دہشت گردوں نے اس بار بھی ’’اجازت‘‘ نہیں لی

سچ چھپا کے انفرادی جانیں تو بچائی جا سکتی ہیں، لیکن اس کی قیمت اجتماعی موت کی صورت برآمد ہوتی ہے۔

سچ چھپا کے انفرادی جانیں تو بچائی جا سکتی ہیں، لیکن اس کی قیمت اجتماعی موت کی صورت برآمد ہوتی ہے۔ فوٹو:فائل

نوٹس لے لیا، اجازت نہیں دیں گے، تحقیقاتی کمیٹی قائم، رپورٹ طلب! شاید خبر کی دنیا سے وابستہ افراد اب کسی بھی حادثے اور سانحے کے بعد حکام کے ان گنے چنے یا گھسے پٹے الفاظ پر مبنی بیان کے لیے پہلے ہی تیار ہو جاتے ہوں گے۔ خبر کوئی تازہ واقعہ ضرور ہوتی ہے، لیکن ایسی بھی نہیں کہ بس ایک حملے کے بعد سب نئی خبر تک سب بھول بھال کر بیٹھ جائیں۔

ایک، دو یا تین نہیں فقط سات ماہ کے قلیل عرصے میں ایکسپریس چوتھی بار نشانہ بنا ہے۔ جس میں چار قیمتی جانیں بھی گئیں۔ وہی بیانات جو پہلے حملے کے بعد سامنے آئے، مطلب یہ تھا کہ ''اب نہیں کرنے دیں گے!'' مگر ہر بار کی طرح اس بار بھی حملہ ہوگیا!

پانچ ماہ کے دوران دو بار کراچی میں ''ایکسپریس'' کے دفتر پر حملے ہوئے۔ تیسرے حملے میں گھات لگا کر ایکسپریس نیوز کی ڈی ایس این جی گاڑی میں موجود ڈرائیور، ٹیکنیشن اور ڈرائیور کو گولیاں مار کر شہید کر دیا گیا۔۔ اور اب 28 مارچ 2014ء کو لاہور میں ایکسپریس کے معروف پروگرام ''خبر سے آگے'' کے تجزیہ کار رضا رومی پر اس وقت حملہ کیا گیا، جب وہ دفتر سے پروگرام کر کے نکل رہے تھے۔ یہ حملہ ایکسپریس کے دفتر سے 300 میٹر کے اندر کیا گیا۔ حملے میں رضا رومی تو محفوظ رہے، لیکن ان کا ڈرائیور جاں بحق ہو گیا۔ اس حملے کے ذریعے یہ پیغام دیا گیا کہ دہشت گرد جہاں چاہیں اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کر سکتے ہیں۔ کراچی میں ہونے والے تین حملوں کے برعکس لاہور کا حملہ زیادہ طویل منصوبہ بندی کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے۔ رضا رومی کا کہنا ہے کہ انہیں معلوم تھا کہ وہ کچھ کالعدم تنظیموں کے نشانے پر ہیں۔

رضا رومی پر حملہ آزادی صحافت پر وار تو ہے ہی، ساتھ ہی اس سے معاشرے کی عدم برداشت اور بڑھتی ہوئی شدت پسندی کا بھی پتا چلتا ہے۔ ذرایع ابلاغ کی آزادی اور پھیلائو کے ذریعے عوام کے جاننے کے حق کی تسکین ہوئی ہے۔ اب خبروں کے پس منظر اور پیش منظر سے لے کر اس کے متوقع اثرات تک شاید ہی کوئی ایسا گوشہ ہوتا ہے جو موضوع سخن نہ بنتا ہو اور پھر سچ تو لوگوں کو کم ہی راس آیا کرتا ہے۔

رضا رومی کے پروگرام کا انداز بھی کچھ ایسا ہی ہے کہ اس میں روزانہ کی خبروں کے حوالے سے گفتگو کی جاتی تھی۔ نہ جانے حالات حاضرہ سے جڑے وہ کون سے ایسے الفاظ تھے جو بندوق برداروں کو نہ بھائے اور انہوں نے یہ دہشت گردی کی واردات کر ڈالی۔ ماضی میں سرکارکی طرف حق گوئی اور آزادی اظہار پہ قدغن ہوتی تھی، جب کہ آج صحافت کو مختلف معلوم اور ''نامعلوم'' فشاری گروہوں کے وارسہنا پڑ رہے ہیں۔

''رپورٹرز ود آوٹ بوڈرز'' کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان صحافیوں کے لیے خطرناک ملک بن چکا ہے، صرف ایک سال کے عرصے میں ابلاغی اداروں سے وابستہ سات افراد جان سے جا چکے ہیں۔ یہ اعدادوشمار صحافیوں کے حوالے سے ہماری حقیقت حال واضح کرنے کو کافی ہیں کہ یہاں اب حق گوئی اور آزادی اظہار کا مطلب اپنی جان دائو پر لگا دینا ہی معلوم ہوتا ہے۔ صحافیوں اور ابلاغی اداروں سے وابستہ کارکنان کو نشانہ بنانا اتنا آسان ہو گیا ہے کہ جب چاہا جہاں چاہا اور جیسے چاہا وار کر ڈالا۔


ایسا لگتا ہے کہ معاشرے میں رواداری اور برداشت کا رہا سہا چلن بھی اٹھ چکا ہے۔ یہاں شدت پسندی کے معاملات اتنے گنجلک ہو چکے ہیں کہ اب اسے ایک عنوان دیناخاصا مشکل ہے۔ کہیں مذہبی شدت پسندی، تو کہیں فرقہ واریت، کہیں ''نامعلوم'' تو کہیں سیاسی اثر رسوخ، کہیں وڈیروں کے ڈر تو کہیں سرداروں کا خوف۔سب یہ چاہتے ہیں کہ قلم چھین لیںیا زبان کھینچ لیں۔

وہ زبان یا قلم سے نہیں بندوق سے بولتے ہیں۔ تہذیب سے نہیں جبر سے بات کرتے ہیں۔حقیقت ہے یہ صورت تب ہی ہوتی ہے جب الفاظ کمزور ہوں اور کسی دلیل اور مکالمے کی پرکھ پہ نہ اتر سکتے ہوں۔

آج ہمیں پاکستانی سماج کو درپیش یہ مسئلہ حل کرنا ہوگا۔ سچ چھپا کے انفرادی جانیں تو بچائی جا سکتی ہیں، لیکن اس کی قیمت اجتماعی موت کی صورت برآمد ہوتی ہے، جس کا تصور ہی دل دہلا دینے والا ہے۔

حکومت کو چاہیے کہ وہ مذمت، نوٹس اور رپورٹ سے بھی کچھ آگے بڑھے اور قانون کی بالادستی یقینی بنائے۔ لوگوں کی عدم برداشت کا علاج کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کوئی طویل المدتی حکمت عملی طے کی جائے، جس میں دانشوروں اور اساتذہ کے ساتھ وسیع پیمانے پر صحافیوں اور ذرایع ابلاغ کو بھی شامل کیا جائے۔ آخر کب تک سچ اور آزادی اظہار کے عَلم برداروں کو نشانہ بنایا جاتا رہے گا۔ سماج کو روشنیاں دینے والوں کوگُل کرنے کا عمل اب بند ہونا چاہیے۔

چلتے چلتے حکام کے لیے ایک ''خبر'' کہ دہشت گردوں نے بغیر اجازت حملہ کر دیا'آپ'' نے کہا تھا نا کہ ''اجازت نہیں دیں گے!''

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 300 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story