T20 میں لہراتے پاکستانی پرچم
کچھ چھوٹی سمجھی جانے والی خبریں جنھیں بظاہر غیر اہم سمجھ کر اہمیت نہیں دی جاتی حقیقتاً بڑی خبریں ہوتی ہیں،
کچھ چھوٹی سمجھی جانے والی خبریں جنھیں بظاہر غیر اہم سمجھ کر اہمیت نہیں دی جاتی حقیقتاً بڑی خبریں ہوتی ہیں، ایسی ہی ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ ایک کمپنی نے ساز وسامان کی ترسیل کے لیے کوریا سے ریل کے انجن درآمد کیے تھے جن پر بھارتی پرچم کے رنگ پینٹ ہوئے تھے۔ اس واقعے میں بے حسی، غفلت یا سازش میں سے کسی ایک عنصر کا دخل تو ضرور ہوگا کیونکہ خریداری سے قبل ان کے رنگ، ساخت، کارکردگی، قیمت وغیرہ کا جائزہ لازمی طور پر لیا گیا ہوگا، پھر یہ واقعہ کیسے رونما ہوا؟ اطلاعات کے مطابق جب یہ انجن ہیڈکوارٹر پہنچے تو کوارٹر ماسٹر جنرل انجن پر بھارتی ترنگا دیکھ کر ہکا بکا رہ گئے۔پھر ان تمام انجن کا رنگ تبدیل کرکے ان پر پاکستانی جھنڈا پینٹ کیا گیا، جس پر اضافی اخراجات اور وقت صرف ہونے کے علاوہ ان کی کوالٹی میں بھی فرق آیا ہوگا۔ اس واقعے پر تحقیقات ہونی چاہیے۔
دوسری چھوٹی مگر اہم خبر یہ ہے کہ حسینہ واجد کی حکومت نے بنگلہ دیش میں ہونے والے T-20 کرکٹ ورلڈ کپ میں ڈھاکا کے میرپور اسٹیڈیم میں تماشائیوں کی جانب سے غیر ملکی (پاکستانی) جھنڈے لہرانے، اپنے جسموں پر پاکستانی پرچم بنوانے پر پابندی عاید کردی ہے۔ ایشیا کپ میں پاکستانی ٹیم کے ہاتھوں بنگلہ دیشی ٹیم کی بدترین شکست اور ٹی ٹوئنٹی میں خاص کارکردگی نہ دکھانے پر یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے بنگلہ دیش کرکٹ بورڈ کے اس اقدام کا نوٹس لے لیا ہے۔ آئی سی سی کا کہنا ہے کہ بنگالی شائقین کو دوسری ٹیموں کی سپورٹ سے روکنے کا عمل درست نہیں ہے، معاملات کا جائزہ لے رہے ہیں، اس سلسلے میں متعلقہ حکام سے وضاحت طلب کی جائے گی۔ بنگلہ دیش کے علاوہ دوسری ٹیموں سے مقابلے کے موقع پر بنگلہ دیشی عوام کی ہمدردیاں اور پذیرائی پاکستانی ٹیم کے لیے ہوتی ہیں۔
پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان میچ میں بنگالی شائقین کی جانب سے پاکستان کو مکمل حمایت حاصل تھی اور اسٹیڈیم میں بنگلہ دیشی شائقین پاکستان کے حق میں نعروں کے ساتھ پاکستانی پرچم بھی لہرا رہے تھے۔ بنگلہ دیش میں عوام اپنے کرکٹرز کے بعد سب سے زیادہ پوسٹر پاکستانی کرکٹرز کے خریدتے ہیں۔ بھارت اور پاکستان کے مابین میچ میں بھی بنگلہ دیشی عوام کی بھرپور حمایت پاکستانی ٹیم کے ساتھ دیکھنے میں آتی ہے، بنگلہ دیشی عوام کا یہی جذبہ اور محبت بھارت اور بھارت نواز حسینہ واجد کو نہیں بھایا اور حالیہ فیصلہ ان کی اسی سوچ کا عکاس ہے۔ کرکٹ شائقین اور مبصرین اس پابندی پر سخت ایکشن لینے اور پابندی ختم نہ کرنے کی صورت میں باقی میچز کسی دوسرے ملک میں منتقل کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ کھیل کے حلقوں نے اس اقدام کو اسپورٹ مین اسپرٹ کے خلاف قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کھیل سیاسی اختلافات، تضادات، کھنچاؤ کی کیفیت کو ختم کرکے عوام کو ایک دوسرے کے نزدیک لانے کے لیے منعقد کرائے جاتے ہیں، ان کا سیاسی تنازعات و اختلافات سے تعلق نہیں ہوتا۔
بھارت اور بھارت نواز حسینہ واجد دونوں کا پاکستان کے خلاف کینہ پرور رویہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے، اگر اندرا گاندھی نے سقوط ڈھاکا پر یہ الفاظ ادا کرکے پاکستان دشمنی کا مظاہرہ کیا تھا کہ ''آج ہم نے دو قومی نظریہ کو جمنا میں ڈبو دیا ہے'' تو حسینہ واجد نے بھی ایک کرکٹ میچ میں پاکستان کی بنگلہ دیش کے ہاتھوں شکست پر اسی ذہنیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''آج ہم نے پاکستان سے 1971 کا بدلہ لے لیا ہے''۔ جس رویے کا اظہار بھارتی حکومت کشمیری طلبا کی جانب سے پاکستانی ٹیم کی پذیرائی پر انھیں جامعات سے نکال کر اور ان پر غداری کے مقدمات بنا کر کر رہی ہے اسی سوچ پر چلتے ہوئے حسینہ واجد کی حکومت نے حالیہ پابندی کا اقدام اٹھایا ہے۔ اسی سوچ کے تحت 1971 میں پاکستان کی حمایت کے جرم میں جماعت اسلامی کے سن رسیدہ رہنماؤں کو تختہ دار پر چڑھایا گیا حالانکہ قانوناً بزرگ افراد کو ضمانتوں اور جرم ثابت ہونے پر سزاؤں میں بھی رعایت دی جاتی ہے۔
بنگلہ دیش میں پاکستان کی حمایت کرنے کے جرم میں اس وقت 30 ہزار مقدمات زیر سماعت ہیں، حکومت جماعت اسلامی پر پابندی لگانے کی منصوبہ بندی بھی کر رہی ہے۔ بنگلہ دیشی عوام، سیاسی اور مذہبی جماعتیں اس وقت حسینہ واجد کی جمہوری آمریت میں بری طرح جکڑے ہوئے ہیں، عدالتوں میں ان کے سیاسی کارکن بیٹھے ہوئے ہیں، جو من چاہے فیصلے صادر کر رہے ہیں حالانکہ بنگلہ دیش تسلیم کیے جانے اور قید فوجیوں کی واپسی کے معاہدے کے بعد یہ تمام تضادات ختم کردیے گئے تھے، اس کے بعد جنگی جرائم پر مقدمات چلانا بھی بین الاقوامی قوانین اور معاہدات کی خلاف ورزی کے مترادف ہے لیکن طاقت کے زعم اور پاکستان مخالف ذہنیت کی حامل حسینہ واجد نے پچھلے ماہ پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے اس بات کا واشگاف طور پر اعلان کیا ہے کہ 1971 میں بنگلہ دیش کی آزادی کی تحریک کے دوران عوام سے زیادتی کرنے والے دو سو کے قریب اعلیٰ فوجی افسران پر انٹرنیشنل کریمنل ٹریبونل میں مقدمات دائر کیے جائیں گے۔
حسینہ واجد کی عوامی لیگ پارلیمنٹ کی واحد پارٹی ہے جہاں کسی اپوزیشن ممبر کا وجود تک نہیں ہے، جس کے ذریعے وہ من مانے فیصلے کرانے اور قانون سازی کرنے میں آزاد ہیں، جس کے تحت انھوں نے انتخابات کے لیے عبوری حکومت کے قیام کو بھی سرے سے ختم کرکے تمام اختیارات اپنی ذات میں مرکوز کردیے ہیں۔ حزب اختلاف کے مطابق بنگلہ دیش کے انتخابات میں سنگین نوعیت کی کمپیوٹرائزڈ دھاندلیاں کی گئی ہیں، جس کی وجہ سے تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے بائیکاٹ اور انتخابات میں عدم توجہ و دلچسپی اور کسی انتخابی گہما گہمی کے باوجود ووٹ ٹرن اوور حیرت انگیز رہا جس پر عالمی اداروں اور میڈیا نے بھی حیرت اور تشویش کا اظہار کیا تھا۔
حکومتی اور عدالتی تعصب کی انتہا یہ ہے کہ بیگم خالدہ ضیا کے دور میں کرنافلی اسلحہ اسمگلنگ کیس میں جس میں بھارتی نیوی ملوث تھی تفتیش کا رخ بدل کر بنگلہ دیش نیشنل پارٹی کی طرف کرکے خصوصی عدالت کے ذریعے اپنے جنرل اور بریگیڈیئر سمیت 14 افراد کو سزائے موت سنادی گئی۔ 60 سالہ پرانے مسئلہ کشمیر کو 60 دنوں میں حل کردینے کے دعویدار وزارت عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی نے جس طرح عام آدمی پارٹی کے رہنما کچریوال اور وزیردفاع اے کے انتھونی کو اس جرم میں پاکستانی ایجنٹ قرار دے دیا ہے کہ ان کی پاکستان میں بہت تعریف کی جاتی ہے یا یہ کہ انھوں نے بھارتی فوجیوں کا سر قلم کرنے والوں کے مطابق یہ بیان دیا تھا کہ قاتل پاکستانی فوجی نہیں بلکہ فوج کی وردیوں میں ملبوس دہشت گرد تھے، بالکل اسی طرح حسینہ واجد کو پاکستانی اور بنگلہ دیشی عوام کی محبت و یگانگت ایک آنکھ نہیں بھاتی جب بنگلہ دیش میں افتتاحی میچ میں پاکستان کا قومی ترانہ بجا اور بنگلہ دیشی عوام پاکستانی پرچم فضا میں لہراکر جھوم اٹھے تو یہ منظر ان کے لیے روح فرسا ہوگا، وہ تو بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان میچ کے دوران پاکستانی ٹیم کی پوزیشن مستحکم اور فتح یقینی ہوتا دیکھ کر اسٹیڈیم سے اٹھ کر چلی جاتی ہیں پھر اس قسم کے مناظر کیسے برداشت کرسکتی ہیں۔
جب کہ پاکستانی اور بنگلہ دیشی عوام میں ہم آہنگی و قربت کے جذبات پائے جاتے ہیں وہ اپنی اپنی ٹیموں کے بعد ایک دوسرے کی ٹیموں کی حوصلہ افزائی اور خیر خواہی کرتے ہیں۔ بنگلہ دیش کی ٹیم کو ٹیسٹ کیپ دلانے کا الزام بھی پاکستانی ٹیم کو اپنے سر لینا پڑا۔ پاکستانی عوام کی طرح بنگلہ دیشی عوام بھی بھارت اور حسینہ واجد کی دو قومی نظریہ کو جمنا میں ڈبونے کی حکمت عملی اور دونوں ملکوں کے درمیان دوری اور دشمنی کو برداشت اور قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ پاکستان اور بنگلہ دیش دونوں حکومتوں اور دونوں ملکوں کے عوام کا بہترین مفاد اسی میں ہے کہ باہمی تعلقات خوشگوار بنائے جائیں اور سماجی، معاشی و اقتصادی روابط کو بہتر بنایا جائے، اس سلسلے میں ثقافتی اور کھیلوں کی سرگرمیاں خاص کردار ادا کرسکتی ہیں۔
دوسری چھوٹی مگر اہم خبر یہ ہے کہ حسینہ واجد کی حکومت نے بنگلہ دیش میں ہونے والے T-20 کرکٹ ورلڈ کپ میں ڈھاکا کے میرپور اسٹیڈیم میں تماشائیوں کی جانب سے غیر ملکی (پاکستانی) جھنڈے لہرانے، اپنے جسموں پر پاکستانی پرچم بنوانے پر پابندی عاید کردی ہے۔ ایشیا کپ میں پاکستانی ٹیم کے ہاتھوں بنگلہ دیشی ٹیم کی بدترین شکست اور ٹی ٹوئنٹی میں خاص کارکردگی نہ دکھانے پر یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے بنگلہ دیش کرکٹ بورڈ کے اس اقدام کا نوٹس لے لیا ہے۔ آئی سی سی کا کہنا ہے کہ بنگالی شائقین کو دوسری ٹیموں کی سپورٹ سے روکنے کا عمل درست نہیں ہے، معاملات کا جائزہ لے رہے ہیں، اس سلسلے میں متعلقہ حکام سے وضاحت طلب کی جائے گی۔ بنگلہ دیش کے علاوہ دوسری ٹیموں سے مقابلے کے موقع پر بنگلہ دیشی عوام کی ہمدردیاں اور پذیرائی پاکستانی ٹیم کے لیے ہوتی ہیں۔
پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان میچ میں بنگالی شائقین کی جانب سے پاکستان کو مکمل حمایت حاصل تھی اور اسٹیڈیم میں بنگلہ دیشی شائقین پاکستان کے حق میں نعروں کے ساتھ پاکستانی پرچم بھی لہرا رہے تھے۔ بنگلہ دیش میں عوام اپنے کرکٹرز کے بعد سب سے زیادہ پوسٹر پاکستانی کرکٹرز کے خریدتے ہیں۔ بھارت اور پاکستان کے مابین میچ میں بھی بنگلہ دیشی عوام کی بھرپور حمایت پاکستانی ٹیم کے ساتھ دیکھنے میں آتی ہے، بنگلہ دیشی عوام کا یہی جذبہ اور محبت بھارت اور بھارت نواز حسینہ واجد کو نہیں بھایا اور حالیہ فیصلہ ان کی اسی سوچ کا عکاس ہے۔ کرکٹ شائقین اور مبصرین اس پابندی پر سخت ایکشن لینے اور پابندی ختم نہ کرنے کی صورت میں باقی میچز کسی دوسرے ملک میں منتقل کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ کھیل کے حلقوں نے اس اقدام کو اسپورٹ مین اسپرٹ کے خلاف قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کھیل سیاسی اختلافات، تضادات، کھنچاؤ کی کیفیت کو ختم کرکے عوام کو ایک دوسرے کے نزدیک لانے کے لیے منعقد کرائے جاتے ہیں، ان کا سیاسی تنازعات و اختلافات سے تعلق نہیں ہوتا۔
بھارت اور بھارت نواز حسینہ واجد دونوں کا پاکستان کے خلاف کینہ پرور رویہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے، اگر اندرا گاندھی نے سقوط ڈھاکا پر یہ الفاظ ادا کرکے پاکستان دشمنی کا مظاہرہ کیا تھا کہ ''آج ہم نے دو قومی نظریہ کو جمنا میں ڈبو دیا ہے'' تو حسینہ واجد نے بھی ایک کرکٹ میچ میں پاکستان کی بنگلہ دیش کے ہاتھوں شکست پر اسی ذہنیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''آج ہم نے پاکستان سے 1971 کا بدلہ لے لیا ہے''۔ جس رویے کا اظہار بھارتی حکومت کشمیری طلبا کی جانب سے پاکستانی ٹیم کی پذیرائی پر انھیں جامعات سے نکال کر اور ان پر غداری کے مقدمات بنا کر کر رہی ہے اسی سوچ پر چلتے ہوئے حسینہ واجد کی حکومت نے حالیہ پابندی کا اقدام اٹھایا ہے۔ اسی سوچ کے تحت 1971 میں پاکستان کی حمایت کے جرم میں جماعت اسلامی کے سن رسیدہ رہنماؤں کو تختہ دار پر چڑھایا گیا حالانکہ قانوناً بزرگ افراد کو ضمانتوں اور جرم ثابت ہونے پر سزاؤں میں بھی رعایت دی جاتی ہے۔
بنگلہ دیش میں پاکستان کی حمایت کرنے کے جرم میں اس وقت 30 ہزار مقدمات زیر سماعت ہیں، حکومت جماعت اسلامی پر پابندی لگانے کی منصوبہ بندی بھی کر رہی ہے۔ بنگلہ دیشی عوام، سیاسی اور مذہبی جماعتیں اس وقت حسینہ واجد کی جمہوری آمریت میں بری طرح جکڑے ہوئے ہیں، عدالتوں میں ان کے سیاسی کارکن بیٹھے ہوئے ہیں، جو من چاہے فیصلے صادر کر رہے ہیں حالانکہ بنگلہ دیش تسلیم کیے جانے اور قید فوجیوں کی واپسی کے معاہدے کے بعد یہ تمام تضادات ختم کردیے گئے تھے، اس کے بعد جنگی جرائم پر مقدمات چلانا بھی بین الاقوامی قوانین اور معاہدات کی خلاف ورزی کے مترادف ہے لیکن طاقت کے زعم اور پاکستان مخالف ذہنیت کی حامل حسینہ واجد نے پچھلے ماہ پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے اس بات کا واشگاف طور پر اعلان کیا ہے کہ 1971 میں بنگلہ دیش کی آزادی کی تحریک کے دوران عوام سے زیادتی کرنے والے دو سو کے قریب اعلیٰ فوجی افسران پر انٹرنیشنل کریمنل ٹریبونل میں مقدمات دائر کیے جائیں گے۔
حسینہ واجد کی عوامی لیگ پارلیمنٹ کی واحد پارٹی ہے جہاں کسی اپوزیشن ممبر کا وجود تک نہیں ہے، جس کے ذریعے وہ من مانے فیصلے کرانے اور قانون سازی کرنے میں آزاد ہیں، جس کے تحت انھوں نے انتخابات کے لیے عبوری حکومت کے قیام کو بھی سرے سے ختم کرکے تمام اختیارات اپنی ذات میں مرکوز کردیے ہیں۔ حزب اختلاف کے مطابق بنگلہ دیش کے انتخابات میں سنگین نوعیت کی کمپیوٹرائزڈ دھاندلیاں کی گئی ہیں، جس کی وجہ سے تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے بائیکاٹ اور انتخابات میں عدم توجہ و دلچسپی اور کسی انتخابی گہما گہمی کے باوجود ووٹ ٹرن اوور حیرت انگیز رہا جس پر عالمی اداروں اور میڈیا نے بھی حیرت اور تشویش کا اظہار کیا تھا۔
حکومتی اور عدالتی تعصب کی انتہا یہ ہے کہ بیگم خالدہ ضیا کے دور میں کرنافلی اسلحہ اسمگلنگ کیس میں جس میں بھارتی نیوی ملوث تھی تفتیش کا رخ بدل کر بنگلہ دیش نیشنل پارٹی کی طرف کرکے خصوصی عدالت کے ذریعے اپنے جنرل اور بریگیڈیئر سمیت 14 افراد کو سزائے موت سنادی گئی۔ 60 سالہ پرانے مسئلہ کشمیر کو 60 دنوں میں حل کردینے کے دعویدار وزارت عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی نے جس طرح عام آدمی پارٹی کے رہنما کچریوال اور وزیردفاع اے کے انتھونی کو اس جرم میں پاکستانی ایجنٹ قرار دے دیا ہے کہ ان کی پاکستان میں بہت تعریف کی جاتی ہے یا یہ کہ انھوں نے بھارتی فوجیوں کا سر قلم کرنے والوں کے مطابق یہ بیان دیا تھا کہ قاتل پاکستانی فوجی نہیں بلکہ فوج کی وردیوں میں ملبوس دہشت گرد تھے، بالکل اسی طرح حسینہ واجد کو پاکستانی اور بنگلہ دیشی عوام کی محبت و یگانگت ایک آنکھ نہیں بھاتی جب بنگلہ دیش میں افتتاحی میچ میں پاکستان کا قومی ترانہ بجا اور بنگلہ دیشی عوام پاکستانی پرچم فضا میں لہراکر جھوم اٹھے تو یہ منظر ان کے لیے روح فرسا ہوگا، وہ تو بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان میچ کے دوران پاکستانی ٹیم کی پوزیشن مستحکم اور فتح یقینی ہوتا دیکھ کر اسٹیڈیم سے اٹھ کر چلی جاتی ہیں پھر اس قسم کے مناظر کیسے برداشت کرسکتی ہیں۔
جب کہ پاکستانی اور بنگلہ دیشی عوام میں ہم آہنگی و قربت کے جذبات پائے جاتے ہیں وہ اپنی اپنی ٹیموں کے بعد ایک دوسرے کی ٹیموں کی حوصلہ افزائی اور خیر خواہی کرتے ہیں۔ بنگلہ دیش کی ٹیم کو ٹیسٹ کیپ دلانے کا الزام بھی پاکستانی ٹیم کو اپنے سر لینا پڑا۔ پاکستانی عوام کی طرح بنگلہ دیشی عوام بھی بھارت اور حسینہ واجد کی دو قومی نظریہ کو جمنا میں ڈبونے کی حکمت عملی اور دونوں ملکوں کے درمیان دوری اور دشمنی کو برداشت اور قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ پاکستان اور بنگلہ دیش دونوں حکومتوں اور دونوں ملکوں کے عوام کا بہترین مفاد اسی میں ہے کہ باہمی تعلقات خوشگوار بنائے جائیں اور سماجی، معاشی و اقتصادی روابط کو بہتر بنایا جائے، اس سلسلے میں ثقافتی اور کھیلوں کی سرگرمیاں خاص کردار ادا کرسکتی ہیں۔