دودھ کو بلکتے بچے…
صحرائے تھرکا ہی ایک حصہ راجستھان بھارت میں ہے، دوسرا حصہ چولستان پنجاب میں ہے۔۔۔
قدرتی آفات میں زلزلہ اچانک، سیلاب دیکھتے ہی دیکھتے اور قحط چپکے چپکے، آہستہ آہستہ وارد ہوتا ہے اس لیے انسان زلزلے کی تباہی کو کم کرسکتا ہے، سیلاب سے بچنے کی کوشش کرسکتا ہے ممکن قحط کا راستہ بروقت سریع الحرکت اقدامات سے روک سکتا ہے۔ اکیسویں صدی میں آئی ٹی (Information Technology) کے دور میں گلوبل ولیج کے اندر قحط کو انسان کی بے حسی، خودغرضی اور درندگی کا نوحہ کہہ سکتے ہیں۔
صحرائے تھر میں انگریزوں کے زمانے سے ایک فارمولا قحط سے بچنے کا روبہ عمل ہے اگر 15 اگست تک بارش نہ ہو تو یکم ستمبر سے خشک سالی ڈکلیئر کردی جاتی ہے کیونکہ مویشیوں کے لیے چارے کی قلت شروع ہوجاتی ہے۔ ایسے میں انسانوں کے لیے گندم اور پانی سپلائی پر گہری نظر رکھی جاتی ہے جب مویشیوں کے لیے چارہ بالکل ختم ہوجاتا ہے تو تھر کے باسی اپنے مویشیوں کو ہانکتے ہوئے قریبی نہری علاقوں کی طرف عارضی نقل مکانی کرلیتے ہیں اور جب حالات سازگار ہوجاتے ہیں تو دوبارہ واپس آجاتے ہیں۔ صحرائے تھر اتنا زرخیز خطہ ہے کہ اشک بلبل جتنی بارش بھی ہوجائے تو تھر کے باسی اپنی ''روٹی'' خود اگا لیتے ہیں۔ اس مرتبہ المیہ یہ ہوا کہ بارش نہ ہونے سے چارے کی قلت زیر زمین پانی کی سطح گرجانے کی وجہ سے پینے کے پانی کی قلت، بیوروکریسی کی لاپرواہی، نااہلی کی وجہ سے گندم کی قلت ایک ساتھ واقع ہوئی۔ پھیلی ہوئی آبادی، لق و دق صحرا، سندھ فیسٹیول کی مصروفیات، بلدیاتی نظام کی عدم موجودگی کی وجہ سے ہر جاندار جہاں تھا وہیں ڈھیر ہونے لگا۔ چارے کی قلت کی وجہ سے مویشیوں کے ساتھ ساتھ دودھ کی قلت کی وجہ سے بچے بھی موت کا شکار ہونے لگے اور سنچری کراس کرگئے تب اچانک مٹھی کے سرکاری اسپتال میں دور دراز علاقوں سے تقریباً ڈھائی ہزار فاقوں سے جان بلب مریض داخل ہوگئے۔ تب کھلبلی مچ گئی۔ دعا دیں 24/7 کارپوریشن کے نمایندوں کو (خدا ان کی ریٹنگ کے درجات بلند کرے) انھوں نے TV کوریج کے ذریعے ملک میں کہرام برپا کردیا۔ اخبارات کی شہ سرخیاں، اداریے، کالمز، ٹاک شوز وغیرہ کورس میں اس مسئلے کو اجاگر کرنے لگے۔ چیف جسٹس نے بھی اس کا نوٹس لیا کہ ''آخر سندھ حکومت کتنے بچوں کی اموات کے بعد حرکت میں آتی ہے؟''
جب سندھ کے سیاستدانوں کو احساس ہوا کہ ان کے ''ووٹ'' خطرے میں گھر چکے ہیں تو وہ بھی امدادی سامان کے ٹرک لے کر صحرائے تھر کی طرف دوڑ پڑے۔ اونچے درجے کے لیڈر ہیلی کاپٹر میں روانہ ہوئے بذریعہ دوربین تھر کے باسیوں سے اظہار یکجہتی کیا، موقعے پر سرکاری افسروں کو ضروری احکامات دے کر چلے آئے کہ TV پر دورے کی تفصیلی خبر شام کی خبروں میں نمایاں ہو، جس کے ساتھ ''ٹکر'' بھی ضرور چلیں۔
اس کے بعد اوسط درجے کے لیڈر اپنے اپنے جان نثاروں کے ساتھ پہنچے اسپتال اسپتال گھوم کر مریضوں کی عیادت کی، گھر گھر جاکر جاں بحق ہونے والے معصوم بچوں کی ماؤں کے سر پر ہاتھ رکھا۔ اللہ سے گڑگڑا کر ان کے صغیرہ کبیرہ گناہوں کی بخشش کی دعا کی، ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام عطا کرنے کی درخواست کی۔ باآواز بلند آمین! کہا اور TV کیمرے کی طرف دیکھتے ہوئے امداد کی پوٹلی تھما کر آگے نکل گئے۔ اتنے میں دوپہر ہوگئی۔ لنچ کا وقت ہوا۔ مقامی منتخب نمایندوں نے اپنے گناہ دھونے کے لیے اہتمام کیا تھا، مینو میں ملائی بوٹی، چکن کڑاہی، مچھلی فرائی تھی، چاول کشمیری، قورمہ بادامی، کباب بہاری تھے۔ جاں نثاروں کی پانچوں انگلیوں بادامی قورمہ میں اور سر چکن کڑاہی میں ۔
پاکستان میں دو قسم کی جمہوریتیں رائج ہیں۔ 1۔جاگیردارانہ جمہوریت۔ 2۔جرنیلی جمہوریت جو 66 سال سے آتی جاتی رہتی ہیں۔ اس کے علاوہ ایک تیسری غریبوں کی جمہوریت بھی ہے جس کو بنیادی/دائمی/مقامی حکومتوں کا بلدیاتی نظام کہتے ہیں۔ جرنیلی جمہوریت جس کو مرنے نہیں دیتی کیونکہ اس کے لیے عوام سے رابطے کا یہ براہ راست سہارا ہے۔ جاگیردار جمہوریت اس کو جینے نہیں دیتی کیونکہ یہ بے تحاشا ترقیاتی فنڈز کے درمیان ''کباب میں ہڈی'' ہے۔
سوال یہ ہے کہ بلدیاتی نظام تسلسل کے ساتھ جاری رہتا تو سانحہ تھر واقع ہوتا ؟
صحرائے تھرکا ہی ایک حصہ راجستھان بھارت میں ہے، دوسرا حصہ چولستان پنجاب میں ہے۔ وہاں کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوا۔ اب خبریں آ رہی ہیں کہ وہاں کے باسیوں نے بھی عارضی نقل مکانی کرنا شروع کردیا ہے کیوں؟ اس لیے کہ وہ اپنے پیروں پر چل کر، میلوں دور اپنے مویشیوں کو ہانکتے ہوئے، چارے کی تلاش میں نہری علاقوں کی طرف پیدل سفر کرسکتے ہیں جب کہ تھر میں 120 بچے دودھ کی کمی سے جاں بحق ہونے، بھوک سے جاں بلب ڈھائی ہزار باسی مٹھی کے اسپتال میں داخل ہونے تک کسی کو پتہ ہی نہ چلا لیکن مجھے ایک اہم راز کا پتہ چل گیا کہ جاگیردارانہ جمہوریت، جمہوریت کی نرسری (بلدیاتی نظام) کی اتنی دشمن کیوں ہے؟ جاگیرداری نظام دراصل ''جیبی سائز بادشاہوں'' کے موروثی نظام کو کہتے ہیں ۔ جس کی بدولت ملک کی قانون ساز اسمبلیوں پر بھی ان کا قبضہ رہتا ہے۔ مگر ان کے ساتھ ایک مسئلہ قدرتی ہے۔ اسمبلیوں پر قبضے کے بعد جو ''بچے'' بچتے ہیں وہ انتظامیہ پر قبضہ کرنے میں خرچ ہوجاتے ہیں اس کے بعد بھی جو نالائق بچتے ہیں وہ سچ مچ کی ''ٹوئنکل ٹوئنکل لٹل اسٹار'' والی نرسری میں پڑھتے ہیں وہ بھلا بلدیاتی نظام میں کیا تبدیلی لاسکتے ہیں جو اپنی ''چڈی'' نہیں بدل سکتے۔اس کا آخری حل سب یہی ہے جو جاری ہے۔جمہوریت کی نرسری (بلدیاتی نظام) کو آنے ہی نہ دو، اگر آگیا تو چلنے نہ دو، اگر چل گیا تو پنپنے نہ دو۔ آخر صوبائی سے لے کر قومی تک قانون ساز اسمبلیاں کس دن کام آئیں گی؟
ایک بنیے کے بچے گھی کے مرتبان سے روٹی لگا کر کھایا کرتے تھے۔ ایک دن کسی کام سے بنیا شہرگیا اور گھی کا بند مرتبان مقفل الماری میں رہ گیا۔ شام کو جب بنیا گھر آیا اس کے بچوں سے پہلا سوال یہ کیا کہ انھوں نے لنچ میں کیا سوکھی روٹی کھائی؟ بچوں نے جواب دیا ''بالکل نہیں، ہم نے تو الماری سے روٹی لگا کر کھائی جس میں گھی کا مرتبان مقفل تھا۔'' بنیا تپ گیا کہا ''بڑی عیاشی ہو رہی ہے بھئی! نوابوں کے حلق سے ایک نوالہ بھی بغیر گھی کے نہیں اتر رہا ہے'' جب کہ ہمارے سیاستدانوں کے حلق سے بھی بغیر ملائی بوٹی کے ایک نوالہ بھی نہیں اترتا۔ چاہے وہ موت کے نگر اور بھوک کی بستی میں اور بے حسی کے دسترخوان پر ہی کیوں نہ ہوں۔ حالانکہ اگر عیاشی ہی مقصود تھی تو ون ڈش ڈیل (Deal) سے کام چلا لیتے۔ یعنی تندور کی گرم گرم روٹی کے ساتھ دال فری!
صحرائے تھر میں انگریزوں کے زمانے سے ایک فارمولا قحط سے بچنے کا روبہ عمل ہے اگر 15 اگست تک بارش نہ ہو تو یکم ستمبر سے خشک سالی ڈکلیئر کردی جاتی ہے کیونکہ مویشیوں کے لیے چارے کی قلت شروع ہوجاتی ہے۔ ایسے میں انسانوں کے لیے گندم اور پانی سپلائی پر گہری نظر رکھی جاتی ہے جب مویشیوں کے لیے چارہ بالکل ختم ہوجاتا ہے تو تھر کے باسی اپنے مویشیوں کو ہانکتے ہوئے قریبی نہری علاقوں کی طرف عارضی نقل مکانی کرلیتے ہیں اور جب حالات سازگار ہوجاتے ہیں تو دوبارہ واپس آجاتے ہیں۔ صحرائے تھر اتنا زرخیز خطہ ہے کہ اشک بلبل جتنی بارش بھی ہوجائے تو تھر کے باسی اپنی ''روٹی'' خود اگا لیتے ہیں۔ اس مرتبہ المیہ یہ ہوا کہ بارش نہ ہونے سے چارے کی قلت زیر زمین پانی کی سطح گرجانے کی وجہ سے پینے کے پانی کی قلت، بیوروکریسی کی لاپرواہی، نااہلی کی وجہ سے گندم کی قلت ایک ساتھ واقع ہوئی۔ پھیلی ہوئی آبادی، لق و دق صحرا، سندھ فیسٹیول کی مصروفیات، بلدیاتی نظام کی عدم موجودگی کی وجہ سے ہر جاندار جہاں تھا وہیں ڈھیر ہونے لگا۔ چارے کی قلت کی وجہ سے مویشیوں کے ساتھ ساتھ دودھ کی قلت کی وجہ سے بچے بھی موت کا شکار ہونے لگے اور سنچری کراس کرگئے تب اچانک مٹھی کے سرکاری اسپتال میں دور دراز علاقوں سے تقریباً ڈھائی ہزار فاقوں سے جان بلب مریض داخل ہوگئے۔ تب کھلبلی مچ گئی۔ دعا دیں 24/7 کارپوریشن کے نمایندوں کو (خدا ان کی ریٹنگ کے درجات بلند کرے) انھوں نے TV کوریج کے ذریعے ملک میں کہرام برپا کردیا۔ اخبارات کی شہ سرخیاں، اداریے، کالمز، ٹاک شوز وغیرہ کورس میں اس مسئلے کو اجاگر کرنے لگے۔ چیف جسٹس نے بھی اس کا نوٹس لیا کہ ''آخر سندھ حکومت کتنے بچوں کی اموات کے بعد حرکت میں آتی ہے؟''
جب سندھ کے سیاستدانوں کو احساس ہوا کہ ان کے ''ووٹ'' خطرے میں گھر چکے ہیں تو وہ بھی امدادی سامان کے ٹرک لے کر صحرائے تھر کی طرف دوڑ پڑے۔ اونچے درجے کے لیڈر ہیلی کاپٹر میں روانہ ہوئے بذریعہ دوربین تھر کے باسیوں سے اظہار یکجہتی کیا، موقعے پر سرکاری افسروں کو ضروری احکامات دے کر چلے آئے کہ TV پر دورے کی تفصیلی خبر شام کی خبروں میں نمایاں ہو، جس کے ساتھ ''ٹکر'' بھی ضرور چلیں۔
اس کے بعد اوسط درجے کے لیڈر اپنے اپنے جان نثاروں کے ساتھ پہنچے اسپتال اسپتال گھوم کر مریضوں کی عیادت کی، گھر گھر جاکر جاں بحق ہونے والے معصوم بچوں کی ماؤں کے سر پر ہاتھ رکھا۔ اللہ سے گڑگڑا کر ان کے صغیرہ کبیرہ گناہوں کی بخشش کی دعا کی، ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام عطا کرنے کی درخواست کی۔ باآواز بلند آمین! کہا اور TV کیمرے کی طرف دیکھتے ہوئے امداد کی پوٹلی تھما کر آگے نکل گئے۔ اتنے میں دوپہر ہوگئی۔ لنچ کا وقت ہوا۔ مقامی منتخب نمایندوں نے اپنے گناہ دھونے کے لیے اہتمام کیا تھا، مینو میں ملائی بوٹی، چکن کڑاہی، مچھلی فرائی تھی، چاول کشمیری، قورمہ بادامی، کباب بہاری تھے۔ جاں نثاروں کی پانچوں انگلیوں بادامی قورمہ میں اور سر چکن کڑاہی میں ۔
پاکستان میں دو قسم کی جمہوریتیں رائج ہیں۔ 1۔جاگیردارانہ جمہوریت۔ 2۔جرنیلی جمہوریت جو 66 سال سے آتی جاتی رہتی ہیں۔ اس کے علاوہ ایک تیسری غریبوں کی جمہوریت بھی ہے جس کو بنیادی/دائمی/مقامی حکومتوں کا بلدیاتی نظام کہتے ہیں۔ جرنیلی جمہوریت جس کو مرنے نہیں دیتی کیونکہ اس کے لیے عوام سے رابطے کا یہ براہ راست سہارا ہے۔ جاگیردار جمہوریت اس کو جینے نہیں دیتی کیونکہ یہ بے تحاشا ترقیاتی فنڈز کے درمیان ''کباب میں ہڈی'' ہے۔
سوال یہ ہے کہ بلدیاتی نظام تسلسل کے ساتھ جاری رہتا تو سانحہ تھر واقع ہوتا ؟
صحرائے تھرکا ہی ایک حصہ راجستھان بھارت میں ہے، دوسرا حصہ چولستان پنجاب میں ہے۔ وہاں کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوا۔ اب خبریں آ رہی ہیں کہ وہاں کے باسیوں نے بھی عارضی نقل مکانی کرنا شروع کردیا ہے کیوں؟ اس لیے کہ وہ اپنے پیروں پر چل کر، میلوں دور اپنے مویشیوں کو ہانکتے ہوئے، چارے کی تلاش میں نہری علاقوں کی طرف پیدل سفر کرسکتے ہیں جب کہ تھر میں 120 بچے دودھ کی کمی سے جاں بحق ہونے، بھوک سے جاں بلب ڈھائی ہزار باسی مٹھی کے اسپتال میں داخل ہونے تک کسی کو پتہ ہی نہ چلا لیکن مجھے ایک اہم راز کا پتہ چل گیا کہ جاگیردارانہ جمہوریت، جمہوریت کی نرسری (بلدیاتی نظام) کی اتنی دشمن کیوں ہے؟ جاگیرداری نظام دراصل ''جیبی سائز بادشاہوں'' کے موروثی نظام کو کہتے ہیں ۔ جس کی بدولت ملک کی قانون ساز اسمبلیوں پر بھی ان کا قبضہ رہتا ہے۔ مگر ان کے ساتھ ایک مسئلہ قدرتی ہے۔ اسمبلیوں پر قبضے کے بعد جو ''بچے'' بچتے ہیں وہ انتظامیہ پر قبضہ کرنے میں خرچ ہوجاتے ہیں اس کے بعد بھی جو نالائق بچتے ہیں وہ سچ مچ کی ''ٹوئنکل ٹوئنکل لٹل اسٹار'' والی نرسری میں پڑھتے ہیں وہ بھلا بلدیاتی نظام میں کیا تبدیلی لاسکتے ہیں جو اپنی ''چڈی'' نہیں بدل سکتے۔اس کا آخری حل سب یہی ہے جو جاری ہے۔جمہوریت کی نرسری (بلدیاتی نظام) کو آنے ہی نہ دو، اگر آگیا تو چلنے نہ دو، اگر چل گیا تو پنپنے نہ دو۔ آخر صوبائی سے لے کر قومی تک قانون ساز اسمبلیاں کس دن کام آئیں گی؟
ایک بنیے کے بچے گھی کے مرتبان سے روٹی لگا کر کھایا کرتے تھے۔ ایک دن کسی کام سے بنیا شہرگیا اور گھی کا بند مرتبان مقفل الماری میں رہ گیا۔ شام کو جب بنیا گھر آیا اس کے بچوں سے پہلا سوال یہ کیا کہ انھوں نے لنچ میں کیا سوکھی روٹی کھائی؟ بچوں نے جواب دیا ''بالکل نہیں، ہم نے تو الماری سے روٹی لگا کر کھائی جس میں گھی کا مرتبان مقفل تھا۔'' بنیا تپ گیا کہا ''بڑی عیاشی ہو رہی ہے بھئی! نوابوں کے حلق سے ایک نوالہ بھی بغیر گھی کے نہیں اتر رہا ہے'' جب کہ ہمارے سیاستدانوں کے حلق سے بھی بغیر ملائی بوٹی کے ایک نوالہ بھی نہیں اترتا۔ چاہے وہ موت کے نگر اور بھوک کی بستی میں اور بے حسی کے دسترخوان پر ہی کیوں نہ ہوں۔ حالانکہ اگر عیاشی ہی مقصود تھی تو ون ڈش ڈیل (Deal) سے کام چلا لیتے۔ یعنی تندور کی گرم گرم روٹی کے ساتھ دال فری!