پاکستان میں نجکاری سے مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہوسکے رپورٹ

1991ء سے جاری پرائیویٹائزیشن سے11ارب ڈالرملے مگر بعد از نجکاری مقاصد پورے نہ ہوئے

پی ٹی سی ایل فروخت سے80کروڑ ڈالرکانقصان ہوا،صوبوں اور ریلوے کی زمین بھی دیدی گئی ۔ فوٹو : فائل

ایک حالیہ مطالعاتی جائزے میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں نج کاری سے مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہوسکے۔

1991ء سے جاری پرائیویٹائزشن کے عمل سے ملک کو11ارب ڈالر تو مل گئے لیکن بعد از نجکاری کارکردگی میں بہتری لانے اور صحت مند مقابلے کی فضاء قائم کرنے جیسے مقاصد پورے نہ ہوئے۔

یہ جائزہ رپورٹ ایک ایسے وقت پر سامنے آئی ہے، جب آئی ایم ایف کی جانب سے حکومت پر سرکاری اداروں کی کارکردگی اور انتظامی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کے لیے قانون سازی کرنے پر زور دیا جارہا ہے۔

اس سلسلے میں پیش کیا جانے والا بل سینیٹ نے مسترد کردیا، جس کے بعد وزارت خزانہ نے آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت بل کی منظوری کے لیے حکومت سے پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلانے کی درخواست کی ہے۔

جرنل آف اپلائیڈ اکنامکس میں شائع ہونے والی جائزہ رپورٹ بعنوان ''نجکاری کے بعد سرکاری شعبے کے ادارے؛ پاکستان سے شواہد'' نسیم فراز اور ڈاکٹر غلام صمد نے مرتب کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ملک میں نجکاری پروگرام کے بنیادی مقاصد پورے نہیں ہوسکے، جس کی سب سے بڑی وجہ ریگولیٹرز کی کمزوری اور نگرانی کے نظام میں پائی جانے والی خامیاں ہیں۔


ریگولیٹری نظام میں حکومت کی مداخلت بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ اس ضمن میں ریگولیٹری ادارے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کی مثال بھی پیش کی گئی ہے۔

رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پی ٹی سی ایل کی نجکاری شفاف نہیں تھی۔ اس ڈیل کے نتیجے میں نہ صرف 80کروڑ ڈالر کا نقصان ہوا بلکہ مارکیٹ میں صحت مند مقابلے کی فضاء بھی قائم نہ ہوسکی۔ حکومت پاکستان نے 26 فیصد حصص اتصالات کو بیچے اور مینجمنٹ بھی اسے منتقل کردی، جو کہ خلاف قانون تھا کیونکہ اس کے لیے 51 فیصد حصص کا مالک ہونا شرط ہے۔

حکومت نے اس بات سے اتفاق کیا تھا کہ اتصالات 2.6 ارب ڈالر ادا کرے گی، جس میں سے 1.4ارب ڈالر یکمشت اور بقیہ 1.2ارب ڈالر، 33 ملین ڈالر کی 9 اقساط میں ادا کیے جائیں گے۔ اس سودے سے حکومت کو صرف 1.8ارب ڈالر ہی مل سکے اور بقیہ 800 ملین ڈالر اتصالات نے کبھی ادا ہی نہیں کیے۔

ستم بالائے ستم یہ کہ حکومت نے پی ٹی سی ایل کی تمام املاک (پراپرٹیز) بھی اتصالات کے حوالے کردیں، جو ایک متنازع اقدام تھا کیونکہ یہ املاک دراصل صوبائی حکومتوں اور پاکستان ریلویز کی ملکیت تھیں۔اس سلسلے میں صوبائی حکومتوں اور ریلوے سے پیشگی مشاورت بھی نہیں کی گئی۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اربوں ڈالر کے اس نقصان کے باوجود ملک میں ٹیلی کام سیکٹر سے مناپلی یا اجارہ داری کا خاتمہ بھی نہ ہوسکا۔
Load Next Story