خلوت کی متغیر کیفیات

گزشتہ کالم میں ہم نے خلوت نشینی کا تذکرہ کیا اب اس بحث کو مزید آگے بڑھاتے ہیں۔

waqar.ahmed@express.com.pk

گزشتہ کالم میں ہم نے خلوت نشینی کا تذکرہ کیا اب اس بحث کو مزید آگے بڑھاتے ہیں۔ ان مذاہب میں جن کی بنیاد فلسفہ پر ہے خلوت کے اس عمل کو ارتکاز خیال کے لیے باقاعدہ اور منظم انداز سے ترتیب دیا ہے جس کے لیے ذیل میں کچھ تفصیلات بیان کی جاتی ہیں۔ فیثا غورث، افلاطون، زینو، سینیکا، نوافلاطونی، فلسفیوں کے یہاں اور ہندومت میں بھی ''ہمہ اوست'' کا فلسفہ مروج تھا، جس میں ایک حقیقت مطلق کے وجود کا اقرار ہے اور جملہ کائنات کو اس کا عکس خیال کیا گیا ہے، جو خود کوئی وجود نہیں رکھتی۔ جس طرح آئینہ میں عکس، صاحب عکس کا محتاج ہے اور عکس اپنے مقام پر ذاتی وجود نہیں رکھتا۔ انسان کی معراج ہے کہ وہ ایک سچائی کا، ایک حق کا پہلے تو عرفان حاصل کرے اور پھر اس کے حصول کے لیے ساعی ہو اور بالآخر یہ خود اپنی ہستی کو جو خود ایک واہمہ ہے، ہستی مطلق میں مدغم کردے۔ اس مقصد کے لیے نفس کی تربیت ضروری ہے اور وہ تربیت تنہائی اور خلوت میں ہی ممکن ہے، معاشرے میں ممکن نہیں۔ یہاں منزل میں نفس کی متغیر کیفیات پر قابو پانا ضروری ہے اور وہ کیفیات پانچ ہیں۔

1۔ احساس و ادراک صادق پر جو حقائق پر مبنی ہوتا ہے، 2۔ احساس کاذب جس میں جملہ کائنات کو فریب نظر سمجھا جاتا ہے، 3۔ تحریری تصورات و خیالات، 4۔ قوت حافظہ دماغی، 5۔ خوب کا عالم جس میں تحت الشعور کام کرتا ہے۔

ان متغیر کیفیات نفس پر قابو پانے کے لیے طالب حق پر جو کیفیات گزرتی ہیں، وہ بھی پانچ ہیں۔ 1۔ پہلی کیفیت نفس کی بے چینی اور سیماب وار بے قراری کی ہوتی ہے جس میں خیال اور توجہ ایک جگہ قائم نہیں رہتے۔ 2۔ دوسری کیفیت یہ ہے کہ نفس جامد ہوجاتا ہے، جیسے خواب کے عالم میں ہو، یہ ابتدائے مقام حیرانی ہے۔ 3۔ اس منزل سے گزرنے کے بعد خیالات ایک نقطہ پر مرکوز ہونے لگتے ہیں، ان میں استقلال کی صورت پیدا ہونے لگتی ہے، لیکن تھوڑی دیر کے لیے اور پھر ہٹ کر کسی اور نقطہ پر مرکوز ہوجاتے ہیں، اس طرح سے ارتکاز تو ضرور ہوتا ہے لیکن ان میں ثبات نہیں ہوتا۔ 4۔ لیکن اس کے بعد خیالات کا یہ تلون اور تصور کی یہ آوارہ گردی تربیت سے رفتہ رفتہ کم ہوجاتی ہے اور خیال و تصور ایک نقطہ پر مرکوز ہوجاتے ہیں، یہاں سے یکسوئی کی منزل شروع ہوجاتی ہے۔ 5۔ یہ آخری منزل ہے، اس میں خیال و تصور کا ارتکاز ایک نقطے پر ہوتا ہے، وہاں سے بالکل نہیں ہٹتا، اس منزل پر آکر خیال و تصور کی اپنے مطمع نظر یا مقصد سے وابستگی پیدا ہو جاتی ہے کہ بھٹکانے والا ماحول اور اندرونی خیالات کا تلون سب بے اثر ہوجاتے ہیں۔

یعنی داخلی و خارجی اثرات بے تاثیر ہوجاتے ہیں اور خلوت سے الگ ہوکر جلوت میں بھی وہی ایک تصور یا تخیل ہمہ وقت قائم رہتا ہے لیکن نفس کی تربیت میں ان مدارج کو طے کرنے میں بہت سے موانع اور مزاحمت سد راہ ہوتے ہیں، اور تصور و تخیل کی یکسوئی کے ختم ہوجانے کے لیے اسباب فراہم کرتے ہیں، ان موانعات میں سب سے نمایاں جہل ہے، یعنی نفس انسانی، مادی اور آفاقی تصورات میں امتیاز نہیں کرسکتا اور حقیقت میں اشیا سے بے خبر رہتا ہے۔ انانیت صادق و کاذب یعنی یہ خیال خام کہ نفس اپنے برابر کسی کو نہ سمجھے اور سب کو کمتر تصور کرے۔ تنفس کے نظام پر یعنی نفس کے آمد و رشد پر پوری طرح قابو حاصل کرلینا۔ نفس کو جملہ احساسات باطل سے بچانا، اس طرح کہ احساسات ظاہری پر اس قدر قابو حاصل ہوجائے کہ اگر نظر کے سامنے طوفان رنگ ہو تو اسے محسوس نہ کرے، اور اگر چاروں طرف سے آوازوں کی یلغار ہو تو اس کے کان اس سے بے خبر رہیں۔

ارتکاز توجہ خیال و تصور میں استقامت، اس کے لیے کسی مادی شے کو نظر کے سامنے رکھنا ضروری ہے، اور نظر اس پر مسلسل جمی رہے، کوئی اور خیال اور منظر اس ارتکاز توجہ میں خلل انداز نہ ہو۔ تصور خیال اور مطمع نظر پر اتنا جم جائے کہ گویا اس میں جذب ہوگیا ہو، اپنی ہستی سے بے خبر ہو کر صرف اس ہستی سے متحد ہو جائے، اور کوئی امتیاز باقی نہ رہے، یعنی اپنی ہستی کو محبوب کی ہستی میں فنا کردیا جائے۔ سب سے آخر میں وہ مقام آتا ہے کہ نہ اپنی ہستی کا احساس باقی رہتا ہے اور نہ مطمع نظر یا مطلوب کی ہستی کا، بلکہ ایک عالم بے خودی و بے خبری محض طاری ہوجاتا ہے، جو صوفیائے کرام کے ''فنارالفنا'' کا تصور ہے، یہاں مطلق بے خبری ہوتی ہے لیکن یہ کیفیت عارضی ہے، کبھی کبھی اس مدت میں اضافہ ہوجاتا ہے، پھر عالم ہوش کی طرف بازگشت ہوتی ہے۔


اس منزل پر پہنچ کر وہ آدمی جس شے پر اپنی توجہ مرکوز کردے تو اس کے سارے حقائق بے پردہ ہو کر سامنے آجاتے ہیں، پھر اگر یہ اشیا مادی ہوں گی تو ان کے وقائق و اسرار بے نقاب ہوجائیں گے۔ اور اگر وہ اشیا کی ماہیت اور صفات پر توجہ دے گا، ان کے اسرار و رموز بھی اس پر کھل جائیں گے۔ اگر وہ خود اپنے ہی نفس پر غور کرنا چاہے گا تو دماغ، عقل اور ذات سے متعلق وقائق و حقائق واضح ہوجائیں گے، اس کی انا بالکل فنا ہوجائے گی اور ایک سرور خاص سے اس کے قلب و دماغ لذت یاب ہوں گے۔

اگر ذات و صفات حقیقت مطلق پر توجہ کرے گا اور اپنی دماغی و روحانی قوتوں کو اس کے عرفان پر مرکوز کردے گا تو اس کی ذات سے عجیب و غریب کرشمے ظاہر ہوں گے۔ یہ مقام ذات حق ہے، جو تمام مقامات سے بلند تر ہے، جس سے اتصال مطلق پیدا ہوتا ہے۔ تصوف اسلام تمام تر عملی ہے، اس میں نظریاتی اعتبار سے وہ انتظام و انضباط نہیں پایا جاتا جو فلاسفہ کے طرز عمل میں نظر آتا ہے لیکن تصوف میں بھی خیالات و تصورات کو مقصد اعلیٰ قرار دیا گیا ہے، اس مقصد کے لیے خلوت نشینی ضروری ہے۔

حضرت ذوالنون مصریؒ اس باب میں فرماتے ہیں۔ ''میں نے خلوت سے زیادہ اخلاص پیدا کرنے والی کوئی چیز نہیں دیکھی لہٰذا جس نے خلوت کو اختیار کیا، اس نے اخلاص کے ستون کو تھام لیا اور صدق و حقیقت کے بڑے رکن کو حاصل کرلیا۔''

حضرت ابوبکر سبائی کا ارشاد ہے کہ ''خلوت نشینی کو لازم قرار دو، جماعت سے اپنا رشتہ مٹا دو، ہر وقت چہار دیواری میں رہو، یہاں تک کہ وقت آخر آجائے۔

شیخ یحییٰ بن معاذ کا قول ہے۔ ''خلوت نشینی صدیق لوگوں کا حقیقی مقصد ہے، کچھ تو ایسے ہوتے ہیں جن کا دل خلوت نشینی کی طرف مائل ہوتا ہے اور وہ اس عالم (یعنی گوشہ تنہائی) میں عجب لطف و سرور پاتے ہیں، یہ ثبوت ہے ان کی روحانیت کا۔''

شیخ ابو عمر کا تجربہ یہ ہے کہ ''ایک عقل مند آدمی آخری باتوں کو آسانی سے نہیں سمجھ سکتا جب تک وہ خود اپنے ابتدائی حالات کی اصلاح نہ کرے اور ایسی منزلیں نہ طے کرلے جن سے پتہ چلے کہ وہ ترقی کررہا ہے یا تنزلی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ طالب روحانیت کے لیے ضروری ہے کہ وہ خلوت کے مقامات تلاش کرے تاکہ دوسرے معاملات سد راہ ہو کر اس کے مقاصد کو خراب نہ کریں۔''
Load Next Story