تنویر ظہور بھی رخصت ہوئے
انھوں نے اپنی ساری زندگی اُردو اور پنجابی ادب کی ترویج کے لیے وقف کی
شعر و ادب و صحافت سے وابستہ لوگوں کے لیے جو نام قابلِ ذکر ہیں، اُن میں تنویر ظہور کا نام بہت اہم ہے۔ وہ اس لیے کہ انھوں نے اپنی ساری زندگی اُردو اور پنجابی ادب کی ترویج کے لیے وقف کی۔ ایک شاعر ، بے باک صحافی اور کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سیلف میڈ آدمی تنویر ظہور شہرِ لاہور میں مقیم کئی برسوں سے ایک ادبی رسالہ '' سانجھاں '' کے ذریعے اُردو، پنجابی زبان و ادب کے فروغ کے لیے کام کرتے رہے۔
اس سے قبل وہ کئی قومی اخبارات و رسائل کی ادارت کے فرائض انجام دے چکے تھے۔ میری ان پہلی ملاقات ان کے دوست و کالم نگار ڈاکٹر محمد اجمل نیازی کے توسط سے ہوئی۔
چند سال قبل مجھے ان کے ہمراہ ان کے دولت خانہ پر جانے کا اتفاق ہُوا۔ جہاں چھوٹے سے ڈرائنگ روم میں چاروں سمت دیوار پر ان کی یادگار تصاویر آویزاں تھیں اور ان کے کمرے میں ایک چارپائی اور ہر طرف کتابیں ہی کتابیں موجود تھیں۔ تب انھوں نے مجھے اپنی دو عدد کتابیں عنایت کی جن میں '' آنکھ ، حُسن اور خوشبو '' اور '' اقبال تے پنجابیت '' کے علاوہ روبینہ کرمانی کا تحریر کردہ ایم فل کا مقالہ شامل تھا۔''آنکھ، حُسن اور خوشبو'' ان کا پہلا اُردو شعری مجموعہ جو غزلوں ، نظموں اور ثلاثیوں پر مشتمل ہے۔
اس کتاب کے دیباچہ میں پروفیسر جیلانی کامران لکھتے ہیں کہ '' تنویر ظہورکا پنجابی شاعری کے ساتھ ایک لمبا اور گہرا تعلق رہا ہے۔ پنجابی شاعری میں ان کا لہجہ ایک نئی آواز بن کر سنائی دیتا رہا ہے۔
اس ضمن میں جو رنگ ان کی پنجابی شاعری میں رونما ہوا ہے وہ لوک انداز بیان کا ہے اور لوک کلچر کا ہے۔ زیر نظر مجموعہ '' آنکھ، حُسن اور خوشبو'' میں تنویر ظہور نے اُردو کو اپنا اظہار کا ذریعہ بنایا ہے۔'' تنویر ظہور کی اُردو شاعری میں حُسن و عشق کا ایک مخصوص فلسفہ پایا جاتا ، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ عشق زندگی کو تقویت بخشتا اور یہی مقصدِ حیات ہے۔
ان کے ہاں حُسن و عشق کی مجازی واردات و کیفیات بھرپور انداز میں ملتی ہیں لیکن ان میں سنجیدگی، صداقت ، شرافت اور خلوص بھی ہے جو پڑھنے والے کو متاثر کرتا ہے۔ انھیں جہاں پھولوں سے محبت ہے وہاں انھیں خار بھی اچھے لگتے ہیں، وہ ہجر و وصال دونوں سے خوب آگہی رکھتے ہیں۔
جس کو ڈبو گیا ہے زمانے ترا فریب
اُبھرے گی ایک دن وہ محبت چناب سے
اس نرم وگداز اندازِ بیان کے باوجود جہاں ان کا مخصوص مزاج اور شدت پسند طبیعت زور مارتی ہے تو وہ اس کا اظہار بڑی خوش دلی سے کرتے ہوئے اپنے اندر کے دُکھ کو ہلکی سی مسکراہٹ سے چھپانے کا خوب جتن کرتے ہیں۔ اسی طرح ان کی شاعری بھی سادگی اور رومانیت لیے ہوئے ہیں۔
اس حوالے سے ڈاکٹر محمد اجمل نیازی بتاتے ہیں کہ '' اس کا اُردو شعری مجموعہ ''آنکھ، حُسن اور خوشبو'' اپنی معنویت میں اس کے جذبوں کی عکاسی کرتا ہے۔
وہ ایک رومانٹک آدمی ہے۔ رومانٹک آدمی ہی انقلابی آدمی ہوتا ہے۔ حسن و عشق کی ساری کیفیتوں میں بکھرنے نکھرنے کے بعد وہ اس مقام تک آیا ہے کہ اپنا اُردو شعری مجموعہ بھی سامنے لایا ہے۔ تنویر ظہور خواہشوں سے بھرا ہوا ایک گہرا اور سچا آدمی ہے۔
میں نے اس کی زندگی کو بھی دیکھا ہے اس کی شاعری کو بھی پڑھا ہے۔ اس کے ساتھ میری محبت میں ہمیشہ اضافہ ہوتا رہا ہے۔ مجھے جب کسی پکے لاہوری کو دیکھنا ہوتا ہے تو میں تنویر ظہور کو دیکھتا ہوں۔'' تنویر ظہور کی شعری کی ایک خوبی یہ ہے کہ انھوں نے اپنی غزل اور نظم دونوں میں منفرد استعاروں اور علامتوں سے نئے معانی اور نئے مضامین آشکار کرنے کی کوشش کی ہے ، جن میں کہیں کہیں تصوف کا رنگ بھی واضح گہرا دکھائی دیتا ہے۔
ان کی کتاب کے دوسرے دیباچہ میں محترمہ شاہدہ لطیف انھیں صوفی تنویر ظہور کے نام سے مخاطب کرتے ہوئے لکھتی ہے کہ '' تنویر ظہور کی شاعری میں بیداری ہے، اُمید ہے، وطن سے محبت اور صوفیائے کرام کی معجزاتی یادیں ہیں۔
مواجہ شریف کے عنوان سے لکھی گئی نظم میں تنویر ظہور کے اندر چھپا صوفی سوچ کے حصار سے باہر جھاتیاں مارتا صاف دکھائی دیتا ہے تنویر ظہور کا شعری مجموعہ صرف ان کا ہی نہیں ہر قاری کی یادوں کا لنگر ہے ۔
وہ شاید یہ سمجھ رہا ہے ، بھول گیا تنویر اُسے
اس کی یادوں کا لنگر تو آج بھی پیارے جاری ہے
''آنکھ ، حُسن اور خوشبو'' کا یہ شاعر اپنی شاعری میں جتنا صاف شفاف نظر آتا ہے اُتنا ہی اندر سے دل کا صاف گو دکھائی دیتا ہے۔ اس کتاب کا سرورق مشہور مصور '' ریاظؔ '' کا تخلیق کردہ ہے۔ اس کے علاوہ ان کی دیگر تصانیف میں ''دلچسپ ملاقاتیں ( اُردو ادیباں دے انٹرویو) ، وہ ہوئے ہم کلام (اُردو ادیباں دے انٹرویو) ، '' فیض اور پنجابی (فیض احمد فیض دے پنجابی پیار بارے) ، روح کی معراج (سفر نامہ عمرہ) ، یادیں ( فرزندِ اقبال جسٹس ریٹائرڈ ڈاکٹر جاوید اقبال کی یاد داشتیں) ، معراج خالد (شخصیت اور یادیں) ،
عزیز احمد مغل کی جیون یادیں ( سماجی شخصیت) ، ڈاکٹر محمد انور چوہدری۔ طب اور عوامی خدمت کا روشن مینار (سرجن اور سماجی شخصیت) ، قائد اعظمؒ سے بے نظیر بھٹو تک (جسٹس (ر) ڈاکٹر جاوید اقبال کی یادوں کے آئینے میں) ، عہد ساز مصنف ، وقت سے مکالمہ ، جرات کا پیکر (جسٹس ڈاکٹر نسیم حسن شاہ کی یادیں) ، جسے چاہا در پہ بلا لیا (سفر نامہ عمرہ) ، نواز شریف۔ شخصیت اور کار نامے ، میرا بچپن (مشہور زمانہ لوکاں دا بچپن) ، سچ کیا ہے؟ (جسٹس سید سجاد علی کی یاد داشتیں) ، یہ لندن ہے پیارے (سفر نامہ برطانیہ) ، منیر نیازی کی باتیں اور یادیں '' و دیگر اُردو میں تصانیف شامل ہیں۔ اس کے علاوہ پنجابی زبان میں ''جیون پل صراط '' اور ''جیون لنگھیا پباں بھار'' و دیگر شامل ہیں۔ تنویر ظہور ''یادیں'' کے عنوان سے کئی برسوں سے '' نوائے وقت '' میں کالم لکھتے رہے۔تنویر ظہور دل کا بائی پاس ہونے کے باوجود بھی موٹر سائیکل پر سفر کرتے۔
کئی بار مجھے ان کے ساتھ '' ادب سرائے '' میں انور سدید ، اعزاز احمد آذر، افتخار مجاز، ڈاکٹر خالد جاوید جان جیسی دیگر شخصیات سے ملنے کا موقع میسر آیا۔ تنویر ظہور جس پر فدا ہو جاتے اُس پر سب کچھ لٹا دیتے اور جس سے خفا ہوجاتے اُس سے بات کرنا بھی مناسب نہ سمجھتے۔
اس کالم کے دوران عابد کمالوی بتاتے ہیںکہ '' تنویر ظہورکی شخصیت میں خوش مزاجی کا عنصر زیادہ تھا مگر وہ جب کسی بات کا ناراض ہوجاتے تو انھیں منانا کافی مشکل کام ہوتا۔ '' تنویر ظہور کا آخری سانس تک قلم اور کاغذ سے رشتہ جڑا رہا اور اپنی حق گوئی کا ثبوت دیتے رہے۔ وہ چار نومبر2022 ء کی سحر کو اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ ان کے لگائے ہوئے پودے آج ایک قد آور شجر کی مانند دیگر علمی ، ادبی اور صحافتی اداروں میں اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ تنویر ظہور کی یادیں اور باتیں ہمیشہ ہمارے درمیان زندہ رہے گی۔ بقول شاعر
خود میں یادوں کا جہاں آباد رکھتا ہوں سدا
دل میں تھوڑی آپ رہتے ہیں بھلانے کے لیے
اس سے قبل وہ کئی قومی اخبارات و رسائل کی ادارت کے فرائض انجام دے چکے تھے۔ میری ان پہلی ملاقات ان کے دوست و کالم نگار ڈاکٹر محمد اجمل نیازی کے توسط سے ہوئی۔
چند سال قبل مجھے ان کے ہمراہ ان کے دولت خانہ پر جانے کا اتفاق ہُوا۔ جہاں چھوٹے سے ڈرائنگ روم میں چاروں سمت دیوار پر ان کی یادگار تصاویر آویزاں تھیں اور ان کے کمرے میں ایک چارپائی اور ہر طرف کتابیں ہی کتابیں موجود تھیں۔ تب انھوں نے مجھے اپنی دو عدد کتابیں عنایت کی جن میں '' آنکھ ، حُسن اور خوشبو '' اور '' اقبال تے پنجابیت '' کے علاوہ روبینہ کرمانی کا تحریر کردہ ایم فل کا مقالہ شامل تھا۔''آنکھ، حُسن اور خوشبو'' ان کا پہلا اُردو شعری مجموعہ جو غزلوں ، نظموں اور ثلاثیوں پر مشتمل ہے۔
اس کتاب کے دیباچہ میں پروفیسر جیلانی کامران لکھتے ہیں کہ '' تنویر ظہورکا پنجابی شاعری کے ساتھ ایک لمبا اور گہرا تعلق رہا ہے۔ پنجابی شاعری میں ان کا لہجہ ایک نئی آواز بن کر سنائی دیتا رہا ہے۔
اس ضمن میں جو رنگ ان کی پنجابی شاعری میں رونما ہوا ہے وہ لوک انداز بیان کا ہے اور لوک کلچر کا ہے۔ زیر نظر مجموعہ '' آنکھ، حُسن اور خوشبو'' میں تنویر ظہور نے اُردو کو اپنا اظہار کا ذریعہ بنایا ہے۔'' تنویر ظہور کی اُردو شاعری میں حُسن و عشق کا ایک مخصوص فلسفہ پایا جاتا ، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ عشق زندگی کو تقویت بخشتا اور یہی مقصدِ حیات ہے۔
ان کے ہاں حُسن و عشق کی مجازی واردات و کیفیات بھرپور انداز میں ملتی ہیں لیکن ان میں سنجیدگی، صداقت ، شرافت اور خلوص بھی ہے جو پڑھنے والے کو متاثر کرتا ہے۔ انھیں جہاں پھولوں سے محبت ہے وہاں انھیں خار بھی اچھے لگتے ہیں، وہ ہجر و وصال دونوں سے خوب آگہی رکھتے ہیں۔
جس کو ڈبو گیا ہے زمانے ترا فریب
اُبھرے گی ایک دن وہ محبت چناب سے
اس نرم وگداز اندازِ بیان کے باوجود جہاں ان کا مخصوص مزاج اور شدت پسند طبیعت زور مارتی ہے تو وہ اس کا اظہار بڑی خوش دلی سے کرتے ہوئے اپنے اندر کے دُکھ کو ہلکی سی مسکراہٹ سے چھپانے کا خوب جتن کرتے ہیں۔ اسی طرح ان کی شاعری بھی سادگی اور رومانیت لیے ہوئے ہیں۔
اس حوالے سے ڈاکٹر محمد اجمل نیازی بتاتے ہیں کہ '' اس کا اُردو شعری مجموعہ ''آنکھ، حُسن اور خوشبو'' اپنی معنویت میں اس کے جذبوں کی عکاسی کرتا ہے۔
وہ ایک رومانٹک آدمی ہے۔ رومانٹک آدمی ہی انقلابی آدمی ہوتا ہے۔ حسن و عشق کی ساری کیفیتوں میں بکھرنے نکھرنے کے بعد وہ اس مقام تک آیا ہے کہ اپنا اُردو شعری مجموعہ بھی سامنے لایا ہے۔ تنویر ظہور خواہشوں سے بھرا ہوا ایک گہرا اور سچا آدمی ہے۔
میں نے اس کی زندگی کو بھی دیکھا ہے اس کی شاعری کو بھی پڑھا ہے۔ اس کے ساتھ میری محبت میں ہمیشہ اضافہ ہوتا رہا ہے۔ مجھے جب کسی پکے لاہوری کو دیکھنا ہوتا ہے تو میں تنویر ظہور کو دیکھتا ہوں۔'' تنویر ظہور کی شعری کی ایک خوبی یہ ہے کہ انھوں نے اپنی غزل اور نظم دونوں میں منفرد استعاروں اور علامتوں سے نئے معانی اور نئے مضامین آشکار کرنے کی کوشش کی ہے ، جن میں کہیں کہیں تصوف کا رنگ بھی واضح گہرا دکھائی دیتا ہے۔
ان کی کتاب کے دوسرے دیباچہ میں محترمہ شاہدہ لطیف انھیں صوفی تنویر ظہور کے نام سے مخاطب کرتے ہوئے لکھتی ہے کہ '' تنویر ظہور کی شاعری میں بیداری ہے، اُمید ہے، وطن سے محبت اور صوفیائے کرام کی معجزاتی یادیں ہیں۔
مواجہ شریف کے عنوان سے لکھی گئی نظم میں تنویر ظہور کے اندر چھپا صوفی سوچ کے حصار سے باہر جھاتیاں مارتا صاف دکھائی دیتا ہے تنویر ظہور کا شعری مجموعہ صرف ان کا ہی نہیں ہر قاری کی یادوں کا لنگر ہے ۔
وہ شاید یہ سمجھ رہا ہے ، بھول گیا تنویر اُسے
اس کی یادوں کا لنگر تو آج بھی پیارے جاری ہے
''آنکھ ، حُسن اور خوشبو'' کا یہ شاعر اپنی شاعری میں جتنا صاف شفاف نظر آتا ہے اُتنا ہی اندر سے دل کا صاف گو دکھائی دیتا ہے۔ اس کتاب کا سرورق مشہور مصور '' ریاظؔ '' کا تخلیق کردہ ہے۔ اس کے علاوہ ان کی دیگر تصانیف میں ''دلچسپ ملاقاتیں ( اُردو ادیباں دے انٹرویو) ، وہ ہوئے ہم کلام (اُردو ادیباں دے انٹرویو) ، '' فیض اور پنجابی (فیض احمد فیض دے پنجابی پیار بارے) ، روح کی معراج (سفر نامہ عمرہ) ، یادیں ( فرزندِ اقبال جسٹس ریٹائرڈ ڈاکٹر جاوید اقبال کی یاد داشتیں) ، معراج خالد (شخصیت اور یادیں) ،
عزیز احمد مغل کی جیون یادیں ( سماجی شخصیت) ، ڈاکٹر محمد انور چوہدری۔ طب اور عوامی خدمت کا روشن مینار (سرجن اور سماجی شخصیت) ، قائد اعظمؒ سے بے نظیر بھٹو تک (جسٹس (ر) ڈاکٹر جاوید اقبال کی یادوں کے آئینے میں) ، عہد ساز مصنف ، وقت سے مکالمہ ، جرات کا پیکر (جسٹس ڈاکٹر نسیم حسن شاہ کی یادیں) ، جسے چاہا در پہ بلا لیا (سفر نامہ عمرہ) ، نواز شریف۔ شخصیت اور کار نامے ، میرا بچپن (مشہور زمانہ لوکاں دا بچپن) ، سچ کیا ہے؟ (جسٹس سید سجاد علی کی یاد داشتیں) ، یہ لندن ہے پیارے (سفر نامہ برطانیہ) ، منیر نیازی کی باتیں اور یادیں '' و دیگر اُردو میں تصانیف شامل ہیں۔ اس کے علاوہ پنجابی زبان میں ''جیون پل صراط '' اور ''جیون لنگھیا پباں بھار'' و دیگر شامل ہیں۔ تنویر ظہور ''یادیں'' کے عنوان سے کئی برسوں سے '' نوائے وقت '' میں کالم لکھتے رہے۔تنویر ظہور دل کا بائی پاس ہونے کے باوجود بھی موٹر سائیکل پر سفر کرتے۔
کئی بار مجھے ان کے ساتھ '' ادب سرائے '' میں انور سدید ، اعزاز احمد آذر، افتخار مجاز، ڈاکٹر خالد جاوید جان جیسی دیگر شخصیات سے ملنے کا موقع میسر آیا۔ تنویر ظہور جس پر فدا ہو جاتے اُس پر سب کچھ لٹا دیتے اور جس سے خفا ہوجاتے اُس سے بات کرنا بھی مناسب نہ سمجھتے۔
اس کالم کے دوران عابد کمالوی بتاتے ہیںکہ '' تنویر ظہورکی شخصیت میں خوش مزاجی کا عنصر زیادہ تھا مگر وہ جب کسی بات کا ناراض ہوجاتے تو انھیں منانا کافی مشکل کام ہوتا۔ '' تنویر ظہور کا آخری سانس تک قلم اور کاغذ سے رشتہ جڑا رہا اور اپنی حق گوئی کا ثبوت دیتے رہے۔ وہ چار نومبر2022 ء کی سحر کو اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ ان کے لگائے ہوئے پودے آج ایک قد آور شجر کی مانند دیگر علمی ، ادبی اور صحافتی اداروں میں اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ تنویر ظہور کی یادیں اور باتیں ہمیشہ ہمارے درمیان زندہ رہے گی۔ بقول شاعر
خود میں یادوں کا جہاں آباد رکھتا ہوں سدا
دل میں تھوڑی آپ رہتے ہیں بھلانے کے لیے