کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے
سنا ہے اب وہ فرمانے لگے ہیں کہ خط کا معاملہ میں نے چھوڑ دیا ہے کیونکہ یہ بات پرانی ہو گئی ہے
صبح دفتر کے لیے آ رہا تھا' گاڑی میں مکیش کی گائی ہوئی ساحر لدھیانوی کی مشہور نظم'' کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے''ریڈیو پر چلنا شروع ہو گئی ؎
کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے
کہ جیسے تجھ کو بنایا گیا ہے' میرے لیے
تو اب سے پہلے ستاروں میں بس رہی تھی کہیں
تجھے زمیں پے بلایا گیا ہے' میرے لیے
کیا دل موہ لینے والے اشعار ہیں۔ کہتے ہیں ساحر لدھیانوی نے یہ نظم امرتا پریتم کے لیے لکھی تھی' تخلیق کاروں کا اظہار محبت بھی نرالا اور انوکھا ہوتا ہے۔
ساحر لدھیانوی اور امریتا پریتم ادب و نغمہ کی دنیا کے وہ ستارے ہیں جن کی روشنی کبھی ختم نہیں ہو سکتی' بے بدل موسیقار خیام کی طرز اور مکیش کی آواز نے اس نظم کو شہرت دوام عطا کر دی ہے۔ فلم میں یہ نظم امیتابھ اور راکھی پر عکس بندکی گئی ہے' میں جب کبھی یہ نظم سنتا ہوں تو بے خودی طاری ہو جاتی ہے۔
لیکن اس بار مجھ پر ایسی وجدانی کیفیت طاری نہیں ہوئی۔قارئین! ایسا کیوں نہیں ہوا' آپ کو بھی پتہ ہے'متوسط طبقے کی حالت تو یہ ہے کہ سر ڈھانپیں تو پاؤں ننگے ہو جاتے ہیں' پاؤں پر چادر ڈالیں تو سر ننگا ہوجاتا ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے گیلی لکڑی سلگ رہی ہے۔ بات کرنے کا مقصد آپ کو دکھی یا پریشان کرنا نہیں ہے بلکہ اپنی اورآپ کی کیفیت کو الفاظ کا جامعہ پہنانا ہے۔
زمانہ طالب علمی میں ایک نجومی پلس پامسٹ کے ساتھ دوستی تھی' موصوف کا تعلق پڑھے لکھے گھرانے سے تھا' عمر رسیدہ تھے' پامسٹری اور علم نجوم ان کا پیشہ نہیں تھا' بس روز مرہ کا خرچ چلانے کا ذریعہ تھا تاکہ بچوں پر بوجھ نہ بنیں۔ میں ان سے اکثر پوچھتا تھا' پرویز صاحب! آپ لوگوں کو ان کی قسمت کا حال کیسے بتا دیتے ہیں۔ وہ کہنے لگے،'' یاد رکھو! جیسا پاکستان ہے۔
اس کے عام شہریوں کا حال بھی ویسا ہی ہو گا' اس لیے میرے پاس جو آتا ہے 'وہ یہی پوچھتا ہے کہ میری قسمت کا حال بتاؤ' میں اسے رٹے رٹائے جملے بولتا ہوں''' تمہارے پاس پیسہ آتا ہے لیکن ٹکتا نہیں ہے' رشتے دار اور دوست تم سے حسد کرتے ہیں' آخر میں اسے امیددلاتا ہوںکہ تمہارے دشمنوں کو شکست ہو گی اور عنقریب تمہارے پاس پیسہ آئے گا' تم خوشحال ہو جاؤ گے''۔ یوں وہ امید اوراطمینان کے جذبات سمیٹ کر رخصت ہو جاتا ہے''۔یہی حال پاکستان کا ہے۔
میں پاکستان کے حالات کو دیکھتا ہوں تو برسوں پہلے کہی ہوئی یہ باتیں آج بھی سچ نظر آتی ہیں۔ آج بھی ملک قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے' ایوب خان کے دور میں بھی پاکستان قرض لے رہا تھا' ملک میں آج بھی ''غدار'' موجود ہیں اور قیام پاکستان کے فوراً بعد بھی موجود تھے۔
خزانہ آج بھی خالی ہے' کل بھی خالی تھا۔ 70برس سے پاکستان نازک دور سے گزر رہا ہے اور یہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا'ساری دنیا ہمارے خلاف سازش کر رہی ہے۔جناب عمران خان نے توچند ماہ پہلے جلسہ عام میں ایک خط بھی لہرایا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ امریکا نے ان کی جمہوری اور آئینی حکومت کو ختم کرایا ہے اور اسے انھوں نے رجیم چینج کا نام دیا۔
سنا ہے اب وہ فرمانے لگے ہیں کہ خط کا معاملہ میں نے چھوڑ دیا ہے کیونکہ یہ بات پرانی ہو گئی ہے' اس سے قبل انھوں نے نجم سیٹھی پر عام انتخابات میں 35پنکچر لگانے کا الزام عائد کیا تھا'بعد میں ایک ٹی وی انٹرویو میں انھوں نے فرما دیا کہ یہ بات تو ویسے ہی کر دی تھی۔ اب آپ ہی بتائیں ایسے میں بندہ کیا کرے۔
اب خان صاحب جلد از جلد الیکشن کرانے کا مشن لے کر 26نومبر کوراولپنڈی پہنچ رہے ہیں۔ انھوں نے اپنے لانگ مارچ کوحقیقی آزادی کا عنوان دیا ہے۔
ہم نے تو درسی کتب میں یہی پڑھا ہے کہ ہم14اگست1947کو آزاد ہو گئے تھے' اب 70 برس بعد خان صاحب کی زبانی پتہ چلا ہے کہ ابھی ہم حقیقی طور پر آزاد نہیں ہوئے ہیں۔ویسے مجھے ان کی بات غلط نہیں لگ رہی کیونکہ فیض احمد فیض نے بھی کہا ہے'
یہ داغ داغ اجالا'یہ شب گزیدہ سحر
تھا انتظار جس سحر کا یہ وہ سحرتو نہیں ہے
یہاں مجھے فیض احمد فیض اور عمران خان ایک ہی پیج پر لگتے ہیں۔فرق بس اتنا ہے کہ ایک مرتے دم تک اپنی بات پر قائم رہا اور دوسرے کا کوئی پتہ نہیں کہ کب یوٹرن لے لے۔ بہر حال آج کے دن تک ملک بھر کے لبرلزسے عرض ہے کہ مبارک ہو! فیض احمد فیض اور عمران خان ایک پیج پر ہیں۔دعا کریں بلکہ دوا کریں' اب کوئی یوٹرن نہ لینے پائے۔
پاکستان میں کئی ترقی پسند شعراء اور ادبا نے بھی ایسا ہی کچھ کہہ رکھا ہے 'البتہ جمیل الدین عالی مرحوم کا معاملہ ذرا مختلف ہے۔وہ ''جیوے جیوے پاکستان'' کے نظریے کے قائل تھے اور مرتے دم تک اسی نظریے پر قائم رہے۔
مجھے یقین ہے کہ جمیل الدین عالی مرحوم 14اگست 1947 کو ہی ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے حقیقی آزادی کا دن سمجھتے تھے اورانھوں نے کبھی یہ نہیں کہا 'میں صبح اٹھا تو مجھے پتہ چلا...وہ اپنے نظریے پر چٹان کی طرح قائم رہے۔
میںذاتی طور پر خان صاحب کے حقیقی آزادی کے ڈاکٹرائن کا زبردست حامی ہوں۔''بھلا ہم کوئی غلام ہیں''اس فلسفے یا نعرے کو بھی درست مانتا ہوں لیکن صرف ایک بات سے گھبراتا ہوں کہ کہیں کل کو خان صاحب یہ نہ کہہ دیں کہ حقیقی آزادی والا نعرہ تو ویسے ہی لگا دیا تھا 'ہم غلام نہیں آزاد قوم ہیں۔ایسے میں' تیرا کیا بنے گا کالیا 'کا انجام نظروں کے سامنے گھوم جاتا ہے۔اس لیے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ چپ رہ کر تماشا دیکھتا رہوں جیسے حضرت غالب نے فرمایا ہے ؎
بازیچہ اطفال ہے دنیا میرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا میرے آگے
پاکستان میںخوش نما سیاسی نعرے برسہا برس سے مسلسل لگائے جا رہے ہیں 'ایوب خان کی بنیادی جمہوریتیں ' بھٹو کا روٹی کپڑا اور مکان اورجناب خان صاحب تبدیلی آئی رے' ہمارے سامنے کی باتیں ہیں۔ اب ذرا بنیادی جمہوریتوں کو تلاش کریں ' نجانے کہاں گم ہو چکی ہیں۔روٹی 'کپڑا اور مکان کی قیمتوں کو دیکھیے اور اپنے گریبان میں جھانکیے'اوقات کا پتہ چل جائے گا۔
تبدیلی آئی رے کوتو ہم ابھی بھگت رہے ہیں' اب تبدیلی سے بات آگے نکل کر حقیقی آزادی تک پہنچ گئی ہے۔ اس کا انجام کیا ہو گا 'اس پر دماغ کھپانے کی ضرورت نہیں'آپ ساحر کی نظم گنگنائیں ؎
کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے
کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے
کہ جیسے تجھ کو بنایا گیا ہے' میرے لیے
تو اب سے پہلے ستاروں میں بس رہی تھی کہیں
تجھے زمیں پے بلایا گیا ہے' میرے لیے
کیا دل موہ لینے والے اشعار ہیں۔ کہتے ہیں ساحر لدھیانوی نے یہ نظم امرتا پریتم کے لیے لکھی تھی' تخلیق کاروں کا اظہار محبت بھی نرالا اور انوکھا ہوتا ہے۔
ساحر لدھیانوی اور امریتا پریتم ادب و نغمہ کی دنیا کے وہ ستارے ہیں جن کی روشنی کبھی ختم نہیں ہو سکتی' بے بدل موسیقار خیام کی طرز اور مکیش کی آواز نے اس نظم کو شہرت دوام عطا کر دی ہے۔ فلم میں یہ نظم امیتابھ اور راکھی پر عکس بندکی گئی ہے' میں جب کبھی یہ نظم سنتا ہوں تو بے خودی طاری ہو جاتی ہے۔
لیکن اس بار مجھ پر ایسی وجدانی کیفیت طاری نہیں ہوئی۔قارئین! ایسا کیوں نہیں ہوا' آپ کو بھی پتہ ہے'متوسط طبقے کی حالت تو یہ ہے کہ سر ڈھانپیں تو پاؤں ننگے ہو جاتے ہیں' پاؤں پر چادر ڈالیں تو سر ننگا ہوجاتا ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے گیلی لکڑی سلگ رہی ہے۔ بات کرنے کا مقصد آپ کو دکھی یا پریشان کرنا نہیں ہے بلکہ اپنی اورآپ کی کیفیت کو الفاظ کا جامعہ پہنانا ہے۔
زمانہ طالب علمی میں ایک نجومی پلس پامسٹ کے ساتھ دوستی تھی' موصوف کا تعلق پڑھے لکھے گھرانے سے تھا' عمر رسیدہ تھے' پامسٹری اور علم نجوم ان کا پیشہ نہیں تھا' بس روز مرہ کا خرچ چلانے کا ذریعہ تھا تاکہ بچوں پر بوجھ نہ بنیں۔ میں ان سے اکثر پوچھتا تھا' پرویز صاحب! آپ لوگوں کو ان کی قسمت کا حال کیسے بتا دیتے ہیں۔ وہ کہنے لگے،'' یاد رکھو! جیسا پاکستان ہے۔
اس کے عام شہریوں کا حال بھی ویسا ہی ہو گا' اس لیے میرے پاس جو آتا ہے 'وہ یہی پوچھتا ہے کہ میری قسمت کا حال بتاؤ' میں اسے رٹے رٹائے جملے بولتا ہوں''' تمہارے پاس پیسہ آتا ہے لیکن ٹکتا نہیں ہے' رشتے دار اور دوست تم سے حسد کرتے ہیں' آخر میں اسے امیددلاتا ہوںکہ تمہارے دشمنوں کو شکست ہو گی اور عنقریب تمہارے پاس پیسہ آئے گا' تم خوشحال ہو جاؤ گے''۔ یوں وہ امید اوراطمینان کے جذبات سمیٹ کر رخصت ہو جاتا ہے''۔یہی حال پاکستان کا ہے۔
میں پاکستان کے حالات کو دیکھتا ہوں تو برسوں پہلے کہی ہوئی یہ باتیں آج بھی سچ نظر آتی ہیں۔ آج بھی ملک قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے' ایوب خان کے دور میں بھی پاکستان قرض لے رہا تھا' ملک میں آج بھی ''غدار'' موجود ہیں اور قیام پاکستان کے فوراً بعد بھی موجود تھے۔
خزانہ آج بھی خالی ہے' کل بھی خالی تھا۔ 70برس سے پاکستان نازک دور سے گزر رہا ہے اور یہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا'ساری دنیا ہمارے خلاف سازش کر رہی ہے۔جناب عمران خان نے توچند ماہ پہلے جلسہ عام میں ایک خط بھی لہرایا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ امریکا نے ان کی جمہوری اور آئینی حکومت کو ختم کرایا ہے اور اسے انھوں نے رجیم چینج کا نام دیا۔
سنا ہے اب وہ فرمانے لگے ہیں کہ خط کا معاملہ میں نے چھوڑ دیا ہے کیونکہ یہ بات پرانی ہو گئی ہے' اس سے قبل انھوں نے نجم سیٹھی پر عام انتخابات میں 35پنکچر لگانے کا الزام عائد کیا تھا'بعد میں ایک ٹی وی انٹرویو میں انھوں نے فرما دیا کہ یہ بات تو ویسے ہی کر دی تھی۔ اب آپ ہی بتائیں ایسے میں بندہ کیا کرے۔
اب خان صاحب جلد از جلد الیکشن کرانے کا مشن لے کر 26نومبر کوراولپنڈی پہنچ رہے ہیں۔ انھوں نے اپنے لانگ مارچ کوحقیقی آزادی کا عنوان دیا ہے۔
ہم نے تو درسی کتب میں یہی پڑھا ہے کہ ہم14اگست1947کو آزاد ہو گئے تھے' اب 70 برس بعد خان صاحب کی زبانی پتہ چلا ہے کہ ابھی ہم حقیقی طور پر آزاد نہیں ہوئے ہیں۔ویسے مجھے ان کی بات غلط نہیں لگ رہی کیونکہ فیض احمد فیض نے بھی کہا ہے'
یہ داغ داغ اجالا'یہ شب گزیدہ سحر
تھا انتظار جس سحر کا یہ وہ سحرتو نہیں ہے
یہاں مجھے فیض احمد فیض اور عمران خان ایک ہی پیج پر لگتے ہیں۔فرق بس اتنا ہے کہ ایک مرتے دم تک اپنی بات پر قائم رہا اور دوسرے کا کوئی پتہ نہیں کہ کب یوٹرن لے لے۔ بہر حال آج کے دن تک ملک بھر کے لبرلزسے عرض ہے کہ مبارک ہو! فیض احمد فیض اور عمران خان ایک پیج پر ہیں۔دعا کریں بلکہ دوا کریں' اب کوئی یوٹرن نہ لینے پائے۔
پاکستان میں کئی ترقی پسند شعراء اور ادبا نے بھی ایسا ہی کچھ کہہ رکھا ہے 'البتہ جمیل الدین عالی مرحوم کا معاملہ ذرا مختلف ہے۔وہ ''جیوے جیوے پاکستان'' کے نظریے کے قائل تھے اور مرتے دم تک اسی نظریے پر قائم رہے۔
مجھے یقین ہے کہ جمیل الدین عالی مرحوم 14اگست 1947 کو ہی ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے حقیقی آزادی کا دن سمجھتے تھے اورانھوں نے کبھی یہ نہیں کہا 'میں صبح اٹھا تو مجھے پتہ چلا...وہ اپنے نظریے پر چٹان کی طرح قائم رہے۔
میںذاتی طور پر خان صاحب کے حقیقی آزادی کے ڈاکٹرائن کا زبردست حامی ہوں۔''بھلا ہم کوئی غلام ہیں''اس فلسفے یا نعرے کو بھی درست مانتا ہوں لیکن صرف ایک بات سے گھبراتا ہوں کہ کہیں کل کو خان صاحب یہ نہ کہہ دیں کہ حقیقی آزادی والا نعرہ تو ویسے ہی لگا دیا تھا 'ہم غلام نہیں آزاد قوم ہیں۔ایسے میں' تیرا کیا بنے گا کالیا 'کا انجام نظروں کے سامنے گھوم جاتا ہے۔اس لیے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ چپ رہ کر تماشا دیکھتا رہوں جیسے حضرت غالب نے فرمایا ہے ؎
بازیچہ اطفال ہے دنیا میرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا میرے آگے
پاکستان میںخوش نما سیاسی نعرے برسہا برس سے مسلسل لگائے جا رہے ہیں 'ایوب خان کی بنیادی جمہوریتیں ' بھٹو کا روٹی کپڑا اور مکان اورجناب خان صاحب تبدیلی آئی رے' ہمارے سامنے کی باتیں ہیں۔ اب ذرا بنیادی جمہوریتوں کو تلاش کریں ' نجانے کہاں گم ہو چکی ہیں۔روٹی 'کپڑا اور مکان کی قیمتوں کو دیکھیے اور اپنے گریبان میں جھانکیے'اوقات کا پتہ چل جائے گا۔
تبدیلی آئی رے کوتو ہم ابھی بھگت رہے ہیں' اب تبدیلی سے بات آگے نکل کر حقیقی آزادی تک پہنچ گئی ہے۔ اس کا انجام کیا ہو گا 'اس پر دماغ کھپانے کی ضرورت نہیں'آپ ساحر کی نظم گنگنائیں ؎
کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے