اساتذہ اور لیب کی عدم سہولیات طلبا ٹیوشن سینٹرز میں ہزاروں روپے فیس دینے پر مجبور
اب تک کمپیوٹر لیب کے لیے ہمیں کوئی فنڈ نہیں دیا گیا، پروفیسر خلیل الرحمٰن
کراچی کے کالجوں میں اساتذہ اور لیب نا ہونے کے باعث طلبہ و طالبات ٹیوشن سینٹر میں ہزاروں روپے فیس دینے پر مجبور ہوگئے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق صوبائی محکمہ کالج ایجوکیشن کے تحت انٹرمیڈیٹ کی سطح پر بغیرکسی منصوبہ بندی کے عجلت میں شروع کیے گئے کمپیوٹرسائنس پروگرام کے نتائج توقعات کے برعکس آنا شروع ہوگئے ہیں کراچی کے 21 سرکاری کالجوں میں بغیر اساتذہ و کمپیوٹر لیبس کے رواں سال کمپیوٹر سائنس فیکلٹی انٹرمیڈیٹ کی سطح پر شروع کی گئی تھی جس کے سبب یہ تجربہ ناکای سے دوچارہوگیا ہے۔
نمائندہ ایکسپریس نیوز کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جن طلبہ نے اس فیکلٹی میں داخلہ لیا ہے وہ کمپیوٹر سائنس کا مضمون پڑھنے اور لیب کے لیے ٹیوشن سینٹرز کا رخ کررہے ہیں اور ہزاروں روپے فیسوں کی ادائیگی کے بعد کمپیوٹر کی تعلیم حاصل کررہے ہیں جبکہ محکمہ کالج ایجوکیشن کی جانب سے اب تک متعلقہ سرکاری کالجوں میں کمپیوٹرلیبس کے قیام کے لیے بظاہرکوئی فنڈزمختص کیاگیاہے اورنہ اس سلسلے میں پرنسپلز کوکسی قسم کی ادائیگیاں کی گئی ہیں لہذابیشترکالجوں میں کمپیوٹرلیبس ہی نہیں ہیں۔
واضح رہے کہ اس سلسلے میں محکمہ کالج ایجوکیشن کے ماتحت ڈائریکٹرجنرل کالج سندھ کی جانب سے 9 ستمبر کو ایک نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا تھا جس میں 21 سرکاری کالجوں کے پرنسپلز کو کمپیوٹر سائنس فیکلٹی شروع کرنے کی اجازت دیتے ہوئے انھیں اس امر کا پابند کیا گیا تھا کہ سال 2022/23 کے لیے شروع کی جانے والی اس فیکلٹی میں کسی طرح کی financial implication شامل نہیں ہوگی اور یہ پرنسپل حضرات اس سلسلے میں انٹربورڈ کراچی سے فیکلٹی کے لیے الحاق حاصل کرلیں۔
واضح رہے کہ ان 21 سرکاری کالجوں کے میں جب مرکزی داخلہ کمیٹی کی جانب سے کمپیوٹر سائنس فیکلٹی میں داخلوں کی "پلیسمنٹ" کا سلسلہ شروع ہوا تو اس موقع پر بعض پرنسپل حضرات نے زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے کالجوں میں مذکورہ فیکلٹی شروع کرنے اور اس میں داخلے دینے سے ہی معذرت ظاہر کرلی اور محکمہ کالج ایجوکیشن پر واضح کیا کہ مذکورہ مضامین کے اساتذہ اور کمپیوٹر لیبس کی عدم موجودگی میں یہ فیکلٹی شروع نہیں کی جاسکتی کیونکہ یہ طلبہ اوران کے والدین کو دھوکا دینے کے مترادف ہوگا جبکہ طلبہ مجبور ہوں گے کے وہ اس سلسلے میں ٹیوشن سینٹرز کا رخ کریں۔
گورنمنٹ ڈگری بوائز کالج کے پرنسپل پروفیسر رؤف سے جب اس سلسلے میں "ایکسپریس" نے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ "مرکزی داخلہ کمیٹی نے ان کے کالج میں کمپیوٹر سائنس کے کچھ داخلے بھیجے تھے تاہم کالج میں تدریسی عمل کے لیے اساتذہ تھے اورنہ ہی پہلے سے کوئی لیب موجود ہے جبکہ انٹربورڈسے ایفیلیشن بھی نہیں تھی جس کے سبب ہم نے کیپ کویہ داخلے واپس کردیے انھوں نے مزید انکشاف کیاکہ کالج میں اساتذہ کی 15مختص اسامیوں پر صرف 4اساتذہ موجود ہیں پری میڈیکل(زولوجی،بوٹنی)،کامرس کے علاوہ لازمی مضامین اردو،انگریزی اوراسلامیات تک کے اساتذہ دستیاب نہیں جس کے سبب ان مضامین کی کلاسز نہیں ہوپاتی۔
واضح رہے کہ دیگرایسے سرکاری کالج جہاں بغیرمنصوبہ بندی کے کمپیوٹرسائنس فیکلٹی شروع کی گئی تھی وہاں بھی اس حوالے سے ابترصورتحال ہے اورکالجوں میں پرنسپلز حضرات وسینئراساتذہ کمپیوٹرسائنس فیکلٹی کے طلبہ کے لیے اس حوالے سے پریشان ہیں کہ وہ انٹرسال اول کے امتحانات کے وقت کیا کریں گے اور یہ صورتحال یقینی طورپر ان کے نتائج پر اثر انداز ہوگی۔
ادھر گورنمنٹ سٹی کالج موسیٰ کالونی فیڈرل بی ایریا پروفیسر خلیل الرحمٰن سے جب "ایکسپریس"نے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ"ان کے کالج میں کمپیوٹرکے نہ ٹیچرہے نہ لیب ہے ہم نے طلبہ اوران کے بڑوں کوشروع میں ہی بتادیاتھاکہ ہمارے پاس کچھ نہیں ہے جس کے بعدکچھ توداخلوں سے دستبردارہوگئے لیکن کچھ نے داخلہ لے لیا ان طلبہ کی دیگر مضامین کی کلاسز اورلیبس توہوجاتی ہیں جس میں فزکس ودیگرمضامین شامل ہیں لیکن کمپیوٹرکی نہیں ہوپاتی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ بعض کمپیوٹر کے اساتذہ نے مجھ سے رابطہ کرکے کالج میں پڑھانے کی خواہش ظاہرکی ہے اگر محکمہ ان کا تبادلہ کردے تو یہ مشکل حل ہوجائے گی۔
کمپیوٹر لیبس کے لیے کسی قسم کا فنڈ دینے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اب تک لیب کے لیے ہمیں کوئی فنڈ نہیں دیا گیا لیکن ہم چونکہ محکمے کی ہدایات کے پابند ہیں لہذا کسی بھی صورت اس فیصلے پر عملدرآمد کرائیں گے امید ہے کہ جنوری یافروری تک اساتذہ مل جائیں اورلیب بھی بن جائے بصورت دیگر کچھ اساتذہ لیپ ٹاپ پر بھی کمپیوٹرکے پریکٹیکل کرانے کے لیے تیارہیں۔
ایک اور کالج کے پرنسپل نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر "ایکسپریس"کو اپنے کالج کی صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ "محکمے کی جانب سے توانھیں اساتذہ نہیں دیے گئے ہیں لیکن ہم کالج فنڈز سے انتہائی کم اجرت پر جز وقتی اساتذہ کاتقررکرکے کام چلا رہے ہیں کہ طلبہ کا حرج نہ ہو تاہم لیب کے حوالے سے ہمارے پاس بھی اب کوئی راہ حل نہیں ہے۔
دوسری جانب جب کالجوں میں کمپیوٹرسائنس کی پلیسمنٹ کرنے والے مرکزی داخلہ کمیٹی کے ذمے دارراشد کھوسوسے رابطہ کیاگیاتوانھوں نے موقف اختیارکیاکہ لیب کاکوئی مسئلہ نہیں ہے کمپیوٹرلیب سیشن کے آخر میں ہوتی ہے جب تک تومحکمہ کالجوں میں کمپیوٹرلیبس بنوادے گافی الحال توصرف تدریس کامعاملہ ہے کالجوں میں پروموشنز ہوئی ہیں جبکہ انٹرن شپ پر بھی اساتذہ ہائرکیے جارہے ہیں تاکہ ہی مسئلہ حل ہوسکے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق صوبائی محکمہ کالج ایجوکیشن کے تحت انٹرمیڈیٹ کی سطح پر بغیرکسی منصوبہ بندی کے عجلت میں شروع کیے گئے کمپیوٹرسائنس پروگرام کے نتائج توقعات کے برعکس آنا شروع ہوگئے ہیں کراچی کے 21 سرکاری کالجوں میں بغیر اساتذہ و کمپیوٹر لیبس کے رواں سال کمپیوٹر سائنس فیکلٹی انٹرمیڈیٹ کی سطح پر شروع کی گئی تھی جس کے سبب یہ تجربہ ناکای سے دوچارہوگیا ہے۔
نمائندہ ایکسپریس نیوز کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جن طلبہ نے اس فیکلٹی میں داخلہ لیا ہے وہ کمپیوٹر سائنس کا مضمون پڑھنے اور لیب کے لیے ٹیوشن سینٹرز کا رخ کررہے ہیں اور ہزاروں روپے فیسوں کی ادائیگی کے بعد کمپیوٹر کی تعلیم حاصل کررہے ہیں جبکہ محکمہ کالج ایجوکیشن کی جانب سے اب تک متعلقہ سرکاری کالجوں میں کمپیوٹرلیبس کے قیام کے لیے بظاہرکوئی فنڈزمختص کیاگیاہے اورنہ اس سلسلے میں پرنسپلز کوکسی قسم کی ادائیگیاں کی گئی ہیں لہذابیشترکالجوں میں کمپیوٹرلیبس ہی نہیں ہیں۔
واضح رہے کہ اس سلسلے میں محکمہ کالج ایجوکیشن کے ماتحت ڈائریکٹرجنرل کالج سندھ کی جانب سے 9 ستمبر کو ایک نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا تھا جس میں 21 سرکاری کالجوں کے پرنسپلز کو کمپیوٹر سائنس فیکلٹی شروع کرنے کی اجازت دیتے ہوئے انھیں اس امر کا پابند کیا گیا تھا کہ سال 2022/23 کے لیے شروع کی جانے والی اس فیکلٹی میں کسی طرح کی financial implication شامل نہیں ہوگی اور یہ پرنسپل حضرات اس سلسلے میں انٹربورڈ کراچی سے فیکلٹی کے لیے الحاق حاصل کرلیں۔
واضح رہے کہ ان 21 سرکاری کالجوں کے میں جب مرکزی داخلہ کمیٹی کی جانب سے کمپیوٹر سائنس فیکلٹی میں داخلوں کی "پلیسمنٹ" کا سلسلہ شروع ہوا تو اس موقع پر بعض پرنسپل حضرات نے زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے کالجوں میں مذکورہ فیکلٹی شروع کرنے اور اس میں داخلے دینے سے ہی معذرت ظاہر کرلی اور محکمہ کالج ایجوکیشن پر واضح کیا کہ مذکورہ مضامین کے اساتذہ اور کمپیوٹر لیبس کی عدم موجودگی میں یہ فیکلٹی شروع نہیں کی جاسکتی کیونکہ یہ طلبہ اوران کے والدین کو دھوکا دینے کے مترادف ہوگا جبکہ طلبہ مجبور ہوں گے کے وہ اس سلسلے میں ٹیوشن سینٹرز کا رخ کریں۔
گورنمنٹ ڈگری بوائز کالج کے پرنسپل پروفیسر رؤف سے جب اس سلسلے میں "ایکسپریس" نے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ "مرکزی داخلہ کمیٹی نے ان کے کالج میں کمپیوٹر سائنس کے کچھ داخلے بھیجے تھے تاہم کالج میں تدریسی عمل کے لیے اساتذہ تھے اورنہ ہی پہلے سے کوئی لیب موجود ہے جبکہ انٹربورڈسے ایفیلیشن بھی نہیں تھی جس کے سبب ہم نے کیپ کویہ داخلے واپس کردیے انھوں نے مزید انکشاف کیاکہ کالج میں اساتذہ کی 15مختص اسامیوں پر صرف 4اساتذہ موجود ہیں پری میڈیکل(زولوجی،بوٹنی)،کامرس کے علاوہ لازمی مضامین اردو،انگریزی اوراسلامیات تک کے اساتذہ دستیاب نہیں جس کے سبب ان مضامین کی کلاسز نہیں ہوپاتی۔
واضح رہے کہ دیگرایسے سرکاری کالج جہاں بغیرمنصوبہ بندی کے کمپیوٹرسائنس فیکلٹی شروع کی گئی تھی وہاں بھی اس حوالے سے ابترصورتحال ہے اورکالجوں میں پرنسپلز حضرات وسینئراساتذہ کمپیوٹرسائنس فیکلٹی کے طلبہ کے لیے اس حوالے سے پریشان ہیں کہ وہ انٹرسال اول کے امتحانات کے وقت کیا کریں گے اور یہ صورتحال یقینی طورپر ان کے نتائج پر اثر انداز ہوگی۔
ادھر گورنمنٹ سٹی کالج موسیٰ کالونی فیڈرل بی ایریا پروفیسر خلیل الرحمٰن سے جب "ایکسپریس"نے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ"ان کے کالج میں کمپیوٹرکے نہ ٹیچرہے نہ لیب ہے ہم نے طلبہ اوران کے بڑوں کوشروع میں ہی بتادیاتھاکہ ہمارے پاس کچھ نہیں ہے جس کے بعدکچھ توداخلوں سے دستبردارہوگئے لیکن کچھ نے داخلہ لے لیا ان طلبہ کی دیگر مضامین کی کلاسز اورلیبس توہوجاتی ہیں جس میں فزکس ودیگرمضامین شامل ہیں لیکن کمپیوٹرکی نہیں ہوپاتی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ بعض کمپیوٹر کے اساتذہ نے مجھ سے رابطہ کرکے کالج میں پڑھانے کی خواہش ظاہرکی ہے اگر محکمہ ان کا تبادلہ کردے تو یہ مشکل حل ہوجائے گی۔
کمپیوٹر لیبس کے لیے کسی قسم کا فنڈ دینے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اب تک لیب کے لیے ہمیں کوئی فنڈ نہیں دیا گیا لیکن ہم چونکہ محکمے کی ہدایات کے پابند ہیں لہذا کسی بھی صورت اس فیصلے پر عملدرآمد کرائیں گے امید ہے کہ جنوری یافروری تک اساتذہ مل جائیں اورلیب بھی بن جائے بصورت دیگر کچھ اساتذہ لیپ ٹاپ پر بھی کمپیوٹرکے پریکٹیکل کرانے کے لیے تیارہیں۔
ایک اور کالج کے پرنسپل نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر "ایکسپریس"کو اپنے کالج کی صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ "محکمے کی جانب سے توانھیں اساتذہ نہیں دیے گئے ہیں لیکن ہم کالج فنڈز سے انتہائی کم اجرت پر جز وقتی اساتذہ کاتقررکرکے کام چلا رہے ہیں کہ طلبہ کا حرج نہ ہو تاہم لیب کے حوالے سے ہمارے پاس بھی اب کوئی راہ حل نہیں ہے۔
دوسری جانب جب کالجوں میں کمپیوٹرسائنس کی پلیسمنٹ کرنے والے مرکزی داخلہ کمیٹی کے ذمے دارراشد کھوسوسے رابطہ کیاگیاتوانھوں نے موقف اختیارکیاکہ لیب کاکوئی مسئلہ نہیں ہے کمپیوٹرلیب سیشن کے آخر میں ہوتی ہے جب تک تومحکمہ کالجوں میں کمپیوٹرلیبس بنوادے گافی الحال توصرف تدریس کامعاملہ ہے کالجوں میں پروموشنز ہوئی ہیں جبکہ انٹرن شپ پر بھی اساتذہ ہائرکیے جارہے ہیں تاکہ ہی مسئلہ حل ہوسکے۔