بے بس دریا
دریائے سندھ ہمارے ملک کی شاہ رگ ہے۔ تبت سے نکلتا ہوا، زندگی کی یہ علامت، لداخ اور گلگت سے ہوتا ہوا ۔۔۔
گزشتہ پانچ دن نذرِ سفر ہو چکے۔ کراچی، حیدر آباد اور کچھ اندرون سندھ کے گاؤں۔ بے تحاشہ بریفنگز اور سرکاری اعداد و شمار۔ اب تو یہ بھی یاد نہیں رہا کہ کس نے کس ملاقات میں کیا کہا۔ تمام باتیں ایک سی اور نتیجہ نا معلوم بلکہ غیر یقینی۔ لاہور میں بیٹھ کر ہم سندھ کی نفسیات جاننے کی اپنی سی کوشش کرتے ہیں۔ میری دانست میں سندھ اور پنجاب کے مزاج میں جوہری فرق ہے۔ میں یہ سطحی تقابلی تناظر میں عرض نہیں کر رہا بلکہ یہ فرق، ہر طریقے اور ہر گمان کا ہے۔ سندھ کو بھی دو حصوں میں رکھیں تو بات زیادہ توازن سے ہو سکتی ہے۔ کراچی پاکستان کا واحد شہر ہے جو حقیقت میں میٹرو پولٹین کی تعریف پر پورا بیٹھتا ہے۔ پر فی الحال ذکر سندھ کے مزاج کا۔ سندھ کے مزاج کا خاصہ، اس کا دھیما پن ہے۔ یہ بہت مثبت بات ہے۔ سندھی زبان کی لوچ اور اس کا میٹھا پن یہاں کے لوگوں کی فطرت کا حصہ بن چکا ہے۔ روایتی مہمان نوازی اور شائستگی آپ کو ہر جانب نظر آئے گی۔ بہرحال اندرون سندھ اور کراچی جدا گانہ حیثیت کے حامل ہیں۔ دیہی علاقے اپنی شناخت کافی حد تک کراچی میں لا چکے ہیں۔ مزاج میں عاجزی کی ایک بہت واضح لکیر ہے۔ شائد صوفیاء کی سرزمین میں کوئی خاص جادو ہے جو پاکستان کے کسی اور حصہ میں نہیں۔ مزاج سے باہر نکل کر اب ذرا سرکار کی نوکری کی طرف آئیے۔ بے شک، صورتحال قطعاً مثالی نہیں۔ مختلف داستانیں، ہر جگہ گردش میں ہیں۔ لیکن کیا دوسرے تمام صوبوں میں سرکار کی نوکری میرٹ پر ہے جو یہاں ہر عیب ڈھونڈنے کی کوشش کی جائے؟ اپنے تجزیہ اور تجربہ کی بنیاد پر عرض کروں کہ سندھ میں افسر شاہی جبری دباؤ کا قطعاً شکار نہیں۔ میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ افسروں کے ساتھ بدتمیزی اور تو، تڑاک کا کلچر یہاں موجود نہیں ہے۔ سیاسی قیادت افسروں کے ساتھ فرعونیت کا سلوک روا نہیں رکھتی۔ یہ کلچر مجھے عجیب سا لگا کہ سیاستدان افسروں کی توقیر کرتے ہیں اور انھیں بے عزت کر کے خوش نہیں ہوتے ۔ دوسروں کو قصے نہیں سناتے کہ آج ہم نے فلاں افسر کو بلا کر ذلیل کروایا یا کیا!
کراچی کی نفسیات بقیہ پاکستان سے مکمل مختلف ہیں۔ پہلی بات یہ کہ بندر گاہ شہر کے مزاج کو مکمل تبدیل کر دیتی ہے۔ جس شہر کا رابطہ بیرونی دنیا سے بندر گاہ کے توسط سے ہو گا وہ آپ کو ہر شہر سے مختلف نظر آئے گا۔ غیر ملکی لوگ اور مختلف طرح کی تہذیب سے براہ راست رابطہ وہ تجربہ ہے جو شہر کے مزاج میں اعتدال اور میانہ روی لاتا ہے۔ اسی طرح بین الاقوامی فضائی رابطے سب سے زیادہ کراچی کے ایئر پورٹ سے ہی رواں دواں ہیں۔ اس کا اثر بھی لوگوں کے مزاج میں شدت پسندی اور جذباتیت کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوا ہے۔ میں کراچی کا وکیل نہیں ہوں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ شہر مذہبی شدت پسندی کو خود اپنی قوت سے کم کر سکتا ہے۔ پاکستان کے کسی اور شہر میں یہ عنصر موجود نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی ہو یا ایم کیو ایم دونوں ذہنی طور پر لبرل جماعتیں ہیں اور حقیقت میں اس خطے کی مٹی کی چاشنی کی نمایندگی کرتیں ہیں۔ مگر صاحبان! غلطیاں اور پہاڑ جیسی غلطیاں جن سے بڑے سہل طریقے سے بچا جا سکتا تھا۔
کراچی اور اندرون سندھ کی سڑکیں بہت بہتری کی طالب ہیں۔ کراچی سے حیدر آباد تک سپر ہائی وے صرف نام کی سپر ہائی وے ہے۔ سڑک پر گڑھے، نا ہموار پیج ورک اور ٹوٹے ہوئے کنارے کسی بھی مسافر کے لیے آسانی پیدا نہیں کر رہے۔ جس ڈرائیور کے ساتھ یہ سفر طے کیا وہ کراچی سے لاہور اور دیگر شہروں میں اکثر جاتا رہتا ہے۔ بقول اس کے جیسے ہی پنجاب کی حدود شروع ہوتی ہیں، سڑکوں کے حالات بہت بہتر ہو جاتے ہیں۔ بلکہ اس کے بقول صادق آباد سے سڑکیں وی۔ آئی۔ پی ہو جاتی ہیں۔ حیدرآباد سے جام شورو کی سڑک بھی ابتری کا شکار ہے۔ ان سڑکوں کو کیوں نظر انداز کیا گیا، وجہ قطعاً فہم سے باہر! حیدر آباد تو جاتے ہوئے میں نہ دیکھ سکا مگر کراچی واپسی پر ہائی وے پولیس کی کئی عمارتوں پر نظر پڑی۔ رک کر بھی دیکھا۔ تینوں عمارتیں مکمل بند تھیں۔ بلکہ مجھے ایسے محسوس ہوا کہ عرصہ دراز سے انھیں استعمال نہیں کیا گیا۔ یہ سرکاری وسائل کا ضیاع معلوم ہوتا ہے۔ انسانی استعمال کے لیے پانی کی فراہمی ایک سنجیدہ سوال ہے۔ میں نے ہر جگہ محسوس کیا کہ استعمال کے لیے پانی کافی حد تک کم ہو چکا ہے۔ پانی کا قابل استعمال ہونا بھی بہت اہم پہلو ہے۔ اکثر مواقعے پر پینے کا پانی حقیقت میں انسانوں کے لیے قابل استعمال نہیں۔ زراعت کے لیے دریائی یا نہری پانی کی مسلسل اور بے تکان فراہمی ایک خواب ہے۔
جام شورو اور حیدر آباد کے کئی علاقوں میں شاہنواز بھٹو اور ان کے خاندان کی تصاویر سڑکوں پر دیکھی جا سکتیں ہیں۔ اس طرح قوم پرست پارٹیوں کے جھنڈے اور ان کے قائدین کی کافی تصاویر موجود ہیں۔ حیدر آباد اور ارد گرد کے علاقوں میں آپ قوم پرستوں کی موجودگی نظر انداز نہیں کر سکتے۔ یہ بحث بالکل الگ ہے کہ ان عناسر کا سیاسی اثر کتنا ہے۔ مگر کسی تعصب کے بغیر ان عناصر پر نظر دوڑائی جائے تو مجھے ان کا اثر کافی حد تک مستحکم نظر آ رہا ہے۔ ایک چیز جو تقریباً نئی ہے مگر اس پر ٹھنڈے دل سے تدبر نظر نہیں آتا۔ قوم پرستوں کا گلہ ہے کہ ان کے ساتھ اَن دیکھے ہاتھ وہی سلوک کر رہے ہیں جو بلوچستان میں روا ہے۔ کئی متحرک قوم پرستوں کو اغوا کیا گیا ہے اور اس کے بعد ان کی مسخ شدہ نعشیں اندرون سندھ کے بیابان علاقوں سے برآمد ہو رہی ہیں۔ اگر یہ صورتحال بغیر کسی تعطل کے جاری رہی تو یہ لاوا کسی بھی وقت بہت بڑا مسئلہ بننے کی استطاعت رکھتا ہے۔ جتنی جلدی ہو اسکو فکر اور تدبیر سے حل کرنا چاہیے۔
دریائے سندھ ہمارے ملک کی شاہ رگ ہے۔ تبت سے نکلتا ہوا، زندگی کی یہ علامت، لداخ اور گلگت سے ہوتا ہوا ہمارے پورے ملک کو سیراب کرتا ہوا کراچی پہنچتا ہے۔ یہاں یہ ڈیلٹا کی صورت اختیار کرتا ہوا سمندر میں ختم ہو جاتا ہے۔ پانی کا یہ مسافر1980 میل کا سفر طے کرتا ہے۔ بہاؤ کے لحاظ سے یہ دنیا کا اکیسواں بڑا دریا ہے۔ اس عظیم دریا کا نام سنسکرت سے ماخوذ ہے اور اس نام پر یونانی زبان کا بھر پور اثر بھی موجود ہے۔ اس کا ذکر ہندو مذہب کی پرانی کتابوں جیسے ویدک رگ وید میں موجود ہے۔ اس کا ذکر مختلف انداز میں 510 ق م سے بھی موجود ہے جب پرشیا کے بادشاہ داریز نے اس خطے کے لیے سکالکس کو روانہ کیا تھا۔ رگ وید میں برصغیر کے تمام دریاؤں کا ذکر صیغہ "مونث میں کیا گیا ہے مگر دریائے سندھ واحد دریا ہے جس کے لیے''مذکر'' کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔ یہ عظیم دریا ہڑپہ اور موہنجوداڑو کی ہزاروں سال قدیم تہذیبوں کا امین ہے۔انڈس ویلی کی تہذیب 3300 قبل مسیح سے شروع ہوتی ہے۔ ایک اندازہ کے مطابق ہمارے پاس900 کے قریب ایسے مقامات ہیں جو اس پرانی تہذیب کو اجاگر کرتے ہیں۔ آج تک ہم صرف 96 جگہوں کو دنیا کے سامنے لا سکے ہیں۔ ان مقامات کی اکثریت غیر ملکی ماہرین کی محنت کی بدولت ہمارے سامنے آئے ہیں۔ انڈیا کا لفظ بھی''انڈس''سے ماخوذ ہے۔
سکندر اعظم کے زمانے میں اس دریا کے ارد گرد گھنے جنگل بتائے جاتے ہیں۔ اسی طرح "بابر نامہ" میں بھی ان جنگلات کا مفصل ذکر ہے۔ بلکہ کئی جانور جو اب نا پید ہو چکے ہیں ان کا تفصیلاً ذکر موجود ہے۔ آپ ہمارے زمانے کی بات کیجیے۔ ''انڈس واٹر ٹریٹی'' کی بدولت دریائے سندھ کے تین دریا پاکستان اور تین ہی دریا انڈیا کے کنٹرول میں دیے گئے۔ یہ معاہدہ اب کتنی افادیت کا ہے، یہ ایک طویل بحث ہے۔ کیا اب اس معاہدہ کو سرکاری سطح پر دوبارہ کھولنے کی ضرورت ہے یہ بھی صرف اور صرف فنی ماہرین کا کام ہے۔ ہزاروں سال کی تاریخ میں دریائے سندھ کا پانی پہلی بار دو ملکوں میں تقسیم کیا گیا۔ پانی کی اس تقسیم سے پیدا ہونے والی روز بروز پیچیدہ صورت حال اب ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
انڈس ڈیلٹا بہت تیزی سے سکڑ رہا ہے۔ اس میں موجود ''مین گروو'' جنگل اب ابتلاء کا شکار ہیں۔ دریائے سندھ کا پانی ان کو زندہ رکھتا ہے۔ جو کافی حد تک کم ہو چکا ہے۔1980تک یہ جنگل چھ لاکھ ہیکٹر تھا جو اب کم ہو کر تقریباً ڈیڑھ سے دو لاکھ ہیکٹر رہ گیا ہے۔ اس وجہ سے سمندر کا پانی اب ہمارے نایاب زرعی علاقوں کو برباد کر رہا ہے۔ یہ صورت حال شدید تشویش ناک بات ہے۔ عظیم دریا، جسکا ذکر ہزاروں سال پرانی کتابوں میں رعب اور ہیبت کا نشان تھا، اب کوٹری بیراج پر آ کر دم توڑ دیتا ہے۔ کوٹری سے سمندر تک کا علاقہ 160 میل کا ہے، جواب بالکل خشک ہو چکا ہے۔ اس میں دھول اڑتی ہے۔ کوٹری بیراج سے پانی صرف سیلاب کی صورت میں چھوڑا جاتا ہے۔ کوٹری سے آگے کی دیہی آبادی کا کیا حال ہے، اس کا اندازہ صرف آپ وہاں جا کر لگا سکتے ہیں۔ ان کی بدحالی اور شگستگی صاف نظر آتی ہے! وہ دریا جو کبھی عظمت، قوت، رعب اور دبدبہ کا نشان تھا، اب کوٹری پر آکر بالکل لاغر دکھائی دیتا ہے! ہم نے برسوں سے اپنے ملک کے لوگوں کو ظلم کا طوق پہنا کر ذہنی اور اقتصادی طور پر مفلوج کر رکھا ہے۔ مگر اب تو ہم نے اس عظیم دریا کو بھی سرنگوں کر دیا ہے! ہمارے جبر کے سامنے دریائے سندھ بھی بالکل بے حال ہے! بے زبان اور بے بس دریا!
کراچی کی نفسیات بقیہ پاکستان سے مکمل مختلف ہیں۔ پہلی بات یہ کہ بندر گاہ شہر کے مزاج کو مکمل تبدیل کر دیتی ہے۔ جس شہر کا رابطہ بیرونی دنیا سے بندر گاہ کے توسط سے ہو گا وہ آپ کو ہر شہر سے مختلف نظر آئے گا۔ غیر ملکی لوگ اور مختلف طرح کی تہذیب سے براہ راست رابطہ وہ تجربہ ہے جو شہر کے مزاج میں اعتدال اور میانہ روی لاتا ہے۔ اسی طرح بین الاقوامی فضائی رابطے سب سے زیادہ کراچی کے ایئر پورٹ سے ہی رواں دواں ہیں۔ اس کا اثر بھی لوگوں کے مزاج میں شدت پسندی اور جذباتیت کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوا ہے۔ میں کراچی کا وکیل نہیں ہوں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ شہر مذہبی شدت پسندی کو خود اپنی قوت سے کم کر سکتا ہے۔ پاکستان کے کسی اور شہر میں یہ عنصر موجود نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی ہو یا ایم کیو ایم دونوں ذہنی طور پر لبرل جماعتیں ہیں اور حقیقت میں اس خطے کی مٹی کی چاشنی کی نمایندگی کرتیں ہیں۔ مگر صاحبان! غلطیاں اور پہاڑ جیسی غلطیاں جن سے بڑے سہل طریقے سے بچا جا سکتا تھا۔
کراچی اور اندرون سندھ کی سڑکیں بہت بہتری کی طالب ہیں۔ کراچی سے حیدر آباد تک سپر ہائی وے صرف نام کی سپر ہائی وے ہے۔ سڑک پر گڑھے، نا ہموار پیج ورک اور ٹوٹے ہوئے کنارے کسی بھی مسافر کے لیے آسانی پیدا نہیں کر رہے۔ جس ڈرائیور کے ساتھ یہ سفر طے کیا وہ کراچی سے لاہور اور دیگر شہروں میں اکثر جاتا رہتا ہے۔ بقول اس کے جیسے ہی پنجاب کی حدود شروع ہوتی ہیں، سڑکوں کے حالات بہت بہتر ہو جاتے ہیں۔ بلکہ اس کے بقول صادق آباد سے سڑکیں وی۔ آئی۔ پی ہو جاتی ہیں۔ حیدرآباد سے جام شورو کی سڑک بھی ابتری کا شکار ہے۔ ان سڑکوں کو کیوں نظر انداز کیا گیا، وجہ قطعاً فہم سے باہر! حیدر آباد تو جاتے ہوئے میں نہ دیکھ سکا مگر کراچی واپسی پر ہائی وے پولیس کی کئی عمارتوں پر نظر پڑی۔ رک کر بھی دیکھا۔ تینوں عمارتیں مکمل بند تھیں۔ بلکہ مجھے ایسے محسوس ہوا کہ عرصہ دراز سے انھیں استعمال نہیں کیا گیا۔ یہ سرکاری وسائل کا ضیاع معلوم ہوتا ہے۔ انسانی استعمال کے لیے پانی کی فراہمی ایک سنجیدہ سوال ہے۔ میں نے ہر جگہ محسوس کیا کہ استعمال کے لیے پانی کافی حد تک کم ہو چکا ہے۔ پانی کا قابل استعمال ہونا بھی بہت اہم پہلو ہے۔ اکثر مواقعے پر پینے کا پانی حقیقت میں انسانوں کے لیے قابل استعمال نہیں۔ زراعت کے لیے دریائی یا نہری پانی کی مسلسل اور بے تکان فراہمی ایک خواب ہے۔
جام شورو اور حیدر آباد کے کئی علاقوں میں شاہنواز بھٹو اور ان کے خاندان کی تصاویر سڑکوں پر دیکھی جا سکتیں ہیں۔ اس طرح قوم پرست پارٹیوں کے جھنڈے اور ان کے قائدین کی کافی تصاویر موجود ہیں۔ حیدر آباد اور ارد گرد کے علاقوں میں آپ قوم پرستوں کی موجودگی نظر انداز نہیں کر سکتے۔ یہ بحث بالکل الگ ہے کہ ان عناسر کا سیاسی اثر کتنا ہے۔ مگر کسی تعصب کے بغیر ان عناصر پر نظر دوڑائی جائے تو مجھے ان کا اثر کافی حد تک مستحکم نظر آ رہا ہے۔ ایک چیز جو تقریباً نئی ہے مگر اس پر ٹھنڈے دل سے تدبر نظر نہیں آتا۔ قوم پرستوں کا گلہ ہے کہ ان کے ساتھ اَن دیکھے ہاتھ وہی سلوک کر رہے ہیں جو بلوچستان میں روا ہے۔ کئی متحرک قوم پرستوں کو اغوا کیا گیا ہے اور اس کے بعد ان کی مسخ شدہ نعشیں اندرون سندھ کے بیابان علاقوں سے برآمد ہو رہی ہیں۔ اگر یہ صورتحال بغیر کسی تعطل کے جاری رہی تو یہ لاوا کسی بھی وقت بہت بڑا مسئلہ بننے کی استطاعت رکھتا ہے۔ جتنی جلدی ہو اسکو فکر اور تدبیر سے حل کرنا چاہیے۔
دریائے سندھ ہمارے ملک کی شاہ رگ ہے۔ تبت سے نکلتا ہوا، زندگی کی یہ علامت، لداخ اور گلگت سے ہوتا ہوا ہمارے پورے ملک کو سیراب کرتا ہوا کراچی پہنچتا ہے۔ یہاں یہ ڈیلٹا کی صورت اختیار کرتا ہوا سمندر میں ختم ہو جاتا ہے۔ پانی کا یہ مسافر1980 میل کا سفر طے کرتا ہے۔ بہاؤ کے لحاظ سے یہ دنیا کا اکیسواں بڑا دریا ہے۔ اس عظیم دریا کا نام سنسکرت سے ماخوذ ہے اور اس نام پر یونانی زبان کا بھر پور اثر بھی موجود ہے۔ اس کا ذکر ہندو مذہب کی پرانی کتابوں جیسے ویدک رگ وید میں موجود ہے۔ اس کا ذکر مختلف انداز میں 510 ق م سے بھی موجود ہے جب پرشیا کے بادشاہ داریز نے اس خطے کے لیے سکالکس کو روانہ کیا تھا۔ رگ وید میں برصغیر کے تمام دریاؤں کا ذکر صیغہ "مونث میں کیا گیا ہے مگر دریائے سندھ واحد دریا ہے جس کے لیے''مذکر'' کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔ یہ عظیم دریا ہڑپہ اور موہنجوداڑو کی ہزاروں سال قدیم تہذیبوں کا امین ہے۔انڈس ویلی کی تہذیب 3300 قبل مسیح سے شروع ہوتی ہے۔ ایک اندازہ کے مطابق ہمارے پاس900 کے قریب ایسے مقامات ہیں جو اس پرانی تہذیب کو اجاگر کرتے ہیں۔ آج تک ہم صرف 96 جگہوں کو دنیا کے سامنے لا سکے ہیں۔ ان مقامات کی اکثریت غیر ملکی ماہرین کی محنت کی بدولت ہمارے سامنے آئے ہیں۔ انڈیا کا لفظ بھی''انڈس''سے ماخوذ ہے۔
سکندر اعظم کے زمانے میں اس دریا کے ارد گرد گھنے جنگل بتائے جاتے ہیں۔ اسی طرح "بابر نامہ" میں بھی ان جنگلات کا مفصل ذکر ہے۔ بلکہ کئی جانور جو اب نا پید ہو چکے ہیں ان کا تفصیلاً ذکر موجود ہے۔ آپ ہمارے زمانے کی بات کیجیے۔ ''انڈس واٹر ٹریٹی'' کی بدولت دریائے سندھ کے تین دریا پاکستان اور تین ہی دریا انڈیا کے کنٹرول میں دیے گئے۔ یہ معاہدہ اب کتنی افادیت کا ہے، یہ ایک طویل بحث ہے۔ کیا اب اس معاہدہ کو سرکاری سطح پر دوبارہ کھولنے کی ضرورت ہے یہ بھی صرف اور صرف فنی ماہرین کا کام ہے۔ ہزاروں سال کی تاریخ میں دریائے سندھ کا پانی پہلی بار دو ملکوں میں تقسیم کیا گیا۔ پانی کی اس تقسیم سے پیدا ہونے والی روز بروز پیچیدہ صورت حال اب ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
انڈس ڈیلٹا بہت تیزی سے سکڑ رہا ہے۔ اس میں موجود ''مین گروو'' جنگل اب ابتلاء کا شکار ہیں۔ دریائے سندھ کا پانی ان کو زندہ رکھتا ہے۔ جو کافی حد تک کم ہو چکا ہے۔1980تک یہ جنگل چھ لاکھ ہیکٹر تھا جو اب کم ہو کر تقریباً ڈیڑھ سے دو لاکھ ہیکٹر رہ گیا ہے۔ اس وجہ سے سمندر کا پانی اب ہمارے نایاب زرعی علاقوں کو برباد کر رہا ہے۔ یہ صورت حال شدید تشویش ناک بات ہے۔ عظیم دریا، جسکا ذکر ہزاروں سال پرانی کتابوں میں رعب اور ہیبت کا نشان تھا، اب کوٹری بیراج پر آ کر دم توڑ دیتا ہے۔ کوٹری سے سمندر تک کا علاقہ 160 میل کا ہے، جواب بالکل خشک ہو چکا ہے۔ اس میں دھول اڑتی ہے۔ کوٹری بیراج سے پانی صرف سیلاب کی صورت میں چھوڑا جاتا ہے۔ کوٹری سے آگے کی دیہی آبادی کا کیا حال ہے، اس کا اندازہ صرف آپ وہاں جا کر لگا سکتے ہیں۔ ان کی بدحالی اور شگستگی صاف نظر آتی ہے! وہ دریا جو کبھی عظمت، قوت، رعب اور دبدبہ کا نشان تھا، اب کوٹری پر آکر بالکل لاغر دکھائی دیتا ہے! ہم نے برسوں سے اپنے ملک کے لوگوں کو ظلم کا طوق پہنا کر ذہنی اور اقتصادی طور پر مفلوج کر رکھا ہے۔ مگر اب تو ہم نے اس عظیم دریا کو بھی سرنگوں کر دیا ہے! ہمارے جبر کے سامنے دریائے سندھ بھی بالکل بے حال ہے! بے زبان اور بے بس دریا!