسمی گفتگو کی تفصیل ہے۔ اس طرح کے سائفر ہر ملک سے آتے رہتے ہیں اور اسلام آباد میں مقیم سفارتکار بھی بھیجتے رہتے ہیں۔ اس لیے عمران خان کو پہلے دن سے علم تھا کہ وہ ایک محفوظ کھیل کھیل رہے ہیں۔ اس کا انھیں نقصان نہیں ہوگا۔ حقائق سامنے آہی نہیں سکتے۔ اس لیے وہ جو چاہیں بول سکتے ہیں۔

لیکن عمران خان شاید یہ بھول گئے تھے کہ وہ جہاں اقتدار سے نکل رہے ہیں وہاں ان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بھی چانس ہوں۔ کیا یہ سائفر والی گیم ان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہوگی۔ کیا جب وہ اسٹبلشمنٹ سے دوبارہ مدد مانگیں گے تو اسٹبلشمنٹ ان کے اور امریکا کے درمیان تعلقات کو دوبارہ ذہن میں نہیں رکھے گی۔

ان کے ساتھ عالمی سطح پر گفتگو میں اس قدر محتاط رویہ رکھا جائے گا۔ ان کے عالمی اعتماد کا کس قدر نقصان ہو گیا ہے۔ آپ اس کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ عمران خان زخمی ہوئے ہیں اور کتنے سفارتکار انھیں ملنے آئے ہیں۔ ورنہ سفارتکار تو ملتے رہتے ہیں۔ اپنی اپنی حکومتوں کا نیک تمناؤں کا پیغام بھجواتے رہتے ہیں۔ لیکن عمران خان کے ساتھ ایسا نہیں ہوا ہے۔

کسی نے ان کو فون کر کے ان کی خیریت بھی نہیں پوچھی۔ ویسے تو پاکستان کی سیاسی قیادت میں بھی کوئی ان کی خیریت پوچھنے نہیں گیا۔

صرف سراج الحق گئے ہیں۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ انھوں نے کسی سے بھی ایسے تعلقات نہیں رکھے کہ ان سے ان کی خیریت پوچھی جا سکے۔ ان کے اتحادی بھی ان کی خیریت نہیں پوچھنے آئے۔ یہی حال سفارتکاروں کا رہا ہے۔ یہ حال عالمی رہنماؤں کا رہا ہے۔

عمران خان کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے، لیکن یہ کافی نہیں، وہ اپنا بہت نقصان کر چکے ہیں۔ صرف ایک آدھے انٹرویو میں یہ کہنے سے کہ میں نے سازش کا بیانیہ چھوڑ دیا ہے۔ کام نہیں چلے گا۔ صرف یہ کہنے سے کہ اب میں امریکا کے ساتھ اچھے تعلقات رکھوں گا کافی نہیں ہوگا۔ ان آئی ایم ایف کے معاہدوں پر تنقید سے بھی کام نہیں چلے گاجو آپ نے خود کیے ہوئے ہیں۔ کیا کوئی عمران خان سے پوچھے گا کہ اب امریکا کی سازش کا بیانیہ ختم کرنے کی سوچ کے پیچھے کیا حکمت عملی ہے۔

کیونکہ مجھے نہیں لگتا کہ موجودہ حکومت اور آپ کے سیاسی مخالفین اس میں سے آپ کو نکلنے دیں گے۔آپ کو اس میں مزید پھنسایا جائے گا۔ کوشش کی جائے گی کہ آپ اس میں نکل نہ سکیں۔ یہی سیاست ہے۔ آپ ایک جال میں پھنس گئے ہیں۔

آپ نکلنا چاہتے ہیں آپ کے مخالف آپ کو نکلنے نہیں دیں گے۔ ان کا جو نقصان ہونا تھا ہو گیا ہے۔ آپ کو کیوں محفوظ راستہ دیا جائے، یہی سیاست کا کھیل ہے۔ اس میں کبھی جس چیز سے فائدہ ہو رہا ہو تو اسی سے نقصان بھی ہوتا ہے۔
Load Next Story