فلپائن میں مورو لبریشن فرنٹ کے ساتھ امن سمجھوتہ
فلپائنی حکومت نے مورو اسلامک لبریشن فرنٹ کے ساتھ تاریخی امن معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں
دنیا کے بہت سے دیگر ممالک کی طرح فلپائن میں بھی مسلمانوں کی حکومت مخالف تحریک جاری تھی جس کے بارے میں تازہ خبر یہ ملی ہے فلپائنی حکومت نے مورو اسلامک لبریشن فرنٹ کے ساتھ تاریخی امن معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں۔ ایشیائی ممالک میں فلپائن کا تنازعہ خاصا طویل اور انتہائی خون آشام تنازعے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس معاہدے پر جمعرات کو فلپائن کے دارالحکومت منیلا میں دستخط کیے گئے۔ مورو اسلامک لبریشن فرنٹ نے تسلیم کیا ہے کہ وہ اپنے علاقے کی خود مختاری کے مطالبہ کے لیے ہتھیاروں کا استعمال ترک کر دیں گے۔ یہ باغیانہ تحریک چار عشروں سے زیادہ عرصے سے جاری تھی جس میں دسیوں ہزاروں کی تعداد میں ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔ یہ معاہدہ مورو اسلامک لبریشن فرنٹ (ایم آئی ایل ایف) اور صدر بینگنو اکونیو کی حکومت کے مابین ہوا ہے جس پر ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس میں دستخط کیے گئے۔ اجلاس میں ایک ہزار سے زیادہ افراد شریک تھے۔ صدر اکینو نے اپنے خطاب میںکہا کہ اب ملک میں امن و امان قائم ہو جائے گا جب کہ ایم آئی ایل ایف کے سربراہ مراد ابراہیم نے مسلم ہوم لینڈ کا حوالہ دیتے ہوئے معاہدے پر اطمینان ظاہر کیا۔
باور کیا جاتا ہے کہ 2016 تک ملک کے جنوبی علاقے کو خود مختاری دیدی جائے گی۔ فلپائن کی اکثریتی آبادی کیتھولک ہے تاہم اب اس خطے کا دس فیصد رقبہ مسلمانوں کو دیدیا جائے گا جہاں پر اکثریت مسلمانوں کی ہے۔ مسلمانوں کی سرکشی کا آغاز 1970 کے عشرے کے آغاز میں ہوا۔ وہ ملک کے جنوبی جزیروں پر اپنے حق کے دعویدار تھے کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ وہاں تیرھویں صدی عیسوی میں عرب تاجر آئے تھے اور وہی ان کے آباؤ اجداد ہیں۔ بدامنی کی وجہ سے یہ علاقہ سخت غربت و ناداری کا شکار ہو چکا ہے۔ فلپائنی فوج کا اندازہ ہے کہ ایم آئی ایل ایف کے پاس' جنگجوؤں کی تعداد دس ہزار سے زائد ہے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جنوبی علاقے میں سیکولر طرز کی حکومت قائم کی جائے گی اور اسلامی ریاست قائم نہیں ہو گی جب کہ دفاع' خارجہ امور کرنسی اور شہریت کے شعبے بدستور مرکزی حکومت کے پاس رہیں گے۔ اس سمجھوتے پر جہاں عمومی طور پر مسرت اور اطمینان کا اظہار کیا جا رہا ہے وہاں بعض حلقوں کے مطابق یہ بہت نازک معاملہ ہے جس کے ہلکی سی ٹھیس سے ٹوٹنے کا خدشہ بے جا نہیں ہے۔ بہر حال فلپائن کی حکومت اور مورو اسلامک لبریشن فرنٹ نے دانشمندی کا ثبوت دیا جس کے نتیجے میں امن قائم ہونے کی امید پیدا ہو گئی ہے۔ پاکستان میں بھی جنگجو گروپوں کو فلپائن کے مسلمانوں کی تقلید کرتے ہوئے آئین و ضابطے کو تسلیم کرنا چاہیے تا کہ یہاں بھی امن قائم ہو سکے۔
باور کیا جاتا ہے کہ 2016 تک ملک کے جنوبی علاقے کو خود مختاری دیدی جائے گی۔ فلپائن کی اکثریتی آبادی کیتھولک ہے تاہم اب اس خطے کا دس فیصد رقبہ مسلمانوں کو دیدیا جائے گا جہاں پر اکثریت مسلمانوں کی ہے۔ مسلمانوں کی سرکشی کا آغاز 1970 کے عشرے کے آغاز میں ہوا۔ وہ ملک کے جنوبی جزیروں پر اپنے حق کے دعویدار تھے کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ وہاں تیرھویں صدی عیسوی میں عرب تاجر آئے تھے اور وہی ان کے آباؤ اجداد ہیں۔ بدامنی کی وجہ سے یہ علاقہ سخت غربت و ناداری کا شکار ہو چکا ہے۔ فلپائنی فوج کا اندازہ ہے کہ ایم آئی ایل ایف کے پاس' جنگجوؤں کی تعداد دس ہزار سے زائد ہے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جنوبی علاقے میں سیکولر طرز کی حکومت قائم کی جائے گی اور اسلامی ریاست قائم نہیں ہو گی جب کہ دفاع' خارجہ امور کرنسی اور شہریت کے شعبے بدستور مرکزی حکومت کے پاس رہیں گے۔ اس سمجھوتے پر جہاں عمومی طور پر مسرت اور اطمینان کا اظہار کیا جا رہا ہے وہاں بعض حلقوں کے مطابق یہ بہت نازک معاملہ ہے جس کے ہلکی سی ٹھیس سے ٹوٹنے کا خدشہ بے جا نہیں ہے۔ بہر حال فلپائن کی حکومت اور مورو اسلامک لبریشن فرنٹ نے دانشمندی کا ثبوت دیا جس کے نتیجے میں امن قائم ہونے کی امید پیدا ہو گئی ہے۔ پاکستان میں بھی جنگجو گروپوں کو فلپائن کے مسلمانوں کی تقلید کرتے ہوئے آئین و ضابطے کو تسلیم کرنا چاہیے تا کہ یہاں بھی امن قائم ہو سکے۔