بیش قیمت دوست اور بیش قیمت زیورات
شاہ صاحب نے صحافت میں بے پناہ مشقت کر کے یہ مقام حاصل کیا ہے، انھوں نے جڑواں شہروں کے فاصلے پیدل بھی طے کیے
میں نے اگر اپنی بدتمیزی کی وجہ سے ایک بڑا سرکاری سول ایوارڈ لینے سے معذرت کر دی تھی جس کے بعد ہمارے دوست سعد اللہ جان برقؔ نے بھی یہی کیا فرق صرف اتنا کہ انھوں نے ایوارڈ لے کر واپس کر دیا میں نے سرے سے لینے سے ہی معذرت کر دی لیکن ہماری ان ذاتی نوعیت کی حرکتوں کو الگ رکھ کر اگر کوئی دوست اپنی قومی خدمات کے اعتراف میں کوئی ایوارڈ وصول کرتا ہے تو مجھے خوشی ہوتی ہے البتہ بعض اوقات یہ گلہ کرتا ہوں کہ ہمارے کسی دوست کے لیے اس سے بڑا ایوارڈ زیادہ موزوں تھا لیکن یہ ذاتی سا معاملہ ہے حکومت کا متعلقہ محکمہ کسی کو دیکھ بھال کر اور اہل الرائے سے مشورہ کر کے جو فیصلہ کرتا ہے وہی زیادہ موزوں ہوتا ہے۔ ہمارے پرانے دوست ہم سفر اور ایک زبردست کالم نگار جناب سیّد سعود ساحر کو حسن کارکردگی کا ایوارڈ دیا گیا۔ سعود اور اس کے دوستوں کو مبارک باد اور ہمیں خوشی کہ ایک حقدار اور خوبصورت شخصیت کی خدمات کا اعتراف کیا گیا ہے۔
شاہ صاحب نے صحافت میں بے پناہ مشقت کر کے یہ مقام حاصل کیا ہے۔ انھوں نے راولپنڈی اور اسلام آباد کے جڑواں شہروں کے فاصلے پیدل بھی طے کیے اور انواع و اقسام کے ایڈیٹروں کو بھگتا بھی۔ ہمارے جیسے لوگوں نے تو ان کے مقابلے میں بڑے مزے مزے سے صحافت کے یہ فاصلے طے کیے الحمد للہ حالات بدل چکے ہیں اور عمر کے اس حصے میں شاہ صاحب جڑواں شہروں کو مشینی سواریوں سے طے کرتے ہیں۔ انھوں نے بالآخر گھر بھی بنا لیا ہے ان کے بیٹے ماشاء اللہ اب بڑے عہدوں پر ہیں۔ اس گھر میں کچھ وقت قیام کی میری پرانی خواہش ہے۔ اس کی دعوت مسلسل ملتی رہتی ہے۔ صحافتی زندگی میں شاہ صاحب کی گھن گرج جاری ہے بے باکانہ حق گوئی اور حق نویسی ان کا امتیازی شعار ہے عمر بھر کی مشقت اور جسمانی ناآسودگی کے اثرات اب کچھ ظاہر ہوتے ہیں لیکن وہ برسرعمل ہیں وہی پرانے سیّد سعود ساحر اپنے تمامتر امتیازات اور تمغوں کے ساتھ۔ مجھے خوشی ہے کہ میرے کرمفرماؤں میں سے کسی کو تو جائز تمغہ ملا ہے اور میں اطمینان اور اعتماد کے ساتھ اس کا ذکر کر رہا ہوں کیونکہ میں شاہ صاحب کے حسن کارکردگی کا عینی شاہد ہوں۔
جناب آصف علی زرداری صاحب جیسے رئیس کو کیا پڑی تھی کہ انھوں نے اپنی مرحومہ بیگم بے نظیر بھٹو شہید کے وہ زیورات واپس طلب کر لیے ہیں جو سوئٹزر لینڈ کے کسی بینک میں محفوظ پڑے تھے۔ ان زیورات میں ایک تو مشہور و معروف ہیروں کا ہار ہے اور دوسرے بھی اسی قیمتی قبیلے کے زیورات ہیں۔ یہ بہت ہی ذاتی قسم کا معاملہ ہے ہم تو ان دونوں میاں بیوی کے اس غیر ملکی سرمائے سے بہت خوش تھے کہ ہو سکتا ہے کسی دن یہ سب ان کی اصل حقدار پاکستانی قوم کو بھی مل جائیں گے۔ کسی زمانے میں الجزائر کے حکمرانوں نے بھی سوئٹزر لینڈ کے بینکوں میں مال جمع کر رکھا تھا جب وہاں کامیاب انقلاب آ گیا تو انقلابی حکومت نے ان بینکوں سے اپنا یہ قومی سرمایہ واپس طلب کیا جو اسے واپس مل گیا مگر ہمارے ہاں تو اس سرمائے کے وارث ماشاء اللہ موجود ہیں جنہوں نے اپنی وراثت کا حق جتا دیا ہے۔
سندھ کی بھٹو فیملی اس صوبے کے بڑے جاگیرداروں میں شامل نہیں ہے جن کی جاگیروں اور جائیدادوں کی کوئی حد نہیں ہے۔ یہ ایک کھاتا پیتا باعزت خاندان ہے۔ ہمارے بھٹو صاحب کے والد ایک دیسی ریاست کے وزیر اعظم تھے اور انھیں سر کا خطاب بھی ملا ہوا تھا خود ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی ذہانت اور سیاسی کارکردگی سے دنیا میں نام بنایا اور عالمی لیڈروں میں شمار ہونے لگے وہ پورے پاکستان کے وزیر اعظم تھے جسے انھوں نے نصف کرنے میں بھی اپنا کردار ادا کیا جب وہ پورے پاکستان کے وزیر اعظم تھے تو دنیا کی بڑی طاقتوں اور مسلمان ملکوں میں ان کا بڑا نام تھا اسی دوران پاکستان کے شمالی علاقوں میں زلزلہ آیا تو انھیں بڑی امداد ملی خصوصاً مسلمان ملکوں سے لیبیا کے صدر معمر قذافی نے ان کو بھاری بھر کم رقم کا چیک دیا ان دنوں بتایا گیا کہ یہ پاکستان نہیں بھٹو صاحب کے نام کا تھا۔ وہ وزیر اعظم تھے اور یوں گویا پاکستان تھے اس لیے یہ چیک کس کے نام تھا بات آئی گئی ہو گئی۔ بھٹو صاحب چلے گئے اور ان کا جتنا سرمایہ تھا وہ ان کے خاندان کے پاس چلا گیا۔ ان دنوں بیگم بھٹو فرانس بلکہ دنیا کے مہنگے ترین علاقے 'کان' میں قیام پذیر تھیں جہاں عالمی فلمی میلہ لگا کرتا ہے۔ پیرس میں ان کے دونوں بیٹوں نے فلیٹ خریدے تھے۔ انھی دنوں بھٹو فیملی کے باہمی اختلاف کی خبریں بھی آنی شروع ہوئیں جو خاندانی سرمائے کے بارے میں تھیں۔ بھٹو صاحب کا بیٹا شاہنواز اسی خاندانی اختلاف کی نذر ہو گیا۔ دوسرا بیٹا بھی کراچی کی عام سڑک پر قتل کر دیا گیا اور ان کی قابل فخر بیٹی کی شہادت کے بارے میں بھی مشکوک اطلاعات ہیں بہر کیف جو تنازعہ بھٹو صاحب کے متروکہ مال سے شروع ہوا تھا وہ ان کے خاندان پر بہت ہی بھاری ثابت ہوا۔ ان دنوں پاکستانیوں کو ایک دلچسپ فلمی ڈائیلاگ یاد آتا رہا جب علاؤ الدین بیوی سے پوچھتا ہے کہ کہاں سے آئے یہ جُھمکے کس نے پہنائے یہ جُھمکے کیوں پہنائے یہ جُھمکے۔
بھٹو خاندان کے بارے میں جب بھی ناگوار خبریں ملیں مجھے بہت دکھ ہوا کیونکہ بھٹو صاحب میرے مہربان تھے وہ جب اقتدار میں آئے تو انھوں نے بڑی عجلت میں کوئی نو ملکوں کے دورے کیے۔ صبح کہیں دوپہر کہیں اور رات کہیں۔ میں اپنے اخبار کی طرف سے اس یاد گار دورے میں شامل تھا۔ بھٹو صاحب سے آمنا سامنا ہوتا رہتا تھا۔ کالے رنگ کی ایک صندوقچی ہر وقت اٹھائے ہوئے ان کا خاص ملازم نور محمد عرف نورا جو ہر وقت ان کے آس پاس رہتا تھا اسے بھٹو صاحب نے ہدایت کی تھی کہ وہ میرا خیال رکھے۔ یاد نہیں کہاں کہاں سے جب مصر پہنچے تو ایک بار قصر عابدین میں بھٹو صاحب سے سامنا ہو گیا انھوں نے کمال شفقت سے کہا کہ تکلیف کی معافی۔ جناب کھر صاحب کی زبانی واپس آنے کے بعد انھوں نے کھر صاحب سے کہا کہ یہ لڑکا ٹھیک ہے مگر غلط راستے پر۔ آج اس دنیا میں بس ایک بیش قیمت ہار ہے اور چند دوسرے زیورات باقی ہیں اور سب کچھ جا چکا ہے
یہ مال و دولت دنیا یہ رشتہ و پیوند
بتان وہم و گماں لا الہ الا اللہ
شاہ صاحب نے صحافت میں بے پناہ مشقت کر کے یہ مقام حاصل کیا ہے۔ انھوں نے راولپنڈی اور اسلام آباد کے جڑواں شہروں کے فاصلے پیدل بھی طے کیے اور انواع و اقسام کے ایڈیٹروں کو بھگتا بھی۔ ہمارے جیسے لوگوں نے تو ان کے مقابلے میں بڑے مزے مزے سے صحافت کے یہ فاصلے طے کیے الحمد للہ حالات بدل چکے ہیں اور عمر کے اس حصے میں شاہ صاحب جڑواں شہروں کو مشینی سواریوں سے طے کرتے ہیں۔ انھوں نے بالآخر گھر بھی بنا لیا ہے ان کے بیٹے ماشاء اللہ اب بڑے عہدوں پر ہیں۔ اس گھر میں کچھ وقت قیام کی میری پرانی خواہش ہے۔ اس کی دعوت مسلسل ملتی رہتی ہے۔ صحافتی زندگی میں شاہ صاحب کی گھن گرج جاری ہے بے باکانہ حق گوئی اور حق نویسی ان کا امتیازی شعار ہے عمر بھر کی مشقت اور جسمانی ناآسودگی کے اثرات اب کچھ ظاہر ہوتے ہیں لیکن وہ برسرعمل ہیں وہی پرانے سیّد سعود ساحر اپنے تمامتر امتیازات اور تمغوں کے ساتھ۔ مجھے خوشی ہے کہ میرے کرمفرماؤں میں سے کسی کو تو جائز تمغہ ملا ہے اور میں اطمینان اور اعتماد کے ساتھ اس کا ذکر کر رہا ہوں کیونکہ میں شاہ صاحب کے حسن کارکردگی کا عینی شاہد ہوں۔
جناب آصف علی زرداری صاحب جیسے رئیس کو کیا پڑی تھی کہ انھوں نے اپنی مرحومہ بیگم بے نظیر بھٹو شہید کے وہ زیورات واپس طلب کر لیے ہیں جو سوئٹزر لینڈ کے کسی بینک میں محفوظ پڑے تھے۔ ان زیورات میں ایک تو مشہور و معروف ہیروں کا ہار ہے اور دوسرے بھی اسی قیمتی قبیلے کے زیورات ہیں۔ یہ بہت ہی ذاتی قسم کا معاملہ ہے ہم تو ان دونوں میاں بیوی کے اس غیر ملکی سرمائے سے بہت خوش تھے کہ ہو سکتا ہے کسی دن یہ سب ان کی اصل حقدار پاکستانی قوم کو بھی مل جائیں گے۔ کسی زمانے میں الجزائر کے حکمرانوں نے بھی سوئٹزر لینڈ کے بینکوں میں مال جمع کر رکھا تھا جب وہاں کامیاب انقلاب آ گیا تو انقلابی حکومت نے ان بینکوں سے اپنا یہ قومی سرمایہ واپس طلب کیا جو اسے واپس مل گیا مگر ہمارے ہاں تو اس سرمائے کے وارث ماشاء اللہ موجود ہیں جنہوں نے اپنی وراثت کا حق جتا دیا ہے۔
سندھ کی بھٹو فیملی اس صوبے کے بڑے جاگیرداروں میں شامل نہیں ہے جن کی جاگیروں اور جائیدادوں کی کوئی حد نہیں ہے۔ یہ ایک کھاتا پیتا باعزت خاندان ہے۔ ہمارے بھٹو صاحب کے والد ایک دیسی ریاست کے وزیر اعظم تھے اور انھیں سر کا خطاب بھی ملا ہوا تھا خود ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی ذہانت اور سیاسی کارکردگی سے دنیا میں نام بنایا اور عالمی لیڈروں میں شمار ہونے لگے وہ پورے پاکستان کے وزیر اعظم تھے جسے انھوں نے نصف کرنے میں بھی اپنا کردار ادا کیا جب وہ پورے پاکستان کے وزیر اعظم تھے تو دنیا کی بڑی طاقتوں اور مسلمان ملکوں میں ان کا بڑا نام تھا اسی دوران پاکستان کے شمالی علاقوں میں زلزلہ آیا تو انھیں بڑی امداد ملی خصوصاً مسلمان ملکوں سے لیبیا کے صدر معمر قذافی نے ان کو بھاری بھر کم رقم کا چیک دیا ان دنوں بتایا گیا کہ یہ پاکستان نہیں بھٹو صاحب کے نام کا تھا۔ وہ وزیر اعظم تھے اور یوں گویا پاکستان تھے اس لیے یہ چیک کس کے نام تھا بات آئی گئی ہو گئی۔ بھٹو صاحب چلے گئے اور ان کا جتنا سرمایہ تھا وہ ان کے خاندان کے پاس چلا گیا۔ ان دنوں بیگم بھٹو فرانس بلکہ دنیا کے مہنگے ترین علاقے 'کان' میں قیام پذیر تھیں جہاں عالمی فلمی میلہ لگا کرتا ہے۔ پیرس میں ان کے دونوں بیٹوں نے فلیٹ خریدے تھے۔ انھی دنوں بھٹو فیملی کے باہمی اختلاف کی خبریں بھی آنی شروع ہوئیں جو خاندانی سرمائے کے بارے میں تھیں۔ بھٹو صاحب کا بیٹا شاہنواز اسی خاندانی اختلاف کی نذر ہو گیا۔ دوسرا بیٹا بھی کراچی کی عام سڑک پر قتل کر دیا گیا اور ان کی قابل فخر بیٹی کی شہادت کے بارے میں بھی مشکوک اطلاعات ہیں بہر کیف جو تنازعہ بھٹو صاحب کے متروکہ مال سے شروع ہوا تھا وہ ان کے خاندان پر بہت ہی بھاری ثابت ہوا۔ ان دنوں پاکستانیوں کو ایک دلچسپ فلمی ڈائیلاگ یاد آتا رہا جب علاؤ الدین بیوی سے پوچھتا ہے کہ کہاں سے آئے یہ جُھمکے کس نے پہنائے یہ جُھمکے کیوں پہنائے یہ جُھمکے۔
بھٹو خاندان کے بارے میں جب بھی ناگوار خبریں ملیں مجھے بہت دکھ ہوا کیونکہ بھٹو صاحب میرے مہربان تھے وہ جب اقتدار میں آئے تو انھوں نے بڑی عجلت میں کوئی نو ملکوں کے دورے کیے۔ صبح کہیں دوپہر کہیں اور رات کہیں۔ میں اپنے اخبار کی طرف سے اس یاد گار دورے میں شامل تھا۔ بھٹو صاحب سے آمنا سامنا ہوتا رہتا تھا۔ کالے رنگ کی ایک صندوقچی ہر وقت اٹھائے ہوئے ان کا خاص ملازم نور محمد عرف نورا جو ہر وقت ان کے آس پاس رہتا تھا اسے بھٹو صاحب نے ہدایت کی تھی کہ وہ میرا خیال رکھے۔ یاد نہیں کہاں کہاں سے جب مصر پہنچے تو ایک بار قصر عابدین میں بھٹو صاحب سے سامنا ہو گیا انھوں نے کمال شفقت سے کہا کہ تکلیف کی معافی۔ جناب کھر صاحب کی زبانی واپس آنے کے بعد انھوں نے کھر صاحب سے کہا کہ یہ لڑکا ٹھیک ہے مگر غلط راستے پر۔ آج اس دنیا میں بس ایک بیش قیمت ہار ہے اور چند دوسرے زیورات باقی ہیں اور سب کچھ جا چکا ہے
یہ مال و دولت دنیا یہ رشتہ و پیوند
بتان وہم و گماں لا الہ الا اللہ