’راست‘ کے ذریعے 500 ارب روپے پروسیس ہوچکے اسٹیٹ بینک

بلالاگت رقم بھیجنے یاوصولی کیلیے موبائل فون کوبینک اکاؤنٹ سے منسلک کرناہوتاہے

بلالاگت رقم بھیجنے یاوصولی کیلیے موبائل فون کوبینک اکاؤنٹ سے منسلک کرناہوتاہے فوٹو: فائل

اسٹیٹ بینک کے مطابق 'راست' کے ذریعے 500 ارب روپے پروسیس ہوچکے۔

بینک دولت پاکستان کی پوڈکاسٹ سیریز کی پندرھویں قسط میں ڈیجیٹل فنانشل سروسز گروپ، اسٹیٹ بینک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر سہیل جواد نے پاکستان کے ڈیجیٹل مالی امور کے حوالے سے ارتقائی سفر کا احاطہ کیا۔

انھوں نے ڈیجیٹائزیشن میں تیزی لانے اور ٹیکس، پیمنٹ پرووائیڈرز اور دیگر متعلقہ فریقوں کے لیے سازگار پلیٹ فارم فراہم کرنے کے لیے متحرک ضوابطی فرایم ورک کے ڈھانچے پر بات چیت کی۔ نظام ادائیگی کے فراہم کنندگان جیسے ون لنک اور نفٹ نے انٹرآپریبل مالی لین دین کو یقینی بنا کر پاکستان میں ڈیجیٹل ادائیگیوں کو عام کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔

اسٹیٹ بینک نے جو ایک اہم سنگ میل عبور کیا، وہ مقامی پیمنٹ گیٹ وے 'راست' کا آغاز ہے۔ پوڈکاسٹ میں کرپٹوکرنسی، پاکستان میں پے پال کی عدم دستیابی اور پیٹرول اسٹیشنوں پر کارڈ ادائیگیوں کی حالیہ عدم قبولیت کے حوالے سے بھی دلچسپ سوالات کا احاطہ کیا گیا۔


''راست'' ایک صارف دوست نظام ہے جس میں فرد کو کسی لاگت کے بغیر رقوم بھیجنے یا وصول کرنے کے لیے اپنے موبائل فون نمبر کو اپنے ترجیحی بینک اکاؤنٹ سے منسلک کرنا ہوتا ہے۔

فروری 2022ء میں 'راست' فرد تا فرد (P2P) طریقہ کار متعارف ہوجانے کے بعد سے اب تک اس کے ذریعے تقریباً 500 ارب روپے پروسیس کیے جا چکے ہیں، اس کے ذریعے 250,000 تا 300,000 ٹرانزیکشنز یومیہ انجام دی جا سکتی ہیں۔

ایسی کوئی ضوابطی رکاوٹیں موجود نہیں، جو پے پال کے پاکستانی مارکیٹ میں داخلے میں رکاوٹ ہوں، اسٹیٹ بینک اور حکومت دونوں ہی اس ضمن میں کوششیں کرچکے ہیں۔ پے پال ایک نجی ادارہ ہے، پاکستان میں آپریٹ کرنا یا نہ کرنا اس کا اپنا کاروباری فیصلہ ہے۔

اس کے علاوہ ملک میں کئی ادارے موجود ہیں جو فنڈز کی پاکستان منتقلی میں سہولت فراہم کرتے ہیں، جن میں Payoneer اور Skrill شامل ہیں۔کرپٹو کرنسی کا معاملہ دلچسپ نوعیت کا ہے کیونکہ اس کے ہر ٹوکن کا اجراء کنندہ نامعلوم ہوتا ہے اور اس میں قانونی اتھارٹی یا ضابطہ کاری کا فقدان ہے۔
Load Next Story