بے مثال ورثے
قلم کار اور تجزیہ نگار موجودہ حکومت کو ’’نجات دہندہ‘‘ اور سابق حکمرانوں کو تمام خرابیوں کا ذمے دار قرار دیتے ہیں
ہمارے بہت سے قلم کار اور تجزیہ نگار موجودہ حکومت کو ''نجات دہندہ'' اور سابق حکمرانوں کو تمام خرابیوں کا ذمے دار قرار دیتے ہیں، ان ہی میں سے بعض شدت جذبات سے مغلوب ہو کر اپنی ''مسخرہ کابینہ'' کے ساتھ مغل بادشاہ شاہجہاں کو صلواتیں سنانا نہیں بھولتے کہ جب آگرہ میں شاہ جہاں اپنی چہیتی بیگم ارجمند بانو کی یاد میں مقبرہ بنوا رہا تھا، جو انیسویں بچے کو جنم دینے کے دوران مر گئی تھی، تو اسی سن میں برطانیہ میں اعلیٰ تعلیم کے لیے یونیورسٹی بنائی جا رہی تھی۔
اعتراض کسی حد تک درست بھی ہے کہ انگریزوں نے تعلیمی ادارے اور شفا خانے بنوائے، لیکن بادشاہوں نے مقبرے تعمیر کروائے۔ لیکن اعتراض کرنے والے یہ حقیقت فراموش کر بیٹھتے ہیں کہ انڈیا میں سب سے زیادہ زرمبادلہ ان ہی مقبروں کی سیاحت کرنے والوں کے ٹکٹ سے حاصل ہوتا ہے۔ شاہجہاں نے تاج محل بنوایا، تاریخ گواہ ہے کہ آج تک سب سے زیادہ سیاح دنیا کے گوشے گوشے سے تاج محل دیکھنے آتے ہیں۔ مہنگا ٹکٹ خرید کر اپنے ذوق جمال کو تسکین دیتے ہیں۔ ان ہنرمند ہاتھوں کی کاری گری پہ حیران ہوتے ہیں۔ اور اس خیال کو سراہتے ہیں جس نے شاہجہاں کے خواب کو کاغذ پہ منتقل کیا۔ نقشے کی شکل دی اور ایک ایسا حیرت انگیز فن پارہ تخلیق ہوا کہ آج تک ماہرین تعمیرات انگشت بدنداں ہیں کہ یہ معجزہ روئے زمین پہ کیونکر تخلیق ہوا؟ بھارت کی آمدنی کا بڑا ذریعہ یہی تاج محل ہے۔ کیا ہمارے پاکستانی حکمرانوں نے کوئی ایسا کارنامہ انجام دیا ہے جو کسی بھی حوالے سے ان کی پہچان بن سکے؟
انھوں نے اپنی حکومت کے دوران صرف خود کو مضبوط اور دولت مند بنایا ہے جب کہ عیش و عشرت میں مغل بادشاہوں کو بھی مات کیا ہے۔ ہندوستان کے حکمرانوں نے تعمیری کام کیے، خواہ ہندو راجا ہوں یا سلاطین دہلی، ان سب کے نام سے کوئی نہ کوئی عمارت موسوم ہے، قطب مینار ہو، مقبرہ ہمایوں ہو، لال قلعہ ہو، تاج محل ہو، پرانا قلعہ ہو، بادشاہی مسجد ہو، جنتر منتر ہو، امیر کوٹ کا تاریخی قلعہ، جس میں آج بھی جودھا اکبر کی کہانی فلم بند کی جاتی ہے۔ پنک سٹی جے پور کے تاریخی مقامات ہوں یا حیدر آباد دکن کی تعمیرات۔ سب ان ہی حکمرانوں کی مرہون منت ہے جو آج بھی صدیاں گزر جانے کے باوجود اسی عظمت اور شان و شوکت سے کھڑی ہیں اور اپنے بنانے والوں کو خراج تحسین پیش کرتی نظر آتی ہیں۔
تقسیم کے بعد جو حصہ پاکستان کہلایا۔ اس میں بھی جو کچھ ہے وہ یا تو مغل بادشاہوں کا تعمیر کردہ ہے یا انگریزوں کا۔ لاہور کا شاہی قلعہ، بادشاہی مسجد، مقبرہ جہانگیر، ہرن مینار، شالامار باغ۔ یہ سب کس نے تعمیر کروائے؟ پاکستان کی حکومتیں تو ان بے مثال ورثے کی حفاظت بھی نہ کر سکیں۔ ملکہ نورجہاں کا مقبرہ آج گریہ کناں ہے کہ اس کی دیکھ بھال کے لیے فنڈز نہیں ہیں۔ بنانے والے بنا گئے اور تباہ کرنے والوں نے ان کی تباہی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ ملکہ نورجہاں اب کسی کو فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔ اس لیے اب اس کے مزار پر ہمہ وقت اداسی، سوگواری اور حسرت نوحہ کناں رہتی ہے۔ ہم نے صرف قومی ادارے تباہ کیے ہیں، بنایا کچھ نہیں۔ البتہ دادا جی کی فاتحہ کے لیے مٹھائی کی دکانیں ضرور ڈھونڈ لیں۔ اس خطے میں جو کچھ تعمیری کام ہے وہ انگریزوں اور ہندوؤں کا ہے۔ گلاب دیوی اسپتال، سر گنگا رام اسپتال، میو اسپتال۔ بعض شرپسندوں کی کوشش ہے کہ ان کے نام بدل کر مشرف بہ اسلام کر دیا جائے۔ شکر ہے کہ اب تک یہ تنگ نظرجنونی اس میں کامیاب نہ ہو سکے۔ البتہ یہ اپنی کوششیں کرتے رہیں گے۔
نئے شہر بنانے کے بجائے نواب شاہ کو شہید بی بی آباد، منٹگمری کو ساہیوال اور لائلپور کو فیصل آباد کا نام دیکر گویا بڑا تیر مار لیا حالانکہ جس طرح کسی بچے سے اس کے باپ اور ماں کا نام نہیں چھینا جا سکتا اسی طرح شہر، اسپتال اور تعلیمی اداروں کو جنم دینے والے عظیم لوگوں کو خراج پیش کرنے کے بجائے ان کے نئے ناموں کی تختیاں خود اپنے گلے میں ڈال لیں۔ ہمارے سیاستدان، جو اپنے اقتدار کی خاطر ہمہ وقت بڑی طاقتوں کے آگے سجدہ ریز ہونے کے لیے تیار رہتے ہیں، انھوں نے کبھی افغان جہاد کے نام پر کروڑوں ڈالر کمائے، اب پھر پاکستان کی زرعی زمین کو ٹھیکے پر دینے کے لیے تیار ہیں۔ ڈیڑھ ارب ڈالر کا ''تحفہ'' دینے والے تو کسی پاکستانی کو شہریت تک نہیں دیتے۔ جائیداد خریدنا تو ممکن ہی نہیں۔ کفیل کے بغیر پاکستانی دو کوڑی کا بھی نہیں۔ ایسے میں ''ناقابل واپسی'' وہ بھی ڈیڑھ ارب۔ کس مد میں؟ اسے تحفہ بھی نہیں کہہ سکتے کیونکہ تحفہ وصول کرنے والا منتظر رہتا ہے کہ وقت آنے پر اس تحفے کی رقم بڑھا کر باعزت طریقے سے کسی تقریب میں واپس کر دی جائے۔ کیونکہ شرفا میں تحفے کا مطلب قرض ہوتا ہے، جسے وہ ہر حال میں چکاتے ہیں۔ لیکن دنیا کی تاریخ میں یہ انوکھا تحفہ ہے جس کے عوض (بظاہر) بادشاہوں نے شہزادوں سے کچھ نہیں مانگا۔
اداروں، اسپتالوں اور شہروں کے نام بدلنے کے علاوہ بھی ہمارے حکمرانوں نے بڑے بڑے کام کیے ہیں۔ جن میں سرفہرست انگریزوں کے بنائے ہوئے ریلوے کے نظام کو تباہ کرنا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد کوئی نئی ریلوے لائن نہیں بچھائی گئی البتہ رنگیلے شاہ جیسے ریلوے کے مسخروں نے ایک ٹرین کو کئی نام دے کر کئی ٹوپیاں سر پر سجا تو لیں۔ لیکن انتہائی ہولناک حادثوں کے باوجود استعفیٰ دینے کا سوچا تک نہیں۔ کیونکہ وہ تو محکمے کے وزیر تھے۔ کوئی ریل کے ڈرائیور تھوڑی تھے۔ ان کا کام تو زندگی کو رنگین اور خوشگوار بنانا تھا۔ لوگوں کی اموات سے ان کا کیا لینا دینا۔ اور قومی ایئرلائن کی مثال بھی یہاں پیش کی جا سکتی ہے۔ جس کی کارکردگی سب پر عیاں ہے۔
بدقسمتی سے اقربا پروری، دوست نوازی، میرٹ کے قتل عام اور سیاسی وفاداریوں کی بندر بانٹ نے ان اداروں کو بھی نہیں بخشا جن کا تعلق کتاب سے تھا۔ نیشنل بک فاؤنڈیشن ہو، مقتدرہ قومی زبان ہو یا اکادمی ادبیات پاکستان۔ تینوں ادارے فنڈز کی کمی کا رونا روتے ہیں۔ لیکن افسران بالا کے تزک و احتشام اور بیرونی دوروں پہ خرچ ہونے والے اخراجات میں کوئی کمی نہیں آتی۔ حکومت بدلتے ہی اداروں کے سربراہ بھی بدل دیے جاتے ہیں۔ سربراہ کی تبدیلی کا مطلب ہے۔ دوست نوازی اور اقربا پروری۔ کام آئے یا نہ آئے لیکن سربراہ ہمیشہ سیاسی بنیادوں پر مقرر کیا جاتا ہے۔ کتاب کلچر کے فروغ کے نام پر قائم ادارے اب صرف ٹھیکے پر چل رہے ہیں۔ دوستوں کی فہرستیں ہر وقت میز پہ دھری رہتی ہیں۔ کس کس کو ایوارڈ دلوانے ہیں۔ کس کو ادبی کانفرنسوں میں صرف ''تعلقات'' کی بنیاد پر بلوانا ہے۔ کس کی کتاب چھاپنی ہے۔ اور کس کی کتاب کا مسودہ سرد خانے میں ڈالنا ہے کہ یہ تو پچھلی حکومت کی بات ہے۔ فون پہ فون بجتے ہیں۔ ''مجھے اس بار ایوارڈ ضرور دلوانا''۔۔۔۔ ''مجھے بیرونی دورے میں ضرور شامل کرنا'' ۔۔۔۔۔مشاعروں کے ساتھی، بیرونی دوروں میں ساتھ رہنے والی گلوکاراؤں کی لاٹری نکل آئی ہے۔
صاحب علم نہ پچھلے دور میں لائق احترام تھا نہ اب ہے۔ مفادات کا تحفظ ہے۔ کسی کو سلام بھی بلاوجہ نہیں کیا جاتا۔ نیتوں پر شک اتنا بڑھ گیا ہے کہ اداروں کے سربراہ ہر کسی کو اسی نظر سے دیکھتے ہیں۔ کہ فلاں نے مجھے تحفہ دیا تو ضرور اس کا کوئی مقصد ہو گا۔ فلاں نے مجھے عید کی مبارک باد دی تو اس کا کوئی مفاد ضرور ہو گا۔ بس دیکھتے جائیے اور روتے جائیے۔ کیونکہ جو قابل اور ذہین لوگ سفارشی کلچر کی پیداوار نہیں ہیں۔ آج کے حالات میں انھیں احمق ہی کہا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ وہ احمق ہیں جو کسی سربراہ کے آگے ایوارڈ کی بھیک مانگنے کو انسانیت کی تذلیل سمجھتے ہیں۔ لیکن ایسے لوگ اپنے ضمیر کی عدالت میں ہمیشہ سرخرو رہتے ہیں۔ کاش کوئی تو حکمران قیامت سے پہلے ایسا آئے جو علم و ادب سے وابستہ اداروں کی سربراہی ان لوگوں کے سپرد کرے جو اس کے اہل ہوں۔ جو دوست نوازی کے بجائے صلاحیتوں کو پیش نظر رکھیں۔ لیکن ایسا ہونا ممکن نہیں۔ اہل علم سفارش کی بیساکھی قبول نہ کرنے کا خمیازہ بھگتتے رہیں گے۔ لیکن ''ریوڑیاں'' مانگنا اپنی توہین سمجھیں گے۔
کاش بڑے بڑے اداروں کے سربراہوں کے دوروں پر اور ان کے فائیو اسٹار ہوٹلوں میں قیام پر صوبائی دفاتر کے حکمران جو رقم صرف کر کے اپنی نوکری پکی کرتے ہیں۔ وہ اگر کتابوں کی اشاعت اور ادیبوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کی جائے۔ تو کیا بہتر نہ ہو گا؟
اعتراض کسی حد تک درست بھی ہے کہ انگریزوں نے تعلیمی ادارے اور شفا خانے بنوائے، لیکن بادشاہوں نے مقبرے تعمیر کروائے۔ لیکن اعتراض کرنے والے یہ حقیقت فراموش کر بیٹھتے ہیں کہ انڈیا میں سب سے زیادہ زرمبادلہ ان ہی مقبروں کی سیاحت کرنے والوں کے ٹکٹ سے حاصل ہوتا ہے۔ شاہجہاں نے تاج محل بنوایا، تاریخ گواہ ہے کہ آج تک سب سے زیادہ سیاح دنیا کے گوشے گوشے سے تاج محل دیکھنے آتے ہیں۔ مہنگا ٹکٹ خرید کر اپنے ذوق جمال کو تسکین دیتے ہیں۔ ان ہنرمند ہاتھوں کی کاری گری پہ حیران ہوتے ہیں۔ اور اس خیال کو سراہتے ہیں جس نے شاہجہاں کے خواب کو کاغذ پہ منتقل کیا۔ نقشے کی شکل دی اور ایک ایسا حیرت انگیز فن پارہ تخلیق ہوا کہ آج تک ماہرین تعمیرات انگشت بدنداں ہیں کہ یہ معجزہ روئے زمین پہ کیونکر تخلیق ہوا؟ بھارت کی آمدنی کا بڑا ذریعہ یہی تاج محل ہے۔ کیا ہمارے پاکستانی حکمرانوں نے کوئی ایسا کارنامہ انجام دیا ہے جو کسی بھی حوالے سے ان کی پہچان بن سکے؟
انھوں نے اپنی حکومت کے دوران صرف خود کو مضبوط اور دولت مند بنایا ہے جب کہ عیش و عشرت میں مغل بادشاہوں کو بھی مات کیا ہے۔ ہندوستان کے حکمرانوں نے تعمیری کام کیے، خواہ ہندو راجا ہوں یا سلاطین دہلی، ان سب کے نام سے کوئی نہ کوئی عمارت موسوم ہے، قطب مینار ہو، مقبرہ ہمایوں ہو، لال قلعہ ہو، تاج محل ہو، پرانا قلعہ ہو، بادشاہی مسجد ہو، جنتر منتر ہو، امیر کوٹ کا تاریخی قلعہ، جس میں آج بھی جودھا اکبر کی کہانی فلم بند کی جاتی ہے۔ پنک سٹی جے پور کے تاریخی مقامات ہوں یا حیدر آباد دکن کی تعمیرات۔ سب ان ہی حکمرانوں کی مرہون منت ہے جو آج بھی صدیاں گزر جانے کے باوجود اسی عظمت اور شان و شوکت سے کھڑی ہیں اور اپنے بنانے والوں کو خراج تحسین پیش کرتی نظر آتی ہیں۔
تقسیم کے بعد جو حصہ پاکستان کہلایا۔ اس میں بھی جو کچھ ہے وہ یا تو مغل بادشاہوں کا تعمیر کردہ ہے یا انگریزوں کا۔ لاہور کا شاہی قلعہ، بادشاہی مسجد، مقبرہ جہانگیر، ہرن مینار، شالامار باغ۔ یہ سب کس نے تعمیر کروائے؟ پاکستان کی حکومتیں تو ان بے مثال ورثے کی حفاظت بھی نہ کر سکیں۔ ملکہ نورجہاں کا مقبرہ آج گریہ کناں ہے کہ اس کی دیکھ بھال کے لیے فنڈز نہیں ہیں۔ بنانے والے بنا گئے اور تباہ کرنے والوں نے ان کی تباہی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ ملکہ نورجہاں اب کسی کو فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔ اس لیے اب اس کے مزار پر ہمہ وقت اداسی، سوگواری اور حسرت نوحہ کناں رہتی ہے۔ ہم نے صرف قومی ادارے تباہ کیے ہیں، بنایا کچھ نہیں۔ البتہ دادا جی کی فاتحہ کے لیے مٹھائی کی دکانیں ضرور ڈھونڈ لیں۔ اس خطے میں جو کچھ تعمیری کام ہے وہ انگریزوں اور ہندوؤں کا ہے۔ گلاب دیوی اسپتال، سر گنگا رام اسپتال، میو اسپتال۔ بعض شرپسندوں کی کوشش ہے کہ ان کے نام بدل کر مشرف بہ اسلام کر دیا جائے۔ شکر ہے کہ اب تک یہ تنگ نظرجنونی اس میں کامیاب نہ ہو سکے۔ البتہ یہ اپنی کوششیں کرتے رہیں گے۔
نئے شہر بنانے کے بجائے نواب شاہ کو شہید بی بی آباد، منٹگمری کو ساہیوال اور لائلپور کو فیصل آباد کا نام دیکر گویا بڑا تیر مار لیا حالانکہ جس طرح کسی بچے سے اس کے باپ اور ماں کا نام نہیں چھینا جا سکتا اسی طرح شہر، اسپتال اور تعلیمی اداروں کو جنم دینے والے عظیم لوگوں کو خراج پیش کرنے کے بجائے ان کے نئے ناموں کی تختیاں خود اپنے گلے میں ڈال لیں۔ ہمارے سیاستدان، جو اپنے اقتدار کی خاطر ہمہ وقت بڑی طاقتوں کے آگے سجدہ ریز ہونے کے لیے تیار رہتے ہیں، انھوں نے کبھی افغان جہاد کے نام پر کروڑوں ڈالر کمائے، اب پھر پاکستان کی زرعی زمین کو ٹھیکے پر دینے کے لیے تیار ہیں۔ ڈیڑھ ارب ڈالر کا ''تحفہ'' دینے والے تو کسی پاکستانی کو شہریت تک نہیں دیتے۔ جائیداد خریدنا تو ممکن ہی نہیں۔ کفیل کے بغیر پاکستانی دو کوڑی کا بھی نہیں۔ ایسے میں ''ناقابل واپسی'' وہ بھی ڈیڑھ ارب۔ کس مد میں؟ اسے تحفہ بھی نہیں کہہ سکتے کیونکہ تحفہ وصول کرنے والا منتظر رہتا ہے کہ وقت آنے پر اس تحفے کی رقم بڑھا کر باعزت طریقے سے کسی تقریب میں واپس کر دی جائے۔ کیونکہ شرفا میں تحفے کا مطلب قرض ہوتا ہے، جسے وہ ہر حال میں چکاتے ہیں۔ لیکن دنیا کی تاریخ میں یہ انوکھا تحفہ ہے جس کے عوض (بظاہر) بادشاہوں نے شہزادوں سے کچھ نہیں مانگا۔
اداروں، اسپتالوں اور شہروں کے نام بدلنے کے علاوہ بھی ہمارے حکمرانوں نے بڑے بڑے کام کیے ہیں۔ جن میں سرفہرست انگریزوں کے بنائے ہوئے ریلوے کے نظام کو تباہ کرنا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد کوئی نئی ریلوے لائن نہیں بچھائی گئی البتہ رنگیلے شاہ جیسے ریلوے کے مسخروں نے ایک ٹرین کو کئی نام دے کر کئی ٹوپیاں سر پر سجا تو لیں۔ لیکن انتہائی ہولناک حادثوں کے باوجود استعفیٰ دینے کا سوچا تک نہیں۔ کیونکہ وہ تو محکمے کے وزیر تھے۔ کوئی ریل کے ڈرائیور تھوڑی تھے۔ ان کا کام تو زندگی کو رنگین اور خوشگوار بنانا تھا۔ لوگوں کی اموات سے ان کا کیا لینا دینا۔ اور قومی ایئرلائن کی مثال بھی یہاں پیش کی جا سکتی ہے۔ جس کی کارکردگی سب پر عیاں ہے۔
بدقسمتی سے اقربا پروری، دوست نوازی، میرٹ کے قتل عام اور سیاسی وفاداریوں کی بندر بانٹ نے ان اداروں کو بھی نہیں بخشا جن کا تعلق کتاب سے تھا۔ نیشنل بک فاؤنڈیشن ہو، مقتدرہ قومی زبان ہو یا اکادمی ادبیات پاکستان۔ تینوں ادارے فنڈز کی کمی کا رونا روتے ہیں۔ لیکن افسران بالا کے تزک و احتشام اور بیرونی دوروں پہ خرچ ہونے والے اخراجات میں کوئی کمی نہیں آتی۔ حکومت بدلتے ہی اداروں کے سربراہ بھی بدل دیے جاتے ہیں۔ سربراہ کی تبدیلی کا مطلب ہے۔ دوست نوازی اور اقربا پروری۔ کام آئے یا نہ آئے لیکن سربراہ ہمیشہ سیاسی بنیادوں پر مقرر کیا جاتا ہے۔ کتاب کلچر کے فروغ کے نام پر قائم ادارے اب صرف ٹھیکے پر چل رہے ہیں۔ دوستوں کی فہرستیں ہر وقت میز پہ دھری رہتی ہیں۔ کس کس کو ایوارڈ دلوانے ہیں۔ کس کو ادبی کانفرنسوں میں صرف ''تعلقات'' کی بنیاد پر بلوانا ہے۔ کس کی کتاب چھاپنی ہے۔ اور کس کی کتاب کا مسودہ سرد خانے میں ڈالنا ہے کہ یہ تو پچھلی حکومت کی بات ہے۔ فون پہ فون بجتے ہیں۔ ''مجھے اس بار ایوارڈ ضرور دلوانا''۔۔۔۔ ''مجھے بیرونی دورے میں ضرور شامل کرنا'' ۔۔۔۔۔مشاعروں کے ساتھی، بیرونی دوروں میں ساتھ رہنے والی گلوکاراؤں کی لاٹری نکل آئی ہے۔
صاحب علم نہ پچھلے دور میں لائق احترام تھا نہ اب ہے۔ مفادات کا تحفظ ہے۔ کسی کو سلام بھی بلاوجہ نہیں کیا جاتا۔ نیتوں پر شک اتنا بڑھ گیا ہے کہ اداروں کے سربراہ ہر کسی کو اسی نظر سے دیکھتے ہیں۔ کہ فلاں نے مجھے تحفہ دیا تو ضرور اس کا کوئی مقصد ہو گا۔ فلاں نے مجھے عید کی مبارک باد دی تو اس کا کوئی مفاد ضرور ہو گا۔ بس دیکھتے جائیے اور روتے جائیے۔ کیونکہ جو قابل اور ذہین لوگ سفارشی کلچر کی پیداوار نہیں ہیں۔ آج کے حالات میں انھیں احمق ہی کہا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ وہ احمق ہیں جو کسی سربراہ کے آگے ایوارڈ کی بھیک مانگنے کو انسانیت کی تذلیل سمجھتے ہیں۔ لیکن ایسے لوگ اپنے ضمیر کی عدالت میں ہمیشہ سرخرو رہتے ہیں۔ کاش کوئی تو حکمران قیامت سے پہلے ایسا آئے جو علم و ادب سے وابستہ اداروں کی سربراہی ان لوگوں کے سپرد کرے جو اس کے اہل ہوں۔ جو دوست نوازی کے بجائے صلاحیتوں کو پیش نظر رکھیں۔ لیکن ایسا ہونا ممکن نہیں۔ اہل علم سفارش کی بیساکھی قبول نہ کرنے کا خمیازہ بھگتتے رہیں گے۔ لیکن ''ریوڑیاں'' مانگنا اپنی توہین سمجھیں گے۔
کاش بڑے بڑے اداروں کے سربراہوں کے دوروں پر اور ان کے فائیو اسٹار ہوٹلوں میں قیام پر صوبائی دفاتر کے حکمران جو رقم صرف کر کے اپنی نوکری پکی کرتے ہیں۔ وہ اگر کتابوں کی اشاعت اور ادیبوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کی جائے۔ تو کیا بہتر نہ ہو گا؟