کیا سیاسی ڈیڈ لاک کا خاتمہ ممکن ہوسکے گا

سیاسی فریقین کے درمیان کیسے سیاسی لچک پیدا ہو اورتمام فریقین ایک دوسرے کے لیے اپنے اپنے اندر راستہ بھی پیدا کریں

salmanabidpk@gmail.com

پاکستان ایک سیاسی ڈیڈلاک کا ماحول ہے ۔ بداعتمادی کا یہ ماحول تناو، ٹکراو او رالجھاو کو جنم دے رہا ہے۔ سیاسی مسائل کا حل مکالمہ ، بات چیت اور مفاہمت کے ساتھ جڑا ہوتا ہے تاکہ معاملات کو بند گلی میں ڈالنے کے بجائے راستے کو تلاش کیا جاسکے ۔لیکن یہاں سیاسی فریقین اسٹیبلیشمنٹ سے تو بات چیت کے لیے تیار ہیں مگر آپس میں بیٹھنے کے لیے تیار نہیں۔

پچھلے دنوں لاہور میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی صحافیوں کے ساتھ ایک نشست کا اہتمام کیا گیا۔ جس میں راقم بھی شریک تھا ۔ بنیادی نقطہ یہ ہی تھا کہ کیا سیاسی ڈیڈ لاک میں بریک تھرو ممکن ہوسکے گا ؟

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے جو پس پردہ مفاہمت کاراستہ نکالنے کی کوشش کی تھی وہ کارگر نہیں ہوسکی او راب مزاکرات کا دروازہ بند ہوگیا ہے ۔ لیکن ہماری جو اطلاعات ہیں ان کے مطابق پس پردہ مذاکرات کے کھیل میں مسائل موجود ہیں مگر یہ اب بھی کسی نہ کسی شکل میں جاری ہیں۔

ایک مسئلہ عمران خان او راسٹیبلیشمنٹ کے درمیان تناؤ کا ہے اور دوسری طرف حکومت او رحزب اختلاف کے درمیان درمیانی راستے کا ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بظاہر کوئی کسی کے ساتھ بیٹھنے کے لیے تیار نہیں مگر پس پردہ بات چیت کے عمل کا حصہ ہیں ۔ اس کا اعتراف خود ڈاکٹر عارف علوی نے بھی کیا کہ جو بھی بات چیت ہوئی ہے یا ہورہی ہے اس میں غیررسمی طور پر حکومت کے اپنے اندر سے بھی کچھ لوگوں سے بات چیت کا عمل جاری ہے۔

ان کے بقول کچھ باتیں ایسی ہیں جن پر فوری طو ر پر کوئی حتمی نتیجہ دینا مناسب نہیں ۔کیونکہ جب تک نتیجہ حتمی طورپر سامنے نہیں آتا کوئی بات حتمی طور پر کہنا میرے منصب کے خلاف ہے ۔ ڈاکٹر عارف علومی گفتگو میں کافی محتاط تھے جو ظاہر کرتا تھا کہ پس پردہ واقعی کچھ باتیں ابھی زیر بحث ہیں ۔اب ایک خبر ڈاکٹر عارف علوی اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے درمیان ملاقات کی بھی سامنے آرہی ہے۔


ڈاکٹر عارف علوی بھی یہ ہی سمجھتے ہیں کہ موجودہ سیاسی سطح پر جو ڈیڈ لاک ہے اس کو فوری عام انتخابات کی مدد سے ہی توڑا جاسکتا ہے۔ وہ اس نقطہ پر متفق ہیں کہ موجودہ سیاسی اور ریاستی بحران کو ہم کسی بھی صورت اکتوبر 2023تک نہیں لے کر جاسکتے ۔اس سے قبل انتخابات ہی نقطہ ایسا ہوگا جو سیاسی کشیدگی کو کم کرسکتا ہے ۔ وہ اس نقطہ پر متفق تھے کہ مسئلہ کسی ایک فریق کا نہیں بلکہ سیاست سے جڑے تمام فریقین ہی موجودہ صورتحال کے ذمے دار ہیں۔

کیونکہ سیاسی فریقین عملی طور پر سیاسی مسائل کا حل سیاسی فورم کے بجائے کسی او رفورم سے تلاش کرنے کی کوشش کررہے ہیں ، جو درست حکمت عملی نہیں او را س کا فائدہ سیاسی قوتوں کو نہیں ہوگا۔ ڈاکٹر عارف علوی کا یہ نقطہ بھی اہم تھا کہ محض مسئلہ کا حل فوری انتخابات نہیں ہوگا بلکہ اس کے لیے ہمیں پوری دیانت داری کے ساتھ شفافیت پر مبنی انتخابات کا راستہ اختیار کرنا ہوگا۔

کیونکہ اگر انتخابات سے قبل انتخابات پر شفافیت پر اتفاق نہیں ہوتا او ر جو انتخابی اصلاحات درکار ہیں وہ نہیں کی جاتیں تو پھر فوری انتخابات کے نتائج کو بھی متنازع بنایا جاسکتا ہے ۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو انتخابات کا یہ عمل نئی سیاسی کشیدگی یا سیاسی محاذ آرائی کو جنم دینے کا سبب بنے گا ۔

کچھ لوگ یہ بیانیہ دیتے ہیں کہ سیاسی ڈیڈ لاک کی بڑی وجہ عمران خان ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ عمران خان پر بھی ضرور تنقید ہونی چاہیے لیکن کیا اس وقت تیرہ جماعتوں پر مشتمل حکومتی اتحادبھی واقعی مفاہمت کی سیاست چاہتا ہے ۔ تنقید دونوں اطراف پر ہونی چاہیے کہ وہ سیاسی ماحول میں ڈیڈلاک کے ذمے دار ہیں ۔ اصولی طور پرسیاسی ڈیڈ لاک کا خاتمہ کی بنیادی کنجی فریقین میں سیاسی لچک کے ساتھ جڑی ہوتی ہے ۔ کیونکہ مفاہمت کا عمل کبھی بھی سب کچھ حاصل کرکے نہیں ہوتی بلکہ اس کی بنیاد کچھ لو او رکچھ دو کی بنیاد پر ہوتی ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ سیاسی فریقین کے درمیان کیسے سیاسی لچک پیدا ہو اورتمام فریقین ایک دوسرے کے لیے اپنے اپنے اندر راستہ بھی پیدا کریں اورکچھ آگے بڑھنے کا راستہ بھی تلاش کریں ۔ جب انتخابی میدان چند ماہ کے بعد سجنے والا ہو وہاں سیاسی ماحول میں ایک دوسرے کے خلاف کشیدگی کے عمل کو ختم کرنا آسان نہیں ہوتا۔

کیونکہ جب انتخابی مہم ہو یاسیاسی معاملات ہوں وہ بغیر کسی سیاسی ایجنڈے یا بڑے حقیقی مسائل سے ہٹ کر غیر ضروری مسائل یا ذاتیات پر مبنی سیاست کے گرد گھومے گی جسے ہم نان ایشوز کی عملی سیاست کہتے ہیں تو کچھ بھی بہتر نہیں ہوسکے گا۔
Load Next Story