سندھ کی تقدیر کب بدلے گی

تمام ترقیاتی فنڈ کہاں خرچ ہو جاتا ہے ، ہر سال بجٹ میں تفویض کیے گئے اربوں روپے کدھر چلے جاتے ہیں۔۔۔

mnoorani08@gmail.com

اِسے صوبہ سندھ کی بد قسمتی کہیے یا حالات کی ستم ظریفی کہ ہمارے صوبہ سندھ کی مجموعی صورتحال انتہائی کشیدہ اور ناگفتہ بہ ہے۔ چاہے یہاں غیر جمہوری دور ہو یا عوام کے ووٹوں سے منتخب کردہ جمہوری، ترقی و خوشحالی کی کوئی بھی رمق پیدا نہ ہو سکی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کو یہاں کے لوگ اپنے ووٹوں سے مسلسل حقِ حاکمیت عطا کرتے رہے ہیں اور وہ ہر بار یہاں حکومت بناتی رہی ہے، مرکز میں بھی اُسے چار بار حکومت بنانے کا موقعہ ملا لیکن یہاں کے لوگوں کا طرزِ زندگی اور علاقے کی صورتحال کبھی نہ بدل سکی۔ بیشتر لوگ آج بھی اُنہیں مصائب اور مشکلات سے دوچار ہیں جیسے وہ 65برس قبل کے دور میں دوچار تھے۔ کراچی اور حیدرآباد میں تو لوگوں نے اپنے بل بوتے پر کچھ نہ کچھ جتن کرکے یہاں کا نقشہ بدل دیا ہے لیکن یہاں کی صوبائی حکومت نے کبھی کسی با ضابطہ پلاننگ کے تحت کوئی منصوبہ بندی نہیں کی اور صرف باتوں باتوں میں وقت گذار کر اور لمبی لمبی تقاریر کر کے عوام کو وعدوں پر ہی ٹرخائے رکھا۔

تمام ترقیاتی فنڈ کہاں خرچ ہو جاتا ہے ، ہر سال بجٹ میں تفویض کیے گئے اربوں روپے کدھر چلے جاتے ہیں کسی کو معلوم نہیں۔ گاؤں اور دیہات میں تو لوگ جس کسمپرسی کی زندگی گذار رہے ہیںوہ ہم سب کو معلوم ہے یہاں شہروں کے حالات بھی کوئی اتنے اچھے نہیں ہیں کہ جن پر فخر کیا جا سکے۔چاہے سکھر ہو، لاڑکانہ نوابشاہ یاجیکب آباد سبھی کا حال ایک جیسا ہے۔سال کے سال گذر جاتے ہیں اور بہتری کے کوئی آثار نمودار نہیں ہو پاتے۔ میر پور خاص اور تھر کی جو حالتِ زار ہے اُس کا چرچا تو حالیہ دنوں میں عوام نے دیکھ ہی لیا لیکن دیگر شہروں کے حالات بھی اِن سے مختلف نہیں۔ آپ اندرونِ سندھ شہر شہر گھوم کر دیکھ لیں کہیں بھی کوئی خوشحالی کے آثار دکھائی نہیں دینگے۔ ہر طرف ایسی ویرانی اور تباہ حالی ہے جیسے یہ کوئی شہر نہیں بلکہ کچی آبادیوں پر مشتمل کوئی لاوارث بستی ہو۔ یہاںکے اسکول، کالجوں اور یونیورسٹیوں کا جو حال ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ عمارتیں انتہائی بوسیدہ، فرنیچر ٹوٹا پھوٹا اور محل و قوع گند ے پانی سے گھرا ہوا۔ اساتذہ نایاب یا بمشکل دستیاب۔ امتحانات میں نقل بلا روک ٹوک جاری۔ایسے حالات میں جو نسلِ آدم پڑھ لکھ کر جوان ہوگی وہ کیسے اِس قوم کی معمار بن سکے گی۔

اسپتالوں اور ڈسپینسریوں کا حال بھی ناقابلِ بیان ہے۔ اول تو یہاں ڈاکٹر ہی ڈیوٹی پر نہیں ملے گا۔ چند ایک خوفِ خدا رکھنے والے ڈاکٹر اپنی پیشہ ورانہ ذمے داریاں بحالتِ مجبوری طوعاً وکرہاً ادا کر رہے ہونگے، باقی گھر بیٹھے تنخواہ وصول کر رہے ہوں گے اور اُن کی حاضری کوئی اور لگا رہا ہوگا۔ مریضوں کو مناسب علاج ہی مل جائے تو یہ کسی معجزے سے کم نہیں ورنہ یہاں توقیمتی میڈیسن اور دوائیوں کا ملنا توکیو نکر ممکن ہو جب کہ یہاں عام اور سستی دوائیاں بھی دستیاب نہیں ہیں۔


شہروں میں سڑکوں اور پبلک ٹرانسپورٹ کا جو حال ہے وہ ہم سب کو معلوم ہے۔کئی کئی سال گزرجاتے ہیں اور سڑکوں کی مرمت کا کام نہیں کیا جاتا۔ اِسی ملکِ پاکستان میںصوبہ پنجاب کے رہنے والے میٹرو بس سروس کی سہولتوں سے فیضیاب ہو رہے ہیں اور سندھ کے عوام پہلے جو چالیس سالہ پرانی بسوں اور ٹوٹی پھوٹی مزدہ کوچ میں سفر کیا کرتے تھے اب چنگچی نامی رکشاؤں میں سفر کرنے پر مجبور کر دیے گئے ہیں۔کراچی جیسے دنیا کے بڑے میٹرو پولیٹن شہر میں ہر طرف اب یہی رکشہ شہر کی رہی سہی خوبصورتی تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ٹرانسپورٹ کے سرکاری ادارے اور محکمے موجود ضرور ہیں لیکن وہ اپنا فرض جس طرح پورا کر رہے ہیں چنگچی رکشہ اُس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔کراچی کے شہری آج اکیسویں صدی میں اپنی عظمت و عزت کو سودا کرکے اِن بے ہنگم اور بدصورت سواریوں میں محض اِس لیے سفر کر رہے ہیں کیونکہ کوئی اور سواری دستیاب ہی نہیں۔یہی حال اور شاید اِس سے کہیں زیادہ بد تر صورتحال سندھ کے دیگر شہروں کی ہے۔ ہمارے ارکانِ اسمبلی کوکبھی اِن سواریوں میں سفر کرنے کی حاجت یا مجبوری درپیش نہ ہوئی، وہ تو ہمیشہ پیجارو اورپراڈو میں سفر کرنے کے عادی رہے ہیں، ورنہ اُنہیں شاید اپنے عوام کی تکالیف اور عزتِ نفس مجروح ہونے کا احساس ہو پاتا۔

اپنی ذمے داریوں اور فرائض سے نابلد ارکانِ اسمبلی کا ایک مخصوص ٹولا ہر بار عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر اقتدار پر قابض ہو جاتا ہے جسے اپنے لوگوں کے مصائب اور مشکلات کا ذرہ بھر بھی ادراک نہیں۔ وہ اپنے ووٹروں کو بھی اپنا زر خرید غلام اور مجبور و بے کس ہاری تصور کیے بیٹھا ہے۔جسے اتنا ضرور معلوم ہے کہ خواہ کچھ بھی ہوجائے وہ اگلے الیکشن میں پھر سے کامیاب ہو کر اقتدار و اختیار کے مزے لوٹ رہا ہوگا۔اِسی لیے وہ تمام فکرات اور خطرات سے بے پرواہ ہوکر مالی بدعنوانیوں اور کرپشن کے ذریعے بھی اپنے ہاتھوں کی صفائی دکھا رہا ہوتاہے۔یہی وجہ ہے کہ صوبہ سندھ کے سالانہ بجٹ کا تقریباً نصف حصہ اِن ہی کرشمہ سازوںکی جائیدادوں اور مالی اثاثوں میں اضافے کی نذر ہو جاتا ہے۔ قوم کے یہ بہی خواہ اور خدمت گذاراپنے عوام کا پیسہ بڑی آسانی سے ہضم کر کے یوں چین کی نیند سو جاتے ہیں جیسے یہ سب کچھ اُن کا پیدائشی حق ہو۔بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت چند ہزار روپے ہر ماہ دیکر عوام پر اپنے احسانوں کو اِس طرح جتایا جاتا ہے جیسے وہ اِسے اپنی جیب سے ادا کر رہے ہوں۔

صوبہ سندھ کے باسی اچھے دنوں کی آس و اُمید میں دارِ فانی سے ہی کو چ کر جاتے ہیں لیکن یہاں کے حالات ہیں کہ بدلنے کا نام نہیں لیتے۔ ترقی و خوشحالی اُن کے اپنے حکمرانوں کے ہاتھوں اُن سے بہت دور کر دی گئی ہے۔حالیہ چند سالوں میں اپنے آس پاس ہونے والی برق رفتار تبدیلی بھی اُن کا مزاج نہ بدل سکی اور وہ اُسی سابقہ طرز اور اندازسے حکومت کیے جا رہے ہیں۔کوئی اگر اُن کی خامیوں اور غلطیوں کی نشاندہی کرے تو اُلٹا وہ اُسے اپنی تنقید اور لعن و طعن کا نشانہ بناکر خاموش کر دیا جاتا ہے۔

سندھ کے عوام کو اب خوابِ غفلت سے نکلنا ہوگا اور اپنی بہتری اور خوشحالی کے لیے سوچنا ہوگا۔ سال ہا سال سے وہی طرزِ زندگی اور بے یار و مددگاری۔ دنیا زمانے کے جدید تقاضوں کو پورا کرکہاں سے کہاں پہنچ گئی اور ہمیں ابھی تک پینے کا صاف پانی بھی میسر نہیں۔ہم جنھیں اپنے ووٹوں سے منتخب کرکے اپنا رہبر و رہنما بناتے ہیں وہی ہمارے حقوق پر ڈاکا ڈال کرمالِ غنیمت بٹور رہے ہوتے ہیں۔اب ہمیں اُن کے ذہنوں میں پلنے والے اِس خیال کو مٹانا ہوگا کہ خواہ کچھ بھی ہوجائے وہی اِس صوبے کے مستقل حاکم رہیں گے۔اُن کی اِس خام خیالی اور غلط فہمی کو ہم اُسی وقت بدل سکتے ہیں جب ہم خود اپنی حالتِ زندگی کو بدلنے کا تہیہ کر لیں۔65سال کسی قوم کی زندگی میںکچھ کم نہیں ہوا کرتے۔ کئی قومیں اِسی مدت میں ترقی و خوشحالی کی منازل طے کر کے دنیا کے نقشے پر اُبھر کر سامنے آ چکی ہیں اور ہم ابھی تک اپنی بنیادی ضرورتوں ہی کو پورا کرنے کی جدوجہد میں لگے ہوئے ہیں۔
Load Next Story