اربوں ڈالر سوئس بینک میں… پھر بھی غریب
شرمیلا بی بی نے جب سے پیپلزپارٹی کی نوکری سنبھالی ہے سنبھالتے سنبھالتے ہی بے حال ہوئے جاتی ہیں۔۔۔
تھر میں قحط بہت سے سیاسی پنڈتوں کے لیے بھی خشکی لے کر آیا ہے۔ گو اس خشک سالی کا تعلق قدرتی آفات کے زمرے میں آتا ہے لیکن آج کل کے اس جدید دور میں اس سلسلے میں بہت کچھ پیش بندیاں کی جاسکتی ہیں۔ لیکن اگر کرنا چاہیں اور اگر نہ کرنا چاہیں تو تھر جیسے حالات بار بار نظر آسکتے ہیں۔ سابق وزیراعلیٰ ارباب غلام رحیم اس حوالے سے خاصے پر جوش ہیں کہ ان کے دور میں تھر کے علاقے میں ترقی کے کافی کام ہوئے تھے اور حالیہ حکومت کے دور میں اس حوالے سے کوئی کاوش نہ کی گئی۔ ارباب صاحب کا کہنا غلط نہیں ہے اس لیے کہ تھر میں قحط اچانک گوبھی کے پھول کی طرح نہیں پھوٹا بلکہ گزشتہ کئی مہینوں سے مٹھی کے علاقے میں موروں کے مرنے کی خبریں وقفے وقفے سے آتی رہی ہیں، صرف یہی نہیں صحافیوں کی ایک بڑی ٹیم بھی ان علاقوں کا دورہ کرچکی تھیں۔
اس بات کو تقریباً نو آٹھ مہینے گزرچکے ہیں بہت کچھ اخبارات میں آیا بھی، خود میں اپنے کئی کالمز میں اس بات کا تذکرہ کرچکی ہوں۔ کیوں کہ ہمارے ایک سینئر ساتھی اس علاقے کا دورہ کرکے آئے تھے اور انھوں نے ہم سب سے اس علاقے میں خوراک کے مسئلے پر مدد کے حوالے سے خاصی دیر تک بحث کی تھی۔ اس وقت ان کا کہنا تھا کہ حکومت کا اس حوالے سے کام کرنے کا کوئی ارادہ دکھائی نہیں دیتا۔ حکومتی نمایندوں کے کان پر جوں بھی نہیں رینگی یہاں تک کہ وہاں کے لوگ اپنے علاقے چھوڑ کر جارہے ہیں۔ وہ حکومت سے نالاں نظر آتے ہیں۔ لیکن انھیں احتجاج کرنے کا ڈھنگ ہی نہیں، حکومت کو وہ خدا کا قہر سمجھ کر خود ہی اپنے لیے فرار کا راستہ ڈھونڈ رہے ہیں۔ پینے کے لیے جو پانی ان لوگوں کو دستیاب بمشکل ہوتا تھا وہ کسی طرح بھی حفظان صحت کے اصولوں پر پورا نہیں اترتا۔ پانی کا ایک گیلن سو روپے کا دور سے لے کر آنا پڑتا تھا اور جو پانی پینے میں انتہائی کھارا ایسے جیسے ہو اسے پی کر طبیعت کیسے خوشگوار ہوسکتی ہے۔ لیکن کیا کہیں کہ چڑیاں چگنے کا انتظار تھا جیسے اور جب سب کچھ چگ چکی تو اب جو ادھر ادھر سے مذمت ہو رہی ہے اس پر ناراض ہونا کیا واجب بنتا ہے؟
شرمیلا بی بی نے جب سے پیپلزپارٹی کی نوکری سنبھالی ہے سنبھالتے سنبھالتے ہی بے حال ہوئے جاتی ہیں اور حالات ہیں کہ سمیٹنے میں نہیں آتے کبھی اس طرف سے پردہ پوشی تو کہیں ادھر سے پیوند لگانے، کبھی دور کی کوڑی لانا تو کبھی صرف ہانک لگانا، نازک سی جان اتنا سارا کام ... پر شرمیلا نے بھی پورا حق ادا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ شیری صاحبہ تو اصولوں پر اڑ کر پلو بچاگئیں کہ ان کے اصول ان کی سچائی میں خاصا وزن تھا ورنہ اب بے وزن ہوتیں تو کیسا محسوس کرتیں۔ ہمارے جوان بلاول زرداری بھٹو جو سیاست کی منڈی میں بہت کچھ سوچ کر سچے دل سے اترے تو تھے لیکن اس میں قدرت کی ستم ظریفی، حالات کی چکی اور اسی قسم کے سارے مظلومانہ الفاظ خود بخود ان کی جھولی میں آگرے۔ انھوں نے اپنی دانست میں تو سندھ کے بیٹے ہونے کا حق ادا کیا تھا پر ان کی اپنی ڈائری میں سندھ کے بیٹے کے حوالے سے جتنا درج تھا وہ اتنا ہی کرسکے۔ مان لیں کہ سیکھنے سے ہی انسان میں پختگی آتی ہے اور ابھی ان کے سیکھنے کی عمر ہے ورنہ صرف سندھی زبان سمجھنے والے معصوم تھر کے لوگوں سے انگریزی زبان میں ان کا دکھ بانٹنا ان کی سادگی ہے، چالاکی نہیں۔
اب سندھ کے وزیراعلیٰ پر کتنی بڑی ذمے داری عائد ہوتی ہے شاید انھیں بھی اس کا ادراک تو ہوگا۔ کیوں کہ میڈیا کی نظریں ان پر پوری طرح گڑی ہوئی ہیں، کتنے ٹرک آئے ہیں اور کتنے تھر سے گزرتے کہیں اور چلے جاتے ہیں۔ حساب کتاب تو پورا رکھنا ہی ہوتاہے اگر حکومتی نمایندے اپنی ذمے داری سے نظریں چراسکتے ہیں تو ظاہر ہے کہ جو کام وہ کرسکتے ہیں کریںگے اور جو کام دوسروں کو آتا ہے وہ کریں گے۔ لیکن ایک درخواست ضرور ہے کہ اس طرح بھی کیاجائے جیسے چند برس پہلے سیلاب میں ملنے والے امدادی کمبل سکھر کے ایک سرکاری اسکول کے کمرے میں بند کرکے رکھ چھوڑے، خدا جانے کیوں اور وہ کمبل رکھے امداد کے مستحقین کی مدد کو ترستے رہے اور برباد ہوگئے۔تھر کی گندم کو کیڑے کھا گئے۔
آج تھر کی حالت اتنی زار زار کیوں ہے؟ اس لیے کہ ہمارے پاس وسائل کی کمی ہے۔ وسائل حاصل ہوگئے تو کیا مطلوب علاقے کی حالت بہتر ہوسکتی ہے؟ ان تمام سوالوں میں اہم سوال سب سے آخر میں ہے تو اس کا جواب ہے کہ ''ماموں بنادیاہے یارو نے'' اب اس ماموں بنانے کی کہانی کے پیچھے کیا راز ہے۔ اب اور کیا کیا سنائیں کہ سنانے کو بہت کچھ ہے؟ ہم نے گزشتہ چند برسوں سے نوجوان قیادت، نوجوانوں کی ہمت، طاقت، نوجوانوں کے ویژن، صلاحیتوں کے متعلق اتنا الاپ سنا کہ ہم سمیت بہت سے لوگ یہی سمجھنے لگے کہ اگر نوجوان ہمارے ملک کی سیاست پر ابھر کر آگئے تو ملک کا نقشہ ہی کچھ اور ہوگا۔ اب اس کا مقابلہ کریں سینئر ترین قیادت سے تو اس کا موازنہ انتہائی آسانی سے سندھ میں کیا جاسکتاہے۔ ہمارے نوجوان بلاول اور سینئر ترین قائم علی شاہ میں کیا فرق نظر آتاہے؟ کوئی خاص نہیں بس جذبوں کے موسموں میں ذرا اونچ نیچ ہے اور اس ذرا فرق نے ایک بات تو ثابت کردی کہ اندرون سندھ پیپلزپارٹی نے اپنی کارکردگی دکھادی ہے کیوں کہ زیادہ تر ہمارے پی پی پی والے امیر لوگ وڈیرے حضرات ہیں اور بڑے بڑے محلوں میں رہنے والے چھوٹے چھوٹے لوگوں کے مسائل کو ابھی اتنی آسانی سے سمجھ نہیں سکتے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ اپنے اس پیارے سندھ کی خاطر اور بھی خدمت کرنے کا موقع دیں کر تو دیکھیں۔
پاکستان ایک غریب ملک ہے، اس کا اتنا پرچار کیا جاچکا ہے کہ برسوں بعد اپنے ملک پلٹ کر آنے والے حیرت سے دیکھتے ہیں اور کہہ اٹھتے ہیں کہ اتنے بڑے بڑے عالیشان گھر ایسی بڑی بڑی گاڑیاں، یہ شاہانہ ٹھاٹ باٹ کون کہتا ہے کہ پاکستانی غریب ہے۔ بہت کچھ ہے یہاں دبا ہوا سرکار کچھ اس قسم کا سوال ایک معصوم سے سوئس بینک کے ڈائریکٹر نے کیا۔ سوال تھا کیا پاکستان ایک غریب ملک ہے؟ ایک ایسا ملک جس کے 97 ارب ڈالرز کی رقم سوئس بینک میں پڑی ہے جو کہ تیس سال کے لیے ٹیکس فری بجٹ کے لیے کافی ہے۔ چھ کروڑ پاکستانیوں کو ملازمت دی جاسکتی ہے۔ ملک کے کسی بھی کونے سے اسلام آباد تک چار رویہ سڑکیں بن سکتی ہیں، پانچ سو سے زیادہ پاور پروجیکٹس کے ذریعے ہمیشہ کے لیے فری بجلی فراہم کی جاسکتی ہے، ہر پاکستانی ماہانہ بیس ہزار روپے ساٹھ برس کے لیے قرض لے سکتاہے اور ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف سے کسی قرض کی ضرورت نہیں۔
اس سوئس بینک کے ڈائریکٹر کو کیا خبر کہ پاکستانی کتنی کفایت شعار قوم ہے، ہم بھوک سے بلکتے مرتے بچے، درد سے تڑپتی ماؤں اور روٹی کے حصول کے لیے دوڑتے بھاگتے باپوں کی التجاؤں، خواہشوں اور دعاؤں کو قطرہ قطرہ جمع کرتے ہیں تو ہمارے سوئس بینک کے اکاؤنٹ بھرتے ہیں۔ ہے ناں کتنا آسان حساب کتاب...؟
اس بات کو تقریباً نو آٹھ مہینے گزرچکے ہیں بہت کچھ اخبارات میں آیا بھی، خود میں اپنے کئی کالمز میں اس بات کا تذکرہ کرچکی ہوں۔ کیوں کہ ہمارے ایک سینئر ساتھی اس علاقے کا دورہ کرکے آئے تھے اور انھوں نے ہم سب سے اس علاقے میں خوراک کے مسئلے پر مدد کے حوالے سے خاصی دیر تک بحث کی تھی۔ اس وقت ان کا کہنا تھا کہ حکومت کا اس حوالے سے کام کرنے کا کوئی ارادہ دکھائی نہیں دیتا۔ حکومتی نمایندوں کے کان پر جوں بھی نہیں رینگی یہاں تک کہ وہاں کے لوگ اپنے علاقے چھوڑ کر جارہے ہیں۔ وہ حکومت سے نالاں نظر آتے ہیں۔ لیکن انھیں احتجاج کرنے کا ڈھنگ ہی نہیں، حکومت کو وہ خدا کا قہر سمجھ کر خود ہی اپنے لیے فرار کا راستہ ڈھونڈ رہے ہیں۔ پینے کے لیے جو پانی ان لوگوں کو دستیاب بمشکل ہوتا تھا وہ کسی طرح بھی حفظان صحت کے اصولوں پر پورا نہیں اترتا۔ پانی کا ایک گیلن سو روپے کا دور سے لے کر آنا پڑتا تھا اور جو پانی پینے میں انتہائی کھارا ایسے جیسے ہو اسے پی کر طبیعت کیسے خوشگوار ہوسکتی ہے۔ لیکن کیا کہیں کہ چڑیاں چگنے کا انتظار تھا جیسے اور جب سب کچھ چگ چکی تو اب جو ادھر ادھر سے مذمت ہو رہی ہے اس پر ناراض ہونا کیا واجب بنتا ہے؟
شرمیلا بی بی نے جب سے پیپلزپارٹی کی نوکری سنبھالی ہے سنبھالتے سنبھالتے ہی بے حال ہوئے جاتی ہیں اور حالات ہیں کہ سمیٹنے میں نہیں آتے کبھی اس طرف سے پردہ پوشی تو کہیں ادھر سے پیوند لگانے، کبھی دور کی کوڑی لانا تو کبھی صرف ہانک لگانا، نازک سی جان اتنا سارا کام ... پر شرمیلا نے بھی پورا حق ادا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ شیری صاحبہ تو اصولوں پر اڑ کر پلو بچاگئیں کہ ان کے اصول ان کی سچائی میں خاصا وزن تھا ورنہ اب بے وزن ہوتیں تو کیسا محسوس کرتیں۔ ہمارے جوان بلاول زرداری بھٹو جو سیاست کی منڈی میں بہت کچھ سوچ کر سچے دل سے اترے تو تھے لیکن اس میں قدرت کی ستم ظریفی، حالات کی چکی اور اسی قسم کے سارے مظلومانہ الفاظ خود بخود ان کی جھولی میں آگرے۔ انھوں نے اپنی دانست میں تو سندھ کے بیٹے ہونے کا حق ادا کیا تھا پر ان کی اپنی ڈائری میں سندھ کے بیٹے کے حوالے سے جتنا درج تھا وہ اتنا ہی کرسکے۔ مان لیں کہ سیکھنے سے ہی انسان میں پختگی آتی ہے اور ابھی ان کے سیکھنے کی عمر ہے ورنہ صرف سندھی زبان سمجھنے والے معصوم تھر کے لوگوں سے انگریزی زبان میں ان کا دکھ بانٹنا ان کی سادگی ہے، چالاکی نہیں۔
اب سندھ کے وزیراعلیٰ پر کتنی بڑی ذمے داری عائد ہوتی ہے شاید انھیں بھی اس کا ادراک تو ہوگا۔ کیوں کہ میڈیا کی نظریں ان پر پوری طرح گڑی ہوئی ہیں، کتنے ٹرک آئے ہیں اور کتنے تھر سے گزرتے کہیں اور چلے جاتے ہیں۔ حساب کتاب تو پورا رکھنا ہی ہوتاہے اگر حکومتی نمایندے اپنی ذمے داری سے نظریں چراسکتے ہیں تو ظاہر ہے کہ جو کام وہ کرسکتے ہیں کریںگے اور جو کام دوسروں کو آتا ہے وہ کریں گے۔ لیکن ایک درخواست ضرور ہے کہ اس طرح بھی کیاجائے جیسے چند برس پہلے سیلاب میں ملنے والے امدادی کمبل سکھر کے ایک سرکاری اسکول کے کمرے میں بند کرکے رکھ چھوڑے، خدا جانے کیوں اور وہ کمبل رکھے امداد کے مستحقین کی مدد کو ترستے رہے اور برباد ہوگئے۔تھر کی گندم کو کیڑے کھا گئے۔
آج تھر کی حالت اتنی زار زار کیوں ہے؟ اس لیے کہ ہمارے پاس وسائل کی کمی ہے۔ وسائل حاصل ہوگئے تو کیا مطلوب علاقے کی حالت بہتر ہوسکتی ہے؟ ان تمام سوالوں میں اہم سوال سب سے آخر میں ہے تو اس کا جواب ہے کہ ''ماموں بنادیاہے یارو نے'' اب اس ماموں بنانے کی کہانی کے پیچھے کیا راز ہے۔ اب اور کیا کیا سنائیں کہ سنانے کو بہت کچھ ہے؟ ہم نے گزشتہ چند برسوں سے نوجوان قیادت، نوجوانوں کی ہمت، طاقت، نوجوانوں کے ویژن، صلاحیتوں کے متعلق اتنا الاپ سنا کہ ہم سمیت بہت سے لوگ یہی سمجھنے لگے کہ اگر نوجوان ہمارے ملک کی سیاست پر ابھر کر آگئے تو ملک کا نقشہ ہی کچھ اور ہوگا۔ اب اس کا مقابلہ کریں سینئر ترین قیادت سے تو اس کا موازنہ انتہائی آسانی سے سندھ میں کیا جاسکتاہے۔ ہمارے نوجوان بلاول اور سینئر ترین قائم علی شاہ میں کیا فرق نظر آتاہے؟ کوئی خاص نہیں بس جذبوں کے موسموں میں ذرا اونچ نیچ ہے اور اس ذرا فرق نے ایک بات تو ثابت کردی کہ اندرون سندھ پیپلزپارٹی نے اپنی کارکردگی دکھادی ہے کیوں کہ زیادہ تر ہمارے پی پی پی والے امیر لوگ وڈیرے حضرات ہیں اور بڑے بڑے محلوں میں رہنے والے چھوٹے چھوٹے لوگوں کے مسائل کو ابھی اتنی آسانی سے سمجھ نہیں سکتے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ اپنے اس پیارے سندھ کی خاطر اور بھی خدمت کرنے کا موقع دیں کر تو دیکھیں۔
پاکستان ایک غریب ملک ہے، اس کا اتنا پرچار کیا جاچکا ہے کہ برسوں بعد اپنے ملک پلٹ کر آنے والے حیرت سے دیکھتے ہیں اور کہہ اٹھتے ہیں کہ اتنے بڑے بڑے عالیشان گھر ایسی بڑی بڑی گاڑیاں، یہ شاہانہ ٹھاٹ باٹ کون کہتا ہے کہ پاکستانی غریب ہے۔ بہت کچھ ہے یہاں دبا ہوا سرکار کچھ اس قسم کا سوال ایک معصوم سے سوئس بینک کے ڈائریکٹر نے کیا۔ سوال تھا کیا پاکستان ایک غریب ملک ہے؟ ایک ایسا ملک جس کے 97 ارب ڈالرز کی رقم سوئس بینک میں پڑی ہے جو کہ تیس سال کے لیے ٹیکس فری بجٹ کے لیے کافی ہے۔ چھ کروڑ پاکستانیوں کو ملازمت دی جاسکتی ہے۔ ملک کے کسی بھی کونے سے اسلام آباد تک چار رویہ سڑکیں بن سکتی ہیں، پانچ سو سے زیادہ پاور پروجیکٹس کے ذریعے ہمیشہ کے لیے فری بجلی فراہم کی جاسکتی ہے، ہر پاکستانی ماہانہ بیس ہزار روپے ساٹھ برس کے لیے قرض لے سکتاہے اور ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف سے کسی قرض کی ضرورت نہیں۔
اس سوئس بینک کے ڈائریکٹر کو کیا خبر کہ پاکستانی کتنی کفایت شعار قوم ہے، ہم بھوک سے بلکتے مرتے بچے، درد سے تڑپتی ماؤں اور روٹی کے حصول کے لیے دوڑتے بھاگتے باپوں کی التجاؤں، خواہشوں اور دعاؤں کو قطرہ قطرہ جمع کرتے ہیں تو ہمارے سوئس بینک کے اکاؤنٹ بھرتے ہیں۔ ہے ناں کتنا آسان حساب کتاب...؟