خوشبو دار لہجے کی شاعرہ نینا عادل
ادب زندگی کی حقیقی قدروں کا آئینہ ہوتا ہے اور فطری طور پر زیادہ احساس ہونے کی بناء پر عورت ، ادب اور زندگی کو ایک دوسرے کا ترجمان بنانے کے لیے قدرے زیادہ محنت ، ذہانت اور یکسوئی سے کام لیتی ہیں۔ نینا عادل کی غزلوں اور نظموں کا مطالعہ کرتے ہوئے پہلا تاثر یہ اُجاگر ہوتا ہے کہ اُن کی شاعری لطیف احساسات کی نفیس آمد سے مزین ہے۔
نینا عادل کی شاعری روایت اور جدت کا حسین امتزاج ہے ، تازگی اور شگفتگی سے بھرپور لہجہ سدا بہار موسم میں کھلتے ہوئے پھولوں کی طرح خوشبو دار دکھائی دیتا ہے۔ بند آنکھوں میں خوابوں کے نگر کی شکستہ عمارتوں کے کھنڈروں میں روشنی کے دیپ جلانے کا جذبہ خوب رکھتی ہیں۔
آنکھیں ہوں ، خواب ہوں کہ شکستہ عمارتیں
ہر اک کھنڈر میں دیپ جلانے کا شوق ہے
نینا عادل کی غزل میں مضامین و موضوعات کی کوئی قید نہیں ، نظم کا معاملہ یہ ہے کہ نظم کہنا ہر بار کوئی نئی بات کرنے کے مترادف ہے۔ ان کی شاعری زبان کی وسعت ، احساس کی شدت کے اظہار سے لبریز خیالات کو دلآویز بنا دیتی ہے۔
موضوعاتی اعتبار سے ان کی فکر کا کینوس وسیع ہے۔ شمیم حنفی مرحوم کی رائے کے مطابق '' نینا عادل کی شاعری کا مجموعی کردار اپنا ایک الگ تشخص رکھتا ہے اور ان کے ہم عصروں کی شاعری سے بہت مختلف ہے۔ ایک نمایاں قسم کی نغمگی کی کیفیت اور ایک گہرا فکری دروبست ان کی شاعری کی پہچان کا تعین کرتے ہیں۔ یہ شاعری نہ تو رسمی معنوں میں تانیثی کہی جا سکتی ہے، نہ اس عہد کے عمومی میلانات کی ترجمان کہی جا سکتی ہے۔
مضمون بندی کے روایتی عمل کی جگہ اس کا زور تجربے کی سطح پر ہے۔'' نینا عادل ایک آزاد فکر و نظر کی حامل ہیں ، وہ جانتی ہے کہ جس شاعری میں جتنا بڑا خیال ہو گا ، وہ اس قدر بڑی شاعری تصور کی جائے گی۔
ایسی ہی شاعری کے لیے انھوں نے سوچ کے مردہ سانچوں میں جان ڈالنے کے لیے زندہ الفاظ کا استعمال کیا ہیں ، جن میں ان کی روح کی اُداسی اور ایمان دارانہ افسردگی ان کے ایک ایک شبد کو ایمان بخشتے ہوئے شفاف بنا دیتی ہے اور یہی ایک سچی اور زندہ شاعری کی کامیابی ہے۔
'' شبد '' کے دیباچہ میں ناصر عباس نیر لکھتے ہیں کہ '' غزل میں بھی کئی مقامات پر ان کے لہجے میں ایک خاص نرمی ، گھلاؤٹ اور خود سپردگی کا انداز ہے، جو قاری کو میرا بائی کی یاد دلاتا ہے تاہم اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ اپنی نظم کو غزل یا غزل کو نظم میں رلا ملا دیتی ہیں۔ انھیں دونوں کی شعریات اور ان کی فنی حدود کا مکمل شعور اور لحاظ ہے۔''
محبت انسان کی ضرورت بھی ہے اور زندگی کی علامت بھی۔ محبت کے اظہار کے بغیر شاعری بھی پھیکی نظر آتی ہے ، نینا عادل نے نہ صرف محبت کا اظہار جدید انداز سے کیا ہے بلکہ ہجر و وصال ، قربت و فرقت ، تنہائی و رفاقت اور دلِ بیمار کو شفا دیتی ہوئی معجزہ محبت کو نت نئے انداز سے یوں بیان کیا ہے کہ:
شفا بھی دیتا ہے یہ معجزہ محبت کا
کسی مریض کا ایمان تیرے جیسا ہو
پیش نظر شعری مجموعہ ''شبد '' نینا عادل کی غزلوں اور نظموں پر مشتمل ہے۔ '' شبد '' میں غزلیں کم اور نظمیں زیادہ تعداد میں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ ''چار دیواری میں چُنی ہوئی عورت '' اس نظم میں نینا عادل عورت کی تقدیر نہیں اُس پر مسلط کی گئی حالت پر افسردگی کا اظہار کرتی ہیں، '' گھیرا '' اس نظم میں چڑھتی ندی کا شور سن کر ، سنہری دھوپ کا سورج دیکھ کر ، پیڑ کی ڈالی ڈالی ہری دیکھ کر خوشی کے گیت گاتی ہوئی '' مینا '' کی صورت اپنے سُر کی بدولت نینا کائناتِ شعر کی خوشگوار حیرت میں ڈال دیتی ہیں۔
انھوں نے کراچی کا نوحہ بھی لکھا ہے۔ کراچی کو وہ اپنی چاک دامانی کا قصہ کہتی ہیں اپنے سینے کے سمندر کو کراچی کہتی ہیں۔ اسی '' ڈر'' کے ساتھ چہرے کی پیلی رنگت کو چھپائیں ہوئے ایک '' چپ کے راج '' کا پتہ دیتے ہوئے '' آزادی '' کی نوید سناتی ہیں۔
''شبد'' کے پہلے ایڈیشن میں شامل خالد جاوید کے طویل دیباچے سے کچھ سطریں ملاحظہ کیجیے'' ایسی شاعری کے لیے وجدان کی آفاقیت جتنی ضروری ہوتی ہے اُتنی ہی ذہانت اور سلیقہ بھی۔ نینا عادل کے یہاں جو غیر معمولی ذہانت ہے وہ ان کے وجدان کو اور زیادہ چمکا دیتی ہے اور ان کی ہر سطر ایک ایسی روشنی میں نہائی ہوئی نظر آتی ہے جو کائنات اور ذات کے بارے میں ، ان کے اپنے انوکھے اور غیر معمولی وژن سے پیدا ہوتی ہے۔
'' شبد'' میں شامل شمس الرحمن فاروقی، سید کاشف رضا اور افتخار عارف کی آراء کے علاوہ نینا عادل کا پیش لفظ بھی شامل ہیں۔ چند اشعار دیکھیں۔
بس گھڑی دو گھڑی جھلملانے کا ڈر
اک ستارے کو ہے ٹوٹ جانے کا ڈر
.........
ذرا سی موج لے کر آدمی کو ڈوب جاتی ہے
سمندر میں اترنا ہے تو کشی نوح کی لاؤ
.........
رکھ کر ہزار آئینے اس رُخ کے روبرو
دھوکا دیا کریں گے تری سادگی کو ہم
.........
لفظ و بیاں کے درمیان اک رنگِ ناتمثال میں
روحِ وفا کا کرب ہے نیناؔ کی ساری شاعری
بہت ہی عجیب غزل۔ ایک مکمل تانیثی غزل کے چند اشعار:
بے نیاز ہو بیٹھا دو جہاں سے دل میرا
ہو کے آ گیا یا رب ! یہ کہاں سے دل میرا
ساعتیں عبادت کی ختم ہونے والی تھیں
بیٹھ بیٹھ جاتا تھا ہر اذاں سے دل میرا
نینا عادل کے اشعار میں تازہ کاری کا عنصر بدرجہ اتم ہے۔ وہ ایک نو آموز شاعرہ ضرور ہیں لیکن ان کے اشعار میں جا بہ جا تازہ کاری کی مثالیں دیکھی جا سکتی ہیں۔
ان کی شاعری کو شمس الرحمن فاروقی، شمیم حنفی، ابوالکلام قاسمی اور عتیق اللہ جیسی قد آور شخصیات نے جس دلچسپی اور توجہ سے دیکھی ہے یقینا یہ پزیرائی کسی اعزاز سے کم نہیں۔ ''شبد'' کا ٹائٹل وصی حیدر کی ہنر مندی کا ثبوت ہے۔ نینا عادل کو ''شبد'' کے اس پرتپاک استقبال پر ڈھیروں مبارکباد کے ساتھ ان کی نظم ''شبد'' کو پیش کرتے ہوئے اجازت چاہوں گا۔
اے مرے شبد
مرے بھید، مہادھن میرے!
رات میں خوشبو تری ! نیند میں بوسہ تیرا
ٹھنڈ میں آگ تری تاپوں، کِھلوں
جی اُٹھوں!
اپنے آنسو ترے ہاتھوں کے کٹورے میں رکھوں!
دیر تک تجھ سے لپٹ کر یوں ہی روتی جاؤں
اے مرے شبد! ترے معنی کی ست رنگ گِرہ
کبھی سُلجھاؤں
کبھی انگلی میں اُلجھا بیٹھوں
گم رہوں تجھ میں کہیں، تجھ میں کہیں کھو جاؤں
اے مرے شبد! مرے عشق، مرے افسانے!
نینا عادل کی شاعری روایت اور جدت کا حسین امتزاج ہے ، تازگی اور شگفتگی سے بھرپور لہجہ سدا بہار موسم میں کھلتے ہوئے پھولوں کی طرح خوشبو دار دکھائی دیتا ہے۔ بند آنکھوں میں خوابوں کے نگر کی شکستہ عمارتوں کے کھنڈروں میں روشنی کے دیپ جلانے کا جذبہ خوب رکھتی ہیں۔
آنکھیں ہوں ، خواب ہوں کہ شکستہ عمارتیں
ہر اک کھنڈر میں دیپ جلانے کا شوق ہے
نینا عادل کی غزل میں مضامین و موضوعات کی کوئی قید نہیں ، نظم کا معاملہ یہ ہے کہ نظم کہنا ہر بار کوئی نئی بات کرنے کے مترادف ہے۔ ان کی شاعری زبان کی وسعت ، احساس کی شدت کے اظہار سے لبریز خیالات کو دلآویز بنا دیتی ہے۔
موضوعاتی اعتبار سے ان کی فکر کا کینوس وسیع ہے۔ شمیم حنفی مرحوم کی رائے کے مطابق '' نینا عادل کی شاعری کا مجموعی کردار اپنا ایک الگ تشخص رکھتا ہے اور ان کے ہم عصروں کی شاعری سے بہت مختلف ہے۔ ایک نمایاں قسم کی نغمگی کی کیفیت اور ایک گہرا فکری دروبست ان کی شاعری کی پہچان کا تعین کرتے ہیں۔ یہ شاعری نہ تو رسمی معنوں میں تانیثی کہی جا سکتی ہے، نہ اس عہد کے عمومی میلانات کی ترجمان کہی جا سکتی ہے۔
مضمون بندی کے روایتی عمل کی جگہ اس کا زور تجربے کی سطح پر ہے۔'' نینا عادل ایک آزاد فکر و نظر کی حامل ہیں ، وہ جانتی ہے کہ جس شاعری میں جتنا بڑا خیال ہو گا ، وہ اس قدر بڑی شاعری تصور کی جائے گی۔
ایسی ہی شاعری کے لیے انھوں نے سوچ کے مردہ سانچوں میں جان ڈالنے کے لیے زندہ الفاظ کا استعمال کیا ہیں ، جن میں ان کی روح کی اُداسی اور ایمان دارانہ افسردگی ان کے ایک ایک شبد کو ایمان بخشتے ہوئے شفاف بنا دیتی ہے اور یہی ایک سچی اور زندہ شاعری کی کامیابی ہے۔
'' شبد '' کے دیباچہ میں ناصر عباس نیر لکھتے ہیں کہ '' غزل میں بھی کئی مقامات پر ان کے لہجے میں ایک خاص نرمی ، گھلاؤٹ اور خود سپردگی کا انداز ہے، جو قاری کو میرا بائی کی یاد دلاتا ہے تاہم اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ اپنی نظم کو غزل یا غزل کو نظم میں رلا ملا دیتی ہیں۔ انھیں دونوں کی شعریات اور ان کی فنی حدود کا مکمل شعور اور لحاظ ہے۔''
محبت انسان کی ضرورت بھی ہے اور زندگی کی علامت بھی۔ محبت کے اظہار کے بغیر شاعری بھی پھیکی نظر آتی ہے ، نینا عادل نے نہ صرف محبت کا اظہار جدید انداز سے کیا ہے بلکہ ہجر و وصال ، قربت و فرقت ، تنہائی و رفاقت اور دلِ بیمار کو شفا دیتی ہوئی معجزہ محبت کو نت نئے انداز سے یوں بیان کیا ہے کہ:
شفا بھی دیتا ہے یہ معجزہ محبت کا
کسی مریض کا ایمان تیرے جیسا ہو
پیش نظر شعری مجموعہ ''شبد '' نینا عادل کی غزلوں اور نظموں پر مشتمل ہے۔ '' شبد '' میں غزلیں کم اور نظمیں زیادہ تعداد میں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ ''چار دیواری میں چُنی ہوئی عورت '' اس نظم میں نینا عادل عورت کی تقدیر نہیں اُس پر مسلط کی گئی حالت پر افسردگی کا اظہار کرتی ہیں، '' گھیرا '' اس نظم میں چڑھتی ندی کا شور سن کر ، سنہری دھوپ کا سورج دیکھ کر ، پیڑ کی ڈالی ڈالی ہری دیکھ کر خوشی کے گیت گاتی ہوئی '' مینا '' کی صورت اپنے سُر کی بدولت نینا کائناتِ شعر کی خوشگوار حیرت میں ڈال دیتی ہیں۔
انھوں نے کراچی کا نوحہ بھی لکھا ہے۔ کراچی کو وہ اپنی چاک دامانی کا قصہ کہتی ہیں اپنے سینے کے سمندر کو کراچی کہتی ہیں۔ اسی '' ڈر'' کے ساتھ چہرے کی پیلی رنگت کو چھپائیں ہوئے ایک '' چپ کے راج '' کا پتہ دیتے ہوئے '' آزادی '' کی نوید سناتی ہیں۔
''شبد'' کے پہلے ایڈیشن میں شامل خالد جاوید کے طویل دیباچے سے کچھ سطریں ملاحظہ کیجیے'' ایسی شاعری کے لیے وجدان کی آفاقیت جتنی ضروری ہوتی ہے اُتنی ہی ذہانت اور سلیقہ بھی۔ نینا عادل کے یہاں جو غیر معمولی ذہانت ہے وہ ان کے وجدان کو اور زیادہ چمکا دیتی ہے اور ان کی ہر سطر ایک ایسی روشنی میں نہائی ہوئی نظر آتی ہے جو کائنات اور ذات کے بارے میں ، ان کے اپنے انوکھے اور غیر معمولی وژن سے پیدا ہوتی ہے۔
'' شبد'' میں شامل شمس الرحمن فاروقی، سید کاشف رضا اور افتخار عارف کی آراء کے علاوہ نینا عادل کا پیش لفظ بھی شامل ہیں۔ چند اشعار دیکھیں۔
بس گھڑی دو گھڑی جھلملانے کا ڈر
اک ستارے کو ہے ٹوٹ جانے کا ڈر
.........
ذرا سی موج لے کر آدمی کو ڈوب جاتی ہے
سمندر میں اترنا ہے تو کشی نوح کی لاؤ
.........
رکھ کر ہزار آئینے اس رُخ کے روبرو
دھوکا دیا کریں گے تری سادگی کو ہم
.........
لفظ و بیاں کے درمیان اک رنگِ ناتمثال میں
روحِ وفا کا کرب ہے نیناؔ کی ساری شاعری
بہت ہی عجیب غزل۔ ایک مکمل تانیثی غزل کے چند اشعار:
بے نیاز ہو بیٹھا دو جہاں سے دل میرا
ہو کے آ گیا یا رب ! یہ کہاں سے دل میرا
ساعتیں عبادت کی ختم ہونے والی تھیں
بیٹھ بیٹھ جاتا تھا ہر اذاں سے دل میرا
نینا عادل کے اشعار میں تازہ کاری کا عنصر بدرجہ اتم ہے۔ وہ ایک نو آموز شاعرہ ضرور ہیں لیکن ان کے اشعار میں جا بہ جا تازہ کاری کی مثالیں دیکھی جا سکتی ہیں۔
ان کی شاعری کو شمس الرحمن فاروقی، شمیم حنفی، ابوالکلام قاسمی اور عتیق اللہ جیسی قد آور شخصیات نے جس دلچسپی اور توجہ سے دیکھی ہے یقینا یہ پزیرائی کسی اعزاز سے کم نہیں۔ ''شبد'' کا ٹائٹل وصی حیدر کی ہنر مندی کا ثبوت ہے۔ نینا عادل کو ''شبد'' کے اس پرتپاک استقبال پر ڈھیروں مبارکباد کے ساتھ ان کی نظم ''شبد'' کو پیش کرتے ہوئے اجازت چاہوں گا۔
اے مرے شبد
مرے بھید، مہادھن میرے!
رات میں خوشبو تری ! نیند میں بوسہ تیرا
ٹھنڈ میں آگ تری تاپوں، کِھلوں
جی اُٹھوں!
اپنے آنسو ترے ہاتھوں کے کٹورے میں رکھوں!
دیر تک تجھ سے لپٹ کر یوں ہی روتی جاؤں
اے مرے شبد! ترے معنی کی ست رنگ گِرہ
کبھی سُلجھاؤں
کبھی انگلی میں اُلجھا بیٹھوں
گم رہوں تجھ میں کہیں، تجھ میں کہیں کھو جاؤں
اے مرے شبد! مرے عشق، مرے افسانے!