ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی پہلی برسی اور کتاب کی اشاعت
کتاب اہل علم، اہل بصیرت، شاعر ادیب اور کالم نگاروں کی تحریروں سے آراستہ ہے
فخر پاکستان ، محسن پاکستان کی پہلی برسی گزشتہ دنوں گزری ہے، اس موقع پر ممتاز صحافی جلیس سلاسل کی کتاب بعنوان '' ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور کہوٹہ'' کی اشاعت اس بات کی علامت ہے کہ مصنف کو ڈاکٹر صاحب سے بے پناہ محبت و عقیدت تھی، ڈاکٹر صاحب سے تعلقات کا عرصہ طویل ماہ و سال پر محیط ہے۔
کتاب کی ابتدا آقائے دو جہاں حضرت محمد ﷺ سے انتساب کی شکل میں کی ہے۔ رحمت اللعالمین، خاتم النبین، امام الانبیا اور اپنے آقا حضرت محمدؐ کے نام۔ اس کے ساتھ ہی سورۃ النسا کی آیت135 کا ترجمہ بھی درج ہے۔
کتاب کا مقدمہ جلیس سلاسل نے اپنے استاد اور محبی پروفیسر نثار احمد زبیری سے لکھوایا ہے اور وہ بہت شکر گزار ہیں کہ بیگم کی انتہائی طبیعت کی ناسازی کے باوجود کتاب کا عرق ریزی سے مطالعے کے بعد مقدمہ لکھا جو واقعی شاہکار ہے۔
انھوں نے اپنے کرم فرماؤں کا بھی شکریہ ادا کیا ہے جن کے تعاون کی بدولت کتاب کی اشاعت ممکن ہوئی۔ جلیس سلاسل کئی کتابوں کے مصنف ہیں جن میں سب سے زیادہ اہمیت '' کورٹ مارشل'' کو حاصل ہے۔
کتاب کے مصنف و مولف کو مذہب اسلام اور اپنے وطن سے جنون کی حد تک محبت ہے، یہ عکس ان کی تحریروں میں جا بجا نظر آتا ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے خیالات و افکار سے ہم آہنگی کے باعث وہ ان کے معتقد ہیں اور قدم قدم پر ان کے ساتھ رہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان انھیں '' جلیس بھائی'' کہہ کر پکارتے تھے اور انھوں نے بھائیوں کی ہی طرح حق ادا کیا۔
مذکورہ کتاب 20 ابواب کا احاطہ کرتی ہے اور 432 صفحات پر مشتمل ہے۔ پہلا باب اس حقیقت کو عیاں کرتا ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا پہلا انٹرویو لینے کی وجہ کیا تھی؟ اسی باب میں انھوں نے ان دوست و احباب کا بھی تذکرہ کیا ہے جن کی محبتیں مصنف کو ہمیشہ میسر رہیں ، اس کی وجہ وہ خود بھی بااخلاق اور باکردار ہیں اسی باب میں انھوں نے ان ہستیوں کا بھی ذکر کیا ہے جن کی وجہ سے پاکستان کو عزت، شہرت اور استحکام حاصل ہوا۔
وہ لکھتے ہیں کہ جن شخصیات نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا ان میں ایک سیدابوالاعلیٰ مودودی ہیں، جنھوں نے مجھے گمراہ ہونے سے بچا لیا، دوسری ان کی محبتیں اور شفقتیں ہیں جن کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ جب کہ دوسری شخصیت ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہیں جن کا 1984 میں خصوصی انٹرویو کرنے کے بعد بین الاقوامی سطح پر میرا پہلی بار تعارف ہوا، شہرت ملی، عزت ملی اور اس کے بعد 36 سال تک ان کی دیرینہ رفاقت کا اعزاز حاصل رہا۔
جلیس سلاسل نے کئی ان اہم تقریبات کا احوال بھی بیان کیا ہے جن میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے بطور مہمان خصوصی شرکت فرمائی اور ان مواقعوں پر ان کا خاص طور پر ذکر کیا۔
مرتضیٰ مجید کی والدہ مرحومہ نور جہاں نوری کے شعری مجموعے '' لمحات نور'' کی تقریب پذیرائی کے موقع پر ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اظہار خیال کچھ اس طرح کیا کہ ''میرا تعارف قومی سطح پر تو عالمی اسلامی ڈائجسٹ کے ساتھ ساتھ دیگر قومی اخبارات و جرائد سے بھی ہوا لیکن بین الاقوامی سطح پر جلیس سلاسل کے لیے ہوئے اس انٹرویو سے ہوا ان دنوں وہ ماہنامہ ''عالمی اسلامی ڈائجسٹ'' کراچی میں بحیثیت ایڈیٹر انچیف تھے اور ستمبر 1984 کے شمارے میں شایع ہوا۔ یہ کسی ماہنامہ کا پہلا انٹرویو تھا۔
تقریب کے اختتام پر طلبا و اساتذہ نے انٹرویو کے حوالے سے جلیس صاحب سے سوالات کیے جس کے انھوں نے تفصیلاً جواب دیے۔ بات ادھر ہی ختم نہیں ہوتی ہے بلکہ آگے بھی بڑھتی ہے۔ وہ اس طرح لاہور کے ایک معروف جریدہ ماہنامہ قومی ڈائجسٹ نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے متعلق ایک خصوصی اشاعت کا اہتمام کیا جس میں بیرون ممالک کے اخبارات و جرائد میں شایع ہونے والے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے خلاف مضامین پر ہرزہ سرائی اور کردار کشی کی گئی تھی، ایسی تمام تحریروں کو یکجا کرکے شایع کردیا۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے قومی ڈائجسٹ کے چیف ایڈیٹر مجیب الرحمن شامی کو ایک خط لکھا جو کام غیر ممالک کے یہود و نصاریٰ کر رہے تھے وہ اب پاکستان کے مسلمان بھی کرنے لگے جو یقیناً میرے لیے دکھ کی بات ہے لیکن پھر بھی میرے دفتر (K.R.L) کی طرف سے آپ کو حقائق سے آگاہ کیا جا رہا ہے، یہ لکھ کر کہوٹہ سے متعلق ایک مضمون اس خط کے ساتھ ارسال کردیا۔
مجیب الرحمن شامی نے قومی ڈائجسٹ میں ان کے خط کے ساتھ شایع کردیا اور اس پر یہ نوٹ بھی لگا دیا کہ آپ اسے ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا پہلا انٹرویو بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ بھی لکھ دیا اس مضمون کا متن کوئی اخبار یا جریدہ شایع نہیں کرسکتا۔ اس تلخ حقیقت نے مصنف کو ذہنی کرب اور غم و غصے میں مبتلا کردیا ، ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی اجازت سے آخرکار انٹرویو ہوگیا اور ڈاکٹر صاحب کے حکم کے مطابق ڈائجسٹ کی 50 کاپیاں ان کے کراچی کے دفتر میں پہنچا دی گئیں، باقی اخبارات کے دفتر میں دستی دیں۔
بہت جلد یہ خبر بھی سننے کو مل گئی کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے انٹرویو کی اشاعت پر پابندی ہے ، لیکن دوستوں کے تعاون کی بدولت روزنامہ امروز لاہور میں انٹرویو شایع ہوگیا اور روزنامہ امروز سے لفٹ لے کر آل انڈیا ریڈیو سے نشر ہوا۔ ''ڈیلی پاکستان ٹائمز'' میں بھی نمایاں طور پر اس کی اشاعت ہوئی۔ ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے جلیس سلاسل کو یہ جواب دیا۔
ڈاکٹر سیٹھنا اور بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی کے بیانات کہ بھارتی ایٹمی پروگرام پاکستان سے آگے ہے۔ غلط ہے انھوں نے اپنے عوام کو دھوکا دینے کے لیے جھوٹ گھڑا ہے جب کہ اٹل حقیقت یہ ہے کہ زرخیزی کی ٹیکنالوجی میں نہ صرف یہ کہ ہمیں موثر کامیابی ہوئی ہے بلکہ ہم نے بھارت کو کئی سال پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ جب کوئی اس ٹیکنالوجی پر دسترس حاصل کرلیتا ہے تو وہ ایٹم بم تو کیا ہائیڈروجن بم بھی بنا سکتا ہے۔
یہ تھے ڈاکٹر عبدالقدیر خان۔ بہادر، جری سچے مسلمان۔ جلیس سلاسل نے ڈاکٹر صاحب کے سراپے اور کردار کی تعریف اس طرح کی ہے۔ اس شخص کا قد لمبا، سینہ چوڑا، بال فوجی کٹ، لباس سادہ، حب الوطنی کا معیار، اسلام کی تلوار، پاکستان کی ڈھال۔ بے شک یہ پاکستان اور پاکستانی عوام کیخوش قسمتی ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے پاکستان کو ایٹمی قوت بخشی اور عالم اسلام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ یہ سچائی بڑی کربناک ہے پاکستان ایٹمی قوت ہوتے ہوئے بھی اغیار کی نظر میں وہ عزت و مرتبہ اور خوشحالی کی دولت سے مالا مال نہیں ہو سکا۔
پاکستان سے آج تک محب وطن، اسلام کی خدمت کے لیے پل پل سرشار، اعلیٰ سوچ و افکار اور ملی خدمت کا جذبہ رکھنے والوں سے دشمنان پاکستان نے ہمیشہ برا سلوک کیا عزت و قدردانی کرنے کے بجائے ان کی ناقدری کی گئی لیکن اللہ جسے عزت و بلند مقام عطا کرے وہ تاریخ میں امر ہو جاتا ہے۔
پاکستان کو اپنے کردار اور عمل سے نقصان پہنچانے والوں کی فہرست طویل ہے انھی میں سے بہت سے کرداروں کو بے نقاب کرنے میں بے باک صحافی جلیس سلاسل کے قلم سے دلائل اور سچائی کے ساتھ ان لوگوں کو معلومات بہم پہنچائی ہے جو ناواقف ہیں یا مصلحتاً خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
کتاب اہل علم، اہل بصیرت، شاعر ادیب اور کالم نگاروں کی تحریروں سے آراستہ ہے۔ جلیس سلاسل کو مبارک باد پیش کرتی ہوں ، اس دعا کے ساتھ کہ اللہ کرے کہ وہ حق کی راہ میں ہمیشہ سینہ سپر رہیں۔ اللہ تعالیٰ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو بلند درجات اور گوشہ بہشت عطا فرمائے۔ (آمین)
کتاب کی ابتدا آقائے دو جہاں حضرت محمد ﷺ سے انتساب کی شکل میں کی ہے۔ رحمت اللعالمین، خاتم النبین، امام الانبیا اور اپنے آقا حضرت محمدؐ کے نام۔ اس کے ساتھ ہی سورۃ النسا کی آیت135 کا ترجمہ بھی درج ہے۔
کتاب کا مقدمہ جلیس سلاسل نے اپنے استاد اور محبی پروفیسر نثار احمد زبیری سے لکھوایا ہے اور وہ بہت شکر گزار ہیں کہ بیگم کی انتہائی طبیعت کی ناسازی کے باوجود کتاب کا عرق ریزی سے مطالعے کے بعد مقدمہ لکھا جو واقعی شاہکار ہے۔
انھوں نے اپنے کرم فرماؤں کا بھی شکریہ ادا کیا ہے جن کے تعاون کی بدولت کتاب کی اشاعت ممکن ہوئی۔ جلیس سلاسل کئی کتابوں کے مصنف ہیں جن میں سب سے زیادہ اہمیت '' کورٹ مارشل'' کو حاصل ہے۔
کتاب کے مصنف و مولف کو مذہب اسلام اور اپنے وطن سے جنون کی حد تک محبت ہے، یہ عکس ان کی تحریروں میں جا بجا نظر آتا ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے خیالات و افکار سے ہم آہنگی کے باعث وہ ان کے معتقد ہیں اور قدم قدم پر ان کے ساتھ رہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان انھیں '' جلیس بھائی'' کہہ کر پکارتے تھے اور انھوں نے بھائیوں کی ہی طرح حق ادا کیا۔
مذکورہ کتاب 20 ابواب کا احاطہ کرتی ہے اور 432 صفحات پر مشتمل ہے۔ پہلا باب اس حقیقت کو عیاں کرتا ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا پہلا انٹرویو لینے کی وجہ کیا تھی؟ اسی باب میں انھوں نے ان دوست و احباب کا بھی تذکرہ کیا ہے جن کی محبتیں مصنف کو ہمیشہ میسر رہیں ، اس کی وجہ وہ خود بھی بااخلاق اور باکردار ہیں اسی باب میں انھوں نے ان ہستیوں کا بھی ذکر کیا ہے جن کی وجہ سے پاکستان کو عزت، شہرت اور استحکام حاصل ہوا۔
وہ لکھتے ہیں کہ جن شخصیات نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا ان میں ایک سیدابوالاعلیٰ مودودی ہیں، جنھوں نے مجھے گمراہ ہونے سے بچا لیا، دوسری ان کی محبتیں اور شفقتیں ہیں جن کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ جب کہ دوسری شخصیت ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہیں جن کا 1984 میں خصوصی انٹرویو کرنے کے بعد بین الاقوامی سطح پر میرا پہلی بار تعارف ہوا، شہرت ملی، عزت ملی اور اس کے بعد 36 سال تک ان کی دیرینہ رفاقت کا اعزاز حاصل رہا۔
جلیس سلاسل نے کئی ان اہم تقریبات کا احوال بھی بیان کیا ہے جن میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے بطور مہمان خصوصی شرکت فرمائی اور ان مواقعوں پر ان کا خاص طور پر ذکر کیا۔
مرتضیٰ مجید کی والدہ مرحومہ نور جہاں نوری کے شعری مجموعے '' لمحات نور'' کی تقریب پذیرائی کے موقع پر ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اظہار خیال کچھ اس طرح کیا کہ ''میرا تعارف قومی سطح پر تو عالمی اسلامی ڈائجسٹ کے ساتھ ساتھ دیگر قومی اخبارات و جرائد سے بھی ہوا لیکن بین الاقوامی سطح پر جلیس سلاسل کے لیے ہوئے اس انٹرویو سے ہوا ان دنوں وہ ماہنامہ ''عالمی اسلامی ڈائجسٹ'' کراچی میں بحیثیت ایڈیٹر انچیف تھے اور ستمبر 1984 کے شمارے میں شایع ہوا۔ یہ کسی ماہنامہ کا پہلا انٹرویو تھا۔
تقریب کے اختتام پر طلبا و اساتذہ نے انٹرویو کے حوالے سے جلیس صاحب سے سوالات کیے جس کے انھوں نے تفصیلاً جواب دیے۔ بات ادھر ہی ختم نہیں ہوتی ہے بلکہ آگے بھی بڑھتی ہے۔ وہ اس طرح لاہور کے ایک معروف جریدہ ماہنامہ قومی ڈائجسٹ نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے متعلق ایک خصوصی اشاعت کا اہتمام کیا جس میں بیرون ممالک کے اخبارات و جرائد میں شایع ہونے والے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے خلاف مضامین پر ہرزہ سرائی اور کردار کشی کی گئی تھی، ایسی تمام تحریروں کو یکجا کرکے شایع کردیا۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے قومی ڈائجسٹ کے چیف ایڈیٹر مجیب الرحمن شامی کو ایک خط لکھا جو کام غیر ممالک کے یہود و نصاریٰ کر رہے تھے وہ اب پاکستان کے مسلمان بھی کرنے لگے جو یقیناً میرے لیے دکھ کی بات ہے لیکن پھر بھی میرے دفتر (K.R.L) کی طرف سے آپ کو حقائق سے آگاہ کیا جا رہا ہے، یہ لکھ کر کہوٹہ سے متعلق ایک مضمون اس خط کے ساتھ ارسال کردیا۔
مجیب الرحمن شامی نے قومی ڈائجسٹ میں ان کے خط کے ساتھ شایع کردیا اور اس پر یہ نوٹ بھی لگا دیا کہ آپ اسے ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا پہلا انٹرویو بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ بھی لکھ دیا اس مضمون کا متن کوئی اخبار یا جریدہ شایع نہیں کرسکتا۔ اس تلخ حقیقت نے مصنف کو ذہنی کرب اور غم و غصے میں مبتلا کردیا ، ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی اجازت سے آخرکار انٹرویو ہوگیا اور ڈاکٹر صاحب کے حکم کے مطابق ڈائجسٹ کی 50 کاپیاں ان کے کراچی کے دفتر میں پہنچا دی گئیں، باقی اخبارات کے دفتر میں دستی دیں۔
بہت جلد یہ خبر بھی سننے کو مل گئی کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے انٹرویو کی اشاعت پر پابندی ہے ، لیکن دوستوں کے تعاون کی بدولت روزنامہ امروز لاہور میں انٹرویو شایع ہوگیا اور روزنامہ امروز سے لفٹ لے کر آل انڈیا ریڈیو سے نشر ہوا۔ ''ڈیلی پاکستان ٹائمز'' میں بھی نمایاں طور پر اس کی اشاعت ہوئی۔ ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے جلیس سلاسل کو یہ جواب دیا۔
ڈاکٹر سیٹھنا اور بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی کے بیانات کہ بھارتی ایٹمی پروگرام پاکستان سے آگے ہے۔ غلط ہے انھوں نے اپنے عوام کو دھوکا دینے کے لیے جھوٹ گھڑا ہے جب کہ اٹل حقیقت یہ ہے کہ زرخیزی کی ٹیکنالوجی میں نہ صرف یہ کہ ہمیں موثر کامیابی ہوئی ہے بلکہ ہم نے بھارت کو کئی سال پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ جب کوئی اس ٹیکنالوجی پر دسترس حاصل کرلیتا ہے تو وہ ایٹم بم تو کیا ہائیڈروجن بم بھی بنا سکتا ہے۔
یہ تھے ڈاکٹر عبدالقدیر خان۔ بہادر، جری سچے مسلمان۔ جلیس سلاسل نے ڈاکٹر صاحب کے سراپے اور کردار کی تعریف اس طرح کی ہے۔ اس شخص کا قد لمبا، سینہ چوڑا، بال فوجی کٹ، لباس سادہ، حب الوطنی کا معیار، اسلام کی تلوار، پاکستان کی ڈھال۔ بے شک یہ پاکستان اور پاکستانی عوام کیخوش قسمتی ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے پاکستان کو ایٹمی قوت بخشی اور عالم اسلام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ یہ سچائی بڑی کربناک ہے پاکستان ایٹمی قوت ہوتے ہوئے بھی اغیار کی نظر میں وہ عزت و مرتبہ اور خوشحالی کی دولت سے مالا مال نہیں ہو سکا۔
پاکستان سے آج تک محب وطن، اسلام کی خدمت کے لیے پل پل سرشار، اعلیٰ سوچ و افکار اور ملی خدمت کا جذبہ رکھنے والوں سے دشمنان پاکستان نے ہمیشہ برا سلوک کیا عزت و قدردانی کرنے کے بجائے ان کی ناقدری کی گئی لیکن اللہ جسے عزت و بلند مقام عطا کرے وہ تاریخ میں امر ہو جاتا ہے۔
پاکستان کو اپنے کردار اور عمل سے نقصان پہنچانے والوں کی فہرست طویل ہے انھی میں سے بہت سے کرداروں کو بے نقاب کرنے میں بے باک صحافی جلیس سلاسل کے قلم سے دلائل اور سچائی کے ساتھ ان لوگوں کو معلومات بہم پہنچائی ہے جو ناواقف ہیں یا مصلحتاً خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
کتاب اہل علم، اہل بصیرت، شاعر ادیب اور کالم نگاروں کی تحریروں سے آراستہ ہے۔ جلیس سلاسل کو مبارک باد پیش کرتی ہوں ، اس دعا کے ساتھ کہ اللہ کرے کہ وہ حق کی راہ میں ہمیشہ سینہ سپر رہیں۔ اللہ تعالیٰ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو بلند درجات اور گوشہ بہشت عطا فرمائے۔ (آمین)