جادوئی گولی پنسلین کی کہانی چوتھا حصہ

دوسری جنگِ عظیم کے دوران امریکی فوج اور حکومت ایٹم بم کے علاوہ پنسلین کی تیاری پر بھی کام کررہی تھی

پنسلین کی دریافت کا سہرا ڈاکٹر الیگزینڈر فلیمنگ کے سر باندھا جاتا ہے۔ (فوٹو: فائل)

یہ تو غالباً سب ہی جانتے ہیں کہ پنسلین کی دریافت کا سہرا ڈاکٹر الیگزینڈر فلیمنگ کے سر باندھا جاتا ہے مگر اس حقیقت کا ادراک بہت کم لوگوں کو ہے کہ دوسری جنگِ عظیم کے دوران امریکی فوج اور حکومت جن دو ٹاپ سیکرٹ پروجیکٹس پر کام کر رہی تھی ان میں ایک ایٹم بم تھا اور دوسرا پنسلین۔

اگست 1928 میں ڈاکٹر فلیمنگ مختلف جرثوموں پر اپنی تحقیق میں مصروف تھے کہ انھیں چند ایام کی رخصت پر کچھ ایسے جانا پڑا کہ وہ اپنے جرثوموں کے نمونے زیادہ احتیاط سے محفوظ کیے بنا ہی نکل پڑے۔ اس بے احتیاطی کا نتیجہ یہ نکلا کہ ساتھ کی تجربہ گاہ سے اڑنے والے چند پھپھوندی کے ذرات ان کے نمونوں میں شامل ہوگئے۔ جب تک ڈاکٹر فلیمنگ نے واپس آنا تھا تب تک کسی نے ان کے نمونوں کا خیال نہیں کیا اور پھپھوندی کو ان نمونوں کو خراب کرنے کا موقع مل گیا۔ اب چھٹیاں ختم ہونے کے بعد جیسے ہی ڈاکٹر فلیمنگ نے اپنے نمونوں پر نظر ڈالی تو انھیں شدید غصہ آیا کہ جہاں جرثوموں کو ہونا چاہیے تھا وہاں شدومد کے ساتھ پھپھوندی موجود تھی اور جراثیم اس سے دور دور تھے۔ ایک لمحہ کےلیے تو فلیمنگ کو سمجھ ہی نہیں آیا کہ اپنا سر پیٹا جائے یا پھر تجربہ گاہ میں موجود لوگوں کی خبر، لیکن چونکہ غلطی اپنی تھی اس لیے کسی کو کچھ کہنا بنتا بھی نہیں تھا۔ خیر فلیمنگ اپنی تجربہ گاہ کی میز پر سر جھکائے ان نمونوں کو دیکھتے رہے۔

تحریر کا پہلا حصہ یہاں سے پڑھیے: جادوئی گولی؛ جراثیم کش دواؤں کی ابتدا

دوسرا حصہ پڑھنے کے لیے یہاں کلک کیجئے: جادوئی گولی؛ دشمن کا دشمن دوست (دوسرا حصہ)

بلاگ کا تیسرا حصہ یہاں سے پڑھیے: جادوئی گولی؛ ایک مجبور باپ (تیسرا حصہ)

جراثیم اور پھپھوندی کو دیکھتے دیکھتے اچانک فلیمنگ کو خیال آیا کہ چھٹیوں پر جانے سے پہلے اس نمونے میں جہاں اب یہ پھپھوندی موجود ہے اس میں تو جراثیم بھرے پڑے تھے۔ تو کیا پھپھوندی ان جراثیم کے اوپر اُگ رہی ہے؟ فلیمنگ کے دماغ کو اس سوال نے تو گویا چکرا کر ہی رکھ دیا تھا۔ اس خیال کے آتے ہی فلیمنگ نے نمونوں کو الٹ پلٹ کر دیکھنا شروع کردیا۔ فلیمنگ کے تجربہ گاہ کے ساتھی جو کہ یہ سوچ رہے تھے کہ ابھی فلیمنگ ان نمونوں کو اٹھا کہ کوڑادان میں پھینک دے گا لیکن وہ اب اس کی اس حرکت کو تجسس کے ساتھ دیکھ رہے تھے۔

اپنے ساتھیوں کی نظروں سے بے خبر فلیمنگ کو کہیں بھی جرثومہ اور پھپھوندی ایک ساتھ نظر نہیں آئے، جیسے ان دونوں کے درمیان ایک غیر مرئی رکاوٹ تھی جس نے دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ملنے سے روکے رکھا تھا۔ اس رکاوٹ کے بارے میں سوچتے سوچتے فلیمنگ کو احساس ہوا کہ یہ پھپھوندی کوئی ایسا مادہ یا کیمیکل بنا رہی ہے جس نے ان جراثیم کو اپنے سے دور رکھا ہوا ہے۔ کچھ مزید تجربات کے بعد فلیمنگ کو اپنے اندازے کے سچ ہونے کی تصدیق ہوگئی کہ واقعی یہ پھپھوندی ایک مادہ پیدا کررہی ہے جو جرثوموں کو اس کے قریب پھلنے پھولنے اور افزائش کرنے سے روکتا ہے۔ اس پھپوندی کا نام پنسلینیم تھا تو اس کی مناسبت سے اس مادے کو پنسلین کا نام دیا گیا۔

ڈاکٹر فلیمنگ نے اپنے تجربات کے بعد ایک مقالے میں اس بات کی نشاندہی کی کہ اس پنسلین کو جراثیمی بیماریوں میں مبتلا مریضوں کے علاج کے لیے ممکنہ طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ فلیمنگ نے کوشش کی کہ پنسلین کو کشید کیا جاسکے لیکن اس کام میں انھیں ناکامی ہوئی۔ اس ناکامی کے بعد انھوں نے اس ضمن میں مزید کوئی تحقیق نہیں کی کہ کس طرح پنسلین کو علاج کی خاطر استعمال میں لایا جاسکتا ہو اور یوں گزشتہ صدی کی طب کی سب سے بڑی دریافت 1938 تک سرد خانے کی نذر ہوگئی۔

بیسویں صدی کی تیسری دہائی کے اختتام پر دنیا دوسری جنگِ عظیم کے دہانے پر کھڑی تھی۔ یورپ میں ہٹلر کی سربراہی میں جرمنی اپنے بازو پھیلا رہا تھا تو دوسری جانب سوویت روس کے بھی توسیع پسندانہ عزائم بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں تھے۔ سوویت روس میں فیلکس ڈی ہرلی کی دریافت جرثومہ خور وائرسوں کو بطور جراثیم کش دوا استعمال کیا جارہا تھا تو دوسری طرف جرمنی کے پاس گیرہارڈ کی دریافت کردہ سلفونامائیڈ جیسی جراثیم کش دوا موجود تھی، ایسے میں برطانیہ میں اس کمی کو شدت کے ساتھ محسوس کیا گیا کہ ان کے پاس کوئی جراثیم کش دوا اپنے سپاہیوں کے علاج کےلیے دستیاب نہیں ہے۔


جراثیم کش دوا کی کمی کا احساس یقیناً آپ کےلیے حیرت کا باعث ہونا چاہیے کہ جہاں یہ وسیع و عریض سلطنتیں لاکھوں سپاہیوں پر مشتمل بڑی بڑی افواج رکھتی ہوں، جہاں ہر روز لڑاکا جہاز، آبدوزیں، ٹینک اور میزائلوں جیسے نت نئے اور تباہ کن ہتھیار ایجاد ہورہے ہوں وہاں ایک معمولی سی دوا کی ایسی کیا خاص اہمیت؟ آپ کی یہ حیرت اور یہ سوال بالکل بجا ہے اور اس سوال کا جواب چھپا ہے پہلی جنگِ عظیم میں۔ پہلی جنگِ عظیم کے دوران دشمن کی گولیوں سے اتنی ہلاکتیں نہیں ہوئی تھیں جتنی جراثیم کے ہاتھوں ہوئیں۔ مطلب جنگ میں لڑائی کے دوران اگر کوئی سپاہی زخمی ہوگیا تو جنگ کے حالات میں مناسب دیکھ بھال نہ ملنے کے باعث اس کے زخم خراب ہوجاتے، کئی دفعہ نوبت بازو اور ٹانگ کے کٹنے تک پہنچ جاتی۔ ان زخموں کے خراب ہونے کی واحد وجہ جراثیم ہوتے تھے (جیسے آج کے زمانے میں شوگر کے مریض اگر بے احتیاطی کریں تو ان کے زخم خصوصاً پاؤں ٹانگوں کے زخم خراب ہوجاتے ہیں)۔ پہلی جنگِ عظیم کے نتیجے میں لاکھوں کی تعداد میں ایسے سپاہیوں کو اپنے اعضا سے ہاتھ دھونے پڑے تھے اور اب جب کہ ایک بار پھر سے جنگ دہلیز پر کھڑی دستک دے رہی تھی تو لازمی بات ہے کہ ان جرثوموں کا کوئی حل نکالا جانا لازمی تھا۔

1939 میں آکسفورڈ یونیورسٹی کے دو محققین ای بی چین اور ایچ ڈبلیو فلوری نے بدلتے عالمی حالات میں جراثیم کش ادویہ پر کام کرنے کی ٹھانی۔ مطالعے کے دوران فلیمنگ کا وہ تحقیقی مقالہ جس میں پنسلین کا ذکر تھا ان کی نظر سے گزرا۔ ذرا سی تگ و دو کے بعد انھیں فلیمنگ کے نمونوں میں لگنے والی پھپھوندی بھی وہیں دستیاب ہوگئی، جس سے انھوں نے پنسلین حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔ (میں اپنے پچھلے ایک مضمون میں خوردبینی جانداروں کی افزائش کے طریقہ کا ذکر کرچکا ہوں لہٰذا ابھی زیادہ تفصیل میں نہیں جاؤں گا، صرف اتنا بتا دینا چاہتا ہوں کہ جب ہمیں کسی خوردبینی جاندار کی شناخت کرنا ہو تو اسے جیلی والے میڈیم پر افزائش کرواتے ہیں اور اگر اس جاندار سے کوئی مادہ، کیمیکل وغیرہ حاصل کرنا ہوتو اس کی افزائش شوربہ یا بروتھ میں کی جاتی ہے۔)

پنسلینیم کو بروتھ میں اگایا جانے لگا۔ جب کافی مقدار میں پھپھوندی اگ گئی تو انھوں نے پھپھوندی کو مائع بروتھ سے الگ کیا اور اس استعمال شدہ بروتھ کو ان جرثوموں کے خلاف استعمال کرکے دیکھا کہ کیا جراثیم کش صلاحیت مطلب پنسلین اس محلول میں موجود ہے یا پھپھوندی کے خلیات میں۔ یہ تجربہ نہایت اہم تھا کیونکہ اگر پنسلین بروتھ کے محلول میں موجود نہ ہوتی تو پھر آگے کی تمام تر حکمتِ عملی بالکل الگ اختیار کی جانی تھی۔ خیر ان کا تجربہ کامیاب رہا کہ استعمال شدہ بروتھ کے محلول کی موجودگی میں جراثیم کی افزائش نہ ہونے کے برابر تھی، یعنی پنسلین اس میں حل شدہ تھی۔ اب سب سے اہم بات یہ معلوم کرنا تھی کہ کیا جانوروں میں اس پنسلین کا کوئی زہریلا یا نقصاندہ اثر تو نہیں ہوتا؟ اس غرض سے رابرٹ کاخ کے تجربے سے ملتا جلتا تجربہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا، اور چوہوں میں پھپھوندی کا استعمال شدہ بروتھ انجیکٹ کردیا گیا اور انتظار کیا گیا کہ کیا چوہے اس انجیکشن کے بعد بھی صحتمند رہتے ہیں یا کوئی بیماری یا زہر کی علامات ان میں ظاہر ہوتی ہیں؟ خدا خدا کرکے انتظار ختم ہوا اور تمام کے تمام چوہے اپنے پنجروں میں زندہ سلامت پائے گئے۔ لہٰذا ان تجربات سے دو باتیں تو واضح ہوگئیں کہ پنسلین پھپھوندی کی افزائش کے بعد اس کے استعمال شدہ بروتھ سے حاصل کی جاسکتی ہے اور دوسری کہ اس کے کوئی خاص نقصان دہ اثرات بھی نہیں ہیں۔

اب اگلا مرحلہ پھپھوندی کو اگا کر زیادہ سے زیادہ مقدار میں پنسلین کو کشید کرنے کا تھا۔ اس کام کےلیے این جی ہیٹلی کی صلاحیتوں کو بھانپتے ہوئے اس ٹیم کا ممبر بننے کی دعوت دی گئی جو اس نے قبول کرلی۔ ہیٹلی نے سب سے پہلے تو جراثیم کش دواؤں کو ٹیسٹ کرنے کا ابتدائی طریقہ وضح کیا، تاکہ آئندہ سے تمام تجربات ایک مستند طریقہ سے کیے جاسکیں، نہ کہ ہر شخص الگ الگ طریقہ کار اپناتا پھرے۔ اس کے بعد ہیٹلی نے پھپھوندی کے استعمال شدہ بروتھ سے پنسلین کو کشید کرنے کا انتظام کیا۔ بروتھ میں پنسلین کے علاوہ بلامبالغہ سیکڑوں دوسرے مادے اور مرکبات موجود تھے، لہٰذا اس کا طریقہ یہ اختیار کیا گیا کہ بہت سارے نامیاتی محلولوں کو استعمال کیا گیا اور دیکھا گیا کہ ان میں پنسلین کی کتنی مقدار حل ہوتی ہے اور باقی تمام کثافتیں کتنی۔ ان تمام محلولوں میں سے اس محلول کا انتخاب کیا گیا کہ جس میں پنسلین سب سے زیادہ اور باقی سب کچھ نہایت کم ہو، اور اس طرح کشید کرنے کا عمل بھی کامیابی سے ہمکنار ہوا۔

اب باری تھی پھپھوندی کی بڑے پیمانے پر افزائش کرنے اور زیادہ سے زیادہ پنسلین حاصل کرنے کی۔ اس غرض سے چوڑے پیندے والے فرائی پین سے ملتے جلتے برتن ڈیزائن کیے گئے جن میں بروتھ بھر کر اس کی سطح پر پنسلینیم چھڑک کر انھیں مخصوص درجہ حرارت میں رکھ دیا جاتا کہ پھپھوندی اچھی طرح سے اگ سکے اور پنسلین بناسکے۔

آخرکار مہینوں کی محنت کے بعد اتنی پنسلین جمع ہوگئی کہ اس کو جانوروں پر ٹیسٹ کیا جاسکے۔ اس ٹیسٹ کےلیے پاول ارلیش کے سالورسان 606 والے تجربے سے ملتا جلتا تجربہ کیا گیا۔ چوہوں کو دو گروہوں میں تقسیم کیا گیا اور ان سب کے خون میں اسٹریپٹوکوکس نامی جراثیم کی مہلک مقدار انجیکشن کے ذریعے داخل کردی گئی۔ ان چوہوں کے ایک گروہ کو پنسلین کا انجیکشن لگایا گیا جبکہ دوسرے کو نہیں، اور ان دونوں گروہوں کا مشاہدہ شروع ہوگیا۔

یہ پہلا موقع تھا کہ کسی جاندار کے جسم میں پنسلین انجیکٹ کی گئی تھی لہٰذا سب کا تجسس اپنی انتہا پر تھا۔ کنٹرول گروہ کے چوہے جنھیں پنسلین کا انجیکشن نہیں لگا تھا وہ سب کے سب جراثیم کی تاب نہ لاسکے اور مرگئے جب کہ پنسلین والے تمام چوہے زندہ اور صحتمند تھے۔ اس کامیابی کے بعد ایک بار پھر تمام لوگ پنسلین تیار کرنے میں جت گئے کہ اگلا قدم انسانوں میں پنسلین کے تجربات کا تھا۔

(جاری ہے)

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story